خون خاک نشیناں رزق خاک

لو جی ماڈل ٹاؤن کے مقتولوں کے بعد ساہیوال کے یتیموں کو بھی انصاف مبارک ہو،خروٹ آباد ، مقتول شاہ زیب اور دیگر مقتولین اور لواحقین انتظار کریں ،بس بے رحم انصافی کلہاڑا بلکہ آراآپ کے ہاں بھی آیا کہ آیا،کل ہی بلکسر انٹر چینج پولیس چیک پوسٹ کے عین اوپر بس عملے نے مسافر مار ڈالا ،ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے مگر نہ جانے ادھر یہ سیاہی کب ختم ہو گی قصور کیا تھا میں ملتان سے سوار ہوا تھا چکوال کے لیے بیوی بچے ساتھ ہیں مجھے چکوال اترنا ہے ،بس ضرور چکوال جاتی اگر دس بارہ سواریاں ہوتیں ایک تمھارے لیے نہیں جا سکتے عملے کا جواب ،ویرانے میں اتارنے کی کوشش،اچھا میر افالتو کرایہ ہی واپس کر دو میں آدھی رات کو بچوں سمیت کدھر جاؤں گا،کرایہ جیب میں ڈالنے کی بجاے سر میں راڈ پڑا اور مسافر صاحب تازہ تازہ بنی ریاست مدینہ میں فوری انصاف کی بھینٹ چڑھ گئے،بیوی بچہ اور پھوپھو کے سامنے تو یہ ظلم ہوا ہی بس میں اور دیگر چالیس افراد بھی سوار تھے جو بت بنے ڈرائیور کنڈکٹر اور ہیلپر کی طرف سے ایک مسافر کو فوری انصاف کی یہ فراہمی دیکھتے رہے،کسی کی غیرت نہ جاگی مگر جب انصاف کا عمل مکمل ہو جانے کے بعد بس عملے نے نعش کو گاڑی سے باہر پھینکا اور ساتھ اس کے اہل و عیال کو بھی پھینک کر بھاگنے کی کوشش کی تو تین چار درجن مٹی کے مادھووں کے کسی ایک تن مردہ میں جان پڑی اور اس نے فورا انگڑائی لی باقیوں کو بھی غیرت دلائی اور یوں مسافروں نے بس ڈرائیور کو وہیں روک کر نیچے اتر کر اسی جگہ واقع چیک پوسٹ پر موجود پولیس کے شیر جوانوں کو بھی جا کر ہلانے جلانے کے بعد بس اور عملہ ان کے حوالے کیا ،کہتے ہیں کسی علاقے میں طوطوں کا ایک جوڑا ہنسی خوشی رہتا تھا ،ایک دن طوطی کے من میں آئی کہ کہیں دور سیر کو چلیں طوطے نے روایتی شوہروں کی طرح سستی کا مطاہرہ کرتے ہوئے مصروفیت کا بہانہ بنایا مگر طوطی اپنی ضد پر قائم رہی ایک د ن طوطی کی روز روز کی کل کل سے تنگ آ کر طوطا میاں راضی ہو گئے اور دونوں سیر کو نکل کھڑے ہوئے، چلتے جاتے کہیں گھنے جنگلوں میں رکتے کہیں بازاروں گلیوں سے گذرتے ،کئی دن کی مسافت کے بعد ایک دن وہ ایک ایسی بستی میں جا پہنچے جو اجاڑ بیابان تھی،فصلیں تباہ ہریالی نہ ہونے کے برابر،سوکھے سڑے انسان ،جانوروں کی حالت ان سے بھی بدتر،ہر طرف بدبو اور گندگی کا راج،طوطی نے وہاں سے کھسک جانے کا کہا مگر طوطا بولا نہیں تباہی بربادی اور سنسانی کا سبب معلوم کرنا چاہیے طوطی نے لاکھ سمجھایا کہ یہاں سے نکل جائیں مگر طوطا نہ مانا اور ادھر ہی ایک درخت پر بیٹھ گیا اور طوطی کو بھی ساتھ بٹھا لیا ،درخت پر ایک الو کا بسیرا تو وہ واپس آیا انجان پرندوں کو دیکھا حال احوال پوچھا اور آنے کا سبب دریافت کیا ،اسے بتایا گیا کہ ہم سیر پر نکلے ہیں آج رات اس بستی میں رک کر اس کی ویرانی اور بربادی کا سبب معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا یہاں کہ لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ،کیا یہاں بارش نہیں ہوتی کیا یہاں کہ لوگ کام چور ہیں ،الو نے کہا ضرور رک جاؤ کل سبب معلوم ہو جائے گا،ساری رات طوطے طوطی کی الو کے ساتھ گپ شپ میں گزری صبح تک کوئی کام کی بات معلوم نہ ہو سکی تو طوطے نے کہاالو بھائی اب ہم چلتے ہیں اور جانے کی تیاری کی تو الو بولا ہم نہیں تم کہو،تم خود جا سکتے ہو مگر طوطی نہیں جا سکتی یہ میری بیوی ہے،طوطے کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی حیران و پریشان ہو گیابولا یہ کیا بات کر رہے ہو بھائی یہ طوطی ہے جو طوطے کی بیوی ہو سکتی ہے یہ الو کی بیوی کیسے ہو سکتی ہے الو نے کہا میں کچھ نہیں جانتا یہ میری بیوی ہے اورا ب ادھر ہی رہے گی کوئی مائی کا لال اسے مجھ سے جد ا نہیں کر