پاکستان کی قومی شناخت کا بحران

پاکستان ایک مقدس خطہ ارض ہے ۔یہ ایک نظریاتی مملکت جسے اسلامی اصولوں کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا ۔اور اس کا نام پاکستان رکھا گیا اور اس لحاظ سے اس میں رہنے والی قوم پاکستانی کہلائی۔دنیا میں جتنے بھی ممالک صفحہ ہستی پر ابھرے ان میں رہنے والی اقوام نے ملکی شناخت کو اپنی پہچان بنایا اور ہم اسی بنا پر انہیں امریکی، جاپانی ،ہندوستانی،چینی وغیرہ کے نام سے جانتے ہیں ۔کیونکہ قومی شناخت ہی کسی قوم کی ترقی کی ضامن ہے یہ شناخت اور وحدت ختم ہوجائے تو قوم خزاں رسیدہ پتوں کی طرح ٹوٹتی اڑتی اور بکھرتی نظر آتی ہے ۔تعصبات وحدت اور شناخت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے زہر ہلاہل ہیں خواہ وہ نسلی تعصب ہو یا علاقائی یہ ایسا سرطان ہے جو معاشرے کے ساتھ ساتھ ملکی بنیادوں کو بھی کھوکھلا کر دیتا ہے ۔
گھن کی صورت یہ تعصب تجھے کھا جائے گا
اپنی ہر سوچ کو محسن علاقائی نہ کر

جب پاکستان بنا تو اسکی قوم کی شناخت پاکستانی تھی اس میں رہنے والے لوگ اپنے آپ کو پاکستانی قوم ہی شمار کرتے تھے مگر اب حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ چاروں صوبوں کے لوگ خود کو پاکستان کا نہیں بلکہ اپنے اپنے صوبے کا فرد خیال کرنے لگے ۔سندھ میں رہنے والے سندھی پنجاب میں بسنے والے پنحابی بلوچستان والے بلوچی اور خیبر پختونخوا والے خود کو سرحدی گردانتے ہیں ۔یہ ہمارے ذہنی تعصبات کی مختلف شکلیں ہیں جو ہم نے زمینی اور صوبائی تقسیم کے تحت ڈھال لی ہیں اور ان کے دھوکے میں اپنی ملکی شناخت کو پس پشت ڈال دیا ۔المیہ تو یہ کہ ہم نے مذہبی شناخت کو بدلنے میں بھی کسر نہ چھوڑی ۔پہلے جو تعارف بحیثیت مسلمان کرایا جاتا تھا اب فرقے اور ذات پات میں کرایا جاتا ہے ۔پوچھنے والے بھی فرقہ اور ذات پوچھتے گو کہ یہ چلن ہندو معاشرے کی نمائندگی کرتا ہےجہاں ذات پات کی تخصیص کی جاتی ہے ۔قومی۔شناخت کا کھو دینا ایک ایسا المیہ ہے کہ ہم اس کے نقصانات کا ادراک رکھنے کے باوجود اس دائرے سے نکلنے کو تیارنہیں ۔ اگرچہ پاکستان کو قائم ہوئے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور اب تو ہمیں ایک مضبوط قوم بن جانا چاہیے تھا کہ ہم سندھی، پنجابی، بلوچی سرحدی اور سرائیکی ہونےکے بجائے صرف اورصرف پاکستانی ہوتے مگرمقام افسوس ایسا نہیں ہوسکا ہم زبانوں کے جھگڑے ابھارتے اور صوبائی تقسیم کے خواب دیکھتے نظر آتے ہیں ۔کبھی سرائیکستان کا نعرہ لگاتے تو کبھی سندھو دیش کی آواز بلندکرتے نظر آتے یہ الگ الگ صوبوں کے نعرے ملک کی اجتماعیت کو ختم کرنے کے لیے ایک تباہ کن ہتھیار کی حیثیت رکھتے۔ذرا سا رخ موڑیں اور ماضی کے اوراق پلٹتے ہیں جب مشرقی پاکستان بھی پاکستان کا حصہ تھا اس کی علیحدگی میں منجملہ اور اسباب کےعلاقائی عصبیت بھی سرفہرست تھی ۔