کیا حکومت واقعی جانے والی ہے ،مارچ اہم کیوں؟

 تحریک انصاف کی حکومت کو ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے ۔اس عر صے میں حکومت کوکئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف ملک میں معاشی بحران حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج تھا تو دوسری طرف ، بجلی ،گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے مہنگائی کا نیا طوفان کھڑا کیا جس کی وجہ سے عام لوگوں کی مشکلات میں اضا فہ ہوا ۔ ان حا لات میں جب بے روزگاری اور مہنگا ئی میں ہر روز اضافہ کیا جا رہا ہو تو عام لوگوں کا بھی حکومت سے مایوس ہونا فطری عمل ہے ۔ ملک میں کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ بات کرنے اور کرپٹ مافیا کو سزا دینے پر الیکشن جیتنے والے وزیراعظم عمران خان نے خود ہی سزایافتہ میاں نواز شریف کو علاج کی غرض سے بیرونی ملک جانے کی اجازت توعدالت کے حکم پر دی جس نے ڈیل یا ڈھیل سمیت کئی سوالات اٹھائے کہ مقتدر حلقوں کے دباؤ پر سب کچھ کیا گیا۔ میاں نواز شریف علاج کی غرض سے لند ن جاتے ہوئے شہباز شریف بھی گئے جہاں ان کے بیٹے ، داماد اور اسحاق ڈار پہلے سے مو جود تھے۔ وہا ں ن لیگ کی پاکستان میں موجود سکینڈ نمبر کی قیادت بھی لندن گئی جہاں میاں نواز شر یف کی قیادت میں میٹنگ ہوئی جس میں ملک کے حالات اور عمران خان حکومت کو ٹف ٹائم دینے سمیت مختلف آپشن پر ڈسکشن ہوئی ۔ عام تاثر تو یہ تھا کہ میاں نواز شریف کے باہر جانے کے بعد ملک میں سیاسی استحکام آئے گا لیکن حالات اس وقت تبدیل ہوئے جب سب اتحا دیو ں نے یک دم سے حکومت کو ہری جھنڈی دکھا دی ۔ ایم کیو ایم کے رہنما مقبول صدیقی نے وزرات سے استعفا دیا تو بلو چستان نیشنل پارٹی ، جی ڈی اے، ق لیگ نے بھی حکومت سے اپنے گلہ شکوے سرائے عام شروع کیے جس پر سیاسی فضا مزید تبدیل ہوگئی کہ جب ن لیگ اور ق لیگ کے درمیان رابطوں کی خبریں میڈیا میں ڈسکس ہونے لگی جس پر ن لیگ کے رہنما اور شہباز شریف کے فرزند حمزہ شہباز نے میڈیا کو بتا یا کہ ہمارے دروازے اور کھڑ کیاں سب کیلئے کھلے ہیں۔ ان خبروں نے پی ٹی آئی حکومت سمیت کئی لوگوں کو مزید پریشان کیا کہ آیا واقعی یہ سب کچھ کسی اشارے پر ہو رہا ہے ۔ اس کے پیچھے کو ئی پلان ہے ۔ حکومت کے ان مشکل حالات میں خیبر پختونخوا سے کابینہ کے اندر اختلافات کی خبریں سمیت وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے خلاف محاذ اور ان کی تبدیلی کی افواہیں بھی سرگرام رہی ، ساتھ میں بلوچستان سے بھی اتحادیوں کی آوازیں اٹھنا شروع ہوئی لیکن سب سے بڑی پریشانی حکومت کو خود اپنے پنجاب ممبران سے ہوئی جہاں ایک طرف ق لیگ حکومت سے ناراض تھی وہاں پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف خود پارٹی کے اندر بیانات، اختلا ف اور تبدیلی کے پروپیگنڈے نے مزید ما حول گرما دیا۔ان ایشوز نے اپوزیشن اور عمران خان مخالفین کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ حکومت کے دن پورے ہوچکے ہیں ۔ اب یہ حکومت زیادہ دیر نہیں رہے گی ۔ عمران خان نے اتحا دیوں کو وقتی طور پر تسلی تو دی ہے ۔ ق لیگ کے ساتھ بھی کافی حد معاملات طے پائے ، باقی اتحادیو ں کو بھی رام کیا لیکن ایم کیو ایم کے تحفظات ابھی تک موجودہے ۔ ان حالات میں جب پی ٹی آئی حکومت سادہ اکثریت سے قائم ہو، دس ، پندرہ ممبران ادھر اُدھر ہوگئے تو حکومت کیلئے واقعی بڑا چیلنج اور مشکل صورت حال کسی بھی وقت پیش آسکتی ہے ۔

