جب پڑا وقت گلستاں پہ تو خوں ہم نے دیا!

اسلام کو دل و جان سے عزیز رکھنے والوں کو مسلمان کہتے ہیں اور اسلام محض چند رسمی عبادتوں کی ادایگی کا نام نہیں بلکہ دنیا و آخرت کی زندگی میں سلامتی کی ضمانت کا نام ہے ۔ ہر وہ چھوٹی بڑی بات، جس سے انسان کی دنیا و آخرت کی فلاح و بہبود وابستہ ہو، اسلام اس کی نہ صرف نشان دہی کرتا ہے بلکہ اس کے تفصیلی احکامات کی بھی رہ نمائی کرتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ اعتقادات، عبادات، معاشرت، اخلاقیات اورمعاملات کے ساتھ ساتھ سیاست کو بھی دینِ اسلام میں جگہ دی گئی، بہ ایں وجہ کہ اس کے ذریعے دنیوی نظام درست کیا جاتا ہے ۔ جو لوگ سیاست کو بالکلیہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں، وہ یقیناً غلطی پر ہیں، اسی طرح جو فی زمانہ مروج اوچھی سیاست کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں، وہ بھی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ جس طرح دیگر شعبہ جات کو علماے دین نے تفصیل سے مدون کیا ہے ، اسی طرح اس شعبۂ زندگی پر بھی توجہ دی گئی ہے ، عربی زبان؛ جس میں دینِ اسلام کا اصل لٹریچر ہے ، اس کے علاوہ اردو وغیرہ میں بھی اس موضوع پر تحریریں دست یاب ہیں۔

اس مختصر تمہید کے بعد عرض یہ کرنا ہے کہ جس وقت مسلمان ہندوستان میں وارد ہوئے ، اس وقت یہ ملک مختلف انفروادی و اجتماعی خرابیوں کا شکار تھا، اسلام اور اہلِ اسلام کے زیرِ اثر آنے پر اس ملک کی تہذیب و معاشرت میں نئی زندگی پیدا ہوئی اور یہاں کے معاشرے میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں کو راہِ راست پر آنے کا موقع ملا، جس کا اعتراف آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ’تلاشِ ہند‘ میں درجِ ذیل الفاظ سے کیا ہے: ’’اسلام کی آمد ہندوستان کی تاریخ میں کافی اہمیت رکھتی ہے ، اس نے ان خرابیوں کو، جو ہندو سماج میں پیدا ہو گئی تھی یعنی ذاتوں کی تفریق، چھوت چھات اور انتہا درجے کی خلوت پسندی۔۔۔ ان سب کو بالکل آشکارا کر دیا۔ اسلام کے اخوت کے نظریے اور مسلمانوں کی عملی مساوات نے ہندوؤں کے ذہن پر بہت گہرا اثر ڈالا، خصوصاً وہ لوگ جو ہندو سماج میں برابری کے حقوق سے محروم تھے ،اس سے بہت متاثر ہوئے ۔‘‘(تحریکِ آزادی میں علما کا کردار)

یہی وجہ تھی کہ جب انھوں نے اس ملک کو اپنا وطن بنالیا تو اپنے میل جول اور کردار و اعمال سے ایک انقلاب برپا کر دیا، جس کی صداقت پر پنڈت نہرو کا مذکورہ بالا اعتراف کافی ہے ۔ مسلمانوں نے ملک کی ہر چیز پر اپنا اثر ڈالا اور یہاں کی تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب کوئی چیز ان کااثرقبول کیے بنا نہ رہی،جیسا کہ ڈاکٹر پٹا بی سیتا رمیہ سابق صدر کانگریس نے جے پور میں منعقد ایک جلسے میں اعتراف کیا: ’’مسلمانوں نے ہمارے کلچر کو مالامال کیا اور ہمارے نظم و نسق کو مستحکم اور مضبوط بنایا، نیز وہ ملک کے دور دراز حصوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں کامیاب ہوئے، اس ملک کے ادب اور اجتماعی زندگی میں ان کی چھاپ بہت گہری دکھائی دیتی ہے ۔‘‘(ایضاً)

