عشق و عبودیت کا سفر

تین پا کیزہ روحیں !
لق ودق صحرا کے سینے پر عشق و عبو دیت کا سفر کر رہی تھیں۔
ان میں ایک مر د تھا ۔ ایک عورت تھی اور۔۔۔۔۔۔ ایک معصوم بچہ !
ابو سلمہؓ ، ام سلمہؓ اور سلمہؓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ مکہ چھوڑ رہے تھے مدینہ کی طر ف کوچ ہو رہا تھا ۔ حا لانکہ مکہ ان کا آبا ئی وطن تھا اور مدینہ یک سر پردیس ۔ گھر کے درودیو ار سے انسان کو گہر ی محبت ہو تی ہے ۔ وطن کی گلیاں بھی آدمی کو دل و جان سے زیا دہ عزیز ہو ا کرتی ہیں ۔ کا ر وبا ر او ر معا شی و سا ئل میں بھی جی اٹکا رہتا ہے ۔ دنیا اور اس کے علا ئق اور اس کے ظا ہری سہا روں کو آدمی کیا کچھ سپرد گی ‘ التفا ت عطا نہیں کرتا ۔

مگر یہ تینوں ان تمام چیزوں کو اپنے پیچھے چھوڑ ے چلے جا رہے تھے ! اور سامنے اب جو کچھ تھا و ہ ویران صحرا تھا اور صحرا کے اس پا ر مدینہ کی نئی بستی جہاں پہنچ کر انھیں از سر نو اپنی دنیا بسا نی تھی۔۔۔۔۔۔۔ نئے سرے سے زندگی شروع کرنی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ پھر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جا تا تھا۔

کوئی انھیں اس سفر پر مجبور نہیں کر رہا تھا ۔ کوئی لا لچ بھی نہیں تھا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ دیوانے بھی نہیں تھے تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔ آخر یہ کیا ہو رہا تھا اور کیوں ؟۔۔۔آکر یہ کون تھے؟‘‘

تا ریخ پکا ر پکا ر کر کہہ رہی ہے کہ یہ اللہ کے وفا دار بندے تھے اور ان کا یہ سفر عشق و عبودیت کا جاں نثا ر انہ سفر تھا ۔ ۔۔۔ وہ ہجرت کر رہے تھے۔۔۔۔ ہجرت جو ایک بہت بڑا جہا د ہے ۔۔۔۔۔ انسان کا خود اپنے عزیز ترین جذبا ت کے خلا ف جہا د !! خود اپنے ہا تھ سے اپنی شہ رگ پر تیشہ چلا نا ۔۔۔۔۔۔ خدا کو اپنا نے کی آرزو میں ان عزیز ولذیذ چیزوں سے خود کو کا ٹنا جو خدا اور بندے کے درمیان حا ئل ہو رہی ہیں ۔ یہی وہ سفر تھا جس کے پہلے ہی قدم پر انسان کے دل میں یہ با ت بیٹھ جا تی ہے کہ دنیا ئے رنگ وبو ایک ’’سرائے فا نی ‘‘ہے نہ کچھ کم ہے اور نہ زیاد ہ ؟۔۔۔۔ جہا ں انسان یہ دھو کا کھا رہا ہے کہ وہ مقیم ومکین ہے حا لانکہ وہ محض ایک مسا فر ہے‘ ایک را ہی ہے ۔۔۔۔۔ بلکہ محض ایک راہ گیر ہے جو خدا کے پاس سے آیا ہے اور خدا کی طرف ہر لمحہ پلٹ رہا ہے۔

یہ تھی وہ با ت جا ان کو شہر مکہ کے امینؐ نے بتا ئی تھی ۔ خدا کے رسول ﷺ نے بتا ئی تھی ۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اس نے کبھی اپنی عمر میں جھو ٹ بو لا ہی نہیں ۔۔۔۔۔ جو انسان کے سا تھ سچا ہو‘ وہ خدا کے معا ملہ میں جھوٹا کیسے ہو سکتا ہے ؟۔۔۔ اسی لیے ان لوگوں کو اس با ت کا اتنا ہی یقین آچکا تھا جتنا کسی بھی سچی سے سچی با ت پر کسی کو آسکتا ہے ۔