بنگالیوں کے ذہن میں بنگالی قومیت کا فتنہ پیدا ہوا اور پروان چڑھا۔متحدہ پاکستان میں جتنے بھی بڑے سرکاری عہدے دار مشرقی پاکستان تعینات کیے جاتے تھے ان کا تعلق بالعموم مغربی پاکستان اور خاص طور پر پنجاب سے ہوتا تھا ۔افسر شاہی کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا کہ عوام اور ان کے مسائل کو اہمیت نہیں دیتی لہذا بنگالیوں کو خصوصا پنجابیوں سے شکایت پیدا ہونا شروع ہوگئی اور اس میں رفتہ رفتہ نفرت کا رنگ غالب آتا گیا حتی کہ اس نے علاقائی تعصبیت اختیار کرلی ۔کچھ یہی حال زبان کے بارے میں ہوا ۔قائد۔اعظم نے اردو کو قومی اور سرکاری زبان قرار دیا مگر انکی موت کے بعد ان کے جانشینوں نے اس کو رائج کرنے کے بجائے اس میں بگاڑ کی صورت پیدا کی اور ایک نئی اپج نکالی کہ اسکی وجہ سے علاقائی زبانوں جن میں بنگالی، سندھی، بلوچی اور پشتو وغیرہ میں ابتری پیدا ہوگی اور اس حق تلفی کے بعد ان زبانوں کا مستقبل تاریک ہو جائیگا ۔حیران کن بات کسی نے پنجاب کی پنجابی کا نام نہ لیا اور یہیں سے دراڑ وسیع ہونا شروع ہوئی بنگالیوں کے احتجاج پر حکمرانوں کو بنگالی کو دوسری بڑی سرکاری زبان قرار دینا۔پڑا مگر بنگالی پھربھی مطمئن نہ ہوئے اور اسی کشمکش اور گورکھ دھندے میں پاکستان کا ایک بازو ہمیشہ کے لیے کٹ گیا ۔

جب سے ہم نے اپنی شناخت پاکستانی کو کھویا تب سے ہم بے راہرو ہوگئے اور نشان منزل سے بھٹک کر زرہ بیکراں کی مانند بکھر گئے ۔صوبائی شناخت نے الگ ہی گل کھلانے شروع کر دیے، سیاست دانوں نے اس کمزوری کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا اور ہر جا اپنی سیاست چمکائی۔"سندھ کھپے" جیسے نعرے بظاہر علاقائی عوام کو خوش کرنے کے لیے لگائے گئے لیکن درحقیقت یہ ملکی سالمیت اور وطن دشمنی کے منافی تھے ۔ کبھی کو ئی مہا جر تحریک پا کستان میں دی گئی قر با نیوں کو بنیاد بنا کر وطن عزیز کو یر غمال بنا نے کا خوا ہشمند دکھا ئی دیتا ہے اور کبھی پختو نخواہ اور گر یٹر بلو چستان کے علمبردار علا قائی محرو میوں اور مسا ئل کو جواز بنا کر نا کام پا کستان کے شو شے اڑاتے نظر آ تے ہیں۔
لگتا یوں ہے کہ علا قا ئی قو میتوں کے نام پر اپنی کفوں کو کلف لگا کر پھڑ پھڑانے اور لہرانے والے نسلی تعصبات کو ابھار کر قوم کو انتشارو افتراق کی طرف دھکیلنے والے اور لسا نی نفرت کی آگ میں قوم کو جھونک کر توڑ دو اور مردہ باد کے نعرے لگا نے والے نا کام و ناکام دشمنوں نے حرف تمنا میں پناہ حا صل کر لی ہے عوام کے مسا ئل اور علا قا ئی محرو میاں اپنی جگہ ایک حقیقت ان کی نشا ند ہی اور حل کے مطا لبے اپنی جگہ درست مگر یہ کہاں ہو تا ہے کہ گھر کھا نا نہ ملے تو گھر کے مکیں تلاش رزق کی سعی کر نے کی بجا ئے گھر کی دیواریں گرانا شروع کر دیں ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہم میں سے ہر کو ئی اپنی ڈفلی بجا تا ہوا یہ جتائے کہ ہم نہیں تو پا کستان نہیں بے شک مضبوط سندھ ، مضبوط پنجاب ،مضبوط خیبر پختوں خواہ اور مضبوط بلو چستان ہی مضبوط و مستحکم پا کستان کی ضما نت ہیں مگر کیا یہ انمٹ حقیقت اور سچا ئی نہیں کہ مضبوط و مستحکم پا کستان ہی ان سب اکا ئیوں کے وجود آزادی اور سلا متی کی ضمانت ہے ۔اور کیا یہ بات درست نہیں کہ علا قائی محرومیوں کا ذکر کرنے والے دا نشور اور سیا ستدان مضبوط عوام ، مضبوط پا کستان کے تحت اپنے مو ضو عات منتخب کریں کہ خیبر سے کراچی تک بسنے والے ایک محنت کش مزدور ، کا شتکار اور سفید پوش پا کستانی کے اقتصادی سماجی ،معا شی، معاشرتی اور سیا سی مسا ئل بہر حال ایک جیسے ہیں۔

مرحوم ضیا ء الحق کے دور میں ارباب اقتدار کی طرف سے ملک بھر کے سیا سی، سما جی دانشوروں سے سوال کیا گیا تھا کہ پا کستان کا اہم ترین مسئلہ کیا ہے ؟کسی نے کہا احتساب ، کسی نے پا نی کی تقسیم اور صوبا ئی خود مختیاری کی بات کی اور کسی نے اسلامی نظام کے نفاذ اور امت مسلمہ کے احیا ء کا ذکر کیا ۔مگرمیرے خیال کے مطابق ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قو می شنا خت کا ہے عظیم تر پا کستان کے حوالے سے پا کستا نیت کے نا طے پا کستانی قو میت کی تشکیل و تر ویج کا ہے بلا شبہ پا کستان کے قیام کی جدو جہد کرتے وقت بر صغیر پاک و ہند کے مسلما نوں نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر مسلم قو میت کے نا طے حصول پا کستان کی جدو جہد کی مگر قیام پا کستان کے بعد با نی پا کستان نے فر ما یا کہ” اب ہم پا کستانی قوم ہیں “دین اسلام میں صرف دو طبقے ہیں ایک اہل اسلام اور ایک کا فر ۔اہل اسلام ہی ملت اسلامیہ ہیں بہت ہی اچھا ہو تا کہ قیام پا کستان کے بعد پاکستان ملت اسلا میہ کی نشا ة ثا نیہ کا گہوارہ بنتا مگر بصد افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا دین اسلام پر عمل پیرا ہو نے والے دعویدار بھی مختلف فرقوں اور گرو ہوں میں بٹے ہو ئے ایک دو سرے کو نشا نہ بنا ئے رہے اور اسی لئے دینی اور مذ ہبی جما عتیں وطن عزیز میں مسلم قو میت کا قو می جذ بہ ابھارنے میں نا کام رہیں شا ئد یہی وجہ ہے کہ سانحہ پا کستان کو ترقی پسند حلقے دو قومی نظریہ کی نا کا می قرار دیتے ہیں۔اب اس علاقائی شناخت کا ایک گل اورملاحظہ کریں کہ اس سے ملکی ترقی رک جاتی ہے کیونکہ ملکی وقومی طاقت چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہو جاتی اور یہ انتشار بڑی بڑی قوموں اور حکومتوں کو تہس نہس کر دیتا ہے ۔یہ نفسا نفسی کا عالم قومی شیرازہ بندی کے لیے زہرقاتل ہے ۔اجتماعیت ختم ہونے کی بنا پر ملک کی طاقت کو دیمک لگ جاتی اور جلد یا بدیر کسی غیر ملکی طاقت کا غلام بن جاتا.

