پرویز مشرف کے سیاسی این آر او، اور اس کی موجودہ استعمالات

ایک بات تو واضع طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ نواز شریف عمر اور بیماری کے ہاتھوں کسی حد تک ریٹائرڈ ہرٹ ہوچکے ہیں اور ان کی صحت کے حوالے سے مستقل میں ان کا دوبارہ چلت پھرت کے ساتھ سیاسی میدان میں پنجہ آزمائی کرنا اب دیوانے کی بڑ معلوم ہوتا ہے-

لیکن شہباز شریف اب اس میدان کے شہسوار کے طور پر سامنے آئے ہیں، مخالفین نے بڑی کوشش کی کہ شہباز شریف کو اپنے بڑے بھائی کی پیٹھ میں سیاسی چھرا گھوپنے پر مجبور کیا جائے تاکہ کسی طرح ن لیگ کو شیرازہ بکھیرا جاسکے مگر حقائق اور قرائن یہ بتاتے ہیں کہ شہباز شریف نے شارٹ کٹ طریقے سے اپنے کردار اور تربیت کے برخلاف جاکر ایسا کچھ بھی کرنے سے مکمل اور کامیابی کے ساتھ گریز کیا اور وقت کی اس نہج پر پہنچ پائے کہ اب نواز شریف عملی طور پر بہت حد تک سیاسی کریز سے پویلین میں واپس جارہے ہیں اور نئے بیٹسمین دامے درمے سخنے پرانے بیٹسمین کی غلطی سے اچھی طرح سبق سیکھ کر کریز کی جانب رواں دواں ہیں اور کسی حد تک ایمپائرز کو اپنے ساتھ ملانے کی غلطی اور غیر اخلاقی اور غیر قانونی حرکات کہ جنہیں اسپورٹس مین اسپرٹ کے منافی سمجھا جاتا ہے، اس طریقے کی غلطی اور چیٹنگ کرنے کے بجائے ایمپائرز کو نیوترل ایمپائرز میں تبدیل کرنے میں سرگرداں تھے اور غالبا فیلڈ ایمپائرز اور تھرڈ ایمپائر کو بھی کسی حد تک اخلاقی اور قانونی کردار ادا کرنے پر قائل کرکے بیٹنگ کرنے آرہے ہیں، اور ظاہر ہے کہ فیورنگ کے سابقہ نتائج کو دیکھ کر ایمپائرز بھی فیئر پلے پر راضی ہوچکے ہیں،

لہذا مہربان، قدردان قارئین کی خدمت میں اس کم علم، عاجز اور عاصی کا پرخام فہم اس بات پر مصر ہے کہ این آر او نہ دینے کے اور امریکہ میں خطابات کے دوران کفتان کے بلند و بالا اور واشگاف ارادوں یعنی پاکستان واپس جاکر نواز شریف اور دیگر سیاسی قیدیوں کو سلاخوں کے پیچھے مہیا ایئر کنڈیشنرز اور ٹی وی ہٹانے جانے کے بلند و بالا دعووں کے بعد پاکستان واپس آکر جس طرح مبینہ چوروں کو باآسانی باہر جانے کے راستے دئے جارہے ہیں ان سے جو صورتحال پیدا ہورہی ہے وہ یا تو شہباز شریف صاحب کی سیاسی فتح قرار دی جائے یا مولانا صاحب کا حالیہ دھرنہ یا جلسہ۔

موجودہ حکومت کے وزیرریلوے جنہیں ایک وقت میں کفتان شیدا ٹلی کے نام سے جانتے اور پکارتے تھے انہیں بھی نواز شریف کے متعلق پوچھے جانے والے سوالات پر عجیب کیفیت میں مبتلا دیکھا جاسکتا ہے اور ان کی شوخی اور حاضر جوابی کا حال دن بدن ابتر ہوتا چلا جارہا ہے، ان کے کچھ جلتے بجھتے جوابات شمع کے بجھنے سے پہلے بھڑکنے جیسی حالت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

موجودہ وزیراعظم جو کہا کرتے تھے کہ جس سے مرضی سفارش کروالی جائے جب تک میں زندہ ہوں کسی کو این آر او نہیں دوںگا۔ یہ اچھی بات ہے کہ کفتان اپنے یوٹرن لینے کو عظیم اسٹریجی قرار دیتے ہیں لہذا ان کے اس یوٹرن پر بھی انہیں کسی حد تک تنقید کا نشانہ بنانے کا کچھ فائدہ نہیں، کیونکہ جب وہ آئی ایم ایف جاکر قرضے لینے سے خودکشی کرنا بہتر خیال کرتے تھے اور پھر دوسری ہی سانس میں قرضوں کے جو ڈول ڈالے گئے وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے۔

اور حد تک یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز اور عقیدت مند نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر وضاحتیں دیتے ہوئے فرماتے پائے جارہے ہیں کہ کھربوں روپے پٹواری وزیراعظم سے وصولی کرکے موجودہ وزیراعظم نے انہیں جانے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے اور وہ کھربوں روپے پاکستان کو وصول ہوگئے ہیں اور قومی خزانے میں شامل ہورہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ قوم کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ قومی خزانے یعنی اسٹیٹ ریزروز اور ٹریژری میں ان کھربوں روپے یا ١١ ارب ڈالرز کی کثیر رقم کس وقت کس کھاتے سے ادائیگی میں کی گئی، لیکن مسئلہ یہ بھی کوئی نہیں ہے کہ ہم من الحیث القوم دروغ گوئی اور الزام تراشی جس آسانی سے کرسکتے ہیں اور خاص طور پر فیس بک اور سوشل میڈیا پر وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اب دیکھتے ہیں کہ ملک و قوم کو اربوں ڈالرز کی یہ رقم اگر مل جاتی ہے تو کسی حد تک معاشی طور پر تو بہتری کی امید کی جاسکتی ہے لیکن شرط یہی ہے کہ ایسا حقیقتا ہو اور کہیں یہ ماضی کی کہانیوں اور افسانوں کی طرح ثابت نہ ہوجائیں۔

باقی اب دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور ملک و قوم کو اس کے کیا نتائج حاصل ہوتے ہیں۔

 

M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 493182 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.