کیونکہ میں جھوٹ نہیں بولتا

روزانہ ہمارے سامنے بہت سے لوگ جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں ہمیں پتہ بھی ہوتا ہے کہ سامنے والا جھوٹ مگر پھر بھی ان پر اعتبار کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا یہ بات بھی سچ ہے کہ جو شخص ہوائی جہاز اڑا رہا ہے اس کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اور سامنے والا سمجھ بھی رہا ہے مگر عادت سے مجبور ہوکر وہ پھر بھی باز نہیں آتا ہمارے ایک دوست ہیں جو ایک انٹرویو میں ہمارے ساتھ ہی گئے تھے تو مجھے مشورہ دیا کہ یار جو بھی پوچھے جہاز ہی اڑایا کر وہ نہیں سمجھتے کون سا ان کے پاس وقت ہے کہ انوسٹی گیشن کریں خیر سے موصوف گئے اور جہاز اڑا کر آگئے اور وی کا نشان بنا یا کہ میں نے تیر مار لیا ہے خوب تیر چلائے ہیں جب پوچھا تو فرمانے لگے ایک سوال پر میں نے کچھ اونچا ہی تیر چلایا جو ایف سولہ جہاز سے بھی تیز گیا اور وہ میرے منہ کی طرف دیکھنے لگے وہ متاثر ہوئے تھے یا کنفیوز ہوئے تھے اس کا پتہ نہیں مگر مجھے اندازہ ہوا کہ جہاز بہت ہی اونچا گیا ہے تب میں نے ڈرون تھوڑے نیچے چلانے شروع کردئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے راؤنڈ سے باہر ہوگئے مگر اب بھی وہ مہا کے چھوڑو ہیں حالانکہ شادی کر چکے ہیں مگر سب لڑکیوں کو کہتے ہیں ہماری قسمت میں لڑکی کہاں اور بے چاری لڑکیاں اس کی باتوں میں آجاتی ہیں مگر جب حقیقت سے باخبر ہوتی ہیں تو خوب درگت بنتی ہے اور بھر نئی کی تلاش شروع ہوجاتی ہے اگر ہم آج اس معاشرے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر کوئی اس بیماری میں مبتلا نظر آئے گا چھوٹے،بڑے ،بچے ،خواتین ،مرد اور بوڑھے ہر کوئی کسی نہ کسی طرح جھوٹ بولنے میں مصروف ہے اور جھوٹ کوایک فن کی شکل دے دی گئی ہے بعض لوگ تو اس ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں کہ بندے کو گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے یا سچ بول رہا ہے ،ہر علاقے میں ایسے کردار پائے جاتے ہیں جن کو جھوٹ بولنے میں ملکہ حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ جھوٹ لوگ کو ہنسانے کے لئے یا اپنے غم کو چھپانے کے لئے بولتے ہیں اسے پتہ ہوتا ہے کہ مدمقابل جو بندہ بیٹھ کر اسکی جھوٹی داستان سن رہا ہے اسے پتہ ہے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں مگر پھر بھی وہ اپنے فن سے لوگوں کو محظوظ کرتا ہے گاﺅں میں اب تو حجروں کا سسٹم ختم ہوگیا ہے مگر جن علاقوں میں پرانی روایاتیں زندہ ہیں پرانی تہذیبوں کے آثار زندہ ہیں وہاں پر مزاحیہ کردار رات کو عشاء کی نماز کے بعد جھوٹ کا بازار گرم کردیتے ہیں اور رات گئے تک موصوف کی جھوٹ سے استفادہ کر کے