پاکستانی قوم کی ایک عجیب لاجک ہے جو اگر ایک امید کی کرن جگاتی ہے تو لمحہ فکریہ بھی اجاگر کرتی ہے کہ ہم یوں تو اپنی علاقائی شناخت میں گم گشتہ رہتے اور عصبیت کے اوور کوٹ اوڑھے رکھتے مگر حوادث زمانہ میں ایک ہو کر اتحاد کی تفسیر بھی نظر آتے شاید حادثات ہم میں سے اصل شناخت نکال کر اسکو جھاڑ پونچھ کر کے سامنے لے آتے اور دلوں کے زنگ کو اتار کر اندرسے وہی خالص پاکستانی برآمدکر لیتے جو عصبیت نے زنگ آلود کردیا تھا۔ مگر کیا یہ پاکستانی شناخت محض مصیبت کے وقت سامنے آنی چاہیے ؟ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی پاکستان کی سرحدوں یا جغرافیائی حدوں پہ کسی آفات ارضی و سموات کا گزر ہوا پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار بن گئی اتحاد و اتفاق ہمدردی و انس کی قابل فخر روشن مثال سامنے آئی جیسے ہی اس مصیبیت سے نجات ہوئی سب نے پھر سے تعصب کے چولے پہن لیے ۔کیا یہ رویہ عجیب نہیں اگر ہم جنگ میں ایک ہیں تو امن میں ایک کیوں نہیں ؟
اقبال نے خوب کہا کہ۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

دوسرے مصرع پہ تو پاکستانی قوم مکمل تفسیر اتفاق بن جاتی مگر پہلے پہ وہ ایک انتشار ذدہ قوم نظر آتی کیوں؟

اپنی اسی حقیقی شناخت کو کھونا ہی ہمارا المیہ ہے ۔وطن کی شناخت ہی امر حقیقت ہے اور قوموں کے امر ہونے کی راسخ دلیل ہے ۔اب ذکر کچھ ان عوامل کا جو ہماری شناخت بحیثیت پاکستانی رد قفل کا سبب بنتے ہیں ۔

پاکستان کو شناختی بحران کا سامنا اس کی تخلیق سے ہی رہا۔ قائد اعظم ،اقبال اور تحریک پاکستان کے کارکنان کے ذہن وقلب میں شناخت کے حوالہ جات کافی واضح تھے۔ اور اس بات کا گواہ ان کا عزم صمیم تھا ۔پاکستان کو اسلامی جمہوریہ جناب جنرل ایوب خان صاحب نے بنایا۔ محترم فیلڈ مارشل کے مارشل لاء سے قبل، پاکستان میں اسلام بھی محفوظ تھا، جمہور بھی پُرامید تھا، اور جمہوریت بھی، بھلے آہستہ، مگر چل رہی تھی۔ پاکستان پیدائش کے وقت یہ نہ تھا کہ جو آج ہے۔ سماجی اور انسانی رویوں کے اعتبار سے اس وقت کی بہتری اور برداشت کا آج کے ساتھ تقابل ممکن ہی نہیں ۔

شناختی بحران کے چند اہم نکات دیکھیے اور پرکھیے ۔
