گاندھی جینتی ، مہاتما گاندھی یونیورسٹی اور ہجومی تشدد

ملک بھر میں گاندھی جی کی ۱۵۰ ویں جینتی بڑے تزک و احتشام سے منائی جارہی ہے۔ ایسے میں گاندھی جی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوے گوڈسے وادی انتظامیہ نے وردھا میں مہاتما گاندی انترراشٹریہ ہندی یونیورسٹی کے 6 طلبا کو ملک میں بڑھتے ماب لنچنگ کے واقعات اور ریپ کے ملزمین کو بچانے سمیت دیگرمسائل پر وزیراعظم کو خط لکھنے اور دھرنا دینے کے سبب گاندھی جینتی کے ایک ہفتہ بعد معطل کردیا۔ یونیورسٹی کے رجسٹرار راجیندر سنگھ نے اجتماعی دھرنے کو 2019 اسمبلی انتخاب کی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگا کر یہ زیادتی کی ۔ یہ طلباء الیکشن تھوڑی نا لڑرہے تھے جو ان پر ضابطۂ اخلاق کا اطلاق ہوتا؟ معطل شدہ چندن سروج کے مطابق دھرنے میں سیکڑوں طلبا نے شرکت کی مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے چن کر صرف 3 دلت اور 3 او بی سی طلبا کے خلاف کارروائی کی ۔ اس طرح گاندھی جی کے مساوات کا سپنا بھی ساکارہو گیا۔

ہجومی تشددکا نام سنتے ہی نہ جانے اس حکومت پر کیوں لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ اس سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھنے والی 49ممتاز شخصیات کےخلاف تین اکتوبر ۲۰۱۹؁ یعنی گاندھی جینتی کے اگلے ہی دن بغاوت اور امن و سکون میں خلل ڈالنے کا الزام لگا کرایف آئی آر درج کی گئی۔23 جولائی ۲۰۱۹؁ کو وزیراعظم کو تحریر شدہ خط میں ماب لنچنگ کرنے والوں کے لیے جلد از جلد سخت سزا کا مطالبہ کرتے ہوے مسلمانوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں پر ہجومی تشددکی فوری روک تھام پر زور دیا گیا تھا۔ مذکورہ خط میں جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے قومی ادارے این سی آر بی کےاعداد و شمار کا حوالہ دے کر کہا گیا تھا کہ سال 2016 میں دلتوں کے ساتھ کم سے کم 840 واقعات رونما ہوئےنیز بہت کم لوگوں کو سزا دی گئی۔ اس مکتوب میں دو چونکانے والے حقائق کے اوپر سے پردہ اٹھایا گیا۔ اول تو یہ کہ تقریباً 90 فیصد معاملے مئی 2014 یعنی مودی جی کے اقتدار پر فائز ہونےکے بعد رونما ہوے ۔ وزیراعظم کے ایوان پارلیمان میں لنچنگ کے واقعات کی مذمتی بیان بازی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا کیونکہ قصورواروں کے خلاف کوئی ٹھوس کاروائی نہیں ہوئی۔

اس خط کے اندر دوسرا اہم انکشاف یہ تھاکہ جئے شری رام کا نعرہ ہتھیارِ جنگ بن گیا ہے۔ اس سے نظم و نسق کا مسئلہ کھڑا ہو رہا ہے۔ یہ قرون وسطیٰ نہیں ہے۔ ہندوستان میں کئی لوگوں کے لئےرام کانام مقدس ہے۔ اس لیے رام کے نام کوبدنام کرنے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ حکومت وقت کے ذریعہ اپنے ہی شہریوں کوغدار وطن یا شہری نکسل وادی قرار دینے کی مذموم حرکت پر جمہوریت کی دہائی دے کر لگام لگانے کا مطالبہ بھیکرتے ہوےسرکار کےخلاف اٹھنے والی آوازوں کو ملک مخالف جذبات کے ساتھ جوڑ نے سے منع کیا گیا تھا لیکن ایف آئی آر نے بعینہٖ وہی سب کردیا کہ جس کا ڈر تھا۔ اس ایف آئی آر نے ملک بھر کے حریت پسندوں کاچین و سکون غارت کردیا اس کے باوجود آگے چل کر ملک کے 185 قلم کاروں اور فنکاروں نے دانشوروں کے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہونے کی سخت مذمت کردی اوروزیراعظم کو لکھے گئے مکتوب میں ظاہر کردہ تشویش کی حمایت کردی ۔

انڈین کلچرل فورم کے توسط سے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ہماری ثقافتی برادری کے ذریعہ ماب لنچنگ کے خلاف خط لکھنا ملک سے غداری نہیں ہے۔ ان کی حق گوئی کو دبانے کی سازش میں عدالت کا استعمال قابلِ مذمت ہے۔ ایک باشعور شہری ہونے کے ناطے وہ سب وزیراعظم کو لکھے گئے خط کے ہر لفظ کی حمایت کرتے ہیں۔ اس دوسرے مکتوب میں عوام و خواص سے ہجومی تشددکے خلاف صدائے احتجاج بلندکرنے کی گزارش کی گئی تھی۔ اس پر دستخط کنندگان میں معروف قلم کار نین تاراسہگل،رقاصہ ملیکا سارابھائی،نصیرالدین شاہ،سہاسنی علی، اشوک واجپئی، چندر کانت پاٹل، گری دھر راٹھی، گیتا ہری ہرن، ہرش مندر، ششی دیش پانڈے، ایرا بھاسکر اور مردولا گرگ وغیرہ شامل تھے ۔