سکتاتم چاہو تو یہاں پر قاضی سے رجوع کر سکتے ہو مکمل فعال عدالتی نظام موجود ہے یہاں پر،طوطے نے جب کچھ پیش نہ چلتی دیکھی تو الو کے ساتھ قاضی صاحب کے پاس جا پہنچا،معاملہ قاضی کے سامنے رکھا گیا ،طوطے نے اپنا موئقف تفصیل سے بیان کیا ساری روداد بیان کی اور ساتھ اپنی طرف سے دانشمندی کی اور یہ بھی کہا کہ جناب چونکہ میں ایک طوطا ہوں لہٰذا فطرتی طور پر طوطی میری بیوی ہے طوطی کا الو کی بیوی بننا خلاف فطرت ہے،قاضی نے الو کو موقع دیا الو بولا جناب دیکھیں ضرور یہ ایک طوطی ہے اور میں ایک الو ہوں مگر یہ میری بیوی ہے میں یہاں کا رہائشی ہوں یہ نہ جانے کون اور کدھر سے آیا ہے اگر یہ اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے کہیں کوئی ثبوت دے یا گواہ پیش کرے،قاضی نے طوطے کی طرف دیکھا اور گواہ کا پوچھا جو کہ ظاہر ہے نہیں تھا ،تھوڑی دیر انتظار میں رکھنے کے بعد قاضی نے فیصلہ الوکے حق میں دے دیا،طوطا طوطی جو الگ رو پیٹ رہ تھی کو دیکھ کر رو پڑا اور اسے تسلی دی کہ عدالت کا فیصلہ ماننے کے بنا کوئی چارہ نہیں ،الو طوطے اور طوطی کے ساتھ عدالت سے باہر آ گیا،باہر آکر بولا کہ اب کیا ارادہ ہے طوطا غمگین شکل بنا کر طوطی کو دیکھتے اور روتے ہوئے اڑنے لگا تو الو نے کہا ٹھہرو یہ تم بھی جانتے ہو اور میں بھی کہ طوطی الو کی بیو ی نہیں ہو سکتی ہے قدرت کے قانون کے خلاف ہے ،قاضی صاحب کو اتنی بات سمجھ نہیں آئی مگر تمہیں ضرور یہ بات سمجھ آ گئی ہو گی کہ یہ بستی کیوں ویران ہے ،بستیاں جاہلوں سے نکموں سے یا پیسوں کی کمی بیشی سے ویران نہیں ہوتیں ،بستیاں ایسے قاضیوں او ر ان کے ایسے فیصلوں سے ویران ہوتی ہیں،یہ لو اپنی طوطی اور نکلو یہاں سے،مجھے یہ کہانی کل سانحہ ساہیوال کیس کے فیصلے کے بعد یاد آئی ،مگر قصور عدالت کا ہر گز نہیں، قصور ہمارے ہاں رائج اس نظام کا ہے جو کسی بھی صورت اس ظلم کے آگے بند باندھنے کو تیار نہیں، جو حکمران آتا ہے عوام کی فلاح بہبود اور بھلائی کی بات کرتا ہے مگر ہر بار ایک سے ایک بڑا دغا باز او ر دھوکے باز نکلتا ہے ،کل بھی لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مر رہے تھے آج بھی حالت اس سے بہتر نہیں بلکہ ابتر کہوں تو بے جا نہ ہو گا ، فرق صرف یہ ہے کہ تب ظالم چور ڈاکو اور لٹیرے ہم پر مسلط تھے اور اب ریاست مدینہ کے دعویدار فرشتے آگئے،نہ کل کسی کو اس ملک کے باسیوں پر رحم آتا تھا نہ اب آر ہا ہے لوگ گلیوں محلوں اور بازاروں میں مکھی مچھروں کی طرح ما رے جا رہے ہیں صرف ڈاکو مارتے تو اور بات تھی ،سانحہ ساہیوال ہو یا ماڈل ٹاون سب کے سامنے زندہ انسان بھون کر رکھ دیے گئے ،ساری دنیا نے قاتلوں کو دیکھا فائر مارتے دیکھا مگر نہیں دیکھا تو ہمارے نظام انصاف نے نہیں دیکھا، ایک سے ایک نئی اور بہیمانہ واردات وجہ صرف سزا کے نہ ملنے کا یقین ،نہ کوئی خوف نہ خطرہ جس کو جب چاہئے جدھر چاہے لڑھکا دو،شاہ زیب جتوئی ،سانحہ ساہیوال،مشال خان،سرفراز شاہ،ساہیوال کے مظلوم خروٹ آباد یا ماڈل تاون ہر جگہ فتح قاتلوں کی ،مقتولوں کو انصاف کے لیے مرنا تو پڑا ہی اب قیامت تک انتظار بھی کرنا ہے کہ محشر کی گھڑی پبا ہو گی تو قاتل کٹہرے میں لائے جائیں گے،جتنے مر گئے ختم ہو گئے نہ کوئی نشان نہ والی نہ وارث نہ کسی قاتل کا اتہ نہ پتہ،خون خاک نشیناں رزق خاک ، ماں کے جیسی ریاست کیا ہوتی ہے اور کہاں ہوتی ہے،حضرت علی ؓ کاقول ہے کہ ظلم پر مائل معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر نا انصافی پر مائل معاشرہ مٹ جاتا ہے ،انتظار کیجیے کہ مولا علی کو اﷲ کے رسول ﷺ جو وجہ وجود کائنات ہیں نے باب علم کا لقب دیا تھا اس لیے انکی کہی بات غلط نہیں ہو سکتی،اپنی برباد،ی کا انتظار کیجیے،،،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے۔
 ac