پولیس کی میڈیا کوریج پر پابندی!

 پنجاب پولیس کے سالارِ اعلیٰ نے اپنے محکمہ میں ایک مراسلہ جاری کیا ہے، جس میں پولیس کے معاملات میں میڈیا پر پابندی لگانے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔ ہدایت کی گئی ہے کہ ’’․․․ کوئی بھی پولیس افسر میڈیا کو انٹرویو دینے سے پہلے ڈی پی او کے پی آر او کے ذریعے مجاز اتھارٹی سے اجازت لے گا اور بغیر اجازت کسی اخبار یا چینل کو انٹرویو نہیں دے سکے گا ․․․ کوئی بھی میڈیا پرسن کسی ملزم کا انٹرویو ماسوائے ضروری حالات کے نہیں لے سکے گا ․․․ اس کے لئے بھی مجاز اتھارٹی سے اجازت ضروری ہوگی ․․ کوئی بھی میڈیا پرسن ماسوائے اجازت مجاز اتھارٹی ڈی ایس این جی گاڑی یا الیکٹرانک میڈیا پرسن کسی کوریج یا انٹرویو کے لئے کسی بھی پولیس فارمیشن میں داخل نہیں ہو سکے گا ․․․ کرائم سین پر میڈیا کو داخلے کی ہر گز اجازت نہیں ․․․ اور کوئی بھی پولیس افسر محکمہ کی کسی بھی طرح کی انفارمیشن لیک نہیں کرے گا ․․․ اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی․․․‘‘۔
 
جس طرح مراسلے میں پولیس افسروں کے خلاف سخت کارروائی کی خبر دی گئی ہے، اس سے میڈیا پرسنز کے لئے بھی اشارہ موجود ہے، یعنی حکم ِ حاکم کی خلاف ورزی کرنے والا حوالہ پولیس ہو جائے گا۔ مقامی حکومتوں کے عمومی انتظامی معاملات کے ضمن میں بتایا جاتا ہے کہ اگرکسی نے فلاں کام کیا تو اسے ’’حوالہ پولیس‘‘ کیا جائے گا۔ عوام کے لئے یہ دھمکی ہی کافی ہوتی ہے، قوم اسی میں عافیت جانتی ہے، کہ ایسا کوئی کام کیا ہی نہ جائے جس سے ’’حوالہ پولیس‘‘ ہونے کا احتمال ہو۔ عوام کو اچھی طرح خبر ہوتی ہے اور یہ عمل آوازِ خلق ہے کہ پولیس کا کسی جگہ آنا (چھاپا وغیرہ مارنا) یا کسی کو تھانے لے جانا، یا کسی کا تھانے جانے پر مجبور ہونا، سخت توہین ، ہتکِ عزت اور پریشان کن مرحلہ ہوتا ہے۔ محکمہ لاکھ تبدیلیاں لے آئے، وردیا ں آئے روز تبدیل ہو جائیں، تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے، ڈیوٹی کے اوقات میں کمی ہو جائے، تعلیم یافتہ نوجوان افسران کی مقابلے کے امتحان کے ذریعے تعیناتی ہو جائے، مگر یہ محکمہ نمک کی کان ہے، اس میں جو بھی جاتا ہے، وہ جلد یا بدیر نمک ہو ہی جاتا ہے۔ کسی تقریب یا کچھ اجنبی لوگوں کی موجودگی میں پولیس افسروں کی گفتگو نہایت حوصلہ افزا اور نرم مزاج ہوتی ہے، مگر جب وہ میدان میں جاتے ہیں تو وہ ایک روایتی افسر ہی ثابت ہوتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ استثناء ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ کچھ اچھے لوگ یہاں بھی ہیں۔ محکمہ پولیس اپنا سوفٹ امیج قوم کے سامنے نہیں لا سکا۔ شاید حقیقت یہی ہے کہ اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ کوشش بھی نہیں کی گئی۔