١۔ سنہ 2004۔ میں اسلام آباد کے جناح ایوینیو پر سی ڈی اے، جو کہ دنیا کا ایماندار ترین ادارہ ہے، کے کسی ایماندار ترین افسر نے پاکیزہ ہدیہ سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے، شاید ملائشیا سے درآمد کردہ پام کے درخت لگوا دیے۔ وطن عزیز، بالخصوص اسلام آباد کے ڈرائنگ روم لبرلز، اکثریتی ویسے ڈرائنگ روم ہی ہیں، میں اک بھونچال آ گیا۔ اس پر لکھا بھی گیا، بولا اور اپنے پسندیدہ مشروب کی چُسکیاں لیتے ہوئے اس پر تاسف بھی کیا گیا کہ یہ پاکستان کو ”عربستان“ یا ”بنیاد پرست اسلام“ سے جوڑنے کی سازش ہے، کیونکہ پام یا کھجور کا درخت عربستان اور وہابی اسلام کی دلیل ہے۔ شناخت کے بحران میں کھجور پرستوں کو کھجور میں اسلام کا عروج نظر آتا ہے، جب کہ ”کھجور بھرشٹوں “ کو اس میں اسلام کا خوف۔
2۔ پھر سال 2010۔ 11 میں اسلام آباد اور انگریزی میڈیا پر یہ بحث بھی رہی کہ پاکستانی معاشرہ زیادہ بنیاد پرست اور شدت پسند ہو چکا ہے۔ کیونکہ یہ اب ”خدا حافظ“ کی بجائے ”اللہ حافظ“ کہنا شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان کے چند ایک نمایاں اخبارات میں اس پر مضامین بھی چھپے۔ بقول شخصے جو تجزیات تھے ان کے مطابق، 1980 کی دہائی اور اس کے بعد میں پیدا ہونے والے اللہ حافظی ہیں، جب کہ اس سے پہلے کی پیدائش والے خدا حافظی۔
3۔ اسی معاشرتی و سیاسی شناخت کے بحران کا المیہ تھا کہ 2005 میں لاہور میں پہلی بین الاقوامی معیار کی اک میراتھن ریس ہوئی۔ لاہور کے بعد یہ میراتھن گوجرانوالہ پہنچی کہ وہاں پر موجود اک دیوبندی عالم، جن کا اصل تعلق مردان سے تھا، اور وہ وہاں سے منتخب سیاستدان بھی تھے، نے اس میراتھن میں اسلام کے خلاف سازش تلاش کی کہ اس میں اک حصہ خواتین کا بھی تھا۔ عورت اور عورت کا وجود ویسے بھی تمام تاریخِ ملائیت کی نظر میں ”میر جعفر اور میر صادق“ ہی رہا ہے، کہ بے چاری کمزور جو ٹھہری، اور کمزور پر ہی تو بس چلتا ہے۔ اسلام کو بچانے کی خاطر وطن عزیز میں جلاؤ گھیراؤ اور مارگراؤ تو 1953 سے ہی تاریخ کا حصہ رہا ہے، لہٰذا یہی قسط وہاں بھی دھرائی گئی۔ شہر کا شہر بند ہوا، اینکر زدہ میڈیا کے ہاتھ میں بندوق نہ سہی، کیمرہ اور مائیک تو ہے ہی، اور ساتھ میں اقتداری ادرک کا سواد بھی جان چکا ہے، تو خواتین کی شرکت کو واقعی اسلام کو خطرہ بنا دیا گیا۔ گیارہ سال ہو چکے، ملائیت کے اسلام کو تو کوئی خطرہ نہیں، مسلمان مگر محفوظ نہیں۔ پاکستان بھر میں متعدد ڈاکٹر، پولیس آفیسر اور اعلیٰ سرکاری اہل کار شیعہ ہونے کی پاداش میں ”پار“ کر دیے گئے۔یہاں ہم پھر اپنی پاکستانی شناخت کو دقیق کاغذوں تلے دبا کر مذہبیت رنگ سامنے لے آتے ہیں ۔
