غزوۂ بدر اور عہد موجود

از افادات: حضرت مولانا پیر محمد رضاثاقب مصطفائی نقشبندی(بانی ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشنل)

الحمد للّٰہ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین و الصلوٰۃ و السلام علیٰ سید الانبیاء و المرسلین۔
قال اللّٰہ تبارک و تعالیٰ فی القرآن المجید و الفرقان الحمید
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ۔
وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ أَنْتُمْ أَذِلَّۃٌ (سورۃ اٰل عمران؛ آیۃ ۱۲۳)
اور بے شک اﷲ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے۔ (ترجمہ کنزالایمان)
صدق اللّٰہ مولانا العظیم و صدق رسولہ النبی الکریم الرؤف الرحیم
اللّٰہم نوِّر قلوبنا بالقرآن و زیِّن اخلاقنا بالقرآن واخدلناالجنۃ بالقرآن و نجنا من النار بالقرآن
قال اللّٰہ تعالیٰ و تبارک فی شان حبیبہٖ
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلَائِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلَی الْنَّبِیِّ یٰا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
الصلٰوۃ و السلام علیک یا رسول اللّٰہ و علٰی آلک و اصحابک یا محبوبَ ربِّ العلمین
الصلٰوۃ و السلام علیک یا رسول اللّٰہ و علٰی آلک و اصحابک یا حبیبَ اللّٰہ
الصلٰوۃ و السلام علیک یا رسول اللّٰہ و علٰی آلک و اصحابک یا نبیَ الرحمۃ
تمام حمد و ثناء تعریف و توصیف اﷲ جل مجدہٗ الکریم کی ذات با برکات کے لیے، جو خالقِ کائنات بھی ہے اور مالک شش جہات بھی۔ اﷲ جل و اعلیٰ کی حمد و ثناء کے بعد حضور نبی اکرم، شفیعِ اُمم، رسولِ محتشم، نبیِ مکرم، اﷲ کے پیارے، امت کے سہارے، رب کے محبوب، دانائے غیوب، مالکِ اُمم، فخرِ عرب و عجم، والیِ کون و مکاں، سیاحِ لامکاں، سیدِ اِنس و جاں، سرورِ لالہ رُخاں، نیّرِ تاباں، سر نشینِ مہ وَشاں، ماہِ خوباں، شہنشاہِ حسیناں، تتمۂ دوراں، سرخیلِ زُہرہ جمالاں، جلوۂ صبح ازل، نورِ ذاتِ لم یزل، باعثِ تکوینِ عالم، فخرِ آدم و بنی آدم، نیّرِ بطحا، راز دارِ ما اوحی ٰ ،شاہدِ ماطغیٰ، صاحبِ الم نشرح، معصومِ آمنہ، احمدِ مجتبیٰ، حضرتِ محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور ناز میں اپنی عقیدتوں، ارادتوں اور محبتوں کا خراج پیش کرنے کے بعد!
معزز، محترم،محتشم سامعین، عالی مرتبت علمائے کرام، خواتین و حضرات ! السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہٗ!
’’غزوۂ بدر اور عہد موجود‘‘ کے عنوان سے کچھ باتیں آج کی اس نشست میں آپ کے گوش گذار کروں گا؛ اﷲ تعالیٰ میری زبان پہ کلمۃ الحق جاری فرمائے۔ (آمین!)
کفر اور اسلام کی پہلی باقاعدہ ٹکر اور پہلی با ضابطہ لڑائی ’’غزوۂ بدر‘‘ کے نام سے معنون ہے۔ حق اور باطل کا پہلا ٹکراؤ اس انداز سے ہوا کہ میرے رب نے بھی اس کو ’’یومِ فرقان‘‘ کَہ کے پُکارا۔…… جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کیا آپ جانتے ہیں کہ پورے قریش اور کفار ؛ حضور ﷺ اور حضور کے غلاموں پر ٹوٹ پڑے۔ طرح طرح کی اذیتیں، پریشانیاں، دکھ، مصیبتیں، مخالفتیں، نکتہ چینیاں، نا موافق حالات کے جَکّڑ؛ کیا کچھ نہیں تھا کہ جو حضور نے سہا نہیں ہو۔راہوں میں کانٹے بھی بچھائے گئے۔ گڑھے بھی کھودے گئے۔ کوڑے بھی پھینکے گئے۔ اور طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں۔ آوازے کسے گئے۔حضور علیہ السلام کے غلاموں کو مشقِ ستم بھی بنایا گیا۔ تپتے ہوئے سنگ ریزوں پہ حضرت بلال حبشی کو کھینچا گیا۔ تپتے ہوئے کوئلوں پہ ان کو لٹایا گیا۔ حضرت سُمیّہ کو مکۃ المکرمۃ کے چوک میں ابو جہل نے قتل کیا۔یہ اسلا م کی پہلی شہیدہ ہیں؛ جن کے خون سے مکّے کی سرزمین لالہ زار بنی۔ حضرت عمار ابن یاسر کی والدہ حضرت سُمیّہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ؛ ان کے خون سے مکّہ لالہ زار ہوا۔ حضرت یاسر کو شہید کیا گیا۔ کون کون سے دکھ تھے اور دکھوں کی کون کون سی قسم تھی جو آزمائی نہ گئی ہو۔ پھر حضور طائف گئے تو جو مصیبتیں ، جو دکھ وہاں پہنچے وہ ایک الگ درد ناک کہانی ہے۔
حضرت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں؛ مَیں نے ایک دن حضور علیہ السلام سے پوچھا کہ حضور! اُحد کے دن سے بھی سخت کوئی دن زندگی میں آیا تھا؟ …… صحابہ کی نظر میں اُحد کے دن سے سخت دن کوئی نہیں گزرا۔ جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سگے چچا شہید کر دیے گئے۔ اور ان کا مثلہ بنایا گیا۔ اعضائے بدنیہ کاٹ دیے گئے اور ان کا ہار پرویا گیا۔حضور کے سر پہ پٹی بندھی ہوئی تھی اور آنکھ میں آنسو تھے۔ اور بار بار پوچھتے تھے ما فعل عمی؟ میرے چچا کی کہانی سناؤ۔ میرے چچا کی بات سناؤ۔ …… تو یہ سخت ترین دن تھا۔ تو ام المومنین نے عرض کی کہ حضور کیا اُحد کے دن سے بھی سخت ترین کوئی دن زندگی میں آیا؟ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں اے عائشہ! جب طائف کے بازاروں میں تیری قوم نے مجھے پتھر مارے ؛ یہ دن اُحد کے دن سے بھی سخت تھا۔ ان کے تین سرداروں کے پاس حضور پیغامِ حق لے کر گئے۔ ان کی ہم دردی کا جذبہ لے کر حضور تشریف لے گئے۔ لیکن انہوں نے حضور کی دعوت کو مسترد کر دیا۔ بلکہ اوباشوں کے ہاتھوں میں پتھر دیے اور حضور جب واپس ہونے لگے تو ان اوباشوں کو قطاروں میں کھڑا کردیا۔ اور وہ حضور کے پاؤں پہ پتھر مارتے تھے۔ حضور پاؤں اُٹھاتے تو وہ دوسرے پاؤں پہ پتھر مارتے تھے۔ شدتِ درد اور احساسِ کرب سے جب حضور بیٹھ جاتے تو ان کے دو غنڈے آگے بڑھتے اور حضور کو کندھوں سے پکڑ کر اُٹھاتے اور پھر پتھر مارتے۔…… فرمایا عائشہ ! یہ دن اُحد کے دن سے بھی سخت تھا۔ جب طائف کے بازاروں میں تیری قوم نے مجھے پتھر مارے تھے۔
