الوداع! انقلاب

مطالبہ دونوں کا ایک تھا کہ منتخب حکومت گھر جائے،دونوں کزنز آگے پیچھے چلتے ہوئے اسلام آباد پہنچے اوردنیا نے شاید پہلی دفعہ دیکھا کہ ایک ہی حکومت کے خلاف دو قسم کے مظاہرین کی قیادت کرنے والے دو لیڈروفاقی دارا لحکومت میں اپنے الگ الگ کیمپ سجا کر بیٹھ گئے،ایک للکارتا کہ میں حکمرانوں کے گلے میں رسی ڈالوں گا اب یوم حساب آچکا ہے اور یہ کارواں اب استعفیٰ لیے بنا اور ماڈل ٹاون کے بے گناہ افراد کے قاتلوں کی گردن میں پھانسی کا پھندا فٹ کیے بنا واپس نہیں جاؤں گا دوسرا کہتا ایمپائر کی انگلی بس کھڑی ہونے والی ہے صرف آج کا دن اور کل انگلی کھڑی ہو جائے گی حکومت آؤٹ ہو کر پولین میں واپس لوٹ جائے گی،دوسری طرف حکومت نے ان کو بھر پور طریقے سے نظر انداز کرنا شروع کر دیا اور احتجاجی مظاہرین کو ان کا جمہوری حق دیتے ہوئے کسی بھی قسم کی رکاوٹ یا تشدد سے گریز کی پالیسی اختیار کر لی،جمہوری حق کے علاوہ ماڈل ٹاون سانحہ بھی پیش نظر تھا ، احسن اقبال اور چوہدری نثار جیسے جیسے سمجھ دار لوگ جان بوجھ کر آبیل مجھے مار کے چکر سے کوسوں دور بھاگ گئے،یوں اگر کسی کے پیش نظر کچھ زخمی یا شہید افراد سے کمک کی امید تھی تو وہ بھی مٹی میں مل گئی، دونوں برادرز پرتعیش کنٹینروں میں اور عوام ان کے سامنے سڑکوں پر ٹینٹ قناتیں لگا کر بیٹھ گئے، مقرر کسی کسی وقت کنٹنیر کے اندر سے نکل کر چھت پر آتے دھواں دھار تقیریر کر کے دوبارہ کنٹینر کے اندر سما جاتے شروع شروع میں جوش و خروش تھا مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ جوش ٹھنڈا پڑنا شروع ہو گیا جس کے لیے لیڈروں کو کنٹینروں سے باہر آنا پڑتا،دن کو لوگ گھومنے پھرنے نکل جاتے اور شام کو واپس آ جاتے ،سارا دن نعرے لگانے والے اب صر ف شام کے کچھ مخصوص اوقات تک محدود ہو گئے،احتجاج کا میلہ اب پورے دن کی بجائے صرف شام چھ بجے سے دس بجے تک سجتا اور پھر آرام کا وقت آجاتا،کچھ دنوں کی لگاتار محنت کے باوجود جب حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی تو اقتدار زبردستی چھیننے کا فیصلہ ہوا رات نو بجے کے قریب لیڈران نے جوشیلی تقریریں کیں وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا اور ریڈ زون میں داخلے کااعلان کر دیا ،صوفی نور محمد کی طرح ان دونوں برادران کو بھی شاید ریاست کی طاقت کا قطعا اندازہ نہیں تھا ابھی ریڈ زون کی ریڈ لائن بھی عبور نہیں ہو ئی ہو گی کچھ لوگ پی ٹی وی کی بلڈنگ میں گھس گئے جب معاملہ غلط سائیڈ پر جاتا نظر آیا تو ریاست کا صرف ایک ادار ہ پولیس حرکت میں آ گیا چوہدری نثار وزیر داخلہ تھے موقع پر پہنچے آنسو گیس کے چند شیل فائر ہوئے اور سروں پر کفن باندھے جوشیلے خواتین و حضرات واپس پلٹے اپنے لیڈروں کو آواز دی وہ پہلے سے ہی اپنی محفوظ کمین گاہوں (کنٹینروں) میں جا چکے تھے،غازیان انقلاب دوبارہ پہلی جگہ پر واپس آگئے اگلا دن لیڈران کا تھا تقریریں ہوئیں،مرنے مارنے کے دعوے ہوئے مگر ساتھ ہی یہ باور بھی کروایا گیا کہ ہم نقصان نہیں چاہتے اسمبلی کی عمارت میں اور پی ٹی وی میں گھسنے والے افراد سے دونوں جماعتو ں نے لاتعلقی کا اظہار کیا اور معاملہ پہلے کی طرح رواں دواں رہا،طاہر القادری صاحب کو منانے کے لیے حکومتی وفد احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق وغیرہ آتے رہے مگر ادھر سے ایک ہی اعلان ہو اکہ جب تک قاتل سلاخوں کے پیچھے نہیں جائیں گے ہم نہیں اٹھیں گے،دوسری طرف کچھ لوگوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر شاہراہ جمہوریت کے گردا گرد قبریں کھودنا شروع کر دیں کفن منگوا لیے گئے کہ ہم مر جائیں گے مگر واپس نہیں جائیں گے،مگر چند روز بعد نہ جانے کیا ہوا کہ اچانک ایک دن قائد انقلاب نے لاہور واپسی کا اعلان کر دیا اور کارکن ابھی وہیں خیمہ زن تھے کہ قائد انقلاب کا قافلہ روات کراس کرگیا،چند دن بعد حسب عادت جناب طاہر القادری دوبارہ کینڈا سدھار گئے ،نظام بھی وہیں رہا انقلاب بھی وہیں رہا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متائثرین بھی وہیں کہ وہیں بلکہ آج تک وہیں ہیں ،کرنا خدا کا دیکھیئے کہ قائد انقلاب اور شیخ الاسلام صاحب کے جانے کے کچھ عرصے بعد ملک پاکستان میں ان کے اسی برادر کی حکومت آ گئی جن کے ساتھ وہ کارواں لیکر حصول انصاف کے لیے لاہور سے نکلے اور اسلام آباد میں براجمان رہے تھے،ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جناب فورا پاکستان آتے پوری قوت سے اس طرف توجہ دیتے اور قاتلوں کی گردن میں پھندا فٹ کرواتے مگر کمال حیرت کا مقام ہے کہ آج تک کوئی ایک دھرنا کوئی ایک مطالبہ کوئی ایک احتجاج بھی سانحہ ماڈل ٹاؤں کے حوالے سے منظر عام پر نہ آ سکا الٹا سونے پہ سہاگہ یہ پھیر دیا گیا کہ قائد انقلاب نے میدان سیاست سے الگ ہونے کا اعلان کر کے مقتولین کے ورثا ء کو حیرتوں کے سمندر میں غرق کر دیا واضح رہے کہ ان ورثاء کو جن کی اکثریت غریب لوگوں کی ہے ایک وقت میں حکومت پنجاب دیت کی مد میں کروڑوں روپے فی کس ادا کرنے کو تیار تھی اس وقت شیخ الاسلام کی وجہ سے یہ لوگ بھی جذبہ انقلاب سے لبریز تھے اور انہوں نے کسی بھی قسم کی سودے بازی سے انکار کر دیا،کیا پتہ کہاں سودا ہوا اور کون کر گیا یہ سوال شاید ہمیشہ تشنہ ہی رہے گا،لوگ حیران تھے ہیں اور رہیں گے،میں نے شروع میں عرض کی تھی کہ یہ عجب ملک ہے سلطانی تو عیاری ہوتی ہی ہے یہاں درویشی بھی عیاری ہے ،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے،

نوٹ(کالم کا پہلا حصہ شائع ہونے کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے بے شمار لوگوں کی فون کالز آئیں سب کا تذکرہ یہاں ممکن نہیں ،کچھ لوگوں نے کچھ پوائنٹ کی تصیح کروائی کچھ نے کہا بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی اور کچھ نے تھوڑا ناراضگی کا اظہار بھی کیا مگر ایک بات جو سب سے قابل ذکر ہے کہ چاہے فون کرنے والا کوئی وکیل تھا ،صحافی دوست ،ٹیچر یا ڈاکٹر ، کمال کی بات یہ تھی کہ لہجہ ہر ایک کا انتہائی شائستہ اور سلجھا ہوا تھا،عوامی تحریک اور جماعت اسلامی کے لوگوں کا یہ خاصہ ہے کہ وہ گلہ بھی ایسے کرتے ہیں کہ اپنا گرویدہ کر لیتے ہیں کاش ان لوگوں کی قیادت بھی ان سے وہ کام لے سکتی جس کے یہ اہل ہیں ،اپنا المیہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں سوال اٹھائے جاتے ہیں اور ان کا جواب تلاش کیا جاتا ہے جبکہ یہاں سوال کرنے والے کو تلاش کیا جاتا ہے کہ اس کو اٹھایا جا سکے،اﷲ سب پر اپنا فضل و کرم جاری رکھے)