جاگ بنا دودھ جمدا نہیں

سنا تھا حنا رنگ لاتی ہے پتھر پہ پس جانے کے بعد ہیرا سینکڑوں بار کٹنے کٹانے کے بعدنگین بنتا ہے، ہزاروں سال نرگس کا کوئی دیدہ ور پیدا نہ ہونے پر رونا دھونا بھی سنا تھا،مگر ہتھیلی پر سرسوں کبھی جمتی نہیں دیکھی البتہ خواہش ہمیشہ بہت سے لوگوں کی رہی ہے مگر کچھ بھی فطرت کے خلاف کبھی اس سے قبل نہ ممکن ہوا ہے نہ ممکن ہو گا،معجزات کی بات البتہ الگ کہ وہ انبیا ؑصلحا کے ساتھ مختص ہیں،دانے کو گل و گلزار ہونے کے لیے خاک میں ملنا پڑتا ہے ،اخلاق عاجزی انکساری مومن کے اوصاف،اﷲ کے رسولﷺ کا ارشاد گرامی کہ مسلمان وہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں،غور کیجیئے ہاتھ کے ساتھ زبان بھی، کیازبان کسی کو زخم لگا سکتی ہے کسی کا سر کھول سکتی ہے نہیں مگر اس کا زخم چیر دینے اور کاٹ دینے کے زخم سے زیادہ گہرا تبھی کہا گیا کہ ہاتھ اور زبان سے دوسرا محفوظ رہے ،تو میں اور آپ مومن ہیں ورنہ فقط منافقت ،اسلام میں عاجزی پر زور اور اسلام کے نام پر بننے والی مملکت خداداد میں تکبر، غصہ ،عدم برداشت جوبن پر، دوسروں کے لیے حقارت اور ان کی تحقیر ،کیا حکومت اور کیا اپوزیشن ہر طرف گز گز بھر لمبی زبانیں،اﷲ نے آنکھیں دیں دیکھنے کو اور کان دیے سننے کو ہم آنکھوں سے سن اور کانوں سے دیکھ رہے ہیں ،ہر کسی کا ہر کسی پر لگایا الزام فورا قبول کر لیتے ہیں مگر جو سامنے ہے جو دن کی روشنی کی طرح عیاں اور نمایاں ہے اسے دیکھنے سے قاصر کیا ہم کلر بلائینڈ ہو چکے، کبھی کنٹینر پر ناچ گانے والے فنکار تھے آج وہاں باجماعت نماز ادا کی جا رہی ، ہم کل بھی راضی تھے ہم آج بھی راضی برضا لیڈر ہیں، بہتان کو ظلم عظیم قرار دیا گیا ہم دیکھے سنے بغیر کسی کو کرپٹ ،کسی کو ڈیز ل اور کسی کو یہودی تک کہے جا رہے ہیں ،نام بگاڑنے سے اﷲ کے رسول ﷺ نے سختی سے منع کیا ہم اپنے باپ سے بڑی عمر کے بندے کو وہ وہ القابات دے رہے ہیں کہ الامان ولحفیظ،کرپٹ کرپٹ کی گردان جاری ہے اور بس،وصولی ایک روپے کی بھی نہیں ،سب تھالی کے بینگن،جدھر عالی مرتبت مڑ جاتے ہیں سب پیچھے سورج کھی کا پھول،کل تک بیماری کا مذاق اڑانے والے آج معز ز اور تابعدار، اب آئیے دھرنے اور آزادی مارچ کی طرف ،کل تک جو مولانا صاحب کے لیے حرام تھا ایک منتخب حکومت کے خلاف احتجاج اور استعفے کا مطالبہ آج اچانک حلال ہو گیا دوسری طرف مثالی حکومت کی کارکردگی ملاحظہ کیجیے جو کل تک ان کے نزدیک حلال تھا آج وہ حرام ، آپ چار مہینے بیٹھے رہے اور صرف ایک سال بعد ہی آپ نے بھی استعفے کا مطالبہ کیا تھا ،نہیں مانا گیا تھا آپ بھی نہ مانیئے مگر احتجاج کا جائز اور جمہوری حق جیسے کل آپ کو تھا آج ان کو ہے مگر کیا کہیے کہ کل تک اگر معاملات زاہد حامدوں اور احسن اقبالوں کے ہاتھ میں تھے تو آج اعجاز شاہوں ،فردوس عاشق اعوانوں ،شیخ رشیدوں اور فواد چوہدریوں کے ہاتھ میں ہیں ،نہ کل کچھ بدلا نہ آج ، تو تبدیلی کدھر گئی،ٹرین کا ایکسیڈنٹ 80زندگیاں نگل گیا اور آپ حکمرانوں کی پھرتیاں دیکھیں پنڈی بیٹھ کر تحقیق مکمل کر کے اعلان کر دیا کہ آگ سلنڈر پھٹنے سے لگی ابھی آگ مکمل بجھی نہیں مگر تحقیق مکمل ،واہ واہ کیا بات ہے نجانے دنیا کیوں اتنے لائق اور قابل لوگوں کو ابھی تک پہچان نہیں سکی اور ان کی خدمات سے محروم چلی آ رہی ہے،ایک سلنڈر سے لگنے والی آگ نے تین بوگیوں کو جلا کر خاستر کر دیا اور حیرت کی بات کہ سلنڈر جو ں کا توں محفوظ،بھلے سلنڈر سے ہی لگی ہو گی مگر کوئی تحقیق و تفتیش کی زحمت تو کر لیتے، ادھر آگ کی خبر پہنچی ادھر تفتیش مکمل ہونے کا اعلان ہوا ساتھ ہی سیکورٹی گارڈ کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آ ر بھی درج کر دی گئی،وہی ایف آئی آر جو اگر کسی عام شخص کی چوری ہو جائے تو تھانے کے چکر لگا لگا کر مدعی اپنی چوری ہوئی اشیاء کی تفصیل اور تعداد بھول جاتا