ڈائن (حصہ اول)

آج میں بہت خوش تھا ۔ وجہ وہ حویلی تھی جس کو میں حاصل کرنا چاہتا تھا ۔ میری بہت خواہش تھی کہ میں بہت بڑی حویلی میں رہوں ۔ اپنی زندگی تو ایک چھوٹے سے فیلٹ میں گزار دی تھی لیکن اب بچے جوان ہو گئے تھے اور جگہ ہم سب کے لیے بہت تنگ ہو گئی تھی۔ میں نے پراپرٹی ڈیلر کو کہا ہوا تھا کہ کوئی مناسب قمیت میں بڑا گھر یا حویلی ملے تو مجھ سے ضرور رابطہ کریں ۔ آج ہی اُس کا فون آیا تھا کہ ایک حویلی ہے جو کہ کورٹ کے ذریعے فروخت ہو رہی ہے آپ اُس کی بولی میں شریک ہو جایئں ۔ مجھے اُمید بھی نہیں تھی کہ جو قمیت میں نے لگائی تھی اُس میں اتنی شاندار حویلی مجھے مل جائیں گئی۔میری بیگم نہ جانے کوئی ایک خوف میں مبتلا تھی کہ اتنی شاندار حویلی ہمیں اتنے سستے داموں میں کیسے مل گئی۔ ایک انجانا سا خوف میری بیگم نجم النساء کے دل میں تھا جس کو وہ بیان نہیں کر پا رہی تھی ۔ میری فیملی جس میں میرا بیٹا عبداللہ، بیٹی عائشہ ، بہو مریم پوتا عاطر اور پوتی رومانہ پر مشتمل تھیں ۔ اگلے دن ہم اپنی نئی حویلی میں شفٹ ہو گئے تھے۔ حویلی کا نقشہ کچھ اس طرح تھا کہ بڑا مین گیٹ اُس کے بعد لمبی راہداری اُس کے بعد لکڑی کا گیٹ ، بڑا لان جس میں چھوٹا سا تالاب ، پچھلی سائیڈ پر گیسٹ روم اور سرونٹ کوارٹر ۔ حویلی دو منزل پر مشتمل تھی۔ سرونٹ کوارٹر کے ساتھ ہی کنواں تھا جو کہ بند ہو چکا تھا ۔ شام کے وقت ہم سب لوگ لاونج میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے مجھے چائے کی طلب ہوئی میں نے عائشہ سے کہا جائو ایک کپ چائے تو بنا لو۔ عائشہ چائے بنانے کچن میں گئی تو اس کے چیخنے کی آواز سنائی دی ۔ ہم سب کچن کی طرف دوڑے جا کر کیا دیکھتے ہیں عائشہ کے ڈوپٹے کو آگ لگی ہوئی تھی اور وہ گھبرائی ہوئی روتی جا رہی تھی۔ عائشہ بولے جا رہی تھی کہ اُس نے ابھی چولہے کی گیس آن نہیں کی تھی تو یہ سب کیسے ہو گیا ۔ اگلے دن عاطر اور رومانہ گھر کے لان میں کھیل رہے ہوتے ہیں کہ بال لان میں بنے چھوٹے سے تالاب میں گر جاتی ہے ، اتنے میں مریم آواز دیتی ہے بچوں بس اب کھلینا بند کرو اور آکر اسکول کا ہوم ورک کرو۔۔رومانہ ماں کی آواز سن کر چلی جاتی ہے اور عاطر بال لینے تالاب کی طرف آتا ہے ، جیسے ہی وہ تالاب میں بال کی طرف دیکھتا ہے اُس کو سفید کپڑے پہنے عورت نظر آتی ہے جو اُس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی ہوتی ہے ۔ وہ سر اُٹھا کر اُوپر کی طرف دیکھتا ہے وہاں کوئی نہیں ہوتا ہے ۔ دوبارہ تالاب کی طرف دیکھتا ہے عورت نظر آتی ہے وہ ڈر کے مارے امی امی کرتا بھاگ جاتا ہے عاطر ماں کے پاس پہنچتے ہی بے ہوش ہو جاتا ہے ، مریم زور زور سے سب کو آوازیں دیتی ہیں کہ عاطر کو کیا ہوا ہے ، عبداللہ جلدی سے پانی کی چھینٹے اُس کی طرف مارتا ہے ۔ کہ وہ ہوش میں اآئے عاطر آنکھیں کھولتا ہے اور نانو کہتا ہے ، اتنے میں کوئوں کے چیخنے کا شور ہوتا ہے کمرے موجود ہر کوئی اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں ۔ ایک دن نجم النساء اپنی حویلی کے سامنے لگے بڑے سے درخت کے نیچے کچھ رکھنے کے لیے آتی ہے باہر سے فقیر صدا لگاتا ہوا گزرتا ہے یہ اُس کو آواز دیتی ہے ۔ بابا جی میری بات سنیں ۔ بابا جی اُس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور مین دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں ۔ تو اُن کو سب کچھ عجیب سا لگتا ہے وہ نجم النساء کی طرف بڑھتے ہیں ۔ وہ اُن سے مخاطب ہوتی ہے ۔
بابا جی میرے لیے دعا کرے جب سے ہم یہاں آئے ہیں کچھ اچھا نہیں ہورہا ۔

بابا اُس کی طرف دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں بی بی یہ گھر جن کا ہے وہ ہی اس کے مالک ہیں ان کو مت تنگ کرنا اور یاد سے ہر جمعرات کو پرندوں کو گوشت ڈالا کرو۔ وہ خوش تو تم خوش یہ کہ کر بابا واپس چلا جاتا ہے ۔ رات کو عائشہ کے ساتھ کچھ عجیب سا ہوتا ہے وہ آئینے کے سامنے اپنے آپ کو دیکھ رہی ہوتی ہے کہ اچانک کمرے میں لگا بلب کم یا زیادہ روشنی دینے لگ جاتا ہے اور عائشہ چیخ مار کر نیچے گر جاتی ہے۔
 

Faisal Bhatti
About the Author: Faisal Bhatti Read More Articles by Faisal Bhatti: 15 Articles with 12749 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.