ٹرمپ انتظامیہ فلسطین اور مشرق وسطی

جولائی 2019 میں جیسن گرین بلاٹ جو اس وقت صدر ٹرمپ کا نمائیندہ برائے اسرائیل فلطین مذاکرات تھا ،نے اقوام متحدہ کےمعمول کی سہ ماہی اجلاس میں شمولیت کی تھی اورٹرمپ کی مشرق وسطی کی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ٹرمپ انظا میہ فلسطین اسرائیل امن کے بارے میں کیا خیالات رکھتی ہے ۔اس نے اس بارے میں بڑے حیران کن خیالات کا اظہار کی۔ اس کے بیان کے مطابق امریکہ اب اس سوچ سے باہر آ چکا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلہ پر عالمی ہم آہنگی حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس کو وہ ایک مفروضہ اور غیر حقیقی خیال کرتے ہیں۔گرین بلاٹ نے اس سے بھی آگے کی بات یہ کی کہ اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 242 پر تنقید بھی جڑ دیجو کہ قرارداد عربوں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کی نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے بنیاد مانی جاتی ہے۔ بلاٹ نے کہا کہ اسرائیل کا عرب علاقوں سے مکمل انخلا ایک تھکا ہوا لہجہ اور باسی بیانیہ بن چکا ہے۔ اس شق کی وجہ سے علاقے میں اصل امن قائم نہیں ہو پا رہا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے غصے کا اظہار بھی کیا اور اس کا یہ غصہ نپا تلا تھا اور جس کی رہنمائی جئرڈ کشنر نے کی تھی جو کہ صدر ٹرمپ کا داماد بھی ہے اور مشرق وسطی پر سینئر ایڈوائزر بھی ہے۔
 
گرین بلاٹ یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا تھا کہ عرب اسرائیل امن کے لئے ایک نئی اور حقائق پر مبنی بحث کی ضرورت ہے۔ جب کہ اقوام متحدہ ،بین الاقوامی قانون اور عالمی ہم آہنگی جیسی باتیں اب غیر متعلقہ سی ہو چکی ہے۔ ٹرمپ ایدمنسٹریشن اپنا انداز فکر ہی نہیں بلکہ اپنی سوچ بھی بدل چکی ہے۔ اسرائیل اور مشرق وسطی کے بارے وہ ایک نئی آرڈر یعنی نئے نظام کی بات کر رہی ہے اور کافی حد تک اس پر صرف عمل بھی کر چکی ہے۔ مشرق وسطی کے جغرافیہ کو تو نہیں بدلا گیا مگر اس کے باسیوں کی حیثیت اور اہمیت کو بدل دیا گیا ہے۔ وہ ممالک جو کبھی فیصلہ ساز تھے اب کچھ بھی نہیں رہے۔ اور اسرائیل جو کبھی اپنے وجود کو ثابت کرنا چاہتا تھا آج امریکی شہ پر فیصلہ کن مقام حاصل کر چکا ہے۔ شام ،یمن ،مصر ،لیبیا ،عراق ،ایران ،سعودی عرب اور قطر سب کا مقام کافی حد تک اتھل پتھل ہو چکا ہے۔ ان کی وہ حیثیت نہیں رہی جو پہلے تھی یا ہونی چاہیئے تھی۔ امریکہ خاموشی سے خطے میں اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہے اور اس میں قریب قریب کامیاب بھی ہو چکا ہے۔ ایران کی خطے میں موجودگی امریکہ کی پالیسی کا محور ہے۔ اس سے مقابلہ کرنے اور اسے روکنے کے لئے امریکہ نے وہاں اپنی موجودگی لازمی قرار دی ہوئی ہے اور عرب ممالک کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کا جواز بنا رکھا ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان میں ایک مشترک دشمن ایران کو داخل کر دیا ہے اور دشمن کا دشمن دوست والی پالیسی پر عمل کروانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ امریکہ نے سعودی عرب اور اسرائیل کے آپس میں اپنے تعلقات بہتر بنانے پر زور دیا ہوا ہے تاکہ وہ دونوں مل کر ایران کا سامنا اور مقابلہ کر سکیں۔
 
ستر کی دہائی میں بھی ویتنام میں شکست کے بعد ہینری کسنجر نے مشرق وسطی کی نئی پالیسی کی کامیاب بنیاد رکھی تھی۔ اور وہ پالیسی یہ تھی کہ اسرائیل کے عربوں سے اچھے تعلقات قائم کرائے جائیں ۔ مصر اور اردن نے اسرائیل سے امن معاہدے کر لئے اور عارضی معاہدہ فلسطینیوں کے ساتھ بھی طے پا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں مزید پیش رفت رک گئی جب انتفادہ ثانی کا آغاز ہوا۔عراق کی جنگ نے ایران کو طاقتور بنا دیا ۔ عربوں کو قابو میں رکھنے اور اپنی پالیسیاں ان پر تھونپنے کے لئے پہلے القاعدہ اور اب آئی ایس آئی ایس کا سہارا بھی لیا جا رہا ہے ۔ٹرمپ انظامیہ اگرچہ زیادہ نہیں جانتی مگر تخریبی تخلیق کا سہارا ضرور لے رہی ہے۔ مطلب پہلے تخریب کرواتی ہے اور پھر وہاں پہ تخلیق کرنی ہے۔ یمن اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ اسی طرح شام بھی ایسی ہی پایسی کے لئے تجربہ گا ہ بنی ہوئی ہے کہ پہلے وہاں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے اور پھر خود ہی اس ملبے کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا جائے۔ اس سلسلہ میں مالی وسائل مقامی استعمال کئے جاتے ہیں مطلب یہ کہ جس ملک کے بنیادی ڈھانچے کو مسمار کیا جاتا ہے اسی کی تباہ معیشت کو مزید تباہی کی طرف دکھیل دیا جاتا ہے۔ اس کے وسائل پر قبضہ کر کے اسے مقروض بنا دیا جاتا ہے اور یوں وہ غلامی کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ عرب علاقوں میں بھرپور تخریب کی بنیاد رکھ چکی ہے اور اب اس سے یہ تخلیق نہیں بن رہی بلکہ اس کے لئے مشکل کا سامان بنتا جا رہا ہے کہ وہاں جو افراتفری اس نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں سے مل کر پیدا کی ہے اسے سمیٹنے کی ترتیب بنتی نظر نہیں آ رہی۔ معاملات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔جتنا مالی بوجھ عربوں پر امریکہ ڈال چکا ہے اور ڈال رہا ہے اس سے تھوڑے عرصہ بعد ہی عرب منحرف ہونے کے بہانے تلاش کریں گے۔
akramsaqib
About the Author: akramsaqib Read More Articles by akramsaqib: 76 Articles with 58373 views I am a poet,writer and dramatist. In search of a channel which could bear me... View More