بزدار کی آمد۔۔ کیوں دل جلانے کی بات کرتے ہو

زن زر زمین،دولت طاقت اقتتدار،کچھ نہیں کچھ نہیں مگر بہت بلکہ بہت سوں کے لیے سب کچھ ، شیر خدا حضرت علیؓ کا قول ہے کہ اقتدار ملنے پر لوگ بدلتے نہیں بلکہ بے نقاب ہوتے ہیں ،بہت کچھ بے نقاب ہو چکا جو رہ گیا آہستہ پردہ سرک رہا ہے سارا باطن ظاہر ہونے کو ہے بلکہ کافی کچھ تو اسی دن ہو گیا تھا جس دن پنجاب کے بار کرورڑ لوگوں کی قسمت میں بزدار نکل آیا تھا مگر بتایا گیا کہ گھبرانا نہیں یہ وسیم اکرم نہیں بلکہ وسیم اکرم پلس ہے مگر یہ تو پلس سے بھی آگے کی کوئی چیز نکلی مگر آفرین ہے ہمارے مہربانوں کو کہ اوپر والے دن کو رات کہہ دیں یہ رات ثابت کرنے کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملا دیں گے ،وہ صبح کو شام کہہ دیں یہ انکار کرنے والے پر فتویٰ ماری شروع کردیں گے ،پہلی کی طرح اب بھی شخصیات پرستی اپنے پورے جوبن پر ،کسی میں جرات نہیں کہ کم از کم غلط کو غلط نہ سہی ہلکی سی مذمت ہی کر دیں نہ کل نہ آج او ر نہ شاید آئندہ،ذہنی غلامی بلکہ غلام ابن غلام ابن غلام ،اگر وہ کہیں لیٹ جاؤ سب لم لیٹ وہ کہیں آگے آو یہ ایک دوسرے کو روند کر رکھ دیں گے کسی ایک کی بات نہیں کر رہا ہر طرف ایسا ہی حال ہے ،گذشتہ ادوار میں صورتحال انتہائی تکلیف د ہ تھی پھر ریاست مدینہ اور دو نہیں ایک پاکستان کے دعویدار آ گئے اور پچھلوں کے تمام ریکارڈز کا ستیاناس کر کے رکھ دیا،دعوے تبدیلی کے مگر کوئی ایک بھی کام ایسا نہیں جو پہلے والوں سے مختلف ہو ،وہی پروٹو کول وہی ہٹو بچو کی صدائیں وہیں عوام کیڑے مکوڑے ،وہی راج بھاگ کی خیر،گذشتہ روز ایک عام مگر خاص کی چکوال آمد ہوئی ،کہتے جن کو بزدار اور ہوتے وہ وزیر اعلیٰ پنجاب یعنی پنجاب کے شہباز شریف ہیں آج کل،گیارہ بجے آمد کا بتا کر ایک بجے پہنچے،جب تک خلق خدا انتطار کی اذیت نہ سہے ان کی طبیعت کو چین ہی نہیں آتا،وہی روایتی طریقہ واردات،وہی ہٹو بچو کا شور وہی سیکورٹی اہلکاروں کے جھرمٹ وہی پچیس سے پچاس گاڑیوں کا پروٹو کول،کیا بدلا شاید کچھ بھی نہیں سوائے لوگوں کی زندگی اور مشکلات کا شکار ہونے کے،عثمان بزدار کانفرنس ہال میں داخل ہوئے ساتھ دو منسٹر اور تین چار مقامی ایم این اے و ایم پی اے،سیدھے اسٹیج کی طرف ،درمیان میں ایک بار ہاتھ ہلا کر دوسو گز دور بیٹھے لوگوں کو آمد کی اطلاع کی ،اسٹیج اتنا دور تھا کہ ٹھیک طرح سے مہمانوں کی شکل بھی نظر نہ آ رہی تھی صرف یہ نہیں بلکہ عامیوں کے سامنے ہال کے اندر شاید تاریخ میں پہلی بار مہمانوں کے سامنے خار دار تار لگا کر انہیں ان کی اوقات کا اندازہ کروایا گیا جو شاید نہیں ہوا اور نہ ہو گا،جی ہاں میڈیا اور وی آئی پیز کو آگے بٹھا کر باقی لوگ جو یقینا پی ٹی آئی کے ورکرز تھے اور جن کا کہنا تھا کہ خان صاحب ہم پی پی پی یا ن لیگ کے لوگ نہیں جو آنکھیں بند کر لیں گے ہم غلط کو غلط کہیں گے اور میں انتظار کرتا رہا کہ شاید ابھی کوئی اٹھ کر صدائے احتجاج بلند کرے گا کہ یہ زیادتی ہے ریاست مدینہ کے حکمران یو ں اپنے آپ کو عوام سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کے سامنے رکاوٹیں کھڑی نہیں کرتے تھے مگر سواے چیمبر آف کامرس کے چند لوگوں کے کسی نے بھی تقریب کا بائیکاٹ کیا نہ اٹھ کر صدائے احتجاج بلند کی،مجھے امید تھی کہ شاید بزدار سرکار ہی یہ سب دیکھ کر سیکورٹی اہلکاروں کو جھاڑ پلا دیں گے کہ یہ تاریں یہاں کس نے اور کیوں رکھی ہیں مگر اتنا وژن ہوتا تو یوں جگ ہنسائی ہو رہی ہوتی پنجاب کی کہ قائم علی شاہ کا مذاق اڑانے والو اب بتاؤ،مجھے امید تھی کہ شاید کوئی مقامی ایم این اے یا ایم پی نہیں تو کوئی منسٹر ہی غیرت انصافی کا مظاہرہ کر کے بول پڑے گا کہ یہ میرے ان لوگوں کی توہین ہے جن کی وجہ سے میری