شعبِ ابی طالب میں جو تین سال کاٹے؛ بھلا اُس کو تاریخ کیسے بھول سکتی ہے۔ درختوں کے پتے کھا کھا کے گزر اوقات ہورہی ہے۔ عورتوں کی چھاتیوں سے دودھ خشک ہوگیا۔ تین سال سماجی بائیکاٹ کفار نے کیا۔ اور غلہ تک نہ پہنچنے دیا وہاں تک۔ پانی نہ پہنچنے دیا جاتا۔ اور وہ تین سال دُکھوں کی اذیتوں کی ایک داستاں ہے جو رقم ہوئی۔ لیکن پائے استقلال میں لغزش نہیں آنے پائی۔ جن کے مقاصد جلیل ہوں؛ راستوں کی سختیاں ان کے قدموں کو روک نہیں سکتی ہے۔ تکلیفیں، اذیتیں، مخالفتیں، دکھ، رکاوٹیں ان کے ارادوں کو ختم نہیں کرسکتی اور اُٹھنے والے قدم آگے ہی بڑھتے رہتے ہیں۔ وہ تو پیچھے مُڑ کے دیکھنا بھی توہینِ جستجو سمجھتے ہیں۔ ؂
تُو رہ نَوَردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ کی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
وہ تو آگے بڑھنا ہی زندگی کا حسن اور زندگی کا زیور سمجھتے ہیں۔ میرے اور آپ کے آقا و مولا صلی اﷲ علیہ و الہٖ وسلم نے سارے دکھ سہے۔ سارے غم جھولی میں ڈالے۔ ساری تکلیفیں سہیں۔ زبان سے بد دعا بھی نہیں دی۔ طائف کے بازاروں میں جب ان اذیت ناک مراحل نے گزرے اُس وقت جو صحابہ ساتھ تھے انہوں نے عرض کی کہ حضور! ان کے بد دعا بول دیں۔ حضور نے فرمایا مَیں رحمت بن کے آیا ہوں۔ مَیں زحمت بن کے نہیں آیا۔ لیکن جب ان کا پیہم اصرار ہوا تو حضور نے ہاتھ اُٹھالیے ؛ صحابہ منتظر تھے کہ ابھی لب جنبش کریں گے اور ابھی آسمان سے پتھر برسیں گے۔ طائف کے یہ دو پہاڑ آپس میں جُڑ جائیں گے اور یہ درمیان میں پِس جائیں گے۔ لیکن جب لب وا ہوئے کلمات کیا ترتیب پائے؟ اللّٰھم اھد قومی فانھم لا یعقلون۔ اے اﷲ! میری قوم کو ہدایت دے دے؛ یہ مجھے جانتی نہیں ہے۔اگر جانتی ہوتی تو مجھے یوں پتھر نہ مارتی؛ میری راہوں میں پھول بچھاتی۔تو پتھر کھا کر دعائیں دینا یہ نبی کا ہی حوصلہ ہے۔ بلکہ دعا کرتے ہیں ؂
الٰہی! رحم کر کہسارِ طائف کے مکینوں پر
الٰہی! پھول برسا پتھروں والی زمینوں پر
فرمایا مجھے اِن سے نہیں؛ ا ِن کی نسلوں سے ایمان کی توقع ہے۔ آقا کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس انداز سے لوگوں کو دعائیں دیتے رہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تلوار کے دستے پہ ہاتھ رکھتے ؛ عرض کرتے؛ حضور! ہم کمزور تو نہیں ہیں؟ فرمایا اے عمر! ابھی جہاد کا حکم نہیں آیا۔پھر حکمِ ہجرت آیا۔ چھوڑ دو اس بستی کو۔ مکّے والے قدر داں نہیں ہیں۔ یہ لوگ آپ کی راہوں میں کانٹے بچھا رہے ہیں۔ دکھ دے رہے ہیں۔ میرے محبوب ! چھوڑ دو۔ مدینے والے تمہاری راہیں تک رہے ہیں۔ جاؤ اور جاکے انہیں اپنی زیارت کی دولت سے مالا مال کرو۔ وہ تمہارے پہ فدا ہونے کو ہر لمحہ تیار ہیں۔
حضور ﷺ جب گئے؛ اہل مدینہ نے جس انداز سے استقبال کیا وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔ طلع البدر علینا کی صدائیں جس طرح گونجیں ؂
کہیں پیاری سی ننھی بچیاں تھیں دف بجاتی تھیں
رسولِ پاک کی جانب اشارے کرکے گاتی تھیں
اور کہتی کیا تھیں……
کہ ہم ہیں بچیاں نجار کے عالی گھرانے کی
خوشی ہے آمنہ کے لال کے تشریف لانے کی
عجیب ماحول تھا۔مدینہ چمک رہا تھا۔ ہر گھر میں خوشی تھی۔ حضرت ابو ایوب انصاری کا آنگن مہک رہا تھا۔ وہ خوشی سے گیت گارہے تھے۔ ؂
امروز شاہِ شاہاں مہماں شد است ما را
جبریل با ملائک درباں شد است ما را
لوگو! آج شاہوں کا شاہ ہمارے گھر کا مہمان بنا ہوا ہے۔ جبریل بھی فرشتوں کو لے کر آج ہمارے گھر کا پہرا دے رہا ہے۔
کیسا ماحول تھا! آقا کریم ﷺ نے یہاں آکے ریاستِ مدینہ کی طرح ڈالی۔ اور یہاں ایک نظم قائم کیا۔ یہودیوں سے معاہدے کیے۔ کفار مکہ کو یہ سب کچھ ایک آنکھ نہ بھایا۔ ابو جہل نے عبداﷲ ابن اُبی کو خط لکھاکہ اہل مکہ جو ہمارے سے تمہارے پاس گئے ہیں ان سے لڑائی کرو۔ ورنہ ہم تم سے لڑائی کریں گے اور تمہاری بیویوں کو اپنی لونڈیاں بنالیں گے۔ اسی طرح اس مضمون کا ایک خط مسلمانوں کو بھی لکھا۔اور ان کے مختلف جتھے مسلمانوں کی چراگاہوں پہ حملہ کرتے رہے۔ اور مسلمان بھی ان کا جواب دیتے رہے۔عَمرو حضرمی کا قتل ایک اہم ایشو بنا۔ اور اس کے بعد ابو سفیان کا قافلہ جو شام سے واپس آرہا تھا ؛ جب انہیں خطرہ لاحق ہوا تو انہوں نے ضم ضم الغفاری نامی ایک شخص کو سونا دے کر بھیجا کہ جاؤ جا کے تم اہل مکہ کو بتاؤ کہ تمہارا قافلہ خطرے میں ہے اور مدد کو پہنچو۔ یہ اِدھر سے چل پڑا۔ اُدھر حضور کی پھوپھی حضرت عاتکہ رضی اﷲ عنہا کو خواب آیا۔کہ ایک سوار اونچی پہاڑی پہ چڑھ کے کَہ رہا ہے کہ اے اہلِ غدر! اپنی قتل گاہوں کو تین دن کے اندر اندر دوڑو۔ اس کے بعد وہ اونٹ سوار کعبۃ اﷲ کی چھت پہ آگیا۔ اور یہ آواز وہاں بھی لگا رہا ہے۔ پھر جبلِ ابی قُبیس پہ آگیا۔ اور وہاں اس نے یہ آواز لگائی۔ لوگ اکٹھے ہوگئے۔ اور پھر ایک بہت بڑی چٹان پتھر کے اوپر سے گری اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ مکّے کا کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس میں اس کے کنکر اور اس کے ٹکڑے نہ گرے ہوں۔
