حکومت ہند کی پوری دنیا میں تنقید اور مذمّت سے بڑھتی رسوائیاں

 اس وقت پوری دنیا میں حکومت ہند کے متنازعہ قانون،سی اے اے(شہریت ترمیمی قانون)جو کہ دراصل انسانی حقوق کی پامالی کا نام ہے، اس کے خلاف اور حکومت ہند کے اشارے پر ملک کے اقلیتوں یعنی مسلمانوں پر بڑھتے ظلم و بربریت کے خلاف عالمی سطح پر مذمت اورتنقید کا سلسلہ جاری ہے ۔ ہر جگہ اس کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ امریکہ کے بوسٹن،شکاگو،سن فرانسسکو،ایٹلانٹا، ہیوسٹن، ڈائلس،نیو یارک،واشنگٹن وغیرہ جیسے اہم شہروں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ ہند سے قبل اور بعد بھی زبردست احتجاج اور مظاہرے ہوئے ہیں ۔ لیکن امریکی صدر ڈولنالڈ ٹرمپ نے اس اہم انسانی مسئلے پر جس طرح خاموشی اختیار کی ، وہ بہت ہی تعجب خیز اور افسوسناک ہے۔ گرچہ ٹرمپ کی اس خاموشی کی ان کے ملک میں شدید نکتہ چینی کی گئی ہے ۔ امریکی صدارتی امیدوار برنی سینڈرس نے تو اس خاموشی پر انھیں ایک ناکام لیڈ ر بتایا ہے۔ حالانکہ ٹرمپ ہمیشہ خود کو امن و آشتی کے پیامبر کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ جہاں کہیں بھی ان کے’’ناپسندیدہ‘‘ ممالک میں جبر و ظلم کی خبریں ملتی ہیں،وہ ایسے ممالک کے سربراہ اور حکمراں کودھمکی دیتے نظر آتے ہیں کہ ہم غیر انسانی حرکتوں کو برداشت نہیں کرینگے۔ایسے بیانات دینے کے بعد بھی وہ نہیں رکتے،بلکہ ایسے ممالک کو مذید دھمکی اور تنبیہ دینے کے لئے وہ اپنا سفیر بھی وہاں بھیج دیتے ہیں۔ٹرمپ کی ایسی دھمکیوں سے ان کا نا پسندیدہ کمزورملک سہم جاتا ہے اور ٹرمپ کے ’’چاہنے والے ‘‘ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ٹرمپ ہر جگہ امن و امان کے خواہاں ہیں ۔ابھی ابھی مشرق وسطیٰ کے لئے ان کا پیش کردہ امن منصوبہ صہیونی ریاست کے لئے صدی کا سنہری موقع کی شکل میں سامنے آیا ہے۔

گزشتہ24-.25 فروری کو ٹرمپ کے دورۂ ہند کے دوران ،ان کی موجودگی میں جس طرح فرقہ واریت، منافرت ، حیوانیت اور تشدد کا ننگا ناچ، گجرات کے اکبر پورا گاؤں ( آنند ضلع)اور دلی کے مختلف علاقوں میں ہوا اور قتل و غارت گری منظم اور منصوبہ بند طور پر انجام دیا گیا۔ ان جگہوں پر حیوانیت نے انسانیت کو انسانی خون میں ڈبویا۔ ایسے ہولناک تصادم کی خبر کے علم میں ہونے کے اعتراف کے باوجود بھی صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں نہ صرف خاموشی کو راہ دی بلکہ انھوں نے بھارت کے اندر مسلمانوں سے تفریق اور ظلم و زیادتی کے سانحات کو سرے سے خارج کرتے ہوئے پورے بھارت میں کالے قوانین کو زبردستی نفاذ کئے جانے کو ملک کا داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے ان ظالمانہ رویہ پر تبصرہ سے صاف انکار کر دیا۔ کشمیر کے نا گفتہ بہ حالات پر بھی وہ خاموش ہی رہے۔انھوں نے انتہا تو یہ کر دی کہ بھارت میں مذہبی آزادی سے متعلق کئے گئے سوال کے جواب میں موددی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مودی مذہبی آزادی کے حق میں ہیں اور مؤثر طریقے سے کام کر رہے ہیں ۔ دراصل ٹرمپ ، مودی کی جانب سے سؤ کروڑی استقبال اور تین ارب ڈالر سے زیادہ کے دفاعی سودے کی حصولیابی سے اتنے خوش تھے کہ مودی کی موجودگی میں کسی طرح کا منفی تبصرہ کرکے وہ اپنے دورہ کو ’’خراب‘‘ نہیں ہونے دینا چاہتے تھے ۔روس کے بعد امریکہ نے ہی سب سے زیادہ بھارت کو اسلحہ فروخت کیا ہے۔ یہی وجہ رہی کہ مودی نے جو کچھ کہا ،انھوں نے مان لیا ۔ یہاں تک کہ ٹرمپ سے بھارت میں مذہبی آزادی سے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں مودی کی حمایت کرتے ہوئے کہا اس سلسلے میں مودی سے بات ہوئی ہے ۔ مودی مذہبی آزادی کے حق میں ہیں اور مؤثر طریقے سے مسلم برادری کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ مودی نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ ملک میں چار کروڑ مسلمان تھے ،جو اب بڑھ کر بیس کروڑ ہو گئے ہیں۔ کاش ٹرمپ یہ بھی جاننے کی کوشش کرتے کہ مسلمانوں کی آبادی کا یہ تناسب کتنے دنوں کا ہے۔ ٹرمپ سے جب دلی میں ان کی موجودگی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فساد کے بارے میں ان کے تاثرات جاننے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے بڑی معصومیت سے کہا کہ ذاتی حملوں کے بارے میں سنا ہے ،لیکن ان پر بات نہیں کی ہے، یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے ۔