پاکستان کے سماجی و سیاسی شناختی بحران کا اندازہ مندرجہ بالا امثال سے بخوبی لگایا جاسکتا کہ ہم بحران کے کس زینے پر کھڑے ہیں اور کہاں ہیں۔ موجودہ حالات پر طائرانہ نظر ڈالیں تو وطن عزیز کی آزادی کو ستر سال بیت گئے ہماری قومی شناخت جس طرح دنیا کے سامنے آتی ہے۔وہ ایک الگ المیہ ہے اپنے کرتوتوں کےباعث بین الاقوامی سطح پر ہر میدان عمل میں ہماری شہرت اس نہج تک جا پہنچی ہے کہ ہم پرتشدد اور تنگ نظری قوم کہلائے ۔بچپن سے ہمیں جو اپنی شناخت رٹوائی جاتی رہی وہ یہ تھی کہ ہم پاکستانی قوم ہیں۔ ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے۔ ہمارا قومی پھول چنبیلی ہے، ہمارا قومی نشان چاند تارے والا جھنڈا ہے۔قومی شاعر علامہ اقبال ہیں اور اب ہماری قومی شناخت کرپشن، ملاوٹ، اقربا پروری، بددیانتی نا انصافی، متشدد رویے، بے ایمانی، رشوت ستانی اور اس پر مہر کامدار زبانی اور صوبائی عصبیت ہے ۔رہی سہی کسر دہشت گردی کے الزام نے پوری کر دی ۔تو کیا ہماری یہ شناخت صائب ہے ؟

شناختی بحران وہی نتائج مرتب کر رہا جو کبھی مسلمانوں کے زوال کا آمد بجنگ تھا ۔اور تاریخ کے صفحہ قرطاس پہ لکھا گیا۔ہم پاکستانی ہیں اور مسلمان قوم ہیں۔مگر اب حال یہ ہے کہ ہم نے ان دونوں شناختوں سے دوری اختیار کر لی ہے رسم و رواج ہمیں ہندوؤں کے بھاتے ہیں اور زندگی ہم مغرب کے مادر پدر آزاد معاشرے کی سی گذارنا چاہتے اسلام اور اس کے قوانین سے دوری کو ماڈرن ازم اور آزادی کے نام کے خوبصورت ریپر میں لپیٹ دیا ہے ۔اس میں میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے کیونکہ وہ رہنما کی سیٹ پہ براجمان ہے بچے اس کی سنتے اور عمل کرتے ہیں ۔میرے قارئین کو یہ بات شاید عجیب لگے مگر یہ ایک تلخ حقیقت اورزہر ہلاہل ہے ۔آپ اپنے گھر کے ماحول اور بچوں پہ غورکریں ان کے لباس ان کا رہن سہن ان کا کھانا پینا ان کی بول چال سب میڈیا کی عکاس ہے۔مغربی لباس دوپٹے سے بے نیازی ،روزمرہ میں ہندی الفاظ کا چناؤ، اپنے ملک سے بے زاری ،مغرب سے دلداری،مخرب اخلاق ویب سائیٹیس اور گھٹیا مواد کا دیکھنا پڑھنا ،بچوں کا دن رات فیس بک اور انٹر نیٹ کا استعمال اخلاق سوز گفتگو اور چیٹنگ ،فیس بک فرینڈز کا کریز ۔تھرل کے لیے اخلاقیات کی حدود پار کرنا۔اور انجوائے کے نام پہ غیر اخلاقی حرکات۔یہ سب تباہیاں نہیں تو اور کیا ہے۔کسی نے ٹھیک ہی کہا اب جنگ کے قواعد بدل گئے پہلے یہ ہتھیاروں سے لڑی جاتی تھی اب اس کو میڈیا کے تھرو وائرل کر دیا گیا ہے۔نئی نسل کو مخرب اخلاق چیزوں کی طرف لگا دیا اور پھر یہ ہوا کہ ہماری نئی نسل کی توجہ بٹ گئی وہ اپنی اقدار کو چھوڑ کے مادر پدر آزادی کی طرف جا رہی ۔اخلاقی و نفسی گراوٹ کے کئی بہانے تراشے گئے ۔