بظاہر کا شاعر

طاہر ہاشمی نے فن اور فکر کے حوالے سے غزل کو تہذیب و روایات کے قریب کیاہے طاہر ہاشمی نے ایک بار پھر غزل میں فارسیت کو رواج دیا ہے جو انہیں باقی شعرا سے منفرد کرتی ہے
طاہر ہاشمی کی غزل اپنے دامن میں تفکر کے بہت سے زاویے رکھتی ہے جس میں فلسفہ اور خاص کر خدا، انسان اور کائنات کارشتہ مقرر کرنا جیسے موضوعات غزل کا سنگھار کرتے ہیں
بحرِ تقدیر و آگہی کا چراغ

زیر طبع: کتاب بظاہر
تبصرہ نگار: سیف علی عدیل
ہوا کے رخ پہ جو اڑتا دکھائی دیتا ہے
خبر نہیں اسے کیا کیا دکھائی دیتا ہے
طاہر ہاشمی نے فن اور فکر کے حوالے سے غزل کو تہذیب و روایات کے قریب کیاہے طاہر ہاشمی نے ایک بار پھر غزل میں فارسیت کو رواج دیا ہے جو انہیں باقی شعرا سے منفرد کرتی ہے
طاہر ہاشمی کی غزل اپنے دامن میں تفکر کے بہت سے زاویے رکھتی ہے جس میں فلسفہ اور خاص کر خدا، انسان اور کائنات کارشتہ مقرر کرنا جیسے موضوعات غزل کا سنگھار کرتے ہیں
بحرِ تقدیر و آگہی کا چراغ
سوچتا ہوں دھواں دھواں کیوں ہے
ظاہر ہاشمی کی شاعر ی میں اصغر، فانی بدایونی، حسرت موہانی، جگر مراد آبادی اور یاس یگانہ چنگیزی کا جدید طرزِ سخن فراوانی سے ملتا ہے ، اصغر تصوف کے راستے اور فانی نے موت اور یاسیت کے راستے کائنات کی معنویت تلاش کرنے کی کوشش کی۔یہ کوشش طاہر کو بھی تنگ کرتی دکھائی دیتی ہے طاہر جگرکی طرح رندی اور سرمستی کے راستے بھی تلاش کرتا ہے۔ اور حسرت موہانی کی طرح ایک نیا تصورِ عشق سامنے لانے کی بھی کوشش میں ہیں غیر مادی تصور عشق کو مٹا کر مادی تصورِعشق دیا ایک مادی پیکر محبوب کو دیا جو اسی زمین پر ہمارے درمیان رہتا ہے۔ جبکہ یاس یگانہ چنگیزی حقیقت کے حوالے سے اور ذات کی انانیت کے حوالے سے اہم نام ہے۔یہ سارے رنگ ایک شاعر کے اندر موجود ہونا ایک فنی کرامت ہے ۔اس کے بعد ہمارے سامنے ترقی پسندوں کا گروپ آتا ہے جس میں بہت سے شاعر ساحر، فیض، مجروح، احمد ندیم قاسمی، عبدالحمید عدم، جانثار اختر وغیر ہ شامل ہیں اور ترقی پسند تحریک تک غزل پہنچتی ہے
جدیدیت کے پیرائے میں طاہر
سخن الفاظ کو ترسے ہوئے ہیں
یہ ساری منازل طے کرنے کے بعد بھی طاہر ہاشمی نے خود کو جدید کہلانے کی خو میں اپنے اسلاف کی روایات کو مسخ نہیں کیا طاہر ہاشمی کے ہاں غزل کا حسن جہاں برقرار ہے وہاں انہوں نے نظم کے انداز کو الگ سے اپنا کرخوب مغظ نخاستہ اور لفظوں کا عرق کشید کر کے ایک تریاق ابدی کا کام بخوبی انجام تک پہنچایا ہے لفظوں میں جان ڈال دینا بھی طاہر ہاشمی کا ہی ملکہ ہے۔بہتر ی کی گنجائش کا عنصر ہمیشہ موجود رہتا ہے کوئی خیال کسی پر گراں گزرتا ہے تو کوئی اسی خیال کے پرائے میں منازل کا سینہ چیر کر خیال کی معراج پا لیتا ہے ہرکسی کے لیے شعر کی معراج ایک جیسی نہیں ہوتی ''کسی پرآج ''کھلا ہے تو کسی پر کل کھلے گا۔ الفاظ گو سادہ ہیں مضامین مکمل ہیں ایسے خیالات کی بندش کی بہتات رہی شاعری میں مگر اسلوب اپنا اپنا نبھانے کا سلیقہ ہر کسی کا اپنا پنا ہوتا ہے کچھ اپنی بات کر کے بھی خود سوچ میں پڑھ جاتے ہیں کہ اسے کیسے واضح کیا جائے؟۔۔