وہ اسی یقین سے سر شا ر گھر سے نکلے تھے ۔ یہی یقین تھا جس نے ان کو اپنے ان مکی گھر وں میں بے چین کردیا تھا جن کے چا روں طرف کفر وشرک کی قہرمانی طا قتیں گھیرا ڈالے ان سے کہہ رہی تھیں : ’’تم محض اس یقین سے دست برا دری دے دو تو ہم لو گ تمہیں کچھ نہ کہیں گے ۔۔۔۔ یہاں رہنا ہے تو تمہیں اس دنیا کو اپنا پہلا اور آخری گھر تسلیم کرنا ہوگا جو انسانی قبروں سے پٹی ہو ئی دنیا ہے ۔ پتھر کے ان سینکڑوں ’’خداؤں‘‘کے آگے جھکنا ہو گا جنھیں ہمارے تمہا رے ہا تھوں نے ترا شا ہے ۔ ایسا کرو گے تو تم ہنسی خوشی رہتے ہو۔ تمہا ری تجارتیں تمہا ری ہیں ۔ ایسا نہیں کرتے تو تمہا ری کوئی چیز بھی تمہا ری نہ رہے گی۔

یہ ’’دو یقین ‘‘ تھے کہ جو پو رے زور وشور سے ٹکرارہے تھے ۔ جن میں ایک خود فریبی تھا اور دو سرا خدا شنا سی ‘‘اور ۔۔۔ ’’خود فریبی ‘‘نے دیکھا کہ ’’خدا شنا سی ‘‘ نے بے جھجک اپنی سا ری دنیا اس ایمان ویقین کے دا ؤ پر لگا دی ہے اور وہ تینوں سا ری دنیا سے دامن جھا ڑ کر اپنے خدا کی طرف چل کھڑے ہوئے ہیں ۔ کتنے سچے اور کتنے کھرے تھے وہ اپنے ’’یقین ‘‘میں !

کفر وشرک آگ بگولہ ہو گئے ۔۔۔۔ جھلا ا ٹھے ! بو کھلا گئے ۔ کیسے ممکن تھا کہ اتنی بڑی قربا نی لے کر وہ ان کو اپنے جا ن وایمان سلامت لے کر یونہی چلا جا نے دیں ؟ کتنی شدید ہے وہ دشمنی جو طا غوت کو خدا سے ہے ۔ کفر کو ایمان سے ہے ! ابو سلمہؓ اور ام سلمہؓ دونوں کے اپنے اپنے قبا ئل نے دونوں طرف سے ان کا پیچھا کیا اور یک وحشیانہ حملہ کر کے نبی مغیرہ کے لو گ اپنے قبیلے کی خا تون ام سلمہؓ کو زبردستی گھسیٹ کر لے جانے لگے۔ دوسری طرف سے ابو سلمہؓ کے قبیلے نبی عبد اسد کے لو گوں نے ہلہ بو لا اور معصوم بچے سلمہؓ کو ما ں کی گود سے نو چتے ہوئے کہا : ’’ام سلمہؓ کے قبیلے والے اپنے قبیلے کی عورت کو لے جا تے ہیں تو یہ بچہ ہما رے قبیلے کا بچہ ہے ۔ یہ ہمارے سا تھ جا ئے گا!‘‘ اور بے کسی وبیچا رگی نے ماں با پ پر کرب طاری کر دیا ۔۔۔۔ دونو ں قبیلوں کے لو گوں میں اس بچہ پر وحشیانہ چھپنا جھپٹی ہونے لگی ۔ دل فگا ر واشکبا ر ماں با پ کی کسی نے نہ سنی اور اس کشمکش میں معصوم بچے کا ہا تھ اتر گیا ۔ بچے کی درنا ک جیخ بلند ہو ئی اور ما ں با پ تڑپ جا نے کے سوا کچھ نہ کر سکے !روتے روتے اور تڑپتے ہوئے بچہ کو نبی عبداسد والے لے کر چل ہی دیئے۔

تڑپتا ہو ا بچہ ماں با پ کی طرف ‘دیکھ کر تڑپ رہا تھا اور ایک سمت میں لے جا یا رہا تھا ۔