سنگھ پریوار کی ہٹ دھرمی کے پیش نظر اس بات کا قوی امکان تھا کہ وہ سو سے زیادہ معروف لوگوں کے ذریعہ ان پچاسی دانشوروں کی مخالفت کرائے گا لیکن اس نے خلاف توقع عقل کے ناخن لے لیے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار تو کمبھ کرن کی نیند سوتے رہے مگر ان کے نائب سشیل کمار مودی اچانک بیدار ہوگئے اور روز افزوں موب لنچنگ کے واقعات پر تشویش کا اظہار کر دیا ۔ انہوں نے مظفر پور میں درج غداری کے مقدمہ سے دامن جھاڑتے ہوے اعلان کردیا کہ اس سے بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کاکوئی تعلق نہیں ہے۔اپنی صفائی میں وہ بولے بی جے پی نے کبھی بھی ہجومی تشدد کی حمایت نہیں کی ہے۔ یہ ایسا سفید جھوٹ ہے کہ جس پر بھکتوں کے علاوہ احمق ترین انسان بھی یقین نہیں کرسکتا ۔بی جے پی کے ارکان اسمبلی اور پارلیمان ہجومی تشدد کی درپردہاور علی الاعلان حمایت کر تے رہے ہیں۔ان کے ذریعہ ہجومی تشدد میں ملوث مجرموں کی پذیرائی سے لے کر تحفظ تک کی مذموم کوشش اخبارات کی زینت بنتی رہی ہے ۔ بہار کےہمسایہ جھارکھنڈ میں جینت سنہا اور اتر پردیش کے یوگی ادیتیہ ناتھ اس کی مثالیں پیش کرچکے ہیں ۔ بہار کے گری راج سنگھ بھی اس بابت کافی بدنام ہیں ۔ اس احتجاج سے خوفزدہ ہوکر پینترا بدلنے والے سشیل مودی پر ن م راشد کی نظم کا یہ قطعہ صادق آتاہے ؎
اِن کہی‘سے ڈرتے ہو‘جو ابھی نہیں آئی،
اُس گھڑی سے ڈرتے ہو،اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو،
پہلے بھی تو گزرے ہیں،دور نارسائی کے، بے ریا خدائی کے،
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزومندی،
یہ شبِ زباں بندی ہے رہِ خداوندی

بی جے پی رہنما سشیل کمار نے گھبرا کرسر سنگھ چالک موہن بھاگوت کے تازہ بیان کا حوالہ دیتے ہوے کہا کہ سنگھ ہجومی تشدد کے خلاف ہے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو انہیں یہ بتانا چاہیے کہ آخر اتنا طویل عرصہ بھاگوت خاموش کیوں رہے اور اس کو روکنے کے لیے سنگھ کی جانب سے کون سا عملی اقدام کیا گیا؟ سشیل کمار مودی نے وزیر اعظم کے بیان کی یاد دلائی حالانکہ وہ بھول گئے کہ اس میں بھی چھتیس گڈھ کی بدنامی کا حوالہ دے کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی مذموم کوشش کی گئی تھی۔ سشیل کمار نے کہا کہ ان یقین دہانیوں نے باوجود مبینہ دانشور ایک مقدمے باز پر بھروسہ کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ خط کے ردعمل میں مقدمہ درج ہوا بھاگوت کا بیان بعد میں آیا اس لیےمذمتّ کرنے والوں پر مقدمہ باز پر بھروسہ کرنے کا الزام بچکانہ ہے۔ خط کے اندر زبانی جمع خرچ کو ناکافی سمجھتے ہوے سرعت کے ساتھ مجرمین کے لیے قرار واقعی سزا کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

سشیل کمار مودی نے مقدمہ داخل کرنے والے وکیل سدھیر کمار اوجھاکو عادی مقدمہ باز (سیریل لیٹی گینٹ) قرار دیتے ہوےکہاکہ وہ شخص سابق وزیراعظم منموہن سنگھ، امیتابھ بچن، ریتک روشن سمیت کئی مشہور شخصیات کے خلاف مقدمات دائر کر چکا ہے۔ اس نے اب تک مفاد عامہ میں 715عرضیاں داخل کی ہیں اور چار سال قبل خودسشیل کمار کے خلاف بھی معاملہ دائر کیا تھا۔ ایسے سیریل لیٹی گینٹ کے تازہ مقدمہ کو طول دے کر انعامات واپسی مہم اور ٹکڑے،ٹکڑے گینگ کے لوگ مرکز ی حکومت کو اظہار رائے کی آزادی کا مخالف ثابت کرنے کی مہم چلارہے ہیں۔ یہ اگر حقیقت ہے تو سشیل مودی کو یہ بتا نا پڑے گا کہ گزشتہ چار سالوں میں جب سے ان کی حکومت بہار میں برسرِ اقتدار آئی ہے اور مرکز میں کمل کھلا ہے اوجھا جیسے بھکتوں کے حوصلے اتنے بلند کیوں ہوگئے ہیں؟ ان کی غیر ذمہ دارانہ حرکات پر لگام لگانے کے لیے موجودہ سرکار کیا کررہی ہے؟فی الحال اوجھا کے خلاف مقدمہ چلانے کا جو ارادہ ظاہر کیا جارہا ہے کہیں وہ اس احتجاج کا نتیجہ تو نہیں ہے؟سشیل کمار مودی نے اوجھا کے خلاف تو بہت کچھ کہہ دیا لیکن سوریہ کانت تیواری نامی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ (سی جی ایم) کے بارے میں خاموش رہے کہ جنھوں نےپولیس سپرنٹنڈنٹ کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا ۔ جبرو استبداد کی علمبردار روشنی سے ڈرنے والی سرکار کو جان لینا چاہیے ظلم تو ظلم ہے بڑھتا تو مٹ جاتا ہے بقول ن م راشد؎
تم مگر یہ کیا جانو،لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر،نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو؟روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں
روشنی سے ڈرتے ہو۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1221978 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.