حضرت عاتکہ جب بیدار ہوئیں تو انہوں نے اپنے بھائی حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو یہ خواب سنایا۔ انہوں نے کسی اور کو خواب سنا دیا۔ چلتے چلتے یہ خواب ابو جہل تک پہنچ گیا۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب صحن حرم میں طواف کے لیے گئے ؛ ابو جہل ایک ٹولی کی شکل میں بیٹھا ہوا تھا۔ کہنے لگا ابوالفضل! بنو ہاشم میں ایک نبی کافی نہیں تھا کہ ایک نبیہ نے بھی اعلان کردیا؟کہتے ہیں مَیں نے پوچھا کہ کیا ماجرا ہوا؟ اس نے یہ خواب سنایا ۔ مَیں نے ٹال مٹول کردیا۔ لیکن اس نے خوب پراپیگنڈا کیا۔ بلکہ کہا کہ اگر تین دن تک کوئی ایسا واقعہ نہ ہوا تو ہم چمڑے کے اوپر لکھ کر کعبے کی دیوار سے لٹکادیں گے کہ سب سے جھوٹا خاندان بنوہاشم ہے۔
حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مَیں جب گھر گیا تو مجھے عورتوں نے سخت کوسنے دیے؛ کہ وہ بد بخت پہلے تمہارے مردوں پہ بات کرتا تھا؛ اب عورتوں پر بھی باتیں کرنے لگ گیاہے؟
کہتے کہ مَیں غصے سے نکلا ۔ میرا خیال تھا کہ جب وہ ملے گا اور کچھ بات کرے گا تو پھر مَیں اس کو خوب جواب دوں گا۔ جوں ہی مَیں صحن حرم میں داخل ہوا تو ابو جہل بھاگ رہا تھا۔ مَیں سمجھا کہ شاید میرے سے ڈر کے بھاگ گیا ہے۔ لیکن ماجرا کچھ اور تھا۔ ضم ضم الغفاری آ پہنچا تھا۔اور وہ ایک اونچے ٹیلے پہ کھڑا ہوگیا تھا اور اس نے اپنے اونٹ کے کان کاٹ لیے تھے، ناک کاٹ لیے تھے۔ اور اپنی قمیص پیچھے سے پھاڑ دی۔ اور زور زور سے کہنے لگااللطیمۃ اللطیمۃ ای ادرکوا اللطیمۃ۔او! تمہارا قافلہ لُٹ گیا تمہارا قافلہ لُٹ گیا۔ الغوث الغوث۔ مدد کو پہنچو مدد کو پہنچو۔
کہتے ہیں بھگ دڑ مچ گئی۔ کیوں کہ اس قافلے میں پورے مکّے کے لوگوں نے مال لگایا ہوا تھا۔ لہٰذا جلدی جلدی وہ جنگ کی تیاریاں کرنے لگے۔ اور تین دنوں کے اندر اندر وہ مکّے سے کوچ کر گئے۔ ابھی ایک منزل پہ پہنچے تھے کہ ابو سفیان کا قاصد آ پہنچا کہ ہم بخیریت گزر آئے ہیں تم واپس ہو جاؤ۔ سارے صائب لوگوں نے مشورہ دیا لیکن ابو جہل کہتا تھا’ نا‘! ہم نے بدر میں جانا ہے تین دن تک وہاں ہم نے قیام کرنا ہے۔ وہاں شرابیں پئیں گے۔ وہاں جشن منائیں گے۔ پورے عرب پہ ہماری دھاک بیٹھے گی۔ اسے بڑے لوگوں نے سمجھایا لیکن وہ ماننے کو تیار نہ ہوا۔ ہر منزل پہ ہر روز کوئی نہ کوئی سردار دعوت کرتا۔ ۹؍ یا ۱۰؍ اونٹ ذبح کرتا۔ اور یہ قافلہ آگے بڑھ رہا ہے۔
اُدھر حضور ﷺ نے صحابہ کو جمع کیا۔ مٹھی بھر جماعت۔ ایک چھوٹا سا گھونسلہ جو تیار کیا تھا۔ ایک چھوٹی سی کائنات اور دنیا جو حضور نے تیار کی تھی۔حضور ﷺ نے فرمایا صحابہ مجھے مشورہ دو۔ اشیروا علیَّ ایھا الناس! لوگو! مجھے بتاؤ کیا کِیا جائے؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ؛ انہوں نے عرض کی حضور! آپ جو چاہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ حضرت مقداد نے عرض کی حضور آپ ’برک الغماد‘ تک بھی جانا چاہیں تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔حضور نے فرمایا مجھے مشورہ دو۔ ابو بکر و عمر نے عرض کی کہ اے ہادیِ دوراں! ہمارے مال و جاں اولاد سب سب کچھ آپ پر قربان ؂
غلامانِ محمد جان دینے سے نہیں ڈرتے
یہ سر کٹ جائے یا رہ جائے کچھ پرواہ نہیں کرتے
اُٹھے مقداد عرض کی اے سرورِ عالم
نہیں ہیں قوم موسیٰ کی طرح کَہ دینے والے ہم
ہمارا فخر یہ ہے ہم غلامانِ محمد ہیں
ہمیں باطل سے کیا ڈر؟ زیرِ دامانِ محمد ہیں
حضور علیہ السلام نے پھر فرمایا اشیروا علیَّ ایھا الناس! لوگو! مجھے مشورہ دو۔ حضرت عمر فاروق پھر اٹھے۔ حضور نے پھر فرمایا اشیروا علیَّ ایھا الناس!لوگو! مجھے مشورہ دو۔ تو حضرت سعد بن معاذ اُٹھے۔ عرض کی شاید حضور کی مراد انصار سے ہے۔ ؂
ادب سے عرض کی انصار ہیں ہم یا رسول اﷲ
غلامانِ شہِ ابرار ہیں ہم یا رسول اﷲ
اگر ارشاد ہو بحرِ فنا میں کود جائیں ہم
ہلاکت خیز گردابِ بلا میں کود جائیں ہم
نبی کا حکم ہو تو پھاند جائیں ہم سمندر میں
جہاں کو محو کردیں نعرۂ اﷲ اکبر میں
یہ قریشِ مکہ تو کیا چیز ہے تیغوں سے لڑ جائیں
سنانِ نیزہ بن کے سینۂ باطن میں گڑ جائیں
حضور آپ کا حکم تو ہو۔آقا کریم علیہ السلام خوش ہوگئے۔ چلو بدر کی طرف پیش قدمی کرو۔ ۳۱۳؍ افراد پر مشتمل یہ قافلہ جب مدینے سے نکلا تو عجیب حالت تھی۔ مختصر سامان تھا۔ ؂