میڈیا معاشرے کی آنکھ اور کان کہلاتا ہے، اگر میڈیا اس قدر ترقی نہ کرتا تو بے شمار جرائم لاعلمی کی دھول کے نیچے دب کر دم توڑ چکے ہوتے۔ اگر میڈیا اپنے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی برتے تو عوام ’’ پتھر کے زمانے‘‘ میں پہنچ جائیں، میڈیا اگر کسی ظلم کو منظر عام پر لاتا ہے، تو ظاہر ہے ظالم پریشان ہوگا، اس کا بہترین حل تو یہی ہے کہ ظلم نہ کیا جائے، مگر ظالم کا یہی خیال ہوتا ہے کہ میں تو درست خدمت سرانجام دے رہا ہوں مگر یہ میڈیا رنگ میں بھنگ ڈال رہا ہے۔ چند دہائیاں پیچھے مڑ کر دیکھیں تو الیکٹرانک میڈیا کا وجود نہیں تھا، اور شہروں سے باہر پرنٹ میڈیا کے نمائندہ بھی نہیں ہوتے تھے، تو کوئی بھی ظالم (یہاں پولیس ہی خود کو ظالم تصور نہ کرے، معاشرے میں بہت سے مظالم جاری رہتے ہیں، بہت سوں کو پولیس ظلم سے روکتی ہے اور بہت سوں کی معاونت کرتی ہے) دھمکی بھی دیتا تھا کہ جس کے نتیجے میں ظلم کا گواہ بننے کے لئے بھی کوئی تیار نہیں ہوتا تھا۔

اپنے معاشرے میں پولیس کی وارداتیں ابھی تک زیادہ تر قابلِ اعتراض ہوتی ہیں، اسی لئے چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق پابندی لگائی جارہی ہے، ورنہ جب یہی پولیس اپنے تئیں کوئی کارنامہ سرانجام دیتی ہے تو سب سے پہلے میڈیا کو ہی طلب کرتی ہے۔ عام طور پر پولیس کے افعال چونکہ ظاہر کرنے کے نہیں ہوتے، کسی حد تک قانونی کارروائی کے مسائل ہوتے ہیں، مگر زیادہ تر ’’غیر قانونی‘‘ سرگرمیاں ہوتی ہیں، جنہیں میڈیا کی نگاہوں سے چھپا نا ضروری ہوتا ہے۔ زیر نظر مراسلے کے مندرجات خود بتا رہے ہیں کہ پولیس من مرضی چاہتی ہے، کوئی اس کے کام میں خلل ڈالنے والا نہ ہو، کوئی ان کی خفیہ حرکتوں کو افسرانِ بالا تک پہنچانے کا ذریعہ بننے والا نہ ہو۔ اب پولیس کا یہ مسئلہ مقامی سطح سے لے کر صوبے کے دارالحکومت کے افسران تک ہے، کیونکہ اب میڈیا طاقتور بھی ہے، برق رفتار بھی اور باریک بِین بھی۔
یہ مراسلہ جہاں کارِ سرکار میں مداخلت سے میڈیا کو دور رکھنے کی ایک کڑی ہے، اور پولیس کی تفتیش میں رکاوٹ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ مگر دوسری طرف یہ اپنے اُن کاموں پر پردہ ڈالنے کا بندوبست بھی ہے، جو پولیس افسران و اہلکاران عوام اور معاشرے کے سامنے نہیں لانا چاہتے۔ اب جہاں ایک جانب میڈیا اس مراسلے سے پریشان ہوگا، وہاں پولیس کی ’’اچھی اور میٹھی میٹھی خبریں‘‘ کون شائع اور نشر کرے گا؟ یہ یک طرفہ کارروائی ہے، آگاہی اور آئی ٹی کے زمانے میں اس قسم کی پابندیاں مضحکہ خیز ہیں، اگر آپ کا کردار صاف اور شفاف ہے تو پھر آپ کو کس چیز کی پریشانی؟ میڈیا کو اس بات کا احساس ہے کہ کون سی بات مفادِ عامہ کے لئے نقصان دہ ہے اور کون سی ضروری؟ کس بات کو کتنا وقت صیغہ راز میں رہنا چاہیے اور آخر کب منظر عام پر آنا چاہیے؟ آئی جی صاحب اپنی مرضی کی میڈیا کوریج نہیں لے سکتے۔ جناب ! اب تو سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، میڈیا اور اس کے کیمرے آپ کی ’’مجاز اتھارٹیوں‘‘ کے گھن چکروں میں پڑے اجازتیں لے رہے ہوں گے اور سوشل میڈیا سے ملزموں کو ’’چِھتر‘‘ مارنے کی تصویریں باہر آجائیں گی۔ کس کس پر پابندی لگائیں کے ؟
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 424542 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.