ڈائن (حصہ سوئم)

عائشہ نے ہاتھ میں چھڑی پکڑی ہوتی ہے ۔ اور اپنے بازو پر نشان بنا رہی ہوتی ہے ۔اور نیم بے ہوش ہو جاتی ہے ۔عبداللہ اُس کو اُٹھاتا ہے اور ہسپتال روانہ ہو جاتا ہے ۔ میری سمجھ میں نہیں یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے ۔ انہی دنوں میری ملاقات اپنے ایک دوست کے بیٹے علی سے ہوتی ہے ۔ علی روحانی علم رکھنے والا بندہ ہوتا ہے ۔ کئی دفعہ اُس نے اس کا ذکر بھی کیا تھا میرے ساتھ اور میں اس کو ٹال جاتا تھا کہ میرا کا لینا ان جنات اور بھوتوں سے ، لیکن جو کچھ میرے گھر میں ہور ہا تھا ۔ اب مجھے علی کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی ۔ اگلے دن میں علی کو فون کر کے اپنی نئی حویلی میں بلاتا ہوں ۔ میں اور عبداللہ اُس کو پوری حویلی دکھاتے ہیں ۔ جیسے جیسے وہ حویلی کو دیکھتا ہے اُس کے چہرے کی رنگت بدلتی جاتی ہے ۔ ایک جگہ دیوار پر آری ترچھی لائینں بنی ہوتی ہیں ۔ جن کو دیکھ کر وہ حیران رہ جاتا ہے ۔ اُن کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ وہ پنجابی میں لکھی ہوتی ہے ۔ “ توں اچھا نہیں کیتا مرے نال میں بے گناہ سی“ وہ میری طرف دیکھتا ہے اور سوال کرتا ہے ۔ کیا میرا تعلق پنجاب سے ہے ۔ میں کہتا نہیں ، تم کیا کہنا چاہتے ہو ۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ۔ وہ مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتا ہے ۔ہم چکر لگاتے ہوئے حویلی کے اُس کمرے کے سامنے پہنچ جاتے ہیں ۔جہاں تالا لگا ہوتا ہے ۔ علی پوچھتا ہے اس کو تالا کیوں لگا ہوا ہے ۔ میرا جواب انکار میں ہوتا ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کیوں لگا ہوا ہے ۔ ہمیں کبھی ضرورت نہیں پڑی اس کمرے کو کھولنے کی ۔اگلے دن علی مجھے کال کرتا ہے۔ انکل مجھے ڈر ہے کہیں آپ کی فیملی کو نقصان نہ پہنچ جائے آپ کو کال کرنے کا مقصد تھا احتیاط کیجے گا۔ اُسی رات بچوں کی چلانے کی آوازیں آتی ہیں ۔ ابو ہمیں بچائے ۔ میں اور عبداللہ بھاگ کر بچوں کے کمرے میں جاتے ہیں ۔ وہاں کوئی نہیں ہوتا ۔ ہم اُوپر کی جانب بھاگتے ہیں ۔ تو کیا دیکھتے ہیں ۔ عائشہ نے عاطر کو گردن سے پکڑا ہوتا ہے ۔ اور نیچے کی جانب اُس کو پھینکنے لگتی ہے ۔ اُسی وقت کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بوڑھی سی عورت نظر آتی ہے میری بچی اریشہ چھوڑ دے اس بچی کو میں تجھ سے کہتی ہوں نہ کر ایسے چھوڑ دے ۔نجم النساء فوراََ علی کو فون کرکے آنے کا کہتی ہے ۔ علی فوراََ آکر مجھے کہتا ہے کہ عائشہ کو رسیوں سے باندھے ۔ عبداللہ علی کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے ۔ کہ وہ رات کو اس وقت ہمارے گھر کیا کر رہا ہے ۔ وہ اپنی ماں کی طرف دیکھتا ہے اور ساری بات سمجھ میں آجاتی ہے ۔ علی عائشہ کو رسیوں سے باندھ کر اُسے پوچھتا ہے ۔ وہ سب کچھ کیوں کر رہی ہے ۔ وہ غصے سے عللی کی طرف دیکھتی ہے ۔ مجھ سے نہیں رہا جاتا ۔ آخر میں باپ ہوں میں علی کو کہتا ہوں یہ تم کیا کر رہے ہو ۔ چھوڑ دو میری بیٹی عائشہ کو ۔ یک دم عائشہ میری طرف غصے سے دیکھتی ہے ۔ علی کی آواز آتی ہے آپ پیچھے ہٹ جائے ۔ اب آپ نے ہمارے درمیان نہیں آنا ۔علی عائشہ سے سوال کرتا ہے تم کون ہو اور کیا کرہی ہو۔ وہ علی کی کسی بات کا جواب نہیں دیتی ، تب علی وہی الفاظ دہراتا ہے “میرا کوئی گناہ نہیں سی“عائشہ یہ سن کر علی کی طرف دیکھتی ہے ۔ جیسے وہ کچھ کہنا چا ہ رہی ہو لیکن بول نہیں پاتی ۔ ایک دم نیچے گر جاتی ہے ۔ عبداللہ اُس کی چیخ سن کر کمرے میں آتا ہے ۔ اور علی کو ڈانٹتا ہے یہ سب کیا ہے ۔تب علی اُس کو بتاتا ہے کہ عائشہ کے جسم میں کوئی ہے جو اُس کو ڈسٹرب کر رہا ہے ۔ علی کی باتوں کا عبداللہ پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ وہ کہتا ہے صرف نفسیاتی مسئلہ ہے ۔ اس کو اور کچھ نہیں میرے پاس اس کی مکمل میڈیکل رپورٹ موجود ہے۔
 

Faisal Bhatti
About the Author: Faisal Bhatti Read More Articles by Faisal Bhatti: 15 Articles with 12672 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.