ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ، دن اور سال کا تعین:

بعض حضرات، سادہ لوح مسلمانوں کو یہ کہہ کر ان کے ایمان افروز جذبات کو مجروح کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں کہ 12 ربیع الا ول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت نہیں بلکہ وفات کا دن ہے۔ اس لئے اس روز خوشی منانے کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ تو غم ، افسوس اور سوگ کا دن ہے ۔
سوال یہ ہے کہ درحقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت و وفات ، قمری و عیسوی تقویم کے مطابق کیا ہے؟؟

سوال:
بعض حضرات، سادہ لوح مسلمانوں کو یہ کہہ کر ان کے ایمان افروز جذبات کو مجروح کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں کہ 12 ربیع الا ول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت نہیں بلکہ وفات کا دن ہے۔ اس لئے اس روز خوشی منانے کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ تو غم ، افسوس اور سوگ کا دن ہے ۔
سوال یہ ہے کہ درحقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت و وفات ، قمری و عیسوی تقویم کے مطابق کیا ہے؟؟

الجواب بعون الوھاب:

ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ، دن اور سال کا تعین:

ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ، دن اور سال کا تعین:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ عام الفیل مورخہ 12 ربیع الاول بروز پیر بمطابق 22 اپریل سن 571 عیسوی میں ہوئی۔

عیسوی تاریخ 22 اپریل 571 عیسوی میں کوئی اختلاف نہیں۔

پیر کے دن پر بھی کوئی اختلاف نہیں کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث ہے:
حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسی روز میری ولادت ہوئی اور اسی روز میری بعثت ہوئی۔‘‘
(مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب استحبابِ صيام ثلٰثة أيام من کل شهر، 2: 819، رقم: 1162)

تاریخ ولادت 12 ربیع الاول پر دلائل:
1۔ امام ابوبکر بن ابی شیبہ رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ :
عن عقان عن سعید بن مینار عن جابر و ابن عباس انھما قال ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل یوم الاثنین الثانی عشر من شھر ربیع الاول ۔
ترجمہ :عقان سے روایت ہے وہ سعید بن مینار سے روایت فرماتے ہیں اور وہ حضرت جابر اورحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھم سے راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت عام الفیل میں پیر کے روز بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔
(سیرۃ النبویہ لابن کثیر جلد 1 صفحہ 199، البدایہ والنھایہ جلد 2، صفحہ 260)

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اور تمام راوی مستند اور ثقات ہیں:
۱۔ امام ابوبکر بن ابی شیبہ رحمہ اللہ المتوفی 235ھ - مصنف ابن ابی شیبہ کے مولف، امام بخاری و مسلم رحمھما اللہ کے استاد محترم ہیں۔ (تہذیب التہذیب جلد 6، صفحہ 403)
۲۔ دوسرے راوی امام عقان رحمہ اللہ ہیں جو کہ بلند پایہ محدث ، صاحب ضبط اور اتقان تھے۔ (تہذیب التہذیب جلد 7، صفحہ 231)
۳۔ تیسرے راوی امام سعید بن میناررحمہ اللہ ہیں۔ محدث ابن معین اور امام ابو حاتم بن حبان رحمھما اللہ نے ان کو ثقہ کہا۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے الجرح و التعدیل میں ثقہ کہا۔ (تہذیب التہذیب جلد 4، صفحہ 91)

2۔ سیرت رسول لکھنے والے پہلے سیرت نگار، صاحب المغازی امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ المتوفی 150ھ نے سیرت ابن اسحاق میں نقل فرمایا کہ :
ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین لا ثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من شھر ربیع الاوّل عام الفیل ۔
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پیر کے دن بارہویں ربیع الاوّل کو عام الفیل میں ہوئی۔
(السیرۃ النبویہ، لابن ہشام ، جلد1، صفحہ 181)
اس روایت کو امام بیہقی رحمہ اللہ المتوفی 458ھ نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ کے پہلے باب کی حدیث نمبر 4 میں بھی نقل فرمایا ہے۔

