پیریان یا زمینی فرشتے .. جن کا صرف خوف ہے باقی کچھ نہیں.

وقت اور عمر گزرنے کے ساتھ یہ بھی سننے کو ملتا تھا کہ فلاں جگہ'' پیریان دی'' یعنی بھوت ہیں اور ایسی باتیں سننے کو ملتیں کہ ہم بڑے درختوں اور اکیلے راستوں پر جانے سے ڈرتے رہے لیکن پھر ایسا وقت آگیا کہ دنیا کے غم اکیلے ہی سہنے کو ملے تو پھر اکیلے درخت اور اکیلے راستوں پر چلنا ہی اچھا لگنے لگا لیکن کوئی پیرے یعنی بھوت پریت دیکھنے کو نہیں ملا. سنتے تھے کہ اگر کسی بھوت سے دوستی ہو جائے تو پھر اس کے دوست انسان کے مزے ہوجاتے ہیں. کیونکہ بزرگوں کے بقول بے وقت موسم کے فروٹ اور روپے پیسوں اور ہیروں جواہرات پیرے یعنی بھوت پریت اپنے دوست انسان کو لیکر دیتے ہیں ہم بہت دعا کرتے رہے ہیں کہ کاش کوئی بھوت پریت یعنی پیرے ہمارا دوست بن جائے اور ہم بغیر محنت کے عیاشی کریں لیکن ہائے ری قسمت .. نہ پیرے اور نہ پری ملی..

پیریان .. جو کہ پشتو زبان کا لفظ ہے ، اس کے معنی ہمارے آباء و اجداد کے زمانے میں کچھ اور تھے جبکہ موجودہ دور میں کچھ اور ہوگئے ہیں . ہمارے آباو اجداد کے زمانے میں بھوت پریت کو پیریان بولتے تھے اور ہم اس لفظ کو سن کر بہت ڈرتے تھے . ڈرتے تو اب بھی ہیں لیکن ڈرنے کی نوعیت کچھ اور ہے جو آگے پڑھ کر آپ کو سمجھ آجائیگی۔''پیریان دی'' یعنی بھوت پریت ہیں یہ ایک ایسا جملہ تھا جو بچپن میں سنتے تھے تو خیال آتا تھا کہ پتہ نہیں یہ پیریان کیسے ہونگے لیکن ان دیکھے ہیولے جو صرف ہمارے احساس سے آتے تھے ہمیں پیریانو کا احساس ہو جاتا تھا سنتے یہ بھی تھے کہ پیریان ویران جگہوں پر رہتے ہیں اور انسانوں کو تنگ کرتے ہیں کبھی کبھی رات کو اپنی ہی چارپائی میں لیٹے لیٹے پیریانو کا خیال آجاتا تو پھر ہاتھ پیر جیسے سن ہو جاتے اور اپنے گھر میں بھی پھرنے سے ڈر لگتا.
ہماری ایک ہمشیرہ جو بچپن سے بہت تیز اور شرارتی تھی . ماشاء اللہ شرارتوںکی عادت ان کی ابھی تک ویسے ہی ہے لیکن نوعیت اب بدل گئی ہے خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے لیکن ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ داجی گل یعنی والد صاحب گھر کے آنگن میں لیٹے ہوئے تھے اور میں کمرے کے دروازے کے پیچھے کھڑا تھا کہ وہ بستر ہ اٹھا کر باہر جارہی تھی کہ میں نے اچانک ہو کی آواز نکال دی جیسے میں پیرے یعنی بھوت ہوں . ہمشیرہ نے تو سامان گرا دیا اور چیختی ہوئی باہر نکل گئی لیکن اس کے بعد داجی گل نے میری ساری'' پیریان تو ب'' نکال دی تھی کیونکہ ان کی جوتی جو آٹھ نمبر کی تھی نے میری پیٹ پر وہ پھول بنائے کہ مجھے آج تک وہ پھول نظرتو نہیں آئے لیکن ان کی تپش تاحال یاد ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد میں نے کبھی پیرے یعنی بھوت بننے کی کوشش نہیں کی لیکن اس سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ پیریانو سے ہر کوئی ڈرتا ہے .