دو گھوڑے، چھ زِرہیں، آٹھ شمشیریں
پلٹنے آئے تھے یہ لوگ دنیا بھر کی تقدیریں
مسلمان جب نکلے نا! تو ان کے پاس تلواریں کتنی تھیں؟ آٹھ تھیں۔ وہ بھی مؤرخین لکھتے ہیں سلامت نہیں تھیں؛ کسی کا دستہ ٹوٹا ہوا تھا، کسی کی نوک نہیں تھی، کوئی زہر میں بجھنے والی تھی اور دو گھوڑے تھے، ستر اونٹ تھے، اور چھ زِرہیں تھیں؛ جن کے پاس تلواریں نہیں تھیں انہوں نے کھجوروں کے ڈنڈے توڑ لیے تھے۔ اﷲ اکبر! کیسا منظر تھا، کیسا ماحول تھا۔ ؂
یہ لشکر ساری دنیا سے انوکھا تھا نرالا تھا
کہ اس لشکر کا افسر نوری چادر والا تھا
عجیب رنگ تھا اس لشکر کا۔ چشمِ فلک نے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا ہوگا۔ فاقہ مست لوگ؛ جن کے بدن پر پورے کپڑے بھی نہیں ہیں۔ اور دنیا کی اس وقت کی بڑی طاقت سے ٹکر لینے کے لیے پورے جذبوں کی فراوانی سے جب مدینے سے باہر نکلے ؛ تو یہودی اپنی دکانوں پہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اِنہیں دیکھ کر کہنے لگے کہ مسلمانو! تمہارے پاس نہ کوئی اسلحہ ہے، نہ کوئی نیزے، نہ کوئی بھالے، نہ کوئی خنجر، نہ تیغ و تبر؛ تم کس راستے پہ جارہے ہو؟ آلاتِ حرب و ضرب تو تمہارے پاس ہے نہیں۔ تو مسلمانوں نے حضور ﷺ کی طرف اشارہ کرکے کہا ؂
نہ تیغ و تیر پر تکیہ نہ خنجر پر نہ بھالے پر
بھروسا ہے تو اس سادی سی پیاری چادر والے پر
ہمارا تو آسرا حضور ﷺ کی ذات ہے۔ ہم تو حضور ﷺ کے سہارے جا رہے ہیں۔ ؂
بنا کر اپنے سینوں کی سپر آیاتِ قرآں کو
بظاہر چند تنکے روکنے نکلے تھے طوفاں کو
یہ چند لوگ میدان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ حضور علیہ السلام نے تین اشخاص کے لیے ایک اونٹ مقرر کرلیاکہ باری باری سوار ہوں۔ اور اپنے لیے حضور نے ایک اونٹ تنہا مقرر نہیں کیا۔ بلکہ اپنے ساتھ بھی دو سوار مقرر کیے؛ حضرت ابو لبابہ اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہما اور خود ﷺ۔ حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت ابو لبابہ نے عرض کی کہ حضور ہم اپنی باریاں چھوڑتے ہیں؛ آپ سوار ہو لیں۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا نہ تو تم میرے سے طاقت ور ہوکہ تم چل سکتے ہو پیدل مَیں نہیں چلتا۔اور نہ مجھے ثواب سے بے نیازی ہے کہ ثواب تمہیں چاہیے مجھے نہیں چاہیے۔فرمایا اپنی باری پہ تم سوار ہوں گے اور اپنی باری پہ مَیں سوار ہوؤں گا۔
محبت کے جوش میں یہ قافلہ آگے جارہا ہے۔ عجیب حالت ہے ۔ فاقہ مست ہیں؛ جس کھجو ر کو چوس کے روزہ رکھتے ہیں اسی کو چوس کے افطار کر لیتے ہیں۔حضور آگے بڑھے۔اب جب حضور وہاں پہنچے تو کافروں نے پہلے ہی اونچی جگہ پہ پتھریلے علاقے میں پڑاؤ ڈال لیا ہوا تھا۔ وہاں انہوں نے اپنے خیمے گاڑ لیے تھے۔ اور جس سمت حضور تھے یہ علاقہ نشیبی تھا اور ریت تھی۔ چلتے ہوئے پاؤں دھنستے تھے۔ چلنا مشکل ہورہا تھا۔ سخت گرمی، ۱۷؍رمضان حضور علیہ السلام وہاں پہنچے۔ حضرت سعد نے عرض کی حضور ! اگر اﷲ کا حکم ہے یہاں ٹھہرنے کا رُکنے کا تو مَین کچھ نہیں عرض کروں گا۔ لیکن اگر آپ رائے لینا چاہیں تو میرا خیال ہے کہ ان کنوؤں کے آگے ہم اپنے خیمے نصب کرلیں؛ تاکہ یہ کنویں ہماری پشت پہ چلے جائیں۔ اور ان کنوؤں کو پاٹ دیں، بند کردیں۔ تھوڑا تھوڑا پانی تھا کنوؤں میں۔ اور وہ بھی بہت نیچے۔ اب جب حضور وہاں پہنچیں؛ یہاں مؤرخِ اسلام حفیظ جالندھری نے وادیِ بدر کی فریاد کو بیان کیا ہے۔ وادیِ بدر نے جب اپنے دامن میں اترتے ہوئے ان مقدس مہمانوں کو دیکھا تو وادیِ بدر نے اﷲ سے فریاد کی۔ سنو! بدر نے کیا مانگا۔ ؂
الٰہی کیا خبر تھی ایک دن ایسا بھی آئے گا
کہ تیرا ساقیِ کوثر یہاں تشریف لائے گا
خبر کیا تھی یہاں تیرے نمازی آکے ٹھہریں گے
شہید آرام فرمائیں گے غازی آکے ٹھہریں گے
مالک! مجھے پتا ہوتا؛ طوفانِ نوح میرے اوپر سے گزرا تھا ؛مَیں کچھ پانی جمع کررکھتی۔ آج ان غازیوں کو ان مجاہدوں کو مَیں پانی پیش کرتی۔ مَیں شبنم کے قطرے ہی جمع کرتی رہتی۔ اور آج تیرے رسول کے غلاموں کو وہ پانی پیش کردیتی۔ مجھے کیا پتا کہ میرے بھی مقدر جاگیں گے۔ تیرا ساقیِ کوثر یہاں جلوہ گر ہوگا۔
تیرے محبوب کے پیارے قدم اس خاک پر آئے
الٰہی! حکم دے سورج کو اب آتش نہ برسائے
میرے مالک! سورج کو کَہ دے کہ اب یہ نہ آگ برسائے۔ تیرے محبوب کے قدم اس دھرتی پہ آگئے ہیں۔
اگر اب میرے دامن سے ہوائے گرم آئے گی
تو مجھ کو رحمۃ للعالمیں سے شرم آئے گی
یا اﷲ! میری فریاد پوری کر لے۔ اُس وادی نے فریاد کی اور دعا کرتے ہوئے وادی نے کہا ؂
برائے چند ساعت ابرِ باراں بھیج دے یا رب
بہاراں بھیج دے یارب بہاراں بھیج دے یارب
وادی نے یہ دعا کی ؂
دعا صحرا نے مانگی دامنِ امید پھیلا کر
یکایک ابرِ باراں آسماں پر چھا گیا آکر
مدینے کی بلندی سے جو رحمت کی گھٹا اٹھی
تو استقبال کو فردوس کی ٹھنڈی ہوا اُتری
عجیب منظر بن گیا۔ اچانک بارش برسنا شروع ہوگئی۔ اور نشیبی علاقے کے اندر جو ریت تھی وہ جم گئی اور حوض پانی سے بھر گیا۔ اوپر کیچڑ ہوگیا۔ وہ (کفار)چلتے ہیں تو ان کے پاؤں پھسلتے ہیں اور یہاں پاؤں جمنے لگے ہیں۔ یہ اﷲ کی پہلی مدد تھی جو بدر میں مسلمانوں کو پہنچی۔