3۔ تاریخ اسلام لکھنے والے پہلے مورخ، امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ المتوفی 310ھ لکھتے ہیں کہ :
ولد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل لا ثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت پیر کے روز ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو عام الفیل میں ہوئی۔ (تاریخ طبری ، جلد 2، صفحہ 125)

امام ابن کثیررحمہ اللہ المتوفی 774ھ اسی حوالے سے بہت سی روایات کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ :
وھذا ھو المشھورعند الجمھور۔ یعنی جمہور علماء کے نزدیک نبی اکرم کی تاریخ ولادت 12 ربیع الاول ہی مشہوراور ثابت ہے۔ (سیرۃ النبویہ جلد 1، صفحہ 199)

رسول اللہ کی وفات کی تاریخ ، دن اور سال کا تعین:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات بروز پیر مورخہ 1 یعنی یکم ربیع الاول 11 ہجری بمطابق 28 مئی سن 632 عیسوی میں ہوئی۔

تاریخ وفات کے تعین پر دلائل:

1۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! تمہاری کتاب ( قرآن ) میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو۔ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس ( کے نزول کے ) دن کو یوم عید بنا لیتے۔ آپ نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے جواب دیا ( سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 3 کہ ) ”آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اس دن اور اس مقام کو ( خوب ) جانتے ہیں جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ( اس وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوم عرفہ میدان عرفات میں جمعہ کے دن کھڑے ہوئے تھے۔
( صحیح بخاری ، کتاب الایمان حدیث نمبر 45 )
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حجۃ الوداع سن 10 ہجری میں یوم عرفہ جمعہ کا دن تھا۔

2۔ کتب سیرت و تاریخ اس بات پر متفق ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات کی ابتدا ماہ صفرمیں ہوئی۔
صاحب المغازی امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ المتوفی 150ھ نے اپنی کتاب سیرت ابن اسحاق میں اورامام محمد ابن سعد رحمہ اللہ المتوفی 230ھ نے اپنی کتاب طبقات ابن سعد میں لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت صفر میں بدھ کے روز شروع ہوئی اور آپ کی علالت کا دورانیہ 13 دن بیان ہوا ہے۔ اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ وصال مبارک ماہ ربیع الاول میں ہی ہوا۔

3۔ حضرت انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھایا کرتے تھے۔ پیر کے دن جب لوگ نماز میں صف باندھے کھڑے ہوئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ کا پردہ ہٹائے کھڑے ہوئے، ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک (حسن و جمال اور صفائی میں) گویا مصحف قرآن کا ورق تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا کر ہنسنے لگے۔ ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ خطرہ ہو گیا کہ کہیں ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے ہی میں نہ مشغول ہو جائیں اور نماز توڑ دیں۔ جناب ابوبکررضی اللہ عنہ الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر صف کے ساتھ آ ملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اشارہ کیا کہ نماز پوری کر لو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ڈال دیا۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اسی دن ہو گئی۔
( صحیح بخاری حدیث نمبر 680 )
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپ کا وصال پیر کے دن ہوا۔

درج بالا دلائل سے تین باتیں متعین ہوتی ہیں:

اولاً، رسول اللہ نے میدان عرفات میں سن 10 ہجری یوم عرفہ یعنی 9 ذوالحج کو جمعہ کے دن خطبہ دیا۔

ثانیاً، آپ کی علالت سن 11 ہجری، ماہ صفرمیں بدھ کو شروع ہوئی جو 13 دنوں پر مشتمل رہی۔

ثالثاً، آپ کی وفات پیر کے دن ربیع الاول میں ہوئی۔

صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ ہجری مہینہ یا 30 دن کا ہوسکتا ہے یا 29 دن کا۔

اگر 9 ذوالحجہ جمعہ کے دن سے حساب لگایا جائے تو درج ذیل چار صورتوں میں سے کسی صورت میں بھی یوم وصال 12 ربیع الاول نہیں ہو سکتا:
یہ بات چارٹ / تصویر کی شکل میں بھی دکھائی گئی ہے۔

1- تینوں مہینے (ذی الحجہ، محرم، صفر) 30 دن کے ہوں۔ اس صورت میں 12 ربیع الاول اتوار کو ہے۔ جبکہ پیر کا دن 6 یا 13 ربیع الاول کو ہے۔ یہ صورت ویسے بھی ناقابل قبول ہے کیونکہ چاند کے تین لگاتار ماہ 30 دن کے نہیں ہوتے۔