اور کیا عشق میں حصول کیا
آنکھ تر کی یہ دل ملول کیا
ایک پل بھی نہ خود پہ خرچ ہوئے
یوں تری ذات میں حلول کیا
کامیابی اسے ملی جس نے
سجدہِ ضبط با اصول کیا
دارِ منزل کو آخری سمجھے
باقی جادہ دم فضول کیا
منتہائے خوشی میں ہم نے دوست
سانس در سانس غم وصول کیا
طاہر ہاشمی ایسے پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ہر فہم کے افراد موجود ہیں۔اور کئی نسلیں وہ اپنے ہاتھوں سے بنا چکے ہیں یوں کہتے ہیں تدریس کا شعبہ ایک آفاقی منصب ہے جسے ہر کوئی نہیں نبھا سکتا۔اور کچھ لوگ اپنی ساری عمر ایسے گزار دیتے ہیں جیسے وہ اس دنیا میں ایک مقصد کے لیے آئے ہوں جسے پورا کر نے کے بعد دلوں پر ہمیشہ کے لیے راج کر گئے ۔اور ان کی خوشبو ہمیشہ خیالوں میں بسیرا کر جاتی ہے؟''طاہرہاشمی ''کی شاعری کا جہاں تک سوال۔ہے وہ طبقاتی نظام کے خلاف ایک بغاوت ہے ان کاکلام اپنے گرد منڈالآنے والے مسائل کا عکاس ہے اور معاشرتی برائیوں سے اکتاہٹ کا عنصر بھی طاہر کی شاعری میں نمایاں ہے۔
جہاں نہ باپ ہے بھائی نہ بیٹا
کچھ ایسی بے حسی میں جی رہے ہیں
سروں پر ہے مسلط خو فِ وحشت
بدن نوحہ گری میں جی رہے ہیں
ان کے کلام کے خدو خال واضح ہیں ہر شاعر کی طرح انہوں نے بھی الفاظ کو اپنے جذبات کا عکاس بنایا اور وہ اپنے اندر کے کرب کو مکمل گو بیاں نہیں کر سکتے مگر اشاروں کنایوں میں کہانیوں کو نئے موڑ دینے کا فن خوب جانتے ہیں ۔بہاروں کی امیدیں کچھ ان کے کلام میں زیادہ ہیں اندھیروں کے خوف سے ان پر کپکپی طاری نہیں ہوئی اور طاہر مہیب اندھیروں سے نئی جہتیں تلاش کر کے روشنیوں کا اک شہر دیکھنا چاہتے ہیں
خوف آتا نہیں مرنے سے ذرا بھی طاہر
جب سے جانا ہے کہ ہے موت کا انجام حیات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مایوسی کو پالنے کی بجائے وہ اپنی منزلوں کے تعین میں گم رہتے ہیں اور بعض اوقات لوگوں کے رویوں سے خاصے پریشان نظر آتے ہیں جو کہ رویے ھمارے اپنے ہوتے ہیں جیسا ہم عمل کرتے ہیں اس کا ردِ عمل آتا ہے
زندگی کا سراغ پالے گا
شاہ بیٹھے گا جب ملنگ کے ساتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم سے بچھڑتے وقت بہت ہی اداس ہے
دل کو کہاں جدائی کا منظر یہ راس ہے
اب کیا کہوں کہ چار سو وحشت کا راج ہے
یہ زندگی جو آج ہے غم کا لباس ہے
گزرے گی اب اسی کے سہارے تما م عمر
یادوں کا اک گھروندا جو اس دل کے پاس ہے
میں بھول جائو ں تم کو یہ ممکن نہیں ہے دوست
