علