بجٹ بازار سمجھاتا ہے

بجٹ تقریر سے نہیں سمجھ آتا۔ بجٹ بازار سمجھاتا ہے۔جولائی کے پہلے دو دن ہی بڑے بھاری ہیں۔ سی این جی گیس میں اضافے نے سڑکیں سنسان کردی ہیں۔ بسیں سڑکوں سے غائب ہیں،کرایوں میں اضافے کا مطالبہ ہے، پرنٹنگ کا کاروبار بند پڑا ہے۔ کاغذ سے جڑا پرینٹنگ کا بزنس ڈالر کے اوپر نیچے ہونے سے کسی کے قابو میں نہیں ہے، ریٹ روزانہ کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں۔ بکرے اور گائے کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ ہوچلا ہے۔ کونسی ایسی چیز ہے۔جس کی قیمت اوپر نہیں جارہی۔ آٹا، دالیں،گھی تیل صابن، سبزیاں ، فروٹ ہر چیز میرے پرس کے نوٹ سے بڑھتی جارہی ہے ، میرے نوٹ کا سائز کم ہوگیا ہے، نوٹ کوئی بھی ہو، دس کا، سو کا، پانچ سو ، ہزار یا پانچ ہزار کا ، سودا خریدتے وقت یہ ہمیشہ کم ہی رہتا ہے۔ کہتے ہیں بجٹ میں بہت کچھ مخفی ہے۔ جس کا ادراک آہستہ آہستہ ہوجائے گا۔ کہنے والے اور معیشت کے جاننے والے کہتے ہیں کہ عوام کو ایک سال ، چھ ماہ نہیں، کم از کم تین سال تک شدید مشکلات بھگتنا ہوں گی۔ اس کے بعد کیا ہوگا۔ لطیفہ کے طور پر کہا جارہا ہے کہ اس کے بعد سب اس کے عادی ہوجائیں گے۔جو آئی ایم ایف کو اپنی تباہی کا ذمہ دار کہتے نہیں تھکتے تھے۔ اب اسی عطار کے لونڈے۔۔۔ سے دوا کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کا قرض ملک کو کچھ سانس لینے کے لیے کچھ مہلت تو دے رہا ہے، لیکن اگر یہ کڑوی دوا بھی صحیح طور پر استعمال نہ ہوئی تو بہت برے حالات ہوں گے۔ بین الاقوامی قرضے کی اقساط ہی اتنی ہیں کہ ان کی ادائیگی اور بلوں کو پورا کرنے کے لئے کافی ڈالر نہیں ہیں۔ دوست ممالک کے قرض بھی کافی نہیں ہیں۔یہ مختصر مدت کے قرضے ہیں۔ پچھلے قرضوں کی واپسی سے ہمارا پیچھا آسانی سے نہیں چھوٹے گا، سیاسی اور اقتصادی مشکلات ہمارا راستہ روکے کھڑی ہیں۔دوسرے الفاظ میں، آئی ایم ایف قرض طویل عرصہ کا حل نہیں ہے۔ اگر ملک میں آئی ایم ایف کی قرضے کی شرائط لاگو ہوتی ہیں، جو کہ مرحلہ وار ہورہی ہیں تو عوام کو مزید مشکلات کا سامنا ہوگا۔سچ یہ ہے کہ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم وہ طویل مدتی ترقی کاراستے اختیار کریں، جو ہمیں آگے جاکر اپنے پیروں پر کھڑا کردے۔ ٹیکنالوجی کی منتقلی، کاروبار اور صنعت اور برآمدات کی بحالی ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ امن و امان کی بحالی پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات اور خطہ میں امن کا قیام اگر یہ ہوا تو ملک میں طویل مدتی ترقی کے امکانات بہتر ہو جائیں گے۔ ورلڈ بنک نے اپنی حالیہ رپورٹ ’’ پاکستان کے سو سال اور مستقبل کے خاکے’’ میں مالیاتی خسارے کیلئے کمزورطرز حکمرانی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ناکام جانچ پڑتال کا حامل پاکستان کا مالیاتی نظام ٹیکس چوری میں مدد دیتا ہے جوکہ مالیاتی خسارے میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔حکومت کو ٹیکس چوری کے اس نظام کو ختم کرنا چاہیئے نہ کہ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ٹیکس ادا کرنے والوں پر مزید بھاری ٹیکس لگانا۔ حکومت کو معاشی پیداوار کو بڑھانے اور سازگار کاروباری ماحول فراہم کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ملک کا جاری توانائی کا بحران ختم ہونا چاہیے ۔ ملک میں نئے پلانٹ اور آلہ جات کی تنصیب کے ذریعے سے فراہمی روزگار اور صنعتی حلقوں کو جدید تر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا سے کاروباری روابط میں مزید اضافہ کیا جاسکے۔ برآمدات کے حجم کو وسعت دینے اور ان کیلئے نئی منازل جیسا کہ مشرقی یورپ اور وسطی ایشیائی ممالک کی تلاش بھی ضروری ہے۔ ملک کی اولین ترحیح سیکیورٹی ہونے کے سبب معیشت کبھی بھی حکومت کی اولین ترجیح نہیں رہا، لیکن ابعلاقائی تنازعاتکے بجائے جغرافیائی معیشت پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس بار بھی حکمران طبقے نے زراعی طبقے کو ٹیکس سے محفوظ رکھا ہے۔ حکومت زرعی شعبے سے ٹیکس وصول نہیں کر پارہی ہے۔ پارلیمنٹ میں زرعی زمین رکھنے والوں اور صنعت کار وں اور بڑے کاروباروں کو اکثر ٹیکس میں بڑی چھوٹ مل جاتی ہے۔ لہذا، وسیع رقبے کے حامل زمینداروں کی زرعی مصنوعات پر ٹیکس نافذ کرنے اور بڑے کاروباروں کو ٹیکس چھوٹ کے خاتمے کے ذریعے اپنی ٹیکسوں کی اساس کو وسیع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ شائد یہ اقدامات ملک میں کمزورحکومتوں کے سبب پیدا ہونے والے ان گنت مالی وخسارے کے مسائل پر لمبے عرصے کیلئے قابو پانے میں مددگار ثابت ہوں۔
 

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 386413 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More