ننھا پانڈا

ننھا پانڈا پنکو آج کل بہت خوش تھا کیونکہ اس کی امی نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ سالانہ امتحانات میں اول پوزیشن حاصل کرے گا تو وہ اس کی سالگرہ پر اس کا پسندیدہ شہد لگا باداموں کا کیک منگوائیں گی اور ابو اسے ٹرائی سائیکل دلائیں گے ۔ پنکو خوش تو تھا لیکن ساتھ ساتھ تھوڑا پریشان بھی تھا کیونکہ اس کا پڑھائی میں کچھ خاص دل نہیں لگتا تھا اسے تو صرف باہر جنگل میں دوستوں کے ساتھ کھیلنا اور شہد اور کیلے کھانا بہت پسند تھا ۔ اب ظاہر ہے اول پوزیشن حاصل کرنے کے لئے تو بہت سارا پڑھنا پڑتا خاص طور پر سبق یاد کرنا تو دنیا کا سب سے مشکل کام لگتا تھا۔

رات بھر پنکو جاگتا رہا اور یہ ہی سوچتا رہا کہ کوئی ایسا طریقہ ہو کہ پڑھنا بھی نہ پڑے اور اول پوزیشن بھی آجائے۔

آخر کار صبح تک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آہی گئی ۔ اب پنکو بہت مطمئن تھا، صبح وہ خوشی خوشی “جنگل ماڈل اسکول“ جانے کے لئے تیار ہوا۔آج انگلش کا پرچہ تھا ، پنکو اپنی کلاس میں جا کے بیٹھ گیا۔

جونہی پرچہ شروع ہونے کی گھنٹی بجی ۔ انگلش کے سر ٹیڈی(بھالو) نے پرچے اور کاپیاں تقسیم کیں،
پنکو نے چپکے سے اپنے موزے میں سے ایک چھوٹا سا پرچہ نکالا اور کاپی کے نیچے چھپا کر نقل کرنا شروع کردی ۔ ٹیڈی سر بھی حیران تھے کہ پنکو بڑی خاموشی سے پرچہ حل کر رہا ہے کیونکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ پنکو کو پڑھائی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔

جب سر راؤنڈ لیتے پنکو لکھنا روک دیتا۔ سر کے جاتے ہی پھر شروع کردیتا، اسی طرح چھوٹے چھوٹے پرچوں سے پنکو نے بڑی چالاکی کے ساتھ نقل کر کے پرچہ حل کیا ۔ وہ چھوٹے پرچے دوبارہ موزوں میں چھپا کر ٹائم ختم ہونے کے بعد پرچہ سر کو دے کر گھر آگیا۔

اسی طرح بہت مزے سے سارے پرچے دیتا رہا اور امتحان ختم ہوگئے ۔

پنکو کو پورا یقین تھا کہ وہ لازمی اول پوزیشن حاصل کرے گا پھر وہ اپنی سالگرہ پر شہد لگا باداموں کا کیک خوب مزے لے لے کر کھائے گا اور جنگل میں اپنی خوب صورت سی ٹرائی سائیکل لے کر گھومے گا تو اس کے سب دوست بہت متاثر ہونگے۔

بالاآخر طویل انتظار کے بعد نتیجے کا دن آگیا ۔پنکو خوب تیار ہو کر امی ، ابو کے ساتھ رزلٹ لینے گیا،
جب دوسری جماعت کا نتیجہ سنانے کی باری آئی تو پنکو کا ننھا سا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا ۔ پرنسپل سر ایلی(ہاتھی) نے پہلی ، دوسری اور تیسری پوزیشن لینے والے بچوں کے نام پکارے مگر یہ کیا ہوا ۔ ۔ ؟

ان میں پنکو کا نام تو تھا ہی نہیں ۔ اسے تو بہت رونا آیا ۔تھوڑی دیر تمام بچوں کو ان کی جماعت میں رزلٹ کارڈ دیئے گئے ۔ جب پنکو کو رپورٹ کارڈ ملی تو اس میں بڑا بڑا لکھا تھا“ فیل “۔

اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ فیل ہوگیا ہے ۔ سارے دوسری جماعت کے بچے ہنس رہے تھے ، اس کا مذاق اڑا رہے تھے ۔

پنکو اپنی امی کے گلے لگ کے بہت رویا لیکن اس کے ابو بالکل خاموش بیٹھے اسے دیکھ رہے تھے ۔

پھر ابو نے پوچھا “ سچ سچ بتاؤ! تم نے امتحان سبق یاد کر کے دیا تھا یا نقل کی تھی“؟ پنکو کو ابو سے بہت ڈر لگ رہا تھا کیونکہ وہ شدید غصے میں تھے ۔ جب ابو نے دوبارہ سخت لہجے میں پوچھا تو پنکو نے روتے ہوئے بتایا کہ “میں نے نقل کی تھی کیونکہ مجھ سے یاد نہیں ہورہا تھا“۔

تب ابو نے بتایا کہ پرنسپل سر ایلی اور ٹیچر ٹیڈی سے ان کی پرانی دوستی ہے اور انہوں نے کہا کہ جب پنکو پرچہ حل کر رہا ہو تو چپکے چپکے خاموشی سے اس پر نظر رکھیں کہ وہ پرچہ کیسے حل کر رہا ہے ۔

تو جب وہ نقل کر رہا ہوتا تو سر ٹیڈی اور سر ایلی کو پتہ چل جاتا تھا لیکن وہ جان بوجھ کر اس کو پکڑتے نہیں تھے بلکہ ابو کو بتا دیا کرتے تھے اور اسی لئے انہوں نے اسے فیل کیا تا کہ اس کو سزا دے سکیں اور اب اس کی سزا یہ تھی کہ وہ دوسری جماعت دوبارہ پڑھے گا۔

اس کے سب دوست تیسری جماعت میں چلے جائیں گے پورے جنگل میں اس کی بدنامی ہوگی ۔

اب نہ اس کی سالگرہ پر شہد لگا باداموں کا کیک آئے گا اور نہ ٹرائی سائیکل آئے گی ۔

یہ سن کر پنکو کو بہت دکھ اور شرمندگی ہوئی اور اس نے امی،ابو اور سر سے وعدہ کیا کہ وہ اب بہت محنت سے پڑھے گا تا کہ ایمانداری سے اول پوزیشن حاصل کر کے اگلے سال تیسری جماعت میں جائے ۔

اب ابو ، امی ، پرنسپل سر ایلی اور ٹیچر سر ٹیڈی اس سے بہت خوش تھے ۔

(میری یہ کہانی ماہنامہ ساتھی میں مارچ دو ہزار دس کو شائع ہوئی تھی)
*Rizwana Khan*
About the Author: *Rizwana Khan* Read More Articles by *Rizwana Khan*: 48 Articles with 77328 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.