ذہنی سکون حاصل کیا جاتا ہے حالانکہ موجودہ وقت میں جب انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سب کچھ بگاڑ کر رکھ دیا ہے وہاں پر رات گئے کی محفلیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں اور شاذونادر ہی ایسے گاﺅں ہونگے جہاں پر رات کو گپ شپ کے لئے محفلیں جمتی ہوں جھوٹ بولنے والے یہ کردار کبھی ہرن کو چوکڑیوں میں پکڑتے ہیں تو کبھی شیر کا شکار بغیر اسلحے کا کرتے ہیں کبھی بھیڑئے کا شکار کرتے ہیں تو کبھی بندوق کی گولی سے اڑتے ہوئے باز کو گرا لیتے ہیں جو پھر ان کے کاندھوں پر بیٹھا ہوتا ہے اگر درمیاں میں کوئی ہنستا ہے تو قصہ بھی اختتام پذیر ہوجاتا ہے جس کے بعد کچھ نخرے دکھانے کے بعد پھر جھوٹی داستان شروع ہوجاتی ہے جھوٹ یو ں تو ہر شعبے میں بولا جاتا ہے مگر وکالت کے شعبے کو جھوٹ کا شعبہ گردانا جاتا ہے کہ جو جتنا جھوٹا ہوگا وہ اتنا بہترین وکیل ثابت ہو گا کیوں کہ میں نے خود ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جن کو جھوٹ میں ملکہ حاصل ہے اور وہ وکالت کے شعبہ سے منسلک ہیں پتہ نہیں یہ محض اتفاق ہے یا نہیں کسی نے مشورہ دیا ہے کہ تم یہ شعبہ اپنا لو تمہارے لئے یہ سوٹیبل ہے میرا ایک کزن جھوٹ بولنے میں اتنا ماہر ہے کہ خدا کی پناہ میں بہت دفعہ اس کے جھوٹ کی وجہ سے زیر عتاب آیا ہوں بلکہ ہمارے بہت سے دوست اس کے جھوٹ کا شکار ہوئے ہیں میں تو اس لئے زیادہ شکار رہا ہوں کیوں کہ میں نے اور اس نے بچپن سے ایک ساتھ ہی سکول،کالج تک تعلیم حاصل کی اور یونیورسٹی کے وقت ہم نے راستیں جدا کردیں اور اتفاق کی بات دیکھئے کہ وہ بی اے کے بعد وکالت کے شعبہ میں ہی گیا اور کچھ عرصہ پریکٹس کر کے باہر ملک چلا گیا وہاں بھی اپنی عادت کو نہیں چھوڑا ہے مزہ تو آئے گا جب کہیں گورے پولیس اسے پکڑ کر کہیں تم کون ہو اور یہ جھوٹ بولنے کی عادت سے مجبور ہوکر کہے کہ (طالبان) تو پھر وہی حالت ہوگی جو پرائے جانور کی ہوتی ہے جب وہ آپ کے کھیتوں میں داخل ہوتا ہے یا شفیع مارکیٹ میں کوئی لڑکی کو چھیڑے اور لڑکی اس کی درگت بنانے لگے اور پھر لڑکی کے نئے نئے بھائی میدان میں آّکر نمبر بنانے کے لئے اسے گدھے کی طرح پیٹنا شروع کردیں وہی حالت ہوگی اس کے بہت سے قصے مشہور ہیں یا میری وجہ سے مشہور ہوئے ہیں یہ ایک علیحدہ بحث ہے میں زیادہ شکار ہوا ہوں ہم دونوں ساتھ ہی پشاور میں رہائش پذیر تھے اس وقت موبائیل اتنا عام نہیں تھا جب ہم ماسٹر کر رہے تھے کیوں کہ ہماری رہائش ایک ہوٹل میں تھی جس کے آخری فلور پر ہم رہتے تھے تو ہوٹل کا فون گھر سے کمیونیکیشن کا ذریعہ تھا وہ رات بارہ بجے کمرے میں آکر کہتا یار تمہارا فون ہے میں دوڑا ڈوڑا جاتا تو فون نہیں ہوتا اور وہ کھسیانی ہنسی ہنس رہا