پاکستان جیسے ملک میں تبدیلی لانا یا مشکل فیصلے کرنا ، اپنے ایجنڈے یا منشور کو پورا کرنا واقعی ایک بہت مشکل کا م ہے ۔ان سب باتوں اور پروپیگنڈوں کے باوجود کہ حکومت مارچ میں جائے گی ۔ اب حالات اداروں کے ساتھ بھی ٹھیک نہیں بلکہ پیپلز پارٹی رہنما بلاول بھٹو زرداری تو کہتے ہیں کہ ان ہاؤس تبدیلی سمیت نئے انتخابا ت کا آپشن موجود ہے ۔ اپوزیشن کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ مارچ کا مہینہ اہم ہے جس میں بہت کچھ تبدیل ہونا ہے۔ خود پی ٹی آئی کے اند ربھی یہ خوف موجود ہے کہ ان حالات میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ چوہدری نثار جن کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ماضی میں اچھے تعلقات ر ہیں وہ بغیر سوچے سمجھے منصوبے کے لندن نہیں جا سکتے جہاں پر ان کی میاں شہباز شریف اور اسحاق ڈار سے ملاقو ں کی خبریں بھی آئی ہے ۔ لندن پلان بھی بہت ڈسکس ہورہاہے کہ وہاں ن لیگ قیادت کی کئی اہم ملاقاتیں بھی ہوئی ہے۔ حکومت کی سیاسی پریشانی لندن پلان کا حصہ ہے لیکن لندن پلان سے ن لیگ کی پاکستان میں قیادت اتفا ق نہیں کرتی کہ ہم نے حکومت کے خلاف اداروں سے مل کر سازش تیار کی ہے۔ اسلام آباد میں یہ افواہیں بھی چلی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو ہٹا کر پی ٹی آئی سے دوسرا وزیراعظم لایا جائے یعنی شاہ محمود قریشی کو وزیراعظم بنا یا جائے۔ دوسرا یہ کہ ساری پارٹیا ں مل کر عمران خان تحریک انصاف سے حکومت پنجاب اور وفاق میں لی جائے جس پر خواجہ اصف نے اسمبلی میں کہا تھاکہ ہم حکومت کے خلاف کسی بھی سازش یا ڈیل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ یہ حکومت خود گرے گی ۔
یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنے چھ اتحادیو ں کے ساتھ مل کر مارچ میں حکومت کے خلاف احتجاج کا اعلان کر رکھ ہے جس کے بارے میں کہا جارہاہے کہ اس دفعہ شروعات لاہور سے کی جائے گی جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھی مارچ کے مہینے کو اہم قرار دے رہے ہیں ۔ ان افواہوں اور پرو پیگنڈوں کو مزید تقویت اس وقت ملی جب وزیراعظم کے مشیر فنانس حفیظ شیح نے اسمبلی میں اقتصادی صورت حالات اور مہنگائی پر تقریر کرتے ہوئے یہ فرمادیا کہ بدقسمتی سے کسی وزیراعظم کو اپنا پانچ سالہ دور پورا نہیں کر نے دیا جاتا۔ اس جملے کا مقصد کیا تھا کہ جب حکومت کے اہم رہنما نے یہ فرما دیا ۔ اس کا مطلب ہے کہ کہی نہ کہی کھچڑی پک رہی ہے ۔ حکومتی معاملات بالکل ٹھیک بھی نہیں ہے ۔

ان سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بھی معاشی صورت حال ٹھیک نہیں ہورہی ہے جس میں چینی اور آٹا کی مصنوعی بحران نے بھی حکومت کیلئے خود سوالات اٹھا دیے ہیں کہ اس بحران میں اندر کے لو گ شامل ہے۔ حکومت کی معاشی ٹیم بھی اب تک کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکی ہے۔ بلکہ اب تو معاشی ٹیم کے بارے میں بھی کافی چہ مگوئیاں چل رہی ہے۔اس ساری صورت حال میں حکومت کی بعض پالیسیوں نے جہاں پر عام آدمی کو پریشان کیا ۔ مہنگائی اور بے روزگاری میں پہلے سے کئی گنا اضافہ ہوچکا وہاں پر پی ٹی آئی کی مقبولیت میں بھی کافی کمی دیکھنے کو ملی ہے جس کا اظہا ر خود پارٹی چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان نے ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے مواقعے پر بھی کیا کہ مجھے ان ڈیڑھ سال میں جتنی تنقید کا نشانہ بنا یا گیا ہے وہ 22سال کی سیاسی جدو جہد میں بھی نہیں بنا یا گیا تھا جس میں اب میرے ووٹرز اور سپورٹرز بھی شامل ہیں جس کی بنیادی وجہ ملکی نظام کو بہتر کرنے کیلئے پالیسیوں کی تبدیلی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کی صورت میں عام لوگو ں کو کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑ اہے ۔ ماضی کی حکومتوں نے کسی پلاننگ کے بغیر اربوں ڈالر قرض لے کر خرچ کیے جس کی وجہ سے ناصرف ملک میں کرپشن بڑھی بلکہ ادارے بھی تباہ ہوئے۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میں ان سب مافیا کے خلاف کھڑا ہوں۔ ملک کواقتصادی طور پر مضبوط کرنے کیلئے سخت فیصلے کرنے پڑے تاکہ پاکستان کامستقبل اچھا ہو۔