تم بھول جائو مجھ کو قرین قیاس ہے
کیا ہو گا کیا بنے گا یہ طاہر کا غم نہیں
پھر کب ملو گے بس اسے ملنے کی آس ہے
طاہر ہاشمی نے فن اور فکر کے حوالے سے غزل کو تہذیب و روایات سے قریب کیاہے طاہر ہاشمی نے ایک بار پھر غزل میں فارسیت کو رواج دیا ہے جو انہیں باقی شعرا سے انفرادیت بخشتی ہے
گھروں میں ہونے والی نا انصافیاں جنہیں لوگ اپنا حق سمجھتے ہیں اور لاقانونیت کے خلاف طاہر ہاشمی خوب بر سر پیکار ہیں طاہر ہاشمی نے ادب کی ہر صنف میں خودکو منوانے کی کوشش کی ہے نئے نئے مضامین بھی خاصے تلاش کر اپنا خاصہ بنایا۔
ابھی ممکن نہیں باطل سے لڑنا
حسینی فوج میں حر کی کمی ہے
ہمارے ملک کے نظام حکمرانی کے اوپر ایک پر وقار طنز ہے جو شعوری اور غیر شعوری طور پر معاشرتی تفریق اور ناانصافی کو فروغ دیتا ہے۔ جس طرز حکومت میں مفلس ہونا ایک گناہ عظیم ہے اور اس گناہ کا کفارہ اپنی خود داری اور عزت نفس کو قربان کر کے ادا کرنا پڑتا ہے مسائل کو موضوع بنا کر اپنے فن کو زندگی کا ترجمان بنا دیا ہے۔ایک اہم بات جس کا ذکر ناگزیر ہے، ہر ادب پارہ اپنے مخصوص تہذیبی انسلاکات کا خوگر ہوتا ہے۔اور یہی طاہر ہاشمی کے ساتھ بھی ہوا ہے۔
میں بھٹکتا نہیں زمانے میں
زِندگی کو تِری سہولت ہے
طاہر ہاشمی صاحب بڑی صاف ستھری شاعری کرتے ہیں میر ا ذاتی خیال ہے کہ
"طاہر ہاشمی کے یہاں کلاسیکی رکھ رکھائو بھی ہے اور نیا رنگ و آہنگ بھی۔ دونوں کے امتزاج اور اشتراک سے انہوں نے اپنے لئے ایک ایسا راستہ نکالا ہے جو فوری طور پر متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کے یہاں ایک سنبھالا ہوا لہجہ ملتا ہے۔ وہ الفاظ کے جمالیاتی دروبست کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ اپنے جذبات واحساسات اور تجربات کو خوش آہنگی کے ساتھ شعری جامہ پہنانا سہل نہیں۔ طاہر ہاشمی صاحب یہ کارِ مشکل آسانی سے انجام دیتے ہیں۔"
ان کی غزل سے چند اشعار آپ کی نذر
واقفِ راحتِ جاں ہے نہ ہی شیدائی ہے
دل فقط تیری محبت کا تمنائی ہے
اب تو شاید یہ کسی طور نہ بھر پائے گا
چارہ گر زخمِ جگر میں بڑی گہرائی ہے
بعدِ الفت یہی محسوس کیا ہے طاہر
میں تماشا ہوں ہر اک شخص تماشائی ہے
حساسیت، صاف گوئی، بے باکی اور تلخ سچائی کا اعتراف بڑے اچھے انداز سے کیا گیاہے .طاہر ہاشمی کا انداز تحریر بیانیہ ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ موصوف رچا ہوا فنی شعور رکھتے ہیں۔ان جملہ فنی محاسن کے درمیان جو ایک بات کھٹکتی ہے وہ مصنف کا اسلوب ہے جس میں خالص معاشرتی اردو کی آمیزش ہے
کون کہتا ہے کہ ظالم ہیں زمانے والے
ہم ہیں ظالم جو زمانے میں جیے جاتے ہیں
شاعر کاکل ِ خم دار کا زیادہ اسیر نہیں ہوا یا پھر کوئی ناگن اپنے زہرکا اثر اس کے ذہن پر چھوڑکر طاہر خیال کو آغشتہ نہ کر سکی طاہر خیال خوشبو کی طرح پاک ہے جو پر نور فضائوں میں غیرت انسانی کا نگہبان ہے