رات ہوئی؛ کفار نے عیش و نشاط کی بزم سجائی۔ لونڈیاں ساتھ آئی تھیں اور گانے والی عورتیں ساتھ تھیں؛جو گا گا کے ان کو دادِ عیش دیتی تھیں اور شرابوں کے جام لُنڈھائے جانے لگے۔ اِدھر فاقہ مستوں کی یہ مٹھی بھر جماعت! حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے مسجدِ عریش بنائی گئی۔ ایک چھپر تیار کیا گیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ؛ حضور پہ پہرے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ فرماتے ہیں ساری رات حضور نے سجدوں میں، قیام میں اور رکوع میں گزار دی۔ساری رات اﷲ کی بارگاہ میں روتے رہے۔ اور اﷲ کی بارگاہ میں عرض کرتے رہے اللّٰھم ھٰذا قریش قد اقبلت بخیلاۂا و فخرہا تمارک و تکذیب رسولک، اللّٰھم نصرک الذی و عدتنی…… اے اﷲ! یہ قریش بڑے فخر سے آئے ہیں۔ تجھے بھی جھٹلاتے ہیں، تیرے رسول کی بھی تکذیب کرتے ہیں۔ میرے مالک! جو میرے سے وعدہ کیا ہے وہ وعدہ پورا کردے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورچادرِ انور سر سے سِرک کر کندھوں پہ آجاتی اور کندھوں سے سرک کے حضور کی کمر پہ آجاتی۔ اور مَیں حضور کی چادر دوبارہ سر پہ دیتا اور عرض کرتا: بس کرو یا رسول اﷲ! بس کرو! اﷲ کی مدد آجائے گی بس کرو! لیکن حضور بار بار کہتے یا حی یا قیوم یا حی یا قیوم ۔
ساری رات حضور نے دعاؤں میں گزار دی۔ جب سحری کا وقت ہوا نماز ہوئی ۔ حضور نے لوگوں کو کہا لوگو! صفیں سیدھی کر لو۔ حضور نے ہاتھ میں کوئی چھڑی یا تیر پکڑا ہوا ہے۔ اور لوگوں کو کہا کہ صفیں سیدھی کرو۔ حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ؛ ایک صحابی تھے؛ وہ صف سے تھوڑا سا آگے بڑھ گئے۔ حضور نے اس چھڑی سے ان کے پیٹ میں ٹھوکر دی۔ کہا اِستوِ یا سواد! سواد! سیدھے ہوجاؤ۔ حضرت سواد سیدھے ہوگئے اور ساتھ ہی یہ عرض کرنے لگے : حضور! مجھے اس کی بڑی تکلیف ہوئی ہے۔ درد ہوا ہے۔ مَیں آپ سے بدلہ چاہتا ہوں۔ قصاص مانگتا ہوں۔ سارے صحابہ کے کان کھڑے ہوگئے کہ اس حالت میں یہ کیا کَہ رہا ہے۔…… حضور نے فرمایا اچھا بدلہ لے لے۔ عرض کی حضور! جب آپ نے مجھے چھڑی ماری تھی تو میرا پیٹ برہنہ تھا۔ حضور نے زِرہ کے بند کھول دیے۔ اور پیٹ کو برہنہ کردیا۔ حضرت سواد نے جب حضور کے چمکتے ہوئے بدن کو دیکھا فقبل بطنہ تو چمٹ گئے اور حضور کے پیٹ کو چومنے لگے۔ حضور نے فرمایا سواد! تجھے اس چیز پہ کس نے اُبھارا؟ عرض کی حضور منظر آپ کے سامنے ہے۔ مَیں نے اس لیے یہ کام کیا ہے کہ آخری وقت میرا بدن آپ کے بدن سے چھو جائے۔
اﷲ کے محبوب علیہ السلام نے صفوں ں کو سیدھا فرمایا۔ اور پھر جاکے حضور نے سجدے میں سر رکھ دیا۔ اور پھر حضور نے ایک ایسی دعا مانگی ؛ آج تک ایسی دعا کسی نے نہیں مانگی ہوگی۔ بڑی ناز والی دعا۔ بڑی انداز والی دعا۔ ایسی دعا آج تک نہ کسی نے مانگی اور نہ کوئی مانگ سکتا ہے۔ حضور نے پیشانی سجدے میں رکھ دی۔ آنکھوں میں آنسو ہیں۔ اِدھر فاقہ مست لوگ قطاروں میں کھڑے ہیں۔ اُدھر کفار شرابوں کے نشے میں دُھت ہیں؛ للکار رہے ہیں؛ ہل من مبارز! آؤ ہمارے مقابلے میں۔ حضور علیہ السلام صحابہ کو صفوں میں کھڑا کرکے اپنی پیشانی کو مسجد عریش کی ریت پہ رکھ دیا۔ اور آنکھوں میں آنسو ہیں۔ حضور نے جو دعا کی؛ لفظ سنیں کہا:اللّٰھم ان تہلک ہذہ الاعصابۃ فلن تعبد فی الارض ابدا۔ میرے مالک! مَیں نہیں کہتا کہ ان کو بچا لے۔ لیکن دیکھ! اس دھرتی پہ تیرا نام لینے والے یہی ۳۱۳؍ ہیں۔ میرے مالک! اگر یہ نہ رہیں تو قیات تک تجھے بھی رب کوئی نہ کہے گا۔ بس یہی ۳۱۳؍ ہیں۔ یہی تیرے نام لیوا ہیں۔
اگر اغیار نے ان کو جہاں سے محو کرڈالا
قیامت تک نہیں پھر کوئی تجھ کو پوجنے والا
الٰہی عہدِ لیلۃ المعراج پورا کر
محمد سے جو وعدہ ہوچکا ہے آج پورا کر
اللّٰھم ان تہلک ہذہ الاعصابۃ فلن تعبد فی الارض ابدا۔ اے اﷲ! اگر یہ نہ رہیں تو قیامت تک تجھے بھی رب کوئی نہ کہے گا۔ یہ لفظ حضور کی زبان پہ تھے۔ اور چادر سرک کے کندھوں پہ آئی۔ کندھوں سے سرک کے کمر پہ آگئی۔ حضرت ابوبکر صدیق عرض کرتے ہیں: بس کرو یا رسول اﷲ! حسبک اللّٰہ یا رسول اللّٰہ! حسبک اللّٰہ یا رسول اللّٰہ! حضور آپ کو اﷲ کافی ہے۔ کہا حضور بس کرو بس کرو! اﷲ کی مدد آگئی۔ لیکن حضور کی آنکھوں میں مسلسل آنسوں ہیں۔ اور کہتے ہیں مالک! یہی مٹھی بھر میری زندگی کی کمائی ہے۔ روئے زمیں پہ یہی ۳۱۳؍ ہیں تیرے نام لیوا ۔ اگر یہ نہ رہے تو قیامت تک تجھے بھی کوئی رب نہیں کہے گا۔
پھر کیا ہوا؟ اچانک حضور نے سر اُٹھایا۔ حضرت ابوبکر صدیق فرماتے ہیں کہ مَیں دیکھ رہا تھا ۔ حضور نے فرمایا أبشر یا أبا بکر، أتاک نصر اللّٰہ، ھذا جبریل اٰخذ بعنانِ فرسہ ابو بکر بشارت ہو! مبارک ہو! وہ دیکھو اﷲ کی مدد آگئی ہے۔ وہ دیکھو جبریل گھوڑے پہ سوار ہیں۔ اور گھوڑے کی لگام کو تھامے ہوئے ہیں۔ اور گھوڑے کے پاؤں پہ گرد جمی ہوئی ہے۔ وہ دیکھو اﷲ کی مدد آگئی۔ اﷲ اکبر!
حضور علیہ السلام یا حی یا قیوم کا وظیفہ پڑھ رہے ہیں۔ اُدھر کافروں نے کہا ہل من مبارز حضور نے تین انصاری جوان بھیجے۔ حضرت حارث، حضرت معاذ اور حضرت معوذ۔ قریش نے پوچھا کون ؟ کہا ہم انصار میں سے کچھ لوگ ہیں۔ کہا جاؤ چلے جاؤ۔ ہمارا تمہارے سے کوئی مقابلہ نہیں۔ ہمارے جوڑ کے لوگ بھیجو۔ ہم اپنے جوڑ کے لوگوں سے لڑا کرتے ہیں۔ انہوں نے آکر حضور سے عرض کی کہ حضور یہ اتنے بڑے متکبر ہیں؛ کہتے ہیں تم ہمارے جوڑ کے نہیں ہو۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا قم یا عبیدۃ! قم یا حمزۃ! قم یا علی! عبیدہ تم اُٹھو، حمزہ تم اُٹھو، علی تم اُٹھو۔ کہا جاؤ تم جوڑ کے ہو۔ بلکہ ان کو توڑ کے آؤ۔ حضرت علی، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ؛ تینوں گئے۔ اُنہوں نے پوچھا کون؟ چوں کہ اِنہوں نے زرہیں پہنی ہوئی تھیں؛ اپنے بتائے۔اُنہوں نے کہا : ہاں ! اب ہماری جوڑ کے آگئے ہیں۔ پھر حضرت علی المرتضی جھپٹے اور اپنے ایک وار میں اپنے دشمن کا کام تمام کردیا۔ شیبہ، عتبہ اور ولید یہ تینوں مقابلے میں آئے تھے۔ حضرت حمزہ نے بھی چندلمحوں کے اندر ان کا کام تمام کردیا۔ حضرت عبیدہ بوڑھے تھے۔ ان کی پنڈلی کٹ گئی۔ اور پنڈلی سے گودا باہر آرہا تھا۔ حضرت حمزہ اور حضرت علی آگے بڑھے اور ان کی مدد کی۔ ان کے مقابل کو قتل کیا۔ حضرت عبیدہ کی آنکھیں کچھ ڈھونڈ رہی ہیں۔ پھر اچانک حضور نظر آئے۔ تو گھسیٹ کے اپنے آپ کو حضور کی طرف کرنے لگے۔ آقا کریم نے دیکھا تو جلدی جلدی آئے۔ حضرت عبیدہ نے اپنا سر حضور کے قدموں میں رکھ دیا۔ اور کیا کہا؟ کہ حضور! کیا مَیں شہید نہیں ہوں؟ تو حضور نے فرمایا أشْہَدُ أنَّکَ شَہِیدٌ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ تم پکے شہید ہو۔ پھر حضور کے قدموں پہ سر رکھا ہوا تھا کہ حضرت عبیدہ کی روح پرواز کر گئی۔ ؂
گر وقتِ اجل سر تری چوکھٹ پہ َدھرا ہو
جتنی ہو قضا ایک ہی سجدے میں ادا ہو
حضرت حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ؛ ایک صحابی۔ ان کو تیر لگا وہ شہید ہوگئے۔ ذرا منظر دیکھیے بدر کا۔ ان کی ماں کو پتا چلا کہ میرا بیٹا شہید ہوگیا۔ وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوگئیں۔ اور عرض کرنے لگیں کہ حضور ! مجھے بتائیں کہ میرا بیٹا جنت میں گیا یا نہیں گیا؟ اگر وہ جنتی ہے تو پھر مَیں صبر کروں گی۔ نہیں تو مَیں بین کروں گی واویلا کروں گی۔ حضور علیہ السلام نے جو جواب دیا سُنیے کیا خوب صورت جواب دیا۔ حضور نے فرمایا ’’حارثہ کی امی تجھے کیا ہوگیا ہے۔ جنت ایک نہیں ہے ؛ اﷲ نے جنت کئی بنائی ہے۔و اِن ابنکِ أصاب الفردوس الأعلیٰ۔ اور تیرا بیٹا حارثہ جنت کے سب سے اونچے درجے فردوس میں ہے۔ جب اس نے یہ بات سُنی نا تو وہ خوشی سے جھومنے لگیں۔ اس نے کہا بخ بخ لک یا حارثۃ۔ حارثہ واہ واہ! تجھے مبارک ہو تُو جنت کا راہی بن گیا ہے۔ اﷲ اکبر!
اب حضور علیہ السلام اسی چھپر میں بیٹھے ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی فرماتے ہیں کہ مَیں جنگ کرتا اور کئی کافروں کو جہنم رسید کرتا پھر مجھے شوق ہوتا مَیں حضور کے پاس جاتا۔ اورمَیں دیکھتا کہ حضور نے سجدے میں سر رکھا ہوا ہے۔ اور کہتے ہیں یا حی یا قیوم یا حی یا قیوم یہ لفظ ہیں حضور کی زبان پہ۔ مَیں تین مرتبہ گیا؛ اور تینوں مرتبہ حضور کی زبان پہ یہی لفظ تھے۔اور سر سجدے میں تھا۔ اُس کے بعد پھر گھمسان کا رن پڑا۔ اور کافروں نے یک بارگی حملہ کردیا۔ حضرت علی المرتضیٰ سے روایت ہے؛ فرماتے ہیں کہ جب کافروں نے یک بارگی حملہ کیا تو ہم نے کیا دیکھا کہ حضور بھی اُٹھ کے آگئے۔ اﷲ اکبر!
فلک سہما ہوا تھا کافروں کی چیرہ دستی سے
زمیں شق ہورہی تھی غلبۂ باطل پرستی سے
مگر جب نور والا آگیا اُٹھ کر مصلے سے
خدائی ہوگئی محفوظ کافروں کے ہلّے سے
صدائے نعرۂ تکبیر سے تھرا اُٹھی وادی
کہ امت کے ضعیفوں کی مدد کو آگیا ہادی
نہتوں کو سہارا مل گیا دستِ پیمبر سے
زمانہ گونج اُٹھا نعرۂ اﷲ اکبر سے
فضا میں ہر سمت لہرا گیا اسلام کا جھنڈا
برائے اہلِ عالم امن کے پیغام کا جھنڈا
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم مصلے سے اُٹھ کر میدان میں آگئے۔ فرماتے ہیں کہ مَیں نے دیکھا کہ کافروں پر سب سے بڑھ کر جو آگے حملہ کرتا تھا وہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔حضور بڑھ بڑھ کے حملہ کرتے تھے اور فرمایا قوموا اِلی جنۃ عرضھا السمٰوات و الأرض۔ نکلو! اس جنت کی طرف؛ جس کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے۔ حضور یہ پڑھتے جارہے ہیں۔ قوموا اِلی جنۃ بڑھو بڑھو جنت کی طرف۔ ایک صحابی تھے؛ وہ کہنے لگے بَخِّ بَخِّ یا رسول اللّٰہ، عرضہا السمٰوات و الارض؟ واہ واہ حضور ! کیا جنت کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے؟ حضور نے فرمایا ہاں! عرضہا السمٰوات و الارض۔ وہ صحابی کھجوریں کھارہے تھے۔ انہوں نے کھجوریں پھینک دیں اور کہا پھر میرے اور جنت کے راستے میں یہ کھجوریں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں؟ اور میدان میں کود گئے اور دادِ شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا۔
پھر ابو جہل نے سوچا کہ یہ تو پانسہ پلٹ گیا ہے۔ تو اس نے کہا آواز دو۔ لنا عزیٰ و لا عزیٰ لکم۔ہمارے پاس عزیٰ ہے تمہارے پاس عزیٰ کوئی نہیں۔ حضور ﷺ نے صحابہ سے فرمایا تم بھی اونچی جگہ پہ چڑھ جاؤ۔ اور جب وہ کہتے ہیں لنا عزیٰ و لا عزیٰ لکم تو تم جواب میں کہو اللّٰہ مولانا و لا مولیٰ لکم اﷲ ہمارا مولا ہے تمہارا مولا ہی کوئی نہیں۔ فرمایا یہ آواز دو۔ا ب یہ آواز دی جارہی ہے۔ کیسا منظر ہے بدر کا! اﷲ اکبر! …… حق و باطل ٹکرارہے ہیں۔ اﷲ نے بھی اس دن کو یومِ فرقان کَہ کے پکارا۔
حق اور باطل ٹکرا رہے ہیں۔ حضرت عبد الرحمٰن ابن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں؛ عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں آپ؛ فرماتے ہیں : مَیں کھڑا تھا کہ دو لڑکے آگئے۔ نو عمر ہیں۔ کہنے لگے چچا! ابو جہل کو جانتے ہیں؟ مَیں نے کہا بیٹا تم نے کیا کرناہے؟ کہنے لگے کہ ہم نے قسم کھائی ہے کہ یا مَر جائیں گے یا ماریں گے۔ کیوں کہ سُنا ہے کہ وہ حضور کو گالیاں دیتا ہے۔ مَیں نے کہا کہ اس کے گرد تو ایک بہت بڑا دستہ ہے فوج کا۔ وہ کہنے لگے یہ دستہ عزرائیل کا راستہ نہیں روک سکتا۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے اشارہ کیا کہ ’وہ ‘ابو جہل ہے۔کہتے ہیں کہ ابھی میری انگلی ہی اُٹھی تھی کہ مَیں نے دیکھا کہ شہبازوں کی طرح جھپٹ کہ وہ ابو جہل کے اوپر ٹوٹ پڑے۔ لڑتے لڑتے ایک کا بازو کٹ گیا۔ لیکن اس کا چمڑا جو تھا؛ وہ اَڑا رہا۔ جس کی وجہ سے لڑتے لڑتے رکاوٹ ہوتی تھی۔ اُس نے اپنے ہاتھ کو پاؤ تلے رکھ کہ توڑ کے پھینک دیا۔ جو جہاد کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے ؛ وہ اپنا بازو بھی ہو تو اسے ہٹا دیں گے راستے سے…… ابو جہل کی ٹانگیں کاٹیں۔ اور پھر دوڑے دوڑے حضور کے پاس آئے۔ننھی تلواریں، چھوٹے چھوٹے بچے معاذ اور معوذ! عفراء کے بیٹے؛ یہ دونوں حضور کے پاس آئے۔ ایک نے کہا حضور ہم نے ابو جہل کو قتل کیا ہے۔ دوسرا کہنے لگا نہیں نہیں حضور مَیں نے قتل کیا ہے۔یہ آپس میں میٹھی لڑائی لڑنے لگے۔ حضور فرمانے لگے تم نے تلواروں کو دھویا تو نہیں ابھی؟ کہا نہیں حضور!۔ فرمایا لاؤ اپنی تلواریں۔ جب تلواریں لائی گئیں تو دونوں کو خون لگا ہوا تھا۔ حضور نے فرمایا کِلَا کُمَاقَتَلَہٗ۔ تم دونوں نے مل کر اسے قتل کیا ہے۔
یہ غزوہ جاری تھا اور کافر کٹ کٹ کر گِر رہے تھے۔ اور اﷲ تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی۔ ستّر کافر مارے گئے۔ ستّر کافر موقع پر ہی قتل ہوئے۔ ستّر افراد کو گرفتار کر لیا گا۔ باقی دُم دبا کر بھاگ گئے۔ سخت سراسیمگی کا عالم تھا۔ نعرہائے تکبیر لگ رہے ہیں۔ صحابہ حضور ﷺ کو دیکھتے ہیں اور میدان جنگ میں کود پڑتے ہیں۔آواز آتی ہے اقدم ہَیزوم! ہَیزوم آگے بڑھو! صحابہ نے عرض کی حضور! یہ ہیزوم کون ہے اور آواز دینے والا بھی نظر نہیں آتا؟ فرمایا یہ جبریل کی آواز ہے۔ اور ہیزوم؛ جبریل کے گھوڑے کا نام ہے۔ وہ اپنے گھوڑے کو کہتا ہے کہ تُو بھی آگے ہوجا۔ مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ جبریل بھی لڑ رہا تھا اور وہ بھی جہاد میں تھا۔ اﷲ اکبر!