ہر دانا سمجھ سکتا ہے کہ ایسا تب ہی ہو سکتا ہے ، جب کہ مسلمانوں نے اس ملک کو اپنا سمجھ کر یہاں رہنا قبول کیا ہو اور یہی حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے اجنبیت کے تمام پردے اٹھا کر اس ملک کو دل و جان سے اپنا بنایا اور اس کی تعمیر و ترقی میں اپنی صلاحیتیں صَرف کیں،کیوں کہ وہ صرف حکومت کرنے کے لیے اس ملک میں نہیں آئے تھے بلکہ یہاں آکر انھوں نے اپنے سابقہ ملک کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ان کا مستقبل اسی ملک سے وابستہ تھا،اس وطن میں سکونت اختیار کرنے والے مسلمانوں نے اپنے جگر کے خون کا ایک ایک قطرہ اس چمن کی آب یاری میں اور اپنی تمام تر توانائیاں اس ملک کو مستحکم کرنے میں لگا دیں۔نیز اس وقت جتنے مسلمان اس ملک میں بستے ہیں، وہ سارے کے سارے دوسروں ملکوں سے یہاں آکر نہیں بس گئے ، بلکہ بڑی تعداد وہ ہے جن کے باپ دادا بہ رضا و رغبت حلقہ بہ گوش اسلام ہوئے ، بہ قول اقبال ؂
ہم بلبلے ہیں اس کے ، یہ گلستاں ہمارا

نیز مشہور مؤرخ مولانا سید ابو الحسن علی الندویؒ رقم طراز ہیں:’’مسلمان جس حیثیت سے بھی اس ملک میں آئے ، انھوں نے اسے اپنا وطن سمجھا، ان کا عقیدہ تھا کہ زمین خدا کی ہے ، وہی جس کو چاہتا ہے ، اپنی زمین کا وارث و نگہبان بنا دیتا ہے ، وہ اپنے کو خدا کی طرف سے اس زمین کا منتظم اور اس کی مخلوق کا خادم سمجھتے تھے اور اس پر عقیدہ رکھتے تھے ؛ہر ملک ماست کہ ملک خدا ئے ماست۔اس لیے مسلمانوں نے ہمیشہ اس ملک کو اپنا وطن، اپنا گھر اور اپنی ابدی قیام گاہ سمجھا، جس سے وہ کبھی اپنی نظریں پھیر نہ سکتے تھے ، چناں چہ اس ملک کی خدمت کے لیے انھوں نے اپنی بہتریں صلاحیتیں اور خداداد قابلیت و ذہانت صَرف کردی، ان کا خیال تھا کہ وہ اس ملک کی دولت میں جو بھی اضافہ کریں گے وہ گویا خود ان کی اپنی ثروت میں اضافہ ہوگا، کیوں کہ ان کا مستقبل اسی سرزمین سے وابستہ ہے ۔ اس تصور کا قدرتی نتیجہ یہ تھا کہ مسلمانانِ ہند اس ملک کو جس نظر سے دیکھتے تھے ، وہ انگریزوں اور دوسری استعماری طاقتوں سے بالکل مختلف تھا، یورپ کی استعماری طاقتوں کا مقصد صرف یہاں کی دولت کھینچنا تھا، ان کے نزدیک در اصل اس ملک کی حیثیت ایک مستعار دودھاری گائے کی سی تھی، جو ان کے پاس چند دن رہ کر واپس جانے والی تھی، اس لیے وہ اس کو اچھی طرح دوہ لینا چاہتے تھے ، اس ملک کی ترقی و خوش حالی میں مسلمانوں نے جس دل چسپی سے کام لیا، اس کا حقیقی راز یہی ہے ۔ ‘‘(ایضاً)