ایسے بہت سارے سوالات کے جوابات سے ٹرمپ کا لا تعلقی ظاہر کرنا اور معصومیت بھرے اندازسے قطئی یہ نہیں سمجھا جانا چاہئے کہ وہ ان باتوں سے بے خبر تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کے بھارت دورہ سے قبل امریکہ کے بہت سارے علاقوں میں، بھارت کے اقلیتوں پر بڑھتے ظلم و ستم اور بربریت و حیوانیت کے خلاف آوازیں پوری شدت سے بلند ہو چکی تھیں ، احتجاج اور مظاہرے ہو رہے تھے ۔ واشنگٹن کے شہر سی ایسٹل کی شہری کونسل میں بھارت کے شہری ترمیمی قانون کے خلاف ایک تجویز پاس کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا تھا کہ چونکہ یہ قانون بھارت کے مسلمانوں ،دبے کچلے لوگوں اور آدیباسیوں خلاف ہے، اس لئے اس کالے قانون کو بلا تاخیر واپس لیا جائے ۔ اس تجویز کے پیش کرنے والے کسما ساونت نے اپنی تجویز کے ذریعہ امریکی حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اس کالے قانون کو واپس لئے جانے کے لئے ضروری اقدام کرے ،تاکہ بھارت کی حکومت ملک کے آئین اور سیکولرازم کے خلاف بنائے اس قانون کو جلد واپس لے لے۔ اس سے قبل بین الاقوامی مذہبی آزادی کے معاملے میں خود مختار ادارہ امریکی کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) نے شہریت بل اور اس بل سے ہونے والے انسانی مسائل پر گہری ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے ، اسے پوری طرح غلط قرار بتایا تھا اور کہا تھا کہ اس قانون کے ذریعہ مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کا راستہ بنایا جا رہا ہے، وہ پوری طرح غلط ہے۔ کمیشن نے مزید یہ بھی کہا تھا کہ یہ بھارت کے سیکولرازم، کثرت میں وحدت کی قدیم تاریخ وروایت اور آئین کے خلاف ہے۔ اس بین ا لاقوامی مذہبی کمیشن نے این آر سی نفاذ ہونے پر بھی اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اسے نافذ کیا جاتا ہے تو بھارت کے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت چھن جائے گی۔ کمیشن نے اس انسانی اور مذہبی آزادی کے مسائل پر اپنی تشویش اور ناراضگی سے آگاہ کرتے ہوئے امریکی حکومت سے یہاں تک مطالبہ کر دیا تھا کہ اگر ایسے قوانین کو واپس نہیں لیا جاتا ہے تو امریکی حکومت بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ اور دیگر سیاسی نمائندگان پر امریکہ کے سفر پر پابندی لگا دے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ ہند سے قبل ہی امریکی کانگریس کا ایک وفد بھی بھارت کے شہریت قانون پر تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر اور با اثر رہنمأ ایمی بیرا اور ری پبلی کن پارٹی کے لیڈر جارج ہولڈنگ پر مشتمل امریکی وفد نے دہلی میں حکام سے ایک ملاقات کے دوران بھارت میں شہریت ترمیمی قانون پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کو چاہئے کہ وہ اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرے اور ملک کے سیکولر ڈھانچے کو کمزور نہیں ہونے دے۔ ایمی بیرا نے کہا تھا کہ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ بھارت اپنا سیکولر کردار کھو دے ۔ اس لئے کہ یہی وہ خوبی ہے جو بھارت کو اسے اپنے خطے میں دیگر ممالک سے ممتاز کرتی ہے۔ یہی وہ بات ہے جو اسے امریکہ کا اتنا قابل قدر پارٹنر بناتی ہے۔ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ بھارت اپنے اس وقار کو کھو دے۔ان الفاظ میں بھارت جیسے ایک شاندار سیکولر ،رواداری اور کثرت میں وحدت کی روایت رکھنے والے ملک کے لئے جو محبت بھرا پیغام ان اہم شخصیات کا ہے، انھیں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ بھارت کی ان ہی جملہ خوبیوں کے باعث ٹرمپ کے بھارت دورہ سے قبل امریکی ایوان میں متنازعہ قانون کے خلاف ایک قرارداد پیش کی جا چکی ہے ۔ جس پر اسی ماہ مارچ میں ووٹنگ ہونی ہے ۔ امریکی کانگریس ممبر پرمیلا جے پال نے اپنے ایک توئیٹ میں بہت ہی واضح طور پر کہا ہے کہ جمہوریت میں تفرقہ اور امتیاز کو قطئی برداشت نہیں کیا جانا چاہئے اور نہ ہی ایسے قوانین بننے چاہئیں،جو مذہبی آزادی کو کم کریں۔ اپنے اس ٹوئیٹ میں ہی انھوں نے حکومت ہند کے ایوان کو متنبہ بھی کیا ہے کہ دنیا دیکھ رہی ہے۔ امریکی کانگریس کے ایک دوسرے رکن ایلن لوونتھال نے بھی کہا ہے کہ بھارت میں حقوق انسانی کو لاحق خطرہ کے تعلق سے ہمیں آواز بلند کرنی چاہئے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں آگے چل رہی پنیٹرا ایلزبتھ وارین نے بھی بھارت کو متنبہ کیا ہے کہ پرامن مظاہروں کے خلاف تشدد قطئی ناقابل برداشت ہے۔ امریکی کانگریس کی مسلم رکن رشیدہ طلیب نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں ٹرمپ کے بھارت دورہ اور بھارت کے مسلمانوں کو جوڑتے ہوئے خیال ظاہر کیا ہے کہ اس ہفتے ٹرمپ نے ہندوستان کا دورہ کیا مگر اصل خبر دہلی میں اس وقت مسلمانوں کو نشانہ بنا کر کیا جا رہا فرقہ وارانہ تصادم ہونا چاہئے۔ انھوں نے مذید لکھا ہے کہ ہندوستان میں جس طرح مسلمانوں کے خلاف تشدد کی لہر چل رہی ہے ، اس پر ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔ اقوام متحدہ بھی مسلسل بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی پرکئی بار اپنی بیزاری کا اظہار کر چکا ہے ۔ اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری انٹونیو غطریس نے بھارت میں پولیس کے بڑھتے ظلم و زیادتی پر تحمل رکھنے کی گزارش کرتے ہوئے پر امن مظاہروں کا دفاع کیا ہے ۔ اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈیو جیرک نے چند روز قبل ہی کہا تھا کہ اقوام متحدہ دہلی کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے اور یقیناََ ہم حالات کا قریب سے جائزہ لے رہے ہیں ۔ غالباََ اقوام متحدہ کے بہت قریب سے بھارت کے بگڑتے حالات کا یہ قریب سے جائزہ لئے جانے کا ہی نتیجہ سامنے آیا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر نے بھارت کے متنازعہ قانون پر سپریم کورٹ ،نئی دہلی میں مداخلت کار بننے کی عرضی داخل کر سبھوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔سپریم کورٹ میں مداخلت کار بننے کی پیٹیشن دینے کے بعد جینیوا میں بھارت کے مستقل سفیر کو اس امر کی اطلاع دے دی ہے۔ ایسا واقعہ بھارت کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ اقوام متحدہ کو بار بار ملک میں امن و امان بحال کئے جانے اور انسانی حقوق کی پامالی روکنے کی درخواست کو مسترد کئے جانے پر، اقوام متحدہ کو حکومت ہند کے خلاف اتنا اہم اور تاریخی قدم اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا۔ اقوام متحدہ کے سپریم کورٹ میں متنازعہ قانون کے خلاف مداخلت کار بننے کی عرضی دئے جانے پر حکومت ہند بہت چراغ پا اور برہم ہے۔ اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اپنا رٹا رٹایا جملہ ،جو وہ گزشتہ ایک ماہ سے مسلسل بین الاقوامی سطح پر ہونے والی زبردست تنقید اور مذمت کے جواب میں دے رہے ہیں کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ ایسا لگتا ہے اقوام متحدہ ، حقوق انسانی کاؤنسل کی جینیوا میں ہونے والی گزشتہ روز کی میٹنگ میں حکومت ہند کی طرف داری اور حمایت کے لئے د و’ سرکاری‘ مسلمان ایم جے اکبر اور ’’مولانا‘‘ عمر الیاسی کی اس بات سے قطئی مطمئن نہیں ہواکہ بھارت میں سارے مذاہب کو برابر کے حقوق حاصل ہیں اور یہی بھارت کے آئین کی بنیاد ہے،نیز بھارت میں مسلمان جتنے محفوظ ہیں ، اتنے دنیا میں کہیں محفوظ نہیں ہیں ۔ ایم جے اکبر اور عمر الیاسی کو صداقت سے پرے بات جینیوا میں پیش کرنے کے لئے انھیں قعر مذلت سے کھود کر نکالا گیا ، ورنہ ایم جے اکبر تو ’’می ٹو‘‘ مہم میں معدوم ہی ہو چکے تھے۔