گاڑی پر جھنڈا ہے ہٹاؤ یہ رکاوٹیں اور اس کو سامنے لاؤ جس نے یہ نادر شاہی حکم جاری کیا ہے مگر بلی کے گلے مین گھنٹ کو ن باندھتا یہاں تو مہنگائی کے خلاف بولنے والے اایم این اے کو خان صاحب نے بجائے تحسین کے سب کے سامنے جھاڑ پلا دی ،تبدیلی یوں اس واہیات طریقے سے اور اتنا جلدی ایکدپوز ہو گی اندازی نہیں تھا،اب یقین ہو چلا ہے کہ ان بے چاروں کے ہاتھ میں کچھ نہیں کچھ بھی نہیں معاملات کہیں اور سے چلائے اور کنٹرول کیے جا رہے ہیں ،ایم ایم پی اے تاروں کے اوپر سے آگے لپک کر لوگوں سے ہاتھ ملا کر شاید بتاتے رہے کہ تمہاری طرح ہم بھی بے بس ہیں ،بیٹھے رہو ہم بھی توبیٹھے ہیں، یاسر سرفراز نے چند جملے کہہ کر مائیک چھوڑ دیا کہ لوگ جس کو سننے آئے ہیں اس کو سنیں، کاش کہ وہ لوگوں سے پوچھ بھی لیتے اس کے بعد حافظ عمار یاسر صاحب کی باری آئی جذباتی انداز میں ضلع کی پسماندگی کا ذکر کیا ،چکوال تلہ گنگ میانوالی روڈز کی تعمیر کا مطالبہ کیا اور بتایا کہ جناب یہاں پر سینکڑوں لوگ مر چکے ہیں جب کہ ہزاروں معذور ہو گئے ہیں کوئی دن نہیں جاتا جب اس سڑک پر کوئی ایکسیڈنٹ نہیں ہوتا ،ضلع تلہ گنگ کا مطالبہ نہ جانے کیوں نہیں کیا گیا،جواب میں میڈم یاسمین راشد نے کہا کہ سڑکیں بنتی رہتی ہیں ہم اس سے بڑا کام کر رہے ہیں لوگوں کو انصاف ہیلتھ کارڈ دے رہے ہیں،ویسے حیرت کی بات ہے کہ ماں جیسی ریاست اپنے ہر شہری سے نجانے کب پیار کرے گی ورنہ جس کے پاس شناختی کارڈ ہے اسے ایک نئے کارڈ کی کیا ضرورت ہے،مگر جہاں مشیر ان کی فوج صرف شاہ کی ہر غلط صحیح پر ہاں میں ہاں ملانے والی ہو وہاں ایسے ہی نرالے کام انجام پذیر ہوتے ہیں ،بزدار صاحب جنہیں شاید ابھی تک اپنے وزیر اعلیٰ پنجاب ہونے اور اپنے اختیارات کایقین ہی نہیں سات منٹ بولے اور پرانے منظور ہو جانے والے کاموں کا ذکر کر کے غائب ہو گئے البتہ ٹی ایچ کیو لاوہ کا اعلان کر دیا دیکھیں کب بار آور ہوتا ہے اس کے علاوہ سب سے بڑ مطالبہ سڑک کی تعمیر تھا اس پرنوید سنا دی کہ یہ وفاقی حکومت کرے گی،یوں چکوال آمد مکمل ہوئی ،عثمان بزدار جدھر سے اور جیسے آئے تھے ادھر سے اور ویسے ہی نکل گئے پیچھے رہ جانیوالوں کے لیے مہمان روٹی کھا کر جائیں کا اعلان بھی کسی نے نہ کیا،چا ر چیک پوسٹوں سے گذارنے ،واک تھرو گیٹ سے چیک ہونے کے بعد جب سامنے خاردار تار لگائی گئی تو میں نے اپنے ایک سنئیر صحافی دوست جو تبدیلی سرکارکے لیے بہت نرم گوشہ رکھتے ہیں سے کہا کہ جناب ریاست مدینہ کی طرف بڑھتے قدم مبارک ہوں انہوں نے جواب دیا چھوڑو یار، کیوں دل جلانے کی بات کرتے ہو،مجھے چودہ پندرہ سال پہلے چوہدری شجاعت کا دورہ کلر کہار یاد آگیا ،بھون سے منارہ تک اور بھرپور سے چوا تک ہر چرند پرند کی حرکت کو بند کر دیا گیا تھا کہ وزیر اعظم پاکستان کی آمد ہے اور اعلان ہوا کہ جب وزیر اعظم پہنچ جائیں تو سڑک پر انسان تو کیا کوئی جانور بھی نظر نہ آئے ،وہی چوہدری شجاعت ہیں پہلے کی طرح آج اکیلے گھوم رہے ہیں نجانے کب سمجھ آئے گی کہ زندگی موت اﷲ کے اختیار میں اگر اتنا ہی موت سے ڈر ہے تو گھر بیٹھیں کس نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ میدان خدمت میں نکلیں اور اگر شوق ہے تو حضرت علی ؓ کے قول کو یاد کر لیں کہ موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے جب تک اس کا وقت نہیں آتا کوئی آپ کا با ل بیکا نہیں کر سکتا اور جب وقت نزع آ جاتا ہے تو یہ خاردار تاریں اور سیکورٹی کے جھرمٹ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ،نہیں یقین تو تاریخ دیکھ لیں سمجھ آجائے گی مگر تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ کوئی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتا۔۔۔اﷲ سب پر رحم فرمائے۔