لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے!

تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو، ہمیں یاد ہے ذرہ ذرہ…سن 1975ء کی بات ہے جب اُس وقت کے شیر کشمیر کہلانے والے شیخ محمد عبداللہ سیاست کے الگ الگ دور سے گزر رہے تھے ، جی ہاں یہ وہی وقت تھا جب شیخ صاحب جیلوں میںقید رہتے ہوئے تھک چکے تھے، ٹوٹ چکے تھے،مایوس ہو چکے تھے اور ناراض تھے ،گوکہ اِس دور میں شیخ صاحب بیرون ممالک کے مہمان خانوں کی زینت بھی بن کر بھی رہے لیکن پھر بھی وہ پریشانی میں مبتلا رہے ۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ محمد عبداللہ پر کبھی مہربانیاں اور کبھی پریشانیاں مسلط کی گئیں، کبھی ستم اور کبھی کرم کا مزا چکھا،ظاہر سی بات ہے کہ شیخ عبداللہ نے کبھی دلی دربار کے تئیںتلخ رویہ بھی اپنا یالیکن وقت آنے پر نا ز اٹھانے میں بھی کوئی کسر باقی نہ رکھی ۔شیخ پر پریشانی تبھی مسلط ہوتی تھی جب کبھی اُن کی اَنا جاگ جاتی تھی، وہ جب جب بھی اُس حقائق پسندی کے قریب جانے کی غلطی کرتے تھے جس سے دلی دربار نے انہیں باز رہنے کی ہدایت دی تھی تو پریشانیاں انہیں گھیر لیتی تھیں،لیکن پریشانی سے مہربانی کا سفر زیادہ لمبا نہیں ہوتا تھا، وہ جیل میں رہے ہوں یا جیل سے باہر نوابوں کی طرح رہنا اُن کی زندگی کا اُصول تھابلکہ یوں کہا جائے کہ شیخ عبداللہ اپنے دور کے سب سے بڑے سیاسی نواب گزرے ہیں تو بیجا نہ ہوگا۔شیخ عبداللہ کی اِسی طرز کی سیاست پر اُن کے جانشین بھی چل پڑے،وراثت میں ملی سیاست پر شیخ کے جانشینوں نے خوب مزے لوٹے ، عیش کئے اور مفادات کاننگا ناچ کھیلا، حصول ِ مفاد کی خاطر شیخ طرز کی سیاست کا سلسلہ ابھی بھی زندہ جاوید ہے ۔شیخ عبداللہ نے وراثتی اور کٹھ پتلی سیاست کا جو پودا لگایا ہے وہ آئے روز پھلتا پھولتا ہی جا رہا ہے ،کوئی دوسری سیاسی جماعت شیخ طرز کی سیاست پر ایک اُنگلی اٹھائے توباقی کی چار انگلیاں اُس کے اپنی طرف ہو جاتیں ہیں۔وہ جماعت نیست و نابود کر دی جاتی ہے جو شیخ طرز کی سیاست کے برعکس سیاسی بازار گرم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

نیشنل کانفرنس کی مضبوطی کی اہم وجہ ’’محاذ رائے شماری ‘‘ہے ،اِسی تحریک کی وجہ سے پورے جموں کشمیر میں نیشنل کانفرنس کی جڑیں مضبوط ہوئی اور موجودہ دور میں بھی ہیں،دوسری سیاسی جماعتوں کو پنپنے کا کوئی خاص موقعہ نہیں مل سکا ۔نیشنل کانفرنس کو یوں بھی سیاست کھیلنے کا موقعہ ملا کیونکہ کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت جموں و کشمیر کی سیاست میں اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل نہ کر پائی ،چاہیے وہ عوامی نیشنل کانفرنس ہویا پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی ہو۔نیشنل کانفرنس ہر دور میں اپنے وجود کو منواتے ہوئے دوسروں پر سبقت حاصل کی۔

1975ء کے دور کی بات ہو ، 1977ء کی بات ہو یا پھر 1987کا ذکر ہو نیشنل کانفرنس نے ہر دور میں اپنے آپ کو فرنٹ فٹ پر رکھا ، حسب ِ روایت خود کو توجہ کا مرکز بنائے رکھاخواہ اِس کیلئے نیشنل کانفرنس کو متنازعہ بیانات داغنے کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑا۔یہی وجہ ہے کہ اُتار چڑھائو آنے کے باجود مخالفین بھی اُنہیں کیساتھ کھیلنا پسند کرتے ہیں۔کچھ وقت کیلئے مفتی محمد سعید نے نئے سیاسی کھلاڑیوں پر مشتمل ایک ٹیم تیار کر کے نیشنل کانفرنس کے ساتھ مقابلہ آرائی کی لیکن یہ مقابلہ زیادہ دیر تک نہیں چل پایا چونکہ مفتی محمد سعید نے جن کھلاڑیوں کواپنا جانشین بنا کر میدان ِسیاست میں اُتارا تھا وہ سیاست دان کم اور ہوا کے دوش پر چلنے والے زیادہ تھے ۔ سیاست کی چلتی گاڑی پر سفر کرنے کے عادی اِ ن سیاسی بازی گروں پر بھروسہ کرنا مفتی محمد سعید کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی ۔مفتی محمد سعید کے تیار کردہ سیاسی کھلاڑیوں نے کھیلنا نہیں چھوڑا بلکہ میدان بدلا۔ اب وہ نئے میدان میں اپنی نئی سیاسی پاری کھیلنے کی تگ و دو میں ہیں۔یہ پوری دنیا اور خاص طور پر جموں و کشمیر کےہر باشندے کے سامنے آئینے کی طرح صاف ہو گیا کہ چڑھتے سورج کو سلام کرنے والے ڈوبتے سورج کو یاد کرنا چھوڑ دیتے ہیں بھلے ہی ڈوبتے سورج نے ہی اُن کے سیاسی چراغ روشن کئے ہوں لیکن سیاسی ہوا کے دوش پر چلنے والوںکی فطرت یہی ہوتی ہے کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی مفادی سیاست کا پہیہ موڑ دیتے ہیں۔