ہوتا غصہ تو آتا مگر کیا کرتے وہ عادت سے مجبور جو ٹھہرے ہوتے کبھی اوریجنل میں گھر سے فون ہوتا تو ہم نہ جاتے کیوں کہ ہمیں بلانے والا جو جھوٹا ہوتا لاکھ قسمیں کھاتا کہ سچ کہہ رہا ہوں مگر ہم نہ جاتے اور پھر گھر والوں سے ڈانٹ پڑتی اسی طرح اس کے بہت سارے قصے مشہور ہیں اگر ہم اردگرد دیکھیں تو ہر کوئی اپنے حصے کا جھوٹ بولنے میں مصروف ہے ایک شخص نے اپنے دوست کو بتایا کہ میرا بیٹا جھوٹ بہت زیادہ بولتا ہے اس کا کیا علاج کروں دوست نے جواب دیا تم عجیب بندے ہو تمہیں تو خوش ہونا چاہیئے کیوں کہ تمہارے بیٹے میں بڑا آدمی بننے کی بڑی نشانی موجود ہے اور تم اس کی عادت سے تنگ ہو وہ حیران ہوگیا کہ یہ کیا کہنا چاہتا ہے تو دوست نے بتایا کہ تمہارے بیٹے میں سیاست دان بننے کی کوالٹیاں بدرجہ اتم موجود ہیں کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے پاکستان کو وجود قائم ہوا ہے تب سے پاکستانی عوام کے ساتھ سیاست دان جھوٹ بولتے آرہے ہیں اور الیکشن کے دنوں میں سیاست دانوں کے جھوٹ بولنے میں نمایاں زیادتی دیکھنے میں آتی ہے وہ جھوٹ بولنے میں زمین آسمان ایک کردیتے ہیں اور ہمارے بے چارے عوام اس کی ہر جھوٹ پر اس کو داد دیتے ہیں جس سے اس کو شہہ ملتی ہے اور اس کے جھوٹ بولنے میں مزید تیزی آجاتی ہے اور جب الیکشن کا خاتمہ ہوجاتا ہے تو دودوھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوچکا ہوتا ہے ایک ایسے ہی سیاست دان نے الیکشن کے دنوں میں جھوٹ بولنے میں انتہا کردی تو پیچھے سے ایک چمچے نے ٹہوکا دیا وہ سمجھا کہ میں نے کچھ کم کہا ہے تو اس نے جھوٹ بولنے کی انتہا کردی سیاست دانوں کے بعد دکاندار بھی جھوٹ بولنے میں بلا کے تیز ہیں وہ اس انداز سے گاہک کو قائل کرنے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں کہ گاہک مجبور ہوکر اسکی چکنی چپڑی باتوں میں آکر اپنا بٹوہ کنگال کر کے ہی نکلتا ہے جب ان دکانداروں کا واسطہ خواتین سے ہوجاتا ہے تو دونوں اطراف سے جھوٹ کی بمباری شروع ہوجاتی ہے دکاندار کہتا ہے کہ یہ تو اس چیز کی اپنی قیمت خرید ہے کس طرح تم کو اس قیمت پر دوں جبکہ خواتین کا اصرار ہوتا ہے کہ نہیں یہی چیز میں کل بھی بازار سے اس قیمت پر لے کر گئی ہوں دکاندار اگر سیانا ہوتا ہے تو پوچھتا ہے کہ میڈم کہاں سے لیکر گئی ہو تو وہ جواباً کہتی ہے دوسری دکان سے مگر وہاں وہ آخری پیس تھا اس لئے یہاں سے لیکر جارہی ہوں کیوں کہ خاتون کو پتہ ہوتا ہے کہ دکاندار کا اگلا جواب یہی ہوگا کہ پھر وہاں سے لے کر جاﺅ بڑی تکرار کے بعد دکاندار لاکھ قسموں کے بعد وہ چیز خاتون کو دے دیتا ہے مگر یہ کہتے ہوئے کہ اس میں میں نے نقصان کردیا ہے اور نجانے وہ کتنوں کو یہ دن میں کہتا ہے کہ اس میں