روتی اور سسکتی ہو ئی عورت جو ایک ما ں بھی تھی اور بیو ی بھی ۔ وہ دوسری طرف گھسیٹی جا رہی تھی لیکن وہ مرد جو ایک با پ بھی تھا اورایک شو ہر بھی ۔۔۔ مگر جسے اس وقت صرف اتنا ہی یا د رہ گیا تھا کہ ’’میں خدا کا غلام ہوں ‘‘۔ وہ اب بھی مدینے ہی کی طرف چل رہا تھا۔۔۔۔ خدا کا بندہ خدا کی طرف دوڑ رہا تھا ۔۔۔۔۔ اسے اب بھی یقین تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو با ت کہی ہے وہی حق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے اب بھی یقین تھا کہ یہ ابتلا ئے شدید بھی محص ایک ایمانی آزمائش ہے جس کا انجام ظا لموں کی شکست اور مظلوموں کی کا میابی ہو گا۔۔۔۔۔۔۔ با طل کی ہلاکت اور حق کی جیت اٹل ہے ۔ خدا کے یہاں دیر ہے اندھیرا نہیں ۔۔۔۔۔ کتنا مضبو ط بے خدا کا سہا را !! جہاں تمام سہا رے ٹوٹ کر رہ جا تے ہیں وہاں بھی یہ تنہا سہا ر ا دل ڈوبنے نہیں دیتا ۔ ما یو س ہونے نہیں دیتا ! ۔۔۔۔۔ شکست کھانے نہیں دیتا !!۔۔۔۔۔ مہیب سے مہیب حقا ئق اس سے ٹکراتے ہیں مگر خود ہی سر پٹخ پٹخ کر پاش پاش ہو جا تے ہیں اور یہ ’’سہا را ‘‘جوں کا توں قائم رہتا ہے ۔۔۔۔۔ بلکہ سچ پوچھئے تو ہر با ر کچھ اور مضبو ط ہو تا چلا جا تا ہے ! کیسے بے نصیب ہیں وہ لوگ جو اس سہا رے سے محروم ہیں ۔۔۔۔ اور اس سے محروم ہی رہنا چا ہتے ہیں !! اور اس سے محروم مر جا نا بھی گوارا ہے !

مگر ان تینوں کے لیے یہی سہا ر ا کا فی تھا اور کا فی ثا بت ہو ۔۔۔۔ واقعی وہ تینوں عظیم کا رنامے سے ہم کنا ر ہوئے جن سے سفینوں کو تھوڑی دیر کے لیے ابتلا ء و آزمائش کے طو فا نی تھپیڑوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بکھیر دیا تھا ۔ اگر چہ یہ کا میا بی ایک سال بعد ظاہر ہو ئی ۔ لیکن ہو ئی اور اسے ظا ہر ہونا تھا ۔ بشرطیکہ انسان انتظا ر کر سکے ۔ ایمان کفر کی طرح نا صبور اور جلد باز نہیں ۔۔۔۔ وہ صبر بھی کر سکتا ہے او ر انتظار بھی ۔۔۔۔ ! جاں کداز آزما ئش کے عالم میں ابو سلمہؓ اور ام سلمہؓ خدا کے فیصلے کا انتظا ر کر تے رہے ۔ مگر نہ مرد نے ہا ر ما نی اور نہ عورت نے ۔ ایک سال تک ابو سلمہؓ مدینہ میں اپنی شریک زندگی اور اپنے جگر پا رے سے جدا رہے ۔ ایک سال تک ام سلمہؓ ریگستان کے ذروں کے اپنے آنسوؤں سے تر کرتی رہیں ۔ ۔۔۔۔ کفر وشرک کے سینوں کی ہر ’’راحت‘‘ ان کی روح میں خا ر بن کر کھٹکتی ۔ وہ بیکل ہو ہو کر گھر سے نکلتیں اور صحرا میں جا جا کر اپنے نا دیدہ خدا کے حضور میں رویا کرتی تھیں ۔ بس یہی ایک شے تھی جس میں ان کو سکون ملتا تھا ۔ ماں ! با پ اور بچہ !۔۔۔۔ تینوں اپنی اپنی جگہ بے قرار بھی تھے اور اشک با ر بھی۔۔۔۔ مگر کیسے اطمینان کی یہ با ت تھی ان کے لیے کہ یہ ظالم دنیا ہم سے ہما را سب کچھ لوٹ لینے کے بعد بھی یہ محسوس کرنے پر مجبو ر ہے کہ وہ ہمیں لوٹ نہیں سکی ۔ اس لیے کہ ہما رے ایمان پر ہا تھ ڈالنا اس کے بس کی با ت نہیں ! سا ری دنیا بھی خفا ہو جا ئے تو ہو جائے ۔۔۔۔۔ وہ مطمئن تھے کہ ہما را خدا ہم سے را ضی ہے ۔ اور پھر ایک سال کی طویل آزما ئش ایک دن ختم ہو ہی گئی ۔۔۔۔ اور اس کے سا تھ ہی ان تینوں کے لیے جیسے تمام خوف ‘ تمام غم ختم ہو گئے ۔ یہا ں کوئی مصیبت کتنی ہی سخت کیوں نہ ہو مگر ہمیشہ جا ری نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔ یہ دنیا ہے جو فا نی ہے ۔۔۔۔۔ اس کے دکھ درد بھی فا نی ہیں ۔ وہ دن آیا جس دن کفر و شرک نے تھک ہا ر کر اس ’’مومنہ‘‘ کو اپنے چنگل سے خود یہ چھوڑ دیا ۔ اسے وہاں جا نے دیا جہاں وہ جا نا چا ہتی تھی ۔ یہ چیز سنتے ہی نبی عبداسد والوں نے بھی اس کے بچہ کو گود میں لا کر ڈال دیا ۔ فیصلہ کن طا قت ہی واحد طا قت ہے اور یہی طا قت صرف خدا کے پا س ہے خدا جس کی دو انگلیوں کے درمیان انسا نوں کے دل ہیں اور اور ان دلوں کو وہ جب اور جد ھر چا ہتا ہے ‘ پھیر رہا ہے ۔۔۔۔۔ پھیر تا رہے گا ۔ وہ تینوں جو اس بری طر ح جدا ہوئے تھے خدا نے انھیں پھر یک جا کر دیا ۔ درندوں کے چنگل سے نکا لا اور پتھر جیسے دلوں کو ان کے لیے مو م کر دیا ۔ وہ تینوں اشک با ر تھے ۔۔۔۔۔ مگر یہ آنسو خوشی اور شکر کے تھے ۔ شکر نعمت اور جذبہ مسر ت کے آنسوؤں میں بھیگے ہوئے دیدہ و دل پکا ر اٹھے ۔۔۔۔۔۔ ’’یا الہٰی! تیرا شکریہ ! تو نے ہی یہ آزمائش اتا ری اور تو نے ہی ہمیں اس کو جھیلنے کی طا قت دی ۔ تو نے ہی ہمیں اس میں کا میا ب کیا ۔ مصیبت ختم ہوگئی مگر ہمیں یقین ہے ما لک ! اس کا انعا م کبھی ختم نہ ہو گا ‘‘۔