وقت اور عمر گزرنے کے ساتھ یہ بھی سننے کو ملتا تھا کہ فلاں جگہ'' پیریان دی'' یعنی بھوت ہیں اور ایسی باتیں سننے کو ملتیں کہ ہم بڑے درختوں اور اکیلے راستوں پر جانے سے ڈرتے رہے لیکن پھر ایسا وقت آگیا کہ دنیا کے غم اکیلے ہی سہنے کو ملے تو پھر اکیلے درخت اور اکیلے راستوں پر چلنا ہی اچھا لگنے لگا لیکن کوئی پیرے یعنی بھوت پریت دیکھنے کو نہیں ملا. سنتے تھے کہ اگر کسی بھوت سے دوستی ہو جائے تو پھر اس کے دوست انسان کے مزے ہوجاتے ہیں. کیونکہ بزرگوں کے بقول بے وقت موسم کے فروٹ اور روپے پیسوں اور ہیروں جواہرات پیرے یعنی بھوت پریت اپنے دوست انسان کو لیکر دیتے ہیں ہم بہت دعا کرتے رہے ہیں کہ کاش کوئی بھوت پریت یعنی پیرے ہمارا دوست بن جائے اور ہم بغیر محنت کے عیاشی کریں لیکن ہائے ری قسمت .. نہ پیرے اور نہ پری ملی..

بات ہمارے بچپن کی پیریانو سے شروع ہو کر موجودہ دور کے پیر تک آپہنچی ہے. آج کل کے دور میں پیریان وہی لوگ ہیں جنہیں کچھ لوگ زمینی فرشتے بھی بولتے ہیں یہی زمینی فرشتے آج کل مملکت عزیز میں ہر جگہ پر سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں اور ان پیریانو یا زمینی فرشتوں کی مانی بھی بہت جاتی ہے ، زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد ان فرشتوں یعنی پیریانو سے ڈرتے بہت ہیں کیونکہ ان کی رسائی ہر جگہ پر ہوتی ہے اور یہ کچھ بھی لکھ دیتے ہیں جس کے بعد اچھے خاصے لوگوں کی اوقات زیرو پر آجاتی ہے . کچھ لوگ ڈر کے مارے ان زمینی فرشتوں یا پیریانو کی بات مانتے ہیں اور کچھ لوگ اس ڈر سے کہ کہیں انہیں چہرے پر بوری ڈال کر مہمان نہ بنالیا جائے اس لئے وہ ان سے تعاون کرتے ہیں اور پھر ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں .

اسے ہماری بدقسمتی سمجھئے یا خوش قسمتی کہ ان پیریانو یعنی زمینی فرشتوں سے ہمارا تعلق شعبہ صحافت کی وجہ سے زیادہ رہاایک زمانے میں ایک بہت بڑے اخبار میں ایک پیریانو والے بابا نے ایک خبر دی تھی جو فرنٹ پیج پر چھپی اور پھر اگلے دن ہشتنگری سے زمینی فرشتے مجھے اپنے ساتھ لیکر گئے تھے یہ الگ بات کہ ان دنوںچہرے پر بوری ڈالنے کا رواج نہیں تھا لیکن جس طرح مہمان بنا کر مجھے لے گئے تھے اور دفتر میں بغیر کچھ کھلائے پلائے بٹھائے رکھا، جس کی وجہ سے پیٹ میں درد رہا . البتہ شام کو چھوڑتے وقت یہ کہا تھا کہ ہم آپ کو پھر مہمان بنائیں گے جب تک آپ خبر کا سورس نہیں بتائیں گے خیر وہ بات ادھوری ہی سہی.لیکن پیریانو یعنی زمینی فرشتوں سے رابطے کا یہ پہلا تجربہ بہت تلخ رہا لیکن اس کے بعد اللہ تعالی کا شکر کہ پیریانو سے دور ہی رہے .