ان تمام باتوں کے پیش نظر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ بھارت کے صرف دو شخص نے جس طرح پورے ملک کو یرغمال بنا لیا ہے ، اس سے نہ صرف پورے بھارت کے ،بلکہ پوری دنیا کے امن پسند اور سیکولرازم پر یقین رکھنے والے نیز انسانی در دکو سمجھنے والے عام و خواص سب کے سب پریشان ہیں۔ پوری دنیا میں بھارتی حکومت میں موجود دو شخص کی ضد، انا ، تکبر ، خوش فہمی اور غرورکے باعث حقوق انسانی کی دانستہ پامالی پر اپنی بے زاری ، ناراضگی اور برہمی کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں ۔ میں نے ٹرمپ کے دورہ ہند کے باعث صرف امریکہ میں ہونے والے احتجاج اور مظاہروں کا ذکر کیا ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا شائد ہی ایسا ملک ہوگا ،جہاں کے امن پسند لوگوں نے بھارت کے سفارت خانہ پر بھارت میں ہو رہے ظلم و تشدد کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ نہ کیا ہو۔ لندن، بلجیئم، ڈبلن، برسلز، جینیوا، ہلینسکی،کراکوف،ہیگ،اسٹاک ہوم،پیرس،برلن،گلاسگو وغیرہ ممالک کے ساتھ ساتھ او آئی سی نے بھی اس سلسلے میں گہری ناراضگی جتائی ہے اور کہا ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ تشدد کا سلسلہ بند ہو ا اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کو حتمی بنایا جائے ۔ برطانوی پارلیامنٹ (ہاؤس آف کامن) میں بھی سی اے اے اور دلی فساد پر گہری تشویش اور ناراضگی ظاہر کی گئی ہے ۔لیکن حکومت ہند عالمی سطح پر مسلسل ہونے والے ان تمام تنقید،مذمت،برہمی، ناراضگی،تشویش، احتجاج اور مظاہروں سے چشم پوشی کئے ہوئے ہے ، اس سے ملک کی سا لمیت، معیشت اور دیگر بہت سارے مفادات اثر انداز ہونگے۔جن کا حکومت ہند کو اندازہ نہیں ہے۔ حکومت ہند کے ایسے اڑئیل رویۂ سے دوسرے ممالک میں رہنے والے لاکھوں ،کروڑوں ہندوستانی بھی متاثر ہو سکتے ہیں ۔ جس کی جانب کئی ممالک نے اشارے دئے ہیں ۔ ترکی، ایران ، انڈونیشیا،ملائشیا اور دیگر بہت سارے اسلامی ممالک بھی بھارتی حکومت کی ناعاقبت اندیشی پر اپنی برہمی کا اظہار مسلسل کر رہے ہیں ۔ اس لئے حکومت ہند کے ان دونوں اشخاص کو وقت رہتے اپنے کئے گئے غلط فیصلہ میں ترمیم کرتے ہوئے ہندوستان کو مذید رسوا نہ ہونے دیں۔ یہ پورے ملک اور اس ملک میں بسنے والوں کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک میں شہریت اختیار کر چکے ہندوستانیوں کے حق میں بھی بہتر ہوگا۔

٭٭٭٭٭٭
 

Syed Ahmad Quadri
About the Author: Syed Ahmad Quadri Read More Articles by Syed Ahmad Quadri: 146 Articles with 107016 views An Introduction of Syed Ahmad Quadri
by: ABDUL QADIR (Times of India)

Through sheer imagination,
.. View More