اور اپنے ظاہر اور باطن میں ایک جیسا محسوس ہوتا ہے اپنی محرومیوں کو طاہر نے اپنے اوپر کبھی ظاہر نہیں ہونے دیا مگر طاہر ہاشمی نے اپنی ذات کے استخارے کے بعد اس بات کو قرطاس کی نظر کر دیا ہے کہ کسی کے ظلم سے دو چار لوگ خود ظالم ہیں جو ظلم سہتے ہیں اور سہتے جاتے ہیں
ایسے ہی ایک خیال کا ذکر قتیل شفائی کے ہاں معتبر شعر کی حیثیت اختیار کر گیا اور ہر زبان پر احتجاج کی صورت ہوتا ہے
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
فکر انسانی کو جھنجھوڑنے کیلئے بعض اوقات ایک جملہ کافی ہوتا ہے باضمیر لوگوں کی آواز ہمیشہ ایک جیسی ہوا کرتی ہے کج فہم لوگوں کو آفاقی کلام آبِ زم زم میں گھول کر پلا دیا جائے تو انہیں وہ کلام زیر نہیں کر سکتا
تجھ سے بچھڑا تو پھر یقیں آیا
اپنی قسمت میں آہ و زاری ہے
''بظاہر'' حقیقی محبت کی قائل ہے ''بظاہر'' فرضی محبت سے نہ صرف اکتا چکی ہے بلکہ طاہر ہاشمی کی شاعری میں دو افراد نظر آرہے ہیں طاہر کا باطن اسے حقیقت کی طرف اکساتا ہے اور ظاہر پھر کھیچ کر دار تک لے آتا ہے شاعر کے جذبات اس قدر نوخیز ہیں کہ شاعر نے اپنے جذبات کی طنابیں کھینچ رکھی ہیں ۔ان کے اشعار پڑھتے ہوئے عجب سی وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔وجدانی شاعری کسی کسی کو میسر آتی ہے اگر شاعر کا باطن قرطاس پر اپنا ہلکا سا بھی اثر چھوڑ دے تو گیلے کاغذ بڑھک اٹھیں، طاہر ہاشمی کی شاعری کی تاب نہ لاتے ہوئے قاری از خود رفتگی کا شکار ہو جائے اپنے ازلی فراق کے قصے آج بھی ان کے لب پر چسپاں ہیں، جدائی کو اپنا یقین اور ایمان سمجھ کر اپنی قسمت کا حصہ بنا چکے ہیں، ہجر کے مصائب کا ذکر جیسے طاہر ہاشمی نے اپنی شاعر ی میں کیا ایسا فراقِ غم غالب کے ہاں کثر ت سے ملتا ہے غالب وصل کی لذ ت سے آشنا ئی کے لئے اورذائقہِ خودی چکھنے کیلئے ہمیشہ بیتاب رہے مگر طاہر ہاشمی کے اس شعر سے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ
تیرے قدموں پہ سجدے کرتاہے
دل تری ذات کا پجاری ہے
وہ ذات کے تصور سے اس کے قدموں میں اپنی ذات کو نچھاور کر چکے ہیں اور وصل کے مصائب سے نہ صرف آزاد ہیں بلکہ اپنی تصوراتی محبت کو اپنا خدا مان کر اس کی پوجا کر کے اپنی محبت کو خدا کا درجہ دیتے ہیں ۔ ایسے خیالات لازوال محبتوں کے پیامبر اور بشیر ہوتے ہیں، سہلِ ممتنع تراکیب، بہترین تلازمہ کاری، عمدہ اسلوب زبان کے حوالے سے جس چیز کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے وہ گرائمر ہے زیادہ کاریگری نہیں کی گئی شعر کو کھینچا نہیں بلکہ اسے ہونے دیا ہے ان کی حق پرستی روز مرہ کی زیادتیوں کے خلاف ننگی تلوار ہے