مفتی محمد سعیداِس دنیا سے رخصت کیاہوئے اُس کی ٹیم کا ایک ایک کھلاڑی اُن کی بنائی ہوئی تنظیم سے رخصت ہورہا ہے ۔ قابل بحث ہے کہ مفتی محمد سعید کی دنیا سے رخصتی اور اُن کے سیاسی شاگردوں کی تنظیم سے رخصتی کو کیا نام دیا جانا چاہیے ۔عوامی حلقوں میں تو ابھی تک اِس معاملے کو لیکر بہت سارے نام منظر عام پر آئے ہیں۔ کوئی یہ کہتا ہوا سنائی دیتا ہے کہ تنظیم سے رخصتی پر جانے والے اصل میں سیاسی بھگوڑے ہیں اُن کا مفتی سعید کے ساتھ رشتہ صرف مفادات کی حد تک تھا اور جب مفتی سعید ہی نہیں رہے تو پھر ظاہر سی بات ہے کہ مفادات بھی نہیں رہے ہونگے ۔مفاد ات کی بنیاد پر بننے والا مفتی لشکر اب قصہ پارینہ بن کر رہ گیا ہے،ایک بھولی بسری کہانی ہے جسے ہر سننے والا افسوس کرتا ہے ۔مفتی شاگردوں کی تنظیم سے ایک کے بعد ایک رخصتی تنظیم کی بے ضابطگی اور مفتی شاگردوں کی کمزور سیاسی بساط کا واضح ثبوت ہے ۔مفتی شاگردوں نے جہاں تنظیمی بد نظمی کا ثبوت دیا وہیں تنظیم کے ساتھ صرف مفادات کی بنیاد تک رشتہ استوار رکھنے کا واضح ثبوت بھی پیش کیا۔نتیجتاًمفتی محمد سعید کی تنظیم کو اپنے ہی محافظوں کی بے وفائی کا سامنا کرناپڑااور اِس وقت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سیاست کے اُس وینٹی لیٹر پر نظر آ رہی ہے جہاںسیاسی موت کا فرشتہ روح قبض کر لیتا ہے۔مانا کہ محبوبہ مفتی نے بہت دم خم رکھا مگر مفتی سعید کے انتخاب نے انہیں تنہا کر دیا۔چونکہ مفتی محمد سعید نے سیاسی موسم کے ٹرٹراتے مینڈکوں کا انتخاب کیا تھا وہ موسم میں ٹرٹرائے تو موسم کے بدلتے ہیں غائب بھی ہوگئے ۔

کانگریس جو ہمیشہ بیساکھیوں کے سہارے چلی آ رہی ہے وہ آج بھی بیساکھیوںکے سہارے ہی چلنے پر یقین رکھتی ہے۔سجاد غنی لون، شاہ فیصل اور انجینئر رشید کا وجود صرف اور صرف پریشر گروپ کی طرح ہے جس کو وقتاً فوقتاً پریشر بنانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ رہی بات بھارتیہ جنتا پارٹی کی اُس کی پوزیشن بھی کانگریس کی طرح ہی ہے، بیساکھیوں کے سہارے چلنااور عوامی خواہشات کے ساتھ کھیل کر اپنی سیاسی لہر بنانا بھاجپا کی فطرت میں ہے اور اُن کے منشور کا اہم اصول بھی یہی ہے۔آ جا کے ایسے میں جو نیا کھیل شروع ہوگا وہ نیشنل کانفرنس سے ہی شروع ہوگاکیونکہ نیشنل کانفرنس دونوں خطوں میں موجود ہے ایسے میںکوئی بھی اِن کو اپنے گروپ میں رکھنے کی کوشش کرے گا۔نیشنل کانفرنس کیلئے کچھ مشکل بھی نہیں ہے وہ پہلے بھی اِس گروپ کے سنگ رہ چکاہی ، خصوصی طور پر قائد ِ ثانی اور عمر عبداللہ صاحب نے لاکھ اختلافات کے باجود بھی دلی دربار میں اچھا خاصہ وقت گزارا ہے ، یوں بھی نیشنل کانفرنس کے کہنے اور کرنے میں ہمیشہ سے ہی تضاد رہا ہے۔جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ چند روز قبل نیشنل کانفرنس کے ایک لیڈر نے بیان دیا جس میں وہ کہتے ہیںکہ ’’ اگر 370کو بحال نہیں کیا گیا تو ہم الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے‘‘ لیکن دوسرے ہی روز نیشنل کانفرنس کی اعلیٰ قیادت نے مذکورہ لیڈر کے اِس بیان کواُن کا ذاتی بیان قرار دیا۔اب آنے والے وقت میں کیا ہوگا…… لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے!!
 

MOHAMMAD SHAFI MIR
About the Author: MOHAMMAD SHAFI MIR Read More Articles by MOHAMMAD SHAFI MIR: 36 Articles with 29921 views Ek Pata Hoon Nahi Kam Ye Muqader Mera
Rasta Dekhta Rehta Hai Sumander Mera
.. View More