2- تینوں مہینے (ذی الحجہ، محرم، صفر) 29 دن کے ہوں۔ اس صورت میں 12 ربیع الاول جمعرات کو ہے۔ جبکہ پیر کا دن 2 یا 9 ربیع الاول کو ہے۔ یہ صورت ویسے بھی ناقابل قبول ہے کیونکہ چاند کے تین لگاتار ماہ 29 دن کے نہیں ہوتے۔

3- دو مہینے 30 دن کے ہوں، اور ایک مہینہ 29 دن کا ہو۔ اس صورت میں 12 ربیع الاول ہفتہ کو ہے۔ جبکہ پیر کا دن 7 یا 14 ربیع الاول کو ہے۔

4- دو مہینے 29 دن کے ہوں، اور ایک مہینہ 30 دن کا ہو۔ اس صورت میں 12 ربیع الاول جمعہ کو ہے۔ جبکہ پیر کا دن 1 یا 8 ربیع الاول کو ہے۔

ثابت ہوا کہ 12 ربیع الاول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وصال نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ کا وصال صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق پیر کے دن ہوا جبکہ مندرجہ بالا صورتوں میں 12 تاریخ کو پیر بنتا ہی نہیں ہے۔

ان مفروضہ تاریخوں میں سے 6، 7، 8، 13، 14 ربیع الاول کی تائید میں کوئی روایت نہیں ہے، اور نہ ہی اس بابت کسی کا قول ہے۔ اس لیے یہ تاریخیں خارج از بحث ہیں۔
2 یا 9 ربیع الاول بھی ممکن نہیں کیونکہ چاند کے تین لگاتار ماہ 29 دن کے نہیں ہوتے۔

اب یکم 1 ربیع الاول کی تاریخ باقی بچتی ہے۔ اوردراصل یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وصال ہے۔
اس حوالے سے مستند روایات موجود ہیں:

۱۔ امام ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ المتوفی 852ھ نے اپنی کتاب فتح الباری شرح صحیح بخاری میں بیان کیا ہے کہ :
یکم ربیع الاول کی روایت کو ثقہ ترین سیرت نگارامام موسیٰ بن عقبہ متوفی 141ھ نے اپنی کتاب مغازی میں نقل کیا ہے اور مشہور محدث امام لیث بن سعد مصری متوفی 175ھ سے بھی یہی تاریخ مروی ہے۔
(فتح الباری شرح صحیح بخاری - باب وفات النبی)
۲۔ امام السہیلی رحمہ اللہ متوفی 581ھ نے بھی اپنی کتاب ''الروض الانف'' میں لکھا ہے کہ یوم وصال کے بارے میں یکم ربیع الاول کی روایت حقیقت سے قریب تر ہے۔
(الروض الانف فی شرح سیرۃ النبویہ ابن ھشام و ابن اسحاق - باب وفات النبی)

خلاصہ کلام:
یکم ربیع الاول ہی وہ تاریخ ہے جو محدثین کی روایت و درایت کے اصولوں، اصول تقویم اور چاند کی گردش کے قانون سے مطابقت رکھتی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں دو مہینے 29 کے اور ایک 30 دنوں کا قرار پاتا ہے ۔ اس تاریخ کو درست ماننے کی صورت میں ان روایات کی بھی تطبیق ہو جاتی ہے جن کی رو سے 9 ذوالحجہ یوم عرفہ کا دن جمعہ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کے آغاز کا دن بدھ ہے ، اور 13 دن علالت کے ہونے پر 18 صفربدھ بنتا ہے۔

چنانچہ یہ بات زیادہ قرین حقیقت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وفات پیر، یکم 1 ربیع الاول 11 ہجری بمطابق 28 مئی سن 632 عیسوی قرار دی جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

اللہ پاک ہمیں عقائد کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔
طالب دعا محمد عمار عامر
 

Muhammad Ammar Amir
About the Author: Muhammad Ammar Amir Read More Articles by Muhammad Ammar Amir: 12 Articles with 24144 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.