اﷲ نے اسلام کو فتح دی۔اسلام کو کامیابی دی۔ اﷲ کے محبوب علیہ السلام نے اﷲ کا شکر ادا کیا۔…… لڑتے لڑتے کئی مناظر آئے ؛ حضرت عکاشہ کی تلوار ٹوٹ گئی۔وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور تلوار ٹوٹ گئی ہے۔ حضور کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا وہ ہی اس کو دے دیا۔ قاتل بھٰذا یا عکاشہ۔ عکاشہ اس کے ساتھ لڑو۔ کہتے ہیں کہ جب یوں لہرایا تو وہ لوہے کی تلوار بن گئی۔ اور ساری زندگی حضرت عکاشہ کے ساتھ وہ تلوار رہی۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میری آنکھ کے قریب تیر لگا۔ اور آنکھ کاڈھیلہ باہر آگیا۔ مَیں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضور نے اپنا لعاب لگایا اور جہاں وہ ڈھیلہ تھا وہیں رکھ دیا۔ فکان لا یَدری أی عَینَیہ اُصِیبَت۔ حضرت قتادہ کو پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ آنکھ خراب کون سی ہوئی تھی۔یعنی دونوں کی روشنی ایک جیسی تھی اور کوئی نشان بھی باقی نہیں رہا تھا یہ حضور کے لعاب کی برکتیں تھیں۔
اﷲ نے اسلام کو فتح دے دی۔ حضور علیہ السلام نے تین دن وہاں قیام فرمایا۔قیام فرمانے کے بعد حضور وہاں سے چلے۔ راستے میں ایک جگہ پہ حضور نے پڑاؤ کیا تو جبریل بھی آگئے اور جبریل نے کہا رَضیتَ یا رسولَ اللّٰہ؟ حضور آپ راضی ہوئے کہ نہیں ہوئے ہیں؟ حضور نے فرمایا مَیں راضی ہوگیا۔ کہا مجھے اﷲ نے کہا ہے کہ میرے محبوب سے پوچھ کر آنا ہے؛ اگر اجازت دے تو آنا ہے۔ تو مَیں اجازت چاہتا ہوں۔حضور نے فرمایا چلے جاؤ۔ حضور نے حضرت عبداﷲ بن رواحہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو کہا کہ تم ذرا آگے چلے جاؤ اور اہلِ مدینہ کو خبر دو کہ اﷲ نے اسلام کی فتح عطا فرمادی۔ یہ آگے آگے چلے گئے۔
حضرت عبداﷲ بن رواحہ اور حضرت زید بن حارثہ نے جاکر لوگوں کو کہا کہ لوگو! مژدہ باد! مبارک ہو!ابو جہل قتل ہوگیا۔ امیہ قتل ہوگیا۔ ولید قتل ہوگیا۔ عتبہ قتل ہوگیا۔ شیبہ قتل ہوگیا۔ ان کے بڑے بڑے سردار قتل کر دیے گئے۔ اﷲ نے اسلام کو فتح دے دی۔ستّر اُن کے قتل ہوئے اور چودہ مسلمانوں کے شہید ہوئے۔ تیرہ موقع پہ اور ایک راستے میں۔ اب منافق؛ جو یہ کَہ رہے تھے کہ اتنی بڑی قوم سے ٹکرانا یہ ان کے بس کی بات ہی نہیں ہے ۔ ان کے پاس تو کھجوروں کے ڈنڈے تھے۔ تلواریں بھی کُند تھیں۔ یہ کیسے لڑے ہوں گے۔ وہ کہنے لگے کہ نہیں نہیں غلط کہتے ہو غلط کہتے ہو۔ تمہاری عقل کو کچھ ہوگیا ہوا ہے۔ بلکہ ایک منافق نے کہا کہ زید بن حارثہ جس اونٹ پہ سوار ہے وہ تو حضور کا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حضور نہیں آئے ہیں؛ یہ ان کے اونٹ پہ بیٹھا ہوا ہے۔ حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ کافروں نے منافقوں نے اتنا پراپیگنڈہ کیا کہ مجھے بھی شک ہوگیا۔ مَیں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ ابا جی! کیا واقعی مسلمانوں کو فتح ہوئی ہے؟ پھر میرے باپ نے کہا بیٹا کیا کہتے ہو اﷲ نے اسلام کے جھنڈے ہی گاڑ دیے ہیں۔ اﷲ اکبر!