ہے مگر ایف آئی آر درج نہیں ہوتی ،اور اگر خدانخواستہ ڈکیتی ہو جائے تو پھر تو آپ بھول ہی جائیں ورنہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو ڈاکووں کا ساتھی ہونیکے شبے میں اندر کر دیا جائے،مگر خود کوئی گل کھلائیں جیسے سانحہ ماڈل ٹاون یا سانحہ ساہیوال تو کیا کہنے فورا نہ صرف ایف آئی آر درج ہوتی ہے نامعلوم ملزمان کے خلاف بلکہ تفتیش مکمل کر کے گنہگار و بے گناہ کا اعلان بھی کر دیا جاتا ہے ،یعنی کہ یہ خاک نشینوں کا خون تھا جو رزق خاک ہو گیا اﷲ اﷲ خیر صلہ،عام لوگوں کی حالت یہ کہ دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں ،مہنگائی ہے کہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے دیگر ترقیاتی کام فقط گا گے گی تک محدود،عام افراد کو ہر مہینہ ڈیڑھ بعد پیاری سی چپت رسید کی جاتی ہے اوے خبردار گھبرانا نہیں،کہا گیا تھا جب آئے گا کپتان بنے گا نیا پاکستان مگر کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا،نا اہلوں کا راج ایک سے ایک بڑا نااہل عوام کے سر پر سوا،وسیم اکرم پلس سے لیکر کپتان تک ہر کوئی نہ جانے کن خیالوں میں گم ہے،روم جلتا جا رہا ہے اور نیروہے کہ اسے اپنی بانسری سے ہی فرصت نہیں،اس حکومت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ مولانا جلسہ گاہ میں انہی کی طرح ان کے پرانے وڈیوکلپ چلوا دیں جو کبھی یہ چلاتے تھے ،یہ کہتے تھے ہم صرف چند ہزار لوگوں کے نکلنے پر گھر چلے جائیں گے ،ہم استعفے سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہوں گے اب کہتے ہیں ہمیں ایک ہی سال تو ہوا ہے اس وقت ایک سال یاد نہیں تھا،کبھی کے دن بڑے کبھی کی رات، جنہیں چپڑاسی نہ رکھنے کے دعوے تھے وہ آج اتالیق،جو سب سے بڑے ڈاکو تھے آج سب سے بڑے عہدے پر اور جو کراچی والے قاتل تھے جن کے خلاف بریف کیس لے کر کیس لڑنے لندن جا پہنچے تھے وہ آج یار غار، ایک ایک بات سے مکر گئے ،اب کہتے ہیں جو یو ٹرن نہ لے وہ بڑا لیڈر نہیں ہوتا،کشمیر پہ ایک تقریر کر کے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو گئے ،یار لوگ کہتے ہیں ہم نے جتنا سنجیدہ اس مسئلے کو لیا کسی نے نہیں لیا واقعی آپ نے پکا پکا مکو ٹھپ دیا،کسی طرف سے بھی سنجیدگی کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا حکومت کیا اپوزیشن، دشمن تاک میں کشمیر پر قبضہ پکا کر چکا ،افغان بارڈر پر چھیڑ چھاڑ الگ سے شروع،آزاد کشمیر پر حریص نظریں جم چکیں مگر ادھر ہر کسی کو فکر ہے تو صرف اپنے مفادات کی ،خدا را سوچیں مل بیٹھیں ،اپنے وزراء کی منجی تھلے ڈانگ پھیریں اہل اور قابل لوگوں کو آگے لائیں جن کو کسی کام کا کچھ توتجربہ ہو کبھی سیکھے بنا بھی کچھ ہوا ہے ،جتنا مرضی گرم کر لیں ابال لیں جاگ بنا دودھ کبھی نہیں جم سکتا، اگر یہ ممکن نہیں تو صرف پے سرو پا بیانات دینے سے ہی منع کر دیں کیوں کہ یہ جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں اور مصائب کے پہاڑ آپ کے لیے کھڑے ہو رہے ہیں،عوام کا ایک جم غفیر اسلام آباد پہنچ چکا ہے اور اسلام آباد نہ جانے کس کی مرضی اور منشا پر اس وقت کنٹینرآباد بن چکا ہے ہر سڑک ہر گلی میں کنٹینر پڑے ہیں ،بات کیجیئے مذاکرات کیجیے ،یہ سب لوگ بھی آپ کی طرح کے ہی پاکستانی ہیں ،اﷲ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ تم سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیعت کے بارے میں سوال کیا جائے گا ،یہ بھی آپ کی رعیت ہیں بہت بڑی رعیعت ،آپ یہاں بھی جواب دہ ہیں اور وہاں بھی یہاں تو کوئی طاقتیں اور لوگ آپ کو بچا لیں گے مگرڈریں ا س وقت سے کہ جہاں باز پر س کرنے والی ذات خالق ارج و سما ء ہو گی اور جوا بدہ آپ ہوں گے صر ف آپ،نہ کوئی عہدہ کام آنا نہ سفارش نہ کوئی طاقتور ادارہ ،،،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے۔