مجھے نقصان اٹھانا پڑا ہے بڑوں کی دیکھا دیکھی اج کے بچے بھی جھوٹ میں ماہر ہوگئے ہیں وہ بھی جس دوست سے نہیں ملتے یا بات نہیں کرنا چاہتے تو اپنی ماں یا بہن کو آگاہ کردیتے ہیں کہ اسے کہو کہ وہ گھر میں نہیں ہے یا کام سے باہر گیا ہے جھوٹ کی یہ بیماری بچوں میں بڑوں سے منتقل ہوئی ہے کیوں کہ وہ جب کسی دوست کرایہ دا ر یا قرض خواہ سے نہیں ملنا چاہتے تو چھوٹے بچوں کو کہتے ہیں کہ باہر جاکر کہو کہ پاپا یا بھائی گھر میں نہیں ہیں جو باہر جاکر بعض اوقات کہہ دیتے ہیں کہ کہ پاپا کہہ رہے ہیں کہ وہ گھر میں نہیں ہیں جس سے جھوٹ کا پول جلد ہی کھل جاتا ہے اور اسی طرح یہ عادت بچوں میں منتقل ہوجاتی ہے جو وہ بھی موقع محل دیکھ کر جھوٹ شروع کردیتے ہیں اسی طرح مرد حضرات اپنی بیویوں اور بیویاں اپنے شوہروں سے بھی جھوٹ بولتی ہیں اسی طرح ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص کو رات کو دیر سے گھر آنے کی عادت تھی جب وہ گھر آتا بیوی جاگ رہی ہوتی اور پھر اس کی خیر نہیں ہوتی ایک رات اسی طرح وہ لیٹ گھر آیا تو بیوی سو چکی تھی وہ پالنے کے نزدیک بیٹھ کر پالنا جھولانے لگا کہ بیوی کی آنکھ کھل گئی اس نے بیوی پر رعب جھاڑتے ہوئے کہا کہ تم نیند کی مزے لے رہی ہو اور منا کب کا رو رہا ہے جس کو میں نے چپ کرایا ہے تو بیوی نے کہا کہ تم پاگل تو نہیں ہوگئے منا تو آج میرے ساتھ سویا ہوا ہے اور تم یہ پالنا کیوں جھولا رہے ہو تو وہ منہ دیکھتا رہ گیا احمد ندیم قاسمی مرحوم نے ایک افسانہ جھوٹ کے حوالے سے لکھا تھا جس کا نام تھا گھر سے گھر تک جس میں دو خاندانوں کے درمیاں رشتہ ہونا دکھایا تھا جس میں دونوں خاندان غریب تھے مگر ایک دوسرے کے لئے انہوں نے خود کو امیر دکھانے کا ناٹک کیا جس کے لئے پڑوس سے سامان لایا گیا تھا کہ لڑکے والے آئیں گے تو ان کے سامنے ہزیمت نہ اٹھانی پڑے اسی طرح لڑکے والوں نے لڑکی والوں کو دکھانے کے لئے سامان کرائے پر لایا تھا اخر میں جھوٹ کا پول کھل گیا کیوں کہ لڑکی کا سفر گھر سے گھر تک تھا وہ ایک غریب گھرانے سے دوسرے غریب گھرانے میں بیاہی گئی تھی کہتے ہیں کہ ایک جھوٹ کے لئے ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں اگر آپ لوگوں کو اس بارے میں کوئی شک ہو تو کوشش کر کے دیکھ لیں بہت سے لوگوں نے جھوٹ کا سہارا لے کر کاروبار شروع کیا ہے جس کی خبریں روزانہ اخبارات میں آتی ہیں کہ نوسربازوں نے ایک شخص کو نقدی سے محروم کردیا جس میں جھوٹ کو ذریعہ بناکر ان کو لوٹا گیا ہوتا ہے اس جھوٹ کے سہارے اربوں روپے حاصل کرنے والوں میں ڈبل شاہ کا نام بھی شامل ہے جس نے ایک منصوبے کے تحت لوگوں سے پیسے بٹورنے شروع کئے جس کے بعد دیکھا دیکھی اس کی دھوم ہر جگہ ہونے لگی لوگ بنکوں سے