ٍ حضرت عاصم بن عدی کہتے کہ مَیں نے حضرت عبداﷲ بن رواحہ کو ایک طرف کیا۔مَیں نے کہا ا حق ما تقول یا ابن رواحہ! اے رواحہ کے بیٹے! جو تم کہتے ہو حق کہتے ہو؟انہوں نے کہا ای واﷲ ! اﷲ کی قسم ایسا ہی ہوا ہے۔ ایسا ہی ہوا ہے۔ کافر بھاگ گئے ہیں اﷲ نے اسلام کو فتح دے دی ہے۔ ……کہتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ گواہیاں دیں ؛ تو جو بچے تھے نا مدینے میں! وہ باہر گلیوں میں نکل آئے۔ اور اونچی اونچی آواز کیا لگاتے تھے؛ وہ کہتے تھے قُتِلَ اَبُو جَہْلٍ اَلفَاسِق وہ فاسق ابو جہل قتل کردیا گیا، قتل کردیا گیا۔ اور اب وہ تیاریاں کرنے لگے حضور ﷺ کے استقبال کی۔ آقا کریم جب تشریف لائے؛ وہ منظر مدینے کا دوبارہ تازہ ہوگیا؛ اور آج مَیں اس کو مختلف کتبِ سِیَر سے پڑھ رہا تھا؛ کیسا خوب صورت منظر؛ کہ جب حضور تشریف لائے ؛ حضور کے چہرے پر طمانیت کا نور تھا۔ چہرہ چمک رہا تھا۔ اور جب حضور نے مدینے میں قدم رکھے؛ تو بنو نجار کی وہی بچیاں دف لے کر آ گئیں۔ اور انہوں نے وہی گیت چھتوں کے اوپر چڑھ کر ؛ وہی گیت جب حضور آئے تھے تو گایا تھا؛ آج پھر ان کی زبان پہ ہے۔ ؂
طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا ما دَعا للّٰہ داع
کہ وہ دیکھو! چاند طلوع ہوگیا وداع کی پہاڑیوں سے، وہ دیکھو! چاند چڑھ گیا ہے۔اور حضور یوں تشریف لائے مدینہ میں۔ اﷲ نے اسلام کی عظمت کے جھنڈے گاڑ دیئے اور اس دن کو میرے رب نے بھی یومِ فرقان کَہ کے پکارا۔
۲۲؍ رمضان کو حضور ﷺ نے مراجعت فرمائی۔ اور جمعہ کا دن تھا جب حضور مدینہ شریف پہنچیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اسلام کو فتح دے دی۔ مٹھی بھر جماعت ؛ ۳۱۳؍ افراد۔ اور ان کے بدن کے اوپر چیتھڑے تھے۔ بلکہ عمیر بن وہب؛ یہ ابو جہل کا جاسوس تھا۔ اس نے کہا کہ جا مسلمانوں کی تعداد دیکھ کر آ کتنی ہے۔ عمیر بن وہب جب واپس پلٹا تو اس نے اطلاع دی کہ مَیں نے خوب وادی و ٹیلے دیکھے ہیں کمک بھی پیچھے موجود نہیں ۔ وہ صرف تین اونٹ کھا سکیں گے۔ یعنی ان کی صرف اتنی تعداد ہے۔ ابو جہل کہنے لگا پھر تو تین سو کے آگے پیچھے ہوں گے۔ کہا ہاں۔ کہا ان کے پاس اسلحے بھی بہت تھوڑے ہیں۔ بدن پر جو کپڑے ہیں ان کو پیوند لگے ہوئے ہیں۔ ان کے پیٹ بھی کمر سے جُڑے ہوئے ہیں۔ابو جہل نے صنادید قریش کو اپنے خیمے میں بلالیا۔ کہا سنتے ہو عمیر کی رپورٹ! کل لڑائی کی نوبت نہیں آئے گی۔ رسیاں اکٹھی کرو اور انہیں جکڑ جکڑ کے اونٹوں کی پشتوں سے باندھنا ہے۔ اور پھر جا کے حرم کی دیواروں سے باندھنا ہے۔ لوگوں کو تماشہ دکھانا ہے کہ یہ نئے دین کے دعوے دار ہیں۔
جب صنادید قریش کو بلا کر یہ رعونت بھری باتیں ابو جہل نے کیں؛ تو عمیر جو مسلمانوں کو دیکھ آیا تھا؛ اس نے جو جملہ کہا وہ سُنیے : ’’ ولٰکن قد رأیتُ یا معشرَ القُرَیشٍ ! البَلَایا تحمل المَنَایا…… اے قریش کے سردارو! تکبر میں نہ آؤ۔مَیں نے اپنی اِن آنکھوں سے دیکھا ہے کہ یثرب کی اونٹنیاں اپنی پشتوں پہ موتیں اٹھا کے لے آئی ہیں۔ اور تم کہتے ہو کہ رسیاں اکٹھی کرو! میرا مشورہ مانتے ہو تو رات کی تاریکی میں بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاؤ۔ اس قوم سے لڑنا تمہارے بس کا روگ نہیں ہے جو مرنے کے لیے آئی ہے۔ اور مَیں نے زخمی سانپوں کی طرح انہیں پیچ و تاب کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ واﷲ ! کل ان میں سے کوئی مرے گا نہیں جب تک تم میں سے ایک ایک کو لڑ نہیں جاتا۔ اور اگر اتنے لوگ تمہارے مَر جائیں تو پھر افسوس ہے تمہارے جینے پر ۔ تم کہتے ہو رسیاں اکٹھی کرو؛ میرا مشورہ مانو تو رات کی تاریکی میں بھاگ جاؤ۔ اس قوم سے لڑنا تمہارے بس کا روگ نہیں…… پھر اگلے دن میرے رب نے بھی اس دن کو یوم فرقان کَہ کے پکارا۔
ہم جب ۳۱۳ تھے تو جبر کے خلاف یوں کھڑے ہوئے اور ظلم کا سر بھی توڑا اور فخر بھی توڑا۔ آج دنیا کے اوپر ایک ارب چالیس کروڑ انسان درماندہ، خستہ اور بد حال ہیں۔ آج حال یہ ہے کا بل سے قندھار تک، قلعہ جنگی سے دشتِ لیلیٰ تک، تورا بورا سے تکریت تک، موصل سے بغداد تک، جاوا کے ساحل سے رماد کے کوچہ و بازار تک، نیل سے کاشغر تک، القد س سے کشمیر تک ، دریائے آمو کی لہروں سے ڈل جھیل کے کناروں تک ؛ ہر سمت کفر دَندَنا رہا ہے اور ہم دفاعی پوزیشن میں بھی نہیں رہے۔ پچھلے دنوں چار مزائیلوں سے ایک مسلم ملک (پاکستان)کی آبرو پر حملہ ہوا اور کتنی بد قسمتی ہے کہ اس ملک کے وزیر اعظم نے کہا کہ ہم امریکا سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔ مَیں نے کہا یہ بات صدر کہتا تو شاید مجھے دکھ نا ہوتا؛ تُو تو امام حسین کی اولاد سے تعلق رکھتا ہے تیرے پاس اگر بہتر فرد بھی ہوتے تو وہ بھی میدان میں لے کر آجاتا۔ یہ کیسے حالات آگئے اور کیسے دن آگئے !!!
صاحبو! اس بات میں تو واقعی معقولیت ہے کہ جب تم کمزور ہو تو طاقت ور سے ٹکر نہ لو؛ لیکن اگر تم کمزور بھی ہو لیکن درندہ تمہار ے گھر میں گھس آئے اور تمہارے بچوں کی ہڈیاں توڑنے لگے اور تمہارے گھر کے افراد کا خون پینے لگے اور پھر بھی تم کہو کہ ہم مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں؛ تو یہ کیسی بے ڈھنگی بات ہے ! اب بھی بھلا کوئی جینے کا جواز باقی رہ گیا ہے؟ زندگی اتنی بھی غنیمت نہیں کہ اس کے لیے عہدِ کم ظرف کی ہر بات گوارا کر لی جائے۔
صاحبو! زندگی کے یہ حَسیں لمحے اہلِ بدر کی زندگیوں سے روشنی لے کر منور کیے جاسکے ہیں۔ آج پوری دنیا کے اوپر ایک ارب چالیس کروڑ انسان کبھی خامہ برباد نہ ہوتے ؛ اگر انہیں بدر والوں کا جذبہ نصیب ہوگیا ہوتا۔ ہمارے پاس آلاتِ حرب و ضرب نہ بھی ہوں؛ لیکن مسلمان جب ظلم کے مقابلے میں کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی بڑی قوتیں دم توڑجاتی ہیں؛ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہیں۔ آج ہماری بد بختی اور ہماری رسوائی کا سامان اس لیے پیدا ہوا ۔ ہمارے پاس اسلحے بھی موجود ہیں۔ ایٹمی صلاحیت سے بھی ہم مالامال ہیں۔ نہیں ہے تو جذبۂ بدر ہمارے پاس نہیں ہے۔ ؂
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
٭٭٭
 

Waseem Ahmad Razvi
About the Author: Waseem Ahmad Razvi Read More Articles by Waseem Ahmad Razvi: 84 Articles with 121866 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.