سب مسائل پہ بات کر مرے دوست
تُو نئے دور کا لکھاری ہے
طاہر ہاشمی جہاں جدائی کے سلسلے میں دوست کو مولودِ الزام ٹھہرانے سے نہ صرف کتراتے نظر آتے ہیں بکہ اپنی ذات کے محاسبے کو اولین فرض سمجھتے ہوئے سوچ کے معیار کو سوچ کی کسوٹی پر رکھ پر خوب پرکھتے ہیں اور پیغام دیتے ہیں کہ محبتوں کے سفر ابھی مکمل نہیں ہوئے ایسے سچ کا اعتراف ایک سچے اور سُچے شاعر کے ہاں جابجا ملتا ہے
دونوں جذباتی تھے بچھڑ ے تھے کہ ہم میں اکثر
فیصلے سوچ کے کر لینے کا فقدان رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''بظاہر'' کتاب سے نمونہ کلامِ
زلف جو شوق سے سنواری ہے
یہ ترے پیار کی خماری ہے
جیسے حضرت غالب فرماتے ہیں کہ
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی ایسے گزاری جا سکے
درد ہو تو چیخ ماری جا سکے
حسن کی تصویر ہے یہ تو میاں
عشق میں رکھ کر سنواری جا سکے
چارہ گر احساس کی لو تیز کر
دل کی کچھ تو بے قراری جا سکے
مغربی تہذیب کی جادو گری
ضرب ایماں سے اتاری جا سکے
کوئی رت ایسی ملے طاہر جہاں
یہ کلی دل کی نکھاری جا سکے
،،،،،،،،،،،،،،
صلہِ عشق حیدر اور ہو گا
کہ جنت یار ہے بہلول دیتا
خدا کا شکر جتنا ہو وہ کم ہے
ہمیںہے نعمتیں انمول دیتا
وہ کہتا تو سہی اک بار طاہر
اسے سونے میں ہنس کر تول دیتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں اچانک تری جدائی سے
کٹ گیا ہوں بھری خدائی سے
میری بیٹی کے ہاتھ پیلے ہوں
اتنی گندم ملے کٹائی سے
سب عبادات خلد کی خاطر
ہم رہے ایسی پارسائی سے
جن سے اظہار عشق ہو جائے
مار دیتے ہیں دل ربائی سے
سرخ رنگت تھی دیدنی طاہر
ہم نے پکڑا تھا جب کلائی سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمزمِ شوق کو عرفان دیے جاتے ہیں
زندگی زہر ہے اور زہر پیے جاتے ہیں
کتنے مجبور ہیں ہم پیار میں اب تک ان کے
درد خوشیوں کے عوض یار لیے جاتے ہیں
ابرِ رحمت ہے کہ سائے ہیں شب ِ فرقت کے
تیری چاہت کو جنوں خیز کیے جاتے ہیں
ان کو معلوم نہیں تھا تو سمجھتے طاہر
دل کے سب زخم مروت سے سیے جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزاحمت ایک فطری عمل ہے زمین پر موجود ہر چیز اپنی بقا کیلئے مزاحمت کا سہارا لیتی ہے لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مزاحمت بنیادی طور پر بقا کی جنگ ہے ۔زمیں پر موجودات میں ہر چیز ارتقا کا سفر کر رہی ہے ۔نباتات ، جمادات و حیوانات اور انسان میں ان میں سے ہر ایک ارتقائی سفر کی جانب گامنز ن ہیں ۔ادب چاہے کسی زبان کا بھی ہو مزاحمت یا احتجاج اس کا بنیادی خمیر ہے کوئی بھی تخلیق کار چاہ کر بھی اس سے کنارہ نہیںکر سکتا ، اگر'' بظاہر'' پر سرسری نظر دڑایں تو عقدہ کھلتا ہے کہ شاعری کا آغاز ہی مزاحمت سے ہوا جاتا ہے اور بینادی طور شاعری کی شروعات بھی وہاں سے ہوئی ۔