نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے بول براز اور خون کے متعلق ضعیف اور موضوع احادیث ٣

میرا یہ مضمون اسی سلسلہ میں تیسرا مضمون ہے۔ اس سے پہلے میں اس بارے میں ایک مہربان کی پیش کی گئی روایات کے بارے میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ وہ ضعیف روایات ہیں۔ میرے دوست کا استدلال تھا کہ فضائل اعمال وغیرہ میں ضعیف احادیث کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ اور یہ کہتے ہوئے وہ یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ حدیث کا مطلب نبی کا فرمان ہے اور نبی کا ہر فرمان دین سے تعلق رکھتا ہے اور نبی کے فرمان کی حقیقت اس آیت کی روشنی میں دیکھیے (وما ينطق عن الهوى ان هو الا وحي يوحى) یعنی آپ اپنی مرضی سے تو کچھ کہتے ہی نہیں۔ اس آیت کی روشنی میں غور فرمائیے کہ آپ کے ہر فرمان کا حکم ایک جیسا ہے۔ اور پھر اگر ضعیف احادیث کو قبول کر لیا جائے تو صحیح اور ضعیف کا فرق ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔ اسی لیے صحابہ کرام کوئئ بھی حدیث بیان کرتے ہوئے حد درجہ احتیاط کرتے تھے۔ امام مالک التمھید شرح موطا ص 17 جلد 1 میں فرماتے ہیں کہ " حدیث کا علم دین ہے تم دیکھو دین کس سے حاصل کرتے ہو۔ میں نے ستر لوگ ایسے پائے ہیں جو مسجد نبوی میں بیٹھ کر کہتے تھے مجھ سے فلاں نے روایت کی کہ رسول اللہ نے فرمایا: مگر میں نے ان کی روایات قبول نہیں کیں۔" سنن دارمی میں امام سعید بن ابراھیم فرماتے ہیں کہ " صرف ثقہ راویوں سے حدیث رسول لی جائے"۔ امام علی بن المدینی کا قول ہے کہ اسماء الرجال کی معرفت آدھا علم ہے یعنی حدیث بیان کرنے والے کے حیثیت بھی ضرور معلوم ہونی چاہیے۔ اسی طرح میں اسی سلسلہ کے پہلے کالم میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نقل کر چکا ہوں کہ اگر کسی نے آپ سے وہ بات منسوب کی جو آپ نے نہیں کہی وہ اپنا ٹھکانا جھنم میں بنا لے اور پھر جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے بارے میں وہ احادیث موجود ہیں جن کی صحت پر کوئی بھی شبہ نہیں تو پھر ان روایات کا سہار کیوں لیا جائے جن کو روایت کرنے والے مشکوک ہوں۔

احادیث کے علم اور جرح و تعدیل کی اہمیت پر میرے ایک بھائی خالد محمود نے دو حصوں میں ایک مضمون لکھا ہے اسے پڑھ آپ کو صحیح اور ضعیف احادیث کا فرق معلوم ہو جائےۓ گا۔ اس مضون کے لنک مندرجہ ذیل ہیں۔
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=11911
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=11891

معجزات نبی پر ایک مشہور کتاب علامہ سیوطی کی کتاب خصائص کبریٰ ہے۔ اس میں جہاں نبی پاک کے معجزات کے بارے میں مستند روایات موجود ہیں وہیں ان روایات کے شانہ بشانہ وہ روایات بھی موجود ہیں جو کہ ضعیف احادیث کے درجہ میں آتی ہیں۔ علامہ اس کتاب کے دیباچے میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے ان ضعیف روایات کو بھی اس کتاب میں شامل کر لیا ہے جن کی اسناد موجود تھیں۔ اور ایک عام قاری ان روایات میں تمیز کر ہی نہیں سکتا۔ بالکل اسی طرح محمد ثاقب رضا قادری آپ کی نجاست کے بارے میں پیش کی گئی روایات کے ضعف کو نہ سمجھ سکا۔ اس موضوع، پر کچھ کہنے سے پہلے اس کتاب میں دی گئی روایات کے بارے میں سیوطی کا اپنا تبصرہ پیش کر دوں۔ پہلی جلد میں نبی پاک کی ولادت اور میلاد کے بارے میں روایات نقل کرنے کے بعد سیوطی اس روایت اور اس سے پہلے والی دو روایات کے بارے میں کہتے ہیں " میں نے اپنی کتاب میں اس سے ناقابل اعتبار روایات نہیں لکھیں (یعنی لکھی تو بہت سی ہیں) ۔ لیکن حافظ ابو نعیم کی پیروی میں لکھ دیں" یعنی انہوں نے جانتے بوجھتے ہوئے صرف کسی کی پیروی میں بے سرو پا روایات کو نقل کر دیا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تو یہ ہے " من کذب علی متعمدا۔۔۔۔۔۔۔" تو ایسی روایتوں کا بیان جان بوجھ کر بیان کیا جانا یقیناً ایک کم علم مسلمان کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ وہ اسے پڑھے گا اور اس پر یقین کر لے گا۔

