تعلیمی نظام پر توجہ دینے کی ضرورت

نعیم اللہ چترالی
تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر اگر قوموں کے عروج و زوال کی داستان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ جن قوموں نے اپنی تعلیمی معیار کو بلند کیا وہ کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہوئے اور ترقی کی معراج کو پہنچ گئے تعلیم جہاں ملک کے معاشی مسائل کے سدِ باب کا ذریعہ ہے وہاں معاشرتی خرابیوں اور اخلاقی بے راہ رویوں کی روک تھام کی بھی ضامن ہے آج ستاروں پر کمندیں ڈالنے والی اور طاقت کے بل بوتے پر دنیا کو اپنی مٹھی میں لینے کا ارادہ رکھنے والی مغربی قوم کی ترقی کا راز صرف اور صرف تعلیم ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر جتنی توجہ اس پر دینے کی ضرورت تھی ہم نے اس کو اتنا ہی نظر انداز کیا ۔اپنے تعلیمی ادروں کی اصلاح پر توجہ دی اور نہ ہی پورے ملک کے لیے یکساں اور معیاری نصاب تعلیم تشکیل دینے پر غور کیا ملک کا تعلیم کے لیے مختص بجٹ ایک علمی فضا اور ماحول پیدا کرنے کے لیے ناکافی ہے اور اس بجٹ کا بھی بڑا حصہ صحیح مصرف پر خرچ ہونے کے بجائے ان رہزنوں کی جھولی میں چلا جاتا ہے جن کو ہم ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے اپنے اوپر مسلط کر رکھا ہے اگر آج ہم اسلامی فلسفہ تعلیم کی بنیاد پر معیاری اور یکساں نظام تعلیم تشکیل دیں اور تعلیمی اداروں کی ترقی پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ان اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کی دینی وا خلاقی تربیت کا بھی خاص انتظام کریں جو کل ان اداروں سے پڑھ کر فارغ ہونے والی نوجوان نسل ملک کی ڈوبتی ناﺅ کو بھنور سے نکالنے میں بھر پور کردار ادا کرسکتی ہے۔

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر قوم کانصاب تعلیم اس کی تہذیب وثقافت اور اس کے مذہبی اقدار وروایات کو ملحوظ رکھ کر ہی ترتیب دینے سے وہ قوم اس سے پوری طرح مستفید ہوسکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں شروع ہی سے اس امر کا خیال نہیں رکھا گیا کلمہ توحید کے نام پر بننے والے اس ملک میں اسلامی فلسفہ تعلیم کی بنیاد پر ایک یکساں اور معیاری نظام تعلیم تشکیل دینے کے بجائے لارڈ میکالے کا نظام تعلیم کو ہمارے اوپر مسلط کر کے نہ صرف اس کی حوصلہ افزائی کی گئی بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اب تک اس کو جاری رکھا جا رہا ہے ۔اور اس میں بہتر تبدیلی کی سوچ رکھنے والوں کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں ۔ جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا نوجوان تعلیمی ادارے سے پڑھ کر فارغ ہونے کے بعد ملک کے خدمت کے جذبے سے سر شار ہونے کی بجائے کسی طریقے سے ملک کو لوٹنے کے لیے سرگرم عمل نظر آتا ہے۔

پورے ملک میں سب کے لیے یکساں نظام تعلیم کے فقدان سے کئی مسائل پیدا ہوچکے ہیں معاشرے کا مال دار طبقہ اپنی دولت کے بل بوتے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرسکتا ہے لیکن خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے 40فیصد عوام کا اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔جس سے غریب ؛ غربت کی چکی میں مسلسل پستا جارہاہے اور امیر روز بروز امیر تر ہوتا جا رہا ہے ۔ علاوہ ازیں معاشرے کے ذہین وفظین نوجوانوں کی کثیر تعداد سے ملک فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ کیونکہ یہ بات تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ امیروں کی بہ نسبت غریب لوگوں کے بچے زیادہ ذہین ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ چین میں ماوزے تُنگ کے انقلاب سے پہلے امیر لوگ غریبوں کی اولاد کو اپنے خرچے سے تعلیم دے کر بڑی بڑی پوسٹوں پر ان کی تقرری کراتے تھے اور ان کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے تھے ۔

چنانچہ ہمارے معاشرے میں ان نوجوانوں کی کمی نہیں جو اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل ہونے کے باوجود معاشرتی مسائل کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں غریبوں کے بچے بچپن کی معصوم شوخیوں سے لطف اندوز ہونے سے پہلے ہوٹلوں میں کام کرنا شروع کرتے ہیں سٹرکوں پر ٹھیے لگا کر نان شبینہ کے لیے جتن کررہے ہوتے ہیں۔

کسی بھی ملک کے تعلیمی ادارے وہ واحد تربیت گاہیں ہوا کرتے ہیں جہاں انسان اخلاق حسنہ سے آراستہ وپیراستہ ہوکر معاشرے کا ایک باعزت فرد بن جاتا ہے لیکن ہمار ابچہ دھوکہ بازی، فراڈ اور جعل سازی کا پہلا سبق ہمارے تعلیمی اداروں سے ہی سیکھتا ہے جس وقت وہ ممتحن کی گرفت سے اپنے آپ کو بچا کر نقل جیسی ہوشیاری میں کامیاب ہوتا ہے تو اس وقت اس کے دل و دماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ دھوکہ اور فراڈ ہی کامیابی کا واحد ذریعہ ہے جس کے بغیر کوئی انسان دنیا میں عزت سے نہیں جی سکتا۔

اگر آج ہم تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کی تربیت یہ سوچ کر کریں کہ کل کو یہی بچے اس ملک کے سیاہ وسفید کے مالک ہوں گے اور یہی بچے کابینہ اور پارلیمنٹ کے رکن ہوں گے اور مختلف وزارتوں کے قلم دان سنبھال کر اہم ملکی امور کا فیصلہ کریں گے تو ہمارا ملک کرپشن ،رشوت ،بدامنی، فساد اور دہشت گردی جیسے مسائل سے نجات پاکر حقیقی آزادی، خود مختار اورپرامن ریاست بن کر دنیا کے نقشے پر ابھر سکتا ہے۔
muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 108825 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.