ظاہر بات ہے کہ اگر مسلمان اس ملک میں صرف مال و دولت حاصل کرنے کے لیے آئے ہوتے تو وہ یہاں تاج محل، لال قلعہ، قطب مینار وغیرہ وغیرہ تعمیر نہ کرتے ، نیز اس کے بعد بھی کوئی تعصب پسند انھیں غلط القاب سے یاد کرے تو ثبوت کے ساتھ بتائے کہ کس مسلمان بادشاہ نے اس ملک کتنا خزانہ کس مسلم ملک میں منتقل کیا، کبھی نہیں بتایا جا سکتا! وہ تو یہاں بسنے آئے تھے ، اور یہی اسباب و عوامل تھے جنھوں نے یہاں اقامت پذیر مسلمانوں کو انگریزوں کی آمد پر ان سے لوہا لینے کے لیے ابھارا۔ وجہ یہی تھی کہ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھتے تھے اور سمجھتے ہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر، نہیں نہیں۔۔۔ہزاروں لاکھو جانیں وطن کی بھینٹ چڑھا کر، وہ سب کر کے دکھایا، جس کے بعد کسی منصف اور حقیقت پسند یا باشرم کا منہ نہ رہا کہ ان کی وفاداری پر شبہ کرے ۔ ان غیور مسلمانوں نے ابتدا ہی سے انگریزوں کی جابر حکومت سے مزاحمت کی اور یہ مزاحمت ہی آگے چل کر تحریکِ آزادی اور پھر جنگِ آزادی میں تبدیل ہوگئی، پھر تو لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا، جس میں شاہ ولی محدث دہلویؒ سے لے کر حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ، شاہ عبد العزیز دہلویؒ، شاہ رفیع الدینؒ، مولانا عبد الحیؒ، مفتی الٰہی بخشؒ، سید احمد شہیدؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ،مفتی کفایت اﷲ دہلویؒ، مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا عبید اﷲ سندھیؒ، مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علی تھانویؒ اورمولانا ابو الکلام آزادؒتک ہزاروں توحید کے پروانوں نے اپنی جانیں کھپا دیں۔

اس تحریک میں یقیناً مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں نے بھی قربانیاں پیش کی ہیں لیکن دانا و بینا جانتے ہیں کہ اس میدان میں مسلمان ان سے بازی مار لے گئے ، کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج تاریخ کے اوراق سے ان کے ذکر تک کو مٹانے کی ناپاک کوششیں کی جارہی ہیں، جب کہ وہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے اس وقت میں محاذ سنبھالا ، جس وقت دوسرے خوابِ غفلت کا شکار تھے ۔

اس وقت ہمیں اپنے جرم کا اعتراف بھی کرنا پڑے گا او وہ یہ کہ ہم نے نسلِ نو کو کبھی اس حقیقت سے واقف ہی نہیں کرایا اورانھیں اپنی تاب ناک تاریخ سے محروم رکھا، ظاہر ہے جس قوم کی کوئی تاریخ نہ ہو، وہ راہِ راست پر قایم نہیں رہ سکتی۔ خیال رہے جس وقت مسلمانوں نے اس ملک میں قدم رکھا تھا اس وقت کے حالات آج سے کچھ زیادہ ہمت افزا نہیں تھے لیکن اس وقت ہمارے اسلاف نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر وہ کچھ کر دکھایا، جسے ہم صرف بہ طور مثال ہی ذکر کر سکتے ہیں۔اگر واقعی ہمارے سینوں میں دل ہے ، تو اس حقیقت و صداقت پر جو دبیز پردے ڈال دیے گئے ہیں انھیں ہٹاناہوگا، جس کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کواپنے اسلاف کے کارناموں سے رو شناس کروائیں۔ آج چند بکاؤ سیاست داں ہمیں اس ملک کا دوسرے نمبر کا شہری جتانے کی کوشش میں لگے ہیں،جس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم نے اپنا رشتہ ماضی سے توڑ لیااور اپنے بنیادی اوصاف سے دامن جھاڑ بیٹھے ، اسی کا نتیجہ ہے ؂
جب پڑا وقت گلستاں پہ، تو خوں ہم نے دیا
جب بہار آئی، تو کہتے ہیں تِرا کام نہیں
٭٭٭٭
 

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 306527 views (M.A., Journalist).. View More