پاکستان میں روایتی بجٹ سازی اور اس میں بہتری کیلئے تجاویز

سالانہ بجٹ آئندہ مالی سال میں ہونے والی آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ ہوتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ محصولات جمع کرنے کیلئے کیا پلاننگ کی گئی ہے اور ایسا کونسا شعبہ ہے جہاں ٹیکس اور غیر ٹیکس محصولات کو ترجیحی بنیادوں پرخرچ کیا جائیگا۔کسی بھی جمہوری حکومت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سالانہ بجٹ کو اہم شراکت داروں کی شمولیت کے ذریعے شفاف انداز میں تیار کرکے منظوری حاصل کرے اور یہ یقینی بنائے کہ لوگوں کو متعلقہ معلومات تک رسائی حاصل کرنے اورانہیں اپنی رائے دینے کے مواقع میسر ہوں حکومت سے یہ توقعات بھی وابستہ کی جاتی ہیں کہ وہ نہ صرف ٹیکس کا ایک منصفانہ نظام قائم کرے بلکہ پسماندہ طبقات پرٹیکسز کا بوجھ کم کرکے معاشی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا کرے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سالانہ بجٹ اسی لیے ہدف تنقید رہتا ہے کیونکہ اس میں عام طور پر حکمران طبقے کے مفادات کو تحفظ جبکہ غریب و متوسط طبقے کی ضروریات اور مفادات کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے ۔پاکستان میں بجٹ سازی زیادہ تر روایتی انداز میں کی جاتی ہے۔ بجٹ کی تیاری،منظوری،عملدرآمد اورآڈٹنگ میں شفافیت کو بڑھانے کیلئے ایسی کوئی واضح کوشش نظر نہیں آتی جو کہ ترقی یافتہ جمہوری ریاستوں کا خاصا ہے۔بجٹ سازی کے دوران اداروں کی کارکردگی،بجٹ کی ضروریات اور چیلنجز،معاشرتی،معاشی اور تکنیکی تبدیلیوں کے تنقیدی جائزہ نہیں لیا جاتا بلکہ سابقہ بجٹ خاکوں کے مطابق آئندہ مالی سال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اوریہ عمل متعلقہ وزارتیں عام طور پر مشینی انداز میں کرتی ہیں بجٹ کے صرف چند نکات اعلیٰ سطحی بحث کا حصہ بنتے ہیں جبکہ باقی حصے سابقہ پریکٹس کے مطابق اسی طرح کتابوں پر موجودرہتے ہیں۔زمینی حقائق اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی وزارت،محکمہ یا ادارہ سے جانچ پڑتال نہیں کی جاتی کہ کونسے بجٹ ہیڈ کو ختم کرنا یا شامل کرنا ضروری ہے یا کس بجٹ ہیڈ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ مختلف وزارتوں یا اداروں کی بجٹ ضروریات بھی وزارت خزانہ کے فیصلوں کی تابع ہوتی ہیں۔

ترقیاتی بجٹ بھی بین الاقوامی سطح پر رائج مثالی طریقہ کار کے برعکس روایتی انداز میں تیار کیا جاتا ہے۔ترقیاتی منصوبوں کے انتخاب اور بجٹ مختص کرنے کا صوابدیدی عمل مختلف علاقوں کے لوگوں کی ضروریات کو پورا نہیں کرپاتاجبکہ بعض مخصوص علاقوں،طبقوں اورشعبہ جات کے منصوبوں کو ترجیحاً فوقیت دی جاتی ہے پاکستان میں بجٹ سازی کاعمل انتہائی کمزور ہے اورقومی اسمبلی ،سینٹ اورقائمہ کمیٹی برائے خزانہ، ریونیو اور اقتصادی امور میں اس پرانتہائی مختصربحث کی جاتی ہے مزید جانچ پڑتال اور رائے کیلئے اسے دوسری قائمہ کمیٹیوں کے سپردنہیں کیا جاتا۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو تجزیہ کرنے کے لئے محدود وقت ملنے کے باعث بجٹ کا بیشتر حصہ بغیر کسی مباحثے، جانچ پڑتال اور اسٹیک ہولڈرز کی رائے کے پاس ہوجاتا ہے۔ سالانہ بجٹ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ بجٹ سازی کا غیر موثر،غیر شفاف،غیر ذمہ دارانہ طریقہ کار عوامی خدمات کی فراہمی اور معاشرتی و مساوی ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔

پاکستان میں بجٹ سازی اور اس میں پائی جانیوالی خامیوں کی نشاندہی میں غیر سرکاری تنظیم سی پی ڈی آئی کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے جس نے ہمیشہ ایسے معاملات پر بحث کا آغاز کیا ہے جو بجٹ سازی کو بہتر اور مؤثر بنانے کیلئے حکومتی توجہ کے متقاضی ہیں اس سلسلہ میں پاکستان میں مروجہ بجٹ سازی کو بہتر بنانے کیلئے مختلف اقتصادی ماہرین اور سٹیک ہولڈرز کی رائے کے ذریعے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ ترتیب دیا گیا ہے جس میں مساوی اور منصفانہ معاشی نظام کیلئے بجٹ سازی اور اس پر عملدرآمد کے عمل میں بہتری اور اصلاحات کے لیے تجاویز شامل ہیں جو کہ معاشرے کے تمام طبقات اور جدید جمہوری ریاستوں کی ضروریات کے مطابق ہیں ۔

بجٹ بنانے کے عمل کے دوران پورے ملک میں اسٹیک ہولڈرز (متعلقین) کے ساتھ وسیع تر مشاورت کو یقینی بنا یا جائے اور ان سے موصول ہونیوالی تجاویز کے تجزیہ کیلئے نظام قائم کرے اور بعدازاں انہیں بجٹ تجاویز کا حصہ بنائے بجٹ کی دستاویزات ایک آسان اور غیر تکنیکی زبان میں تیار کی جائیں تاکہ قانون ساز ، میڈیا، سول سوسائٹی اور شہری انہیں باآسانی سمجھ کر انکی جانچ پڑتال کرکے ان پر اپنی رائے دے سکیں۔بجٹ کی دستاویزات اردو زبان میں تیار کی جائیں اوربجٹ کی تمام دستاویزات کو ایکسل (Excel)جیسے فارمیٹ میں عام کیا جانا چاہئے۔جمہوری نظام میں لوگوں کے منتخب نمائندوں کو بجٹ کی تمام تجاویز کو منظور کرنا چاہیے ۔لہٰذاپارلیمنٹ مطلوبہ تحقیقی مہارت حاصل کرکے پالیسی پیپرز کی تیاری کو یقینی بنائے جو کہ ممبران پارلیمنٹ کو پارلیمانی مباحثوں اور اقدامات میں مدد فراہم کر سکیں۔سالانہ بجٹ مارچ میں پارلیمنٹ میں پیش کرکے اس کی پوری جانچ پڑتال کے لئے متعلقہ کمیٹیوں کے حوالے کیا جائے اور ایوان کو بجٹ پر بھرپور بحث کرنی چاہئے، اورتمام ممبران کو بھی اپنی رائے دینے کیلئے مناسب وقت دیا جانا چاہیے۔

پاکستان میں ٹیکس نافذ کرنے کا نظام غیر منصفانہ،امتیازی اور غیر مؤثر ہونے کے باعث ہمیشہ تنقید کی زد میں رہا ہے لہٰذا وفاقی حکومت ٹیکس دہندگان کے حقوق کے بل کو اپنائے اور ان پر عملدرآمد کرے، جس میں ٹیکس دہندگان کے حقوق اور ان حقوق کے تحفظ کے طریقہ کار کی وضاحت ہونی چاہئے۔فی الحال، سب سے زیادہ محصولات بالواسطہ ٹیکسز (Indirect Taxes)کے ذریعے جمع کیے جاتے ہیں۔ جس سے غریب اور کم آمدنی والے طبقوں پر غیر متناسب ٹیکس کا بوجھ پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلاواسطہ ٹیکسز (Direct Taxes)کی شرح کو کم کیا جائے تاکہ کم آمدنی والے طبقے پر مثبت اثرات پڑ سکیں اور انکی معاشی حالت بہتر ہو سکے۔ایف بی آر کو بڑے پیمانے پرایک غیر فعال ادارے کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے اسکے عملے کو ایمانداری او ر منصفانہ طریقہ سے کام کرنے کی ترغیب دینے کیلئے مناسب مراعات دی جائیں۔ ہر سطح پر بھرتیوں کے لئے میرٹ پر مبنی نظام قائم کیاجائے۔اچھی کارکردگی کی حوصلہ افزائی اور خراب کارکردگی یا ساکھ والے افراد کیخلاف کاروائی کرنے کیلئے طریقہ کار وضع کیا جائے شہریوں کے انفرادی مسائل بارے سوالات یا تحفظات کے جوابات دینے کیلئے ایک موثر نظام کا قیام عمل میں لایا جائے۔