رقم نکال کر ڈبل شاہ کو دیتے رہے اور یوں بنکوں سے نکالی گئی رقم ڈبل شاہ کا جیب بھرتی رہی جن لوگوں نے پہلے ڈبل شاہ کو پیسے دیئے تھے وہ تو فائدے میں رہے مگر جن لوگوں نے آخر میں ڈبل شاہ پر بھروسہ کیا وہ نقصان میں رہے مگر جس وقت ڈبل شاہ کا کیس منظر عام پر آیا اس وقت بہت سے لوگ لالچ میں آکر اپنی جمع پونجی گنوا چکے تھے اور یوں جھوٹ کا یہ کاروبار بہت سوں کو کنگال کر کے اختتام پذیر ہوگیا اور ڈبل شاہ حکومت کے شکنجے میں آگئے پتہ نہیں لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں اس بات کی مجھے سمجھ نہیں آتی اس حوالے سے ہشت نگری میں کپڑا فروخت کرنے والے نے بتایا کہ جھوٹ بولنا آج کل مجبوری بن گئی ہے تو کیا کریں ہم کو خدا معاف کرے دکاندار طبقہ تو جھوٹ بولنے میں کمال رکھتے ہیں وہ کیا کریں کیونکہ مجبوری ہے خاص کر خواتین گاہکوں سے خدا بچائے ان کے سامنے لاکھ قسمیں کھائیں وہ ایک نہیں سنتی اور چاروناچار ہم بھی سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ اب ان سے جان خلاصی نہیں اور فارغ کر دیتے ہیں مگر اس وقت تک ہم بہت سارا جھوٹ بول چکے ہوتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ (جھوٹی بات سے کنارہ کش رہو) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ (ہمیشہ سچ بولو اور جھوٹ مت بولو)اور خلاف واقعہ بات کہنا کذب ہے یعنی کہے تحقیق کسی بات کا نقل کرنا اور سنی سنائی بات کو بلا تحقیق کے فوراً زبان سے نکال دینا بھی گناہ ہے جھوٹ کے حوالے سے حضور نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ جھوٹ اور فجور ساتھ ساتھ ہیں اور یہ دونوں جہنم میں ہیں اور فرمایا جھوٹی شہادت تین مرتبہ شرک کے برابر ہیں نیز یہ بھی حدیث شریف میں ہے کہ رسول نے فرمایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا ہوا ہے اور دوسرا کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک زنبور ہے (زنبور چمٹے کی مانند ایک آلہ ہے جس کے اگلے سرے مڑے ہوئے ہوتے ہیں اور اس بیٹھے ہوئے کے گلے کو چیر رہا ہے یہاں تک کہ گدی تک جا پہنچتا ہے بھر وہ گلا درست ہوجاتا ہے پھر اس کے ساتھ ایسا ہی کرتا ہے میں نے اپنے ساتھی (جبرائیل ) سے پوچھا تو کہا کہ وہ شخص جھوٹا ہے اس کے ساتھ قیامت تک یوں ہی کرتے رہیں گے (یعنی قبر میں عذاب ہوتا رہے گا)خدا ہم سب کو جھوٹ کی اس لعنت سے بچائے- آمین
A Waseem Khattak
About the Author: A Waseem Khattak Read More Articles by A Waseem Khattak: 6 Articles with 7246 views It was a beautiful day of November 29, 1978 when I first opened my eyes with my Muslim family and heard the voice calling to prayer saying "ALLAH-O-AK.. View More