محمد ثاقب رضا قادری نے لکھا ہے کہ نبی پاک کی نجاست کے بارے میں اس مقام پر 7 روایات موجود ہیں۔ اگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھ لیتا تو اسے اس حقیقت کا ادراک ہو جاتا کہ وہاں پر 6 روایات نقل کی گئی ہیں۔ روایات نمبر ایک کے بارے میں سیوطی نے خود ہی فرما دیا کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ اسی طرح روایت نمبر 6 کے بارے میں بھی وہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت مرسل ہے ۔ روایت نمبر 7 کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ یہ باب وفد الجن مین موجود ہے۔ جو کہ مجھے نہ مل سکی۔

دوسری میں اسماعیل بن ابان الوراق ہے اس کے بارے میں امام بخاری، امام مسلم، دار قطنی فرماتے ہیں کہ کذاب ہے۔(القاعدہ الجلیلہ ص 122)

تیسری روایت میں زکریا بن یحی وضاع ہے۔ دیکھیۓ العلل المتناھیہ ] [ 1 أحاديث في صلاة الجمعه۔
پانچویں روایت کی حقیقت کچھ اس طرح ہے۔

محمد بن حسان الاموی کے بارے میں ابن جوزی کہتے ہیں کہ وہ کذاب ہے جبکہ دارقطنی کہتے ہیں کہ اس روایت میں محمد بن حسان اکیلے ہی ہیں۔ یعنی ان کے اساتذہ سے اس روایت کو کوئی اور بیان نہیں کرتا ہے۔ (میزان الاعتدال، راوی نمبر 7377) ہشام بن عروہ (61-145)ہجری بڑے عالم ہیں مگر بڑھاپے میں بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہو گئے تھے۔ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان کی زیادہ تر روایات براہ راست نہیں بلکہ اپنے والد عروہ بن زبیر کے ذریعے ہیں کیونکہ ام المومنین ان کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکی تھیں۔ (میزان الاعتدال، راوی نمبر 9241) اور تمام روایات میں سے صرف اس روایت کے بارے میں سیوطی کا کہنا تھا کہ یہ طریق سب سے قوی طریق ہے۔

ویسے درایت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بھی یہ روایات ضعیف ہی معلوم ہوتی ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ویسے ہی فضلات کو ناپاک قرار دیا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ اپنے فضلات کے بارے میں اس سے مختلف حکم دیں۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ غیر معمولی بات ہوتی اور اسے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کثرت سے بیان کرتے۔ مگر ان اکا دکا روایات کے علاوہ ہمیں کچھ نہیں ملتا۔ اور ان کے بارے میں دارقطنی جیسے نقاد کا کہنا یہ ہے کہ یہ منفرد روایات ہیں یعنی ان کی دوسرے ذرائع سے تصدیق نہیں ہوتی ہے۔

آخر میں محمد ثاقب رضا قادری سمیت ہر دوست سے درخواست کروں گا کہ اپنے ہر عقیدے کی عمارت کو اللہ تعالیٰ کے احکام اور نبی پاک کے سیرت مبارکہ ( جو کہ صحیح احادیث سے ثابت ہو) کی بنیاد پر کھڑا کرے۔ اور صرف یہی ایک راستہ ہے جو کہ سب مسلمانوں کو آپس کے اختلافات کو ختم کر سکتا ہے۔
Baber Tanweer
About the Author: Baber Tanweer Read More Articles by Baber Tanweer: 27 Articles with 87362 views A simple and religious man.. View More