جاری اخراجات کیلئے کسی بھی وزارت یا ادارے کی جائز ضروریات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا اور عام طور پر بجٹ پچھلے سال کے اعدادوشمار کی بنیاد پر بنا دیا جاتا ہے ہر ادارہ اور وزارت کو اپنے گذشتہ اخراجات، اگلے سال کی ضروریات اور مارکیٹ کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی موجودہ بجٹ کی ضروریات کا صحیح طور پرجائزہ لینا چاہئے۔ترقیاتی پروگرامز(ADP) کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسکی تیاری میں جو طریقہ کار اپنایا جاتا ہے وہ نقائص سے بھرپور ہے اس لیے ضروری ہے کہ ایک واضح اور طے شدہ معیار کی بنیاد پر ہی ترقیاتی سکیموں کوسالانہ بجٹ میں شامل کیا جانا چاہے جو نہ صرف سیاسی اثرورسوخ سے پاک ہوں بلکہ انہیں شامل کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر تشہر بھی کی جائے اورلوگوں کو اعتراضات یابہتری کیلئے تجاویز پیش کرنے کے لئے دعوت دی جائے۔جاری منصوبوں کو کم سے کم مدت میں مکمل کرنے کی پلاننگ کی جانی چاہئے۔

وفاقی حکومت کے پاس مالی ضروریات کا اندازہ لگانے ، وسائل کا انتظام کرنے اور بجٹ کو مؤثر انداز میں استعمال کرنے کے لئے ادارہ جاتی صلاحیت کا فقدان ہے، نتیجتاًاکثر قیمتی وسائل اور ٹیکس دہندگان کے پیسے ضائع ہوجاتے ہیں۔ بجٹ کے مؤثر انتظام کے لئے ایک مناسب قانونی طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے بجٹ خسارا پورا کرنے کیلئے پاکستان کا زیادہ تر انحصار اندرونی و بیرون قرضوں پر ہوتا ہے۔ تاہم اکثریہ قرضے مکمل تجزیہ کیے بغیر حاصل کیے جاتے ہیں لہٰذا حکومت پاکستان کو اپنے قرضوں کے انتظام اوران کااستعمال بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔عام طور پرکسی بھی ملک کے لئے تمام سرکاری وزارتوں اور اداروں کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے سنگل ٹریثری اکاؤنٹ (ایس ٹی اے) کا استعمال زیادہ مؤثر ہوتا ہے لیکن عام طور پر یہ دیکھا گیا گیاہے کہ حکومت کی جانب سے مختلف اداروں کے فنڈز انکے کمرشل بینکوں کے کھاتوں میں منتقل کردیئے جاتے ہیں جو کافی عرصے تک خرچ نہیں کیے جاتے جبکہ اس دوران حکومت اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) یا کمرشل بینکوں سے زیادہ شرح سودپر قرض لینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔سنگل ٹریثری اکاونٹ کے ذریعے نہ صرف رقوم کے لین دین کے مسائل کو ختم کیا جاسکتا ہے بلکہ اس پر سختی سے عملدرآمد کرکے قرضوں کے حجم کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔تمام اداروں اور وزرتوں پر لازم قرار دیا جائے کہ وہ اپنے اخراجات سہ ماہی بنیادوں پر مرتب کریں اور ان کی تفصیلات از خو د (Proactive Disclosure of Information)عوام کو مہیا کریں جس سے یہ پتہ چلے گا کہ بجٹ کوئی خفیہ دستاویز نہیں ہے اور ٹیکس دہندگان (شہریوں) کا بنیادی حق ہے کہ وہ حکومت سے ان کے ادا کردہ ٹیکسز کے پیسوں کا استعمال پوچھیں جس سے نہ صرف بجٹ کو زیر بحث نہ لانے سے متعلق پائی جانیوالی عمومی رائے کمزور ہوگی بلکہ ایک مثبت بحث کا آغاز ممکن ہو سکے گا جس کے نتیجہ میں وفاقی اورصوبائی سطح پر بجٹ سازی کے مروجہ طریقہ کارمیں پائی جانیوالی خامیوں کو ختم کرنے اور اس میں بہتری لانے میں مدد ملی گی۔

Faisal Manzoor Anwar
About the Author: Faisal Manzoor Anwar Read More Articles by Faisal Manzoor Anwar: 21 Articles with 16159 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.