کچھ عرصہ قبل ایک ادارے سے وابستگی کی بناء پر ایک صاحب مجھ سے ملنے کیلئے آئے اور کہہ دیا کہ میں ان کے ساتھ تعاون کروں، میں نے تعاون کی وجہ اور نوعیت پوچھی تو صاحب نے بتایا کہ انہیں خبریں چاہئیں کیونکہ ان کے ادارے نے یہ ذمہ داری انہیں سونپی ہے اس لئے چونکہ وہ زمینی فرشتے ہیں اس لئے میرا تعاون بہت ضروری تھا . میں نے ان سے پوچھا کہ بھائی میرے آپ کی تنخواہ کتنی ہے جس پر وہ صاحب پہلے تو حیران ہوئے لیکن بتایا کہ ان کی تنخواہ اتنی ہے جس پر میں نے انہیں کہا کہ بھائی آدھی تنخوا ہ دو گے تو آپ کو خبریں ملیں گی ورنہ نہیں . جس پر زمینی فرشتے نے جواب دیا کہ سنتے تھے کہ صحافی پیسے مانگتے ہیں لیکن آج تو یقین ہوگیا کہ کیسے دھڑلے سے تم مانگ رہے ہو جس پر میں نے ان سے کہا کہ بھائی تم میرے کونسے رشتہ دار ہو کہ خبر تمہیں دوں؟ اگر تم ڈیوٹی نہیں کرو گے تو مجھے ذہنی کوفت زیادہ ہوگی اور تمہارے لئے اہم خبر بھی دیکھا کرونگا تو اس لئے آپ آدھی تنخوا ہ مجھے دو گے تو کام تمہارا بھی چلے گا اور میرا بھی. جس پر ان صاحب نے بڑے زعم سے کہا کہ تمہیں پتہ ہے کہ میں زمینی فرشتہ یعنی پیریان ہوں تو میں نے بڑی بدتمیزی سے کہا کہ صاحب . پیرے ہو کہ جن اگر ادائیگی کرو گے تو خبریں ملیں گی ورنہ راستہ ناپتے پھرو . میں تم سے ڈرنے والا نہیں کیونکہ میں نہ تو منشیات کا کاروبار کرتا ہوں اور نہ کوئی دو نمبر کام. بس قلم کا مزدور ہوں اس لئے اگر دو جگہوں سے مزدوری ملتی ہے تو ٹھیک ورنہ اللہ حافظ. وہ صاحب یہ سن کر چلے گئے اور پھر بعد میں ایک رشتہ دار نے فون کرکے مجھے بے عزت کیا کہ تم تو بڑے بے مروت ہو خیال ہی نہیںکرتے . اور میری مصیبت یہی تھی کہ رشتہ دار بھی اس وقت پیریان یعنی زمینی فرشتوں سے تھا اس لئے ان کی بات سن کر مجبوراً بغیر مزدوری کی ان کی مزدوری کرنا پڑ گئی.

اور پھر ان زمینی فرشتوں سے ایسا تعلق بن گیا کہ جو خبردوسروںکو دو دن بعد ملتی ہمیں جلد ہی مل جاتی لیکن مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا کہ ان لوگوں کو زمینی فرشتے کیوں کہا جاتاہے کیونکہ فرشتے تو حقیقت لکھتے ہیں لیکن یہ فرشتے اتنی حقیقت لکھتے ہیں کہ اسے حقیقت سمجھتے ہوئے ہنسی بھی آتی ہے اور دکھ بھی ہوتا ہے -

آپ یقینا یہ سوچ کر حیران ہورہے ہونگے کہ اس بندے کو ہو کیا گیا ہے کہ لمبے عرصے بعد لکھنا بھی شروع کیا تو وہ بھی پیریان یعنی زمینی فرشتوں پر.تو اس کی وجہ وقت کے ساتھ پیریانو کی تبدیلی اور انہی کی رپورٹس پر بننے والے پاکستانی حکمرانوں کی کارکردگی ہے جس کے بارے میں یہ زمینی فرشتے دعوے کرتے تھے کہ " خان آئیگا اور تبدیلی لائیگا" تو نہ تو تبدیلی آئی اور نہ کچھ اور لیکن ہاں اتنی تبدیلی آگئی ہے کہ اب زمینی فرشتے یا پیریان بہت زیادہ ہوگئے ہیں کچھ تو اصل میں ہیں جبکہ کچھ ان کے چمچوںکے چمچے بنے ہوئے ہیں اوریہی چمچے ان اصلی پیریانو سے زیادہ مزوں میں ہیں اور دوسرا یہ کہ پیریان یعنی زمینی فرشتوں کی رپورٹوں سے بننے والی حکمرانوں کی کارکردگی سے لگ رہا ہے کہ پیریان خواہ وہ ہمارے ابا کے زمانے کے تھے جو کہ درختوں پر رہتے تھے یا ویران جگہوں میں ہوتے ہیں اب شہروں اور ہر ڈیپارٹمنٹ میں آگئے ہیں، ان سے لوگ اب صرف ڈرتے ہیں باقی ان کے ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں اور جب تک انسان خود کچھ نہیں کرتابھلے سارے زمینی فرشتے یا پیریان ان کی مدد کریں، کچھ ہونے والا نہیں۔

سو میرے بھائی پیریان یعنی زمینی فرشتوں کا سہارا لینا چھوڑ دو تو ، تمہیںتمہاری اوقات کا لگ پتہ جائیگا۔

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 585 Articles with 413683 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More