ملک کے حالیہ سیاسی حالات کس طرف جائیگے ۔ مڈٹرم الیکشن ہوں گے یا ان ہاؤس تبدیلی آئی گی۔ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کریں گا لیکن پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ پارلیمنٹ ہی نے ایک وزیراعظم کو تبدیل کیا ہوا اور اس کی جگہ دوسرا آیا ہو یا حکومت کو گرا کر دوسری حکومت بنی ہو۔جس طرح افواہیں چل رہی ہے جس میں میڈیا کی تنقید اور پروپیگنڈا زیادہ ہے ۔ وزیراعظم عمران خان بھر پور کوشش میں ہے کہ ملک کو درپیش اقتصادی بحران پر قابو پایا جائے اور معاشی صورت حال کو جلد از جلد ٹھیک کیا جائے تاکہ عام لوگوں کی زندگی بدلے اور عام لوگوں کو تمام بنیادی سہولیتں میسر ہوجس کیلئے آنے والے دنوں میں عمران خان کچھ فیصلے بھی کریں گے اور بعض فیصلے کر بھی چکے ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان ا ن تمام چیلنجز سمیت سیاسی واقتصادی مافیا کا ڈٹ کر مقابلہ کریگا ۔

سیاسی تجزیہ کار یہ بھی فرماتے ہیں کہ عمران خان کیلئے سب سے بڑامسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی بھی اتنی بہتر پوزشن نہیں کہ ملک ان کے حوالے کیا جائے اور نہ ہی عمران خان ہار ماننے والا شخص ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف اگر واقعی عملی طور پر کوئی سازش ہوئی جس کی وجہ سے ان کی حکومت ختم ہوتو وہ کسی دوسرے کو بھی اتنی آسانی کے ساتھ حکومت کرنے نہیں دیگا جس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ بے شک ان کی ٹیم کمزور ہو لیکن وہ ملک کو درپیش چیلنجز کا ناصرف مقابلہ کر رہاہے بلکہ ملک کو اندررونی اور بیرونی سطح پر کئی لحاظ سے درپیش دوسرے اہم معاملات کا بھی ڈٹ کرسامناکیا ہے۔ سیاسی جماعتیں صرف ان پر دباؤ رکھیں گی تاکہ وہ اپنے منشور میں کامیاب نہ ہو اور ان کو آسانی سے حکومت انجوائے نہ کرنے دیا جائے۔ تاکہ ناکامی کی صورت میں ان سے فائدہ اٹھا یا جاسکیں۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ شریف برداران کو ملک میں حالیہ کسی بھی تبدیلی یا ایڈونچر سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ ان کا فوکس تھا کہ میاں نواز شریف باہر چل جائے ،اب ان کی بیٹی کو باہر جانے کی پلاننگ ہورہی ہے ۔ تاکہ ان کو کسی صورت لندن پہنچا دیا جائے جو اصل میں لندن پلان ہے ۔ شریف بردارن علاج کی غرض اس طرح وقت گزارے گا اور مستقبل کیلئے وقت کا انتظا ر کیا جائے گا۔ ان کو کوئی دلچسپی نہیں کہ ہمارے بغیر حکومت ہو۔ اسلئے مارچ بھی گزر جائے گا اور یہ حکومت بھی اسی طرح افواہوں اور پروپیگنڈوں میں اپنا وقت پورا کریگی۔ پی ٹی آئی کو صرف اپنے اندر پی ٹی آئی سے خطرہ ہے اب بھی عمران خان مضبوط ہے ۔ ان کی باتوں کو سن جاتا ہے کہ ملک میں حقیقی تبدیلی عمران خان لائے گا ۔ نہ وہ خود کرپٹ ہے نہ وہ کسی کو کرپشن کی اجازت دے گا جو اقتصادی صورت حال کا سامنا ایک سال پہلے تھا اب وہ مسئلہ نہیں ، بقول وزیراعظم عمران خان کے یہ سال عوام کو ریلیف دینے کاسال ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب پی ٹی آئی حکومت عوام کو کیا ریلیف دیتی ہے۔
 

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 201493 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More