مصنفین میں ناقدین نے تقسیم کر رکھی ہے جیسے وہ فیض کو احتجاجی ، فراز و جالب کو انقلابی ، منٹو اور عصمت چغتائی کو باغی کہہ کر اپنے اپنے انداز میں حد بندی مقرر کرتے نطر آتے ہیں۔ مگر ایسا نہیں فراز کو آج بھی نوجوان پسند صرف اس لئے کرتے ہیں کہ انہوںنے محبت کے اظہار کو ابدی جاں بخشی ۔جالب نے روحوں کو جہاں بیدار کیا وہاں محبوب کے ہجر کا بھی ذکر کیا ہے ۔جیسے کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ طاہر ہاشمی کی شاعری اردو ادب میں ایک ایسا شہرہ آفاق ہے جس میں ہر رنگ موجود ہے جیسے طاہر ہاشمی کے خیالات میں یکسر ان تمام لوگوں کا آنا جانا ہو ۔اس سرسری جائزہ سے زیادہ رجحان یہ پیدا ہوتا ہے کہ طاہر ہاشمی کا ذوقِ مطالعہ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے ان کی شاعر ی میں تمام رنگ پائے جاتے ہیں احتجاج ، انکار ،جھگڑا ، کھنڈت ،دھن قسمت ، نصیب سب کو آزماتے ہوئے نظر آتے ہیں اور پندارِ خود داری کو توڑنے میں مصروف ہیں ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے !
لذت ِ حرص و ہوس کو چھوڑ دیں ایسا کریں
بت انا و خود سری کے توڑ دیں ایسا کریں
رنگ و نسل و ذات کی ہر قید سے ہو کر رہا
ظلم و استبداد کا منہ موڑ دیں ایسا کریں
ہر کسی کے ہر کسی سے رابطے پیدا کریں
ٹوٹے رشتے از سرِ نو جوڑ دیں ایسا کریں
خوبصورت الفاظ کا چنائو سادے خیال بڑی باتیں اپنی ذات کا انکار انہیں حقیقت کے کافی قریب لا چکا ہے ۔
اور عشق کے سفر پر نکلتے ہیں تو اس قدر مطمئن نظر آتے ہیں جس کا اندازہ ان کی اس غزل سے خوب لگایا جا سکتا ہے
غزل
عالم عشق و جنوں ہے
ہر گھڑی لطف و سکوں ہے
یار دیکھا ہے مسلسل
زندگی غم کا فسوں ہے
کچھ پلا دے آج ساقی
سو چ مت وقت ِ زبوں ہے
خار و گل ہیں اک برابر
اس قدر زخمی دروں ہے
مل رہے ہو مدتوں سے
درد ہے کہ جوں کا توں ہے
ذاتِ مرسلۖ تیرے آگے
ہر زمانہ سرنگوں ہے
ایک طاہر پیار تیرا
خیمہ جاں کا ستوں ہے
دنیا کی چال ایک شعر میں کچھ یوں سمجھے ہیں کہ واہ واہ کہنے کو دل کرتا ہے
گردشِ وقت نے چھینے ہیں سہارے سارے
ورنہ لگ جانے تھے انسان کنارے سارے
کیسے جیتیں گے کوئی خواب بھی جب درد لئے
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھیں گے ہارے سارے
جان ہر حال میں دینی تھی سو ہنس کر د یدی
ہم سمجھتے تھے محبت کے اشارے سارے
طاہر کی ذات کسی جمود کا شکار نہیں ہوتی وہ اکثر سیلانی صفات کے مالک دکھائی دیتے ہیں کہتے ہیں کہ
خمارِ ذات سے باہر نکل کر
ذرا دیکھیں کسی کے ساتھ چل کر
 

سیف علی عدیل
About the Author: سیف علی عدیل Read More Articles by سیف علی عدیل: 18 Articles with 22781 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.