کیسے اچھے تھے وہ لوگ جو اتنی سخت ‘ اتنی خوفنا ک آزمائش میں بھی کھرے اور پورے اترے تھے ! اور ہما ری صرف اتنی سی آزما ئش ہے کہ کوئی آزما ئش نہیں ! ۔۔۔۔ وہ صبر و ثبا ت کی زہرہ گدا ز گھا ٹی کو بھی ہنسی خوشی سر کر سکتے تھے لیکن ہم سے شکر عا فیت کا بھی حق کسی درجہ میں ادا نہیں ہو تا !۔۔۔۔۔ وہ یقیناً مومن تھے مگر کیا ہم بھی مومن ہیں ؟ مسلمان ہیں ؟...........یہ سوال آپ خود سے کیجئے ۔ اپنے یہ دل و ذہن کو ٹٹولیے اور دیکھئے کہ ظلمت کہ تہہ میں روشنی کا کوئی نقطہ ‘ کوئی لکیر با قی ہے یا نہیں ؟

کیا ہم بھی مو من ہیں ؟ کیا ہم بھی عشق رسو ل ﷺ کے دعو یدار ہیں ؟ کیا ہم بھی یہ کہتے ہیں ہم جشن آمد رسول ﷺ منا تے ہیں ؟ کیا ہم روز رسول ﷺ کے سنتوں پر عمل کرتے ہیں اور کتنے سنتوں کو چھوڑتے رہے ہیں ؟ کیا ہم سلمہؓ ، ام سلمہؓ اور ابو سلمہؓ کی طرح کر سکتے ہیں ؟ کیا صرف نبی ؐ کے پیدا ئش پر خو شیا ں اور شاد ما نیا ں منا نا چاہیے ، آج اگر ہما را ویلنٹا ئن ہو نا چا ہیے تو صرف نبی ؐ ہی ہو نا چاہیے صرف نبیؐ کے عشق و محبت میں اپنے زندگی کو گزار ہو نا چا ہتے اور نبی آخر ز ما ں کے سا تھ سچا عشق یہ ہے کہ اس کے سنتوں پر عمل کیا جا ئے ۔ اِس لیے ہر دن کو عشق آمد رسول ﷺ کا دِن منا نا چاہیے اور ہر ایک کا ویلنٹا ئن نبی ہی ہو نا چا ہیے ۔ انشا ء اللہ آنے والے ویلنٹائن ڈے پر ہم سب کا ویلنٹا ئن نبی ہو گا۔
izharullah
About the Author: izharullah Read More Articles by izharullah: 2 Articles with 1676 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.