معاشرے میں ایسے ایسے کیسز سامنے آئے کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ۔.اور اس میں حکومت کا بھی برابر کا ہاتھ ہے اگر وہ مواصلات کے شعبے میں ترویج کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ مخصوص ویب سائیٹس ہی کو آن کیا جائگا تو بہتری آسکتی ۔اس کے علاوہ تحریری لٹریچر ۔مواصلاتی لٹریچر۔میڈیا کے ڈرامے۔الغرض بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے۔اور درحقیقت اپنی نسل نو پر توجہ دے کر ہی ملکی اور معاشرتی انحطاط کا ازالہ کرکے اپنی شناخت بحال کر سکتے۔

آخر کب تک ہم اس شناخت کے ساتھ دنیا کا سامنا کریں گے کیا نسل نو کے دامن میں بھی یہی نوحہ عظیم ڈال کر جائیں گے ؟ہمیں بحیثیت پاکستانی قوم سوچنا ہوگا کہ ہمیں اپنی سابقہ شناخت کو بدلنا ہے اور ایسا بدلنا کہ جب بھی پاکستانی کا لفظ بولا جائے تو اس میں ایک حب الوطن کی خوشبو آئے اس کے اوصاف حمیدہ کرپٹ ۔متشدد بے ایمان قوم نہ ہوں بلکہ ایماندار اور بااخلاق میانہ رو قوم کے طور پر بیان کیے جائیں ۔یہاں ایک اور بات قابل ذکر کہ ہم ذات پات، فرقہ واریت اور صوبائی عصبیت سے بالا تر۔ہو کر صرف ایک پاکستانی قوم کی شناخت کو پروان چڑھائیں تاکہ اپنے اوپر لگے داغوں کو دھو سکیں ۔اگرچہ یہ کام اتنا آسان نہیں مگر کچھ بھی ناممکن نہیں ضرورت تو صرف عمل کی ہے گفتار کی غازیت چھوڑ کر کردار کی غازیت ہی ہمیں اب اس بحران سے نکال سکتی ہے ۔ ہمیشہ ان قوموں نے ترقی کی جو اپنی قومی شناخت کو ساتھ لے کر چلیں اور وطن پرستی کے جذبے کو سب سے پہلے اولین ترجیح پر رکھا ۔مگر ہم ساری ذمہ داری حکومت پر ڈال کر بری الذمہ ہوجاتے جبکہ شناختی بحران قوم کا لایا ہوا ہے حکومت کا کردار تو محض بیس تیس فیصد ہے جبکہ عوام ستر فیصد پر مشتمل ہے ۔تو کیا ستر فیصد لوگ اپنی شناخت نہیں بنا سکتے ؟ یقینی طور پر بنا سکتے ۔ہمارے جذبے زندہ ہیں وطن سے الوہی محبت زندہ ہے وہی تو محبت ہے جو ہمیں مشکلات میں ایک کر دیتی تبھی تو کہا جاتا۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

تو ضرورت تو نمی کی ہے اس سیرابی کی جو ہمارے اندر ہی پوشیدہ ہے بس محرک کی ضرورت ہے تحریک درکار ہے اپنی ذات سے ایمانداری اور خلوص چاہیے پھر دیکھیں اس بنجر زمین سے کیسے شناخت کا پودا نمو پاتا اور پروان چڑھتا ہے ۔یہی وہ فصل گل ہے جو ہماری نسل نو کو آفتاب کی مانند افق دنیا پر چمکا دے گی ۔ہمیں اب ذاتیات سے بالا ہو کر رنگ ونسل۔ مذہب اور لسانیات سے بالا تر ہو کر صرف اور صرف پاکستانی بننا ہے کیونکہ اسی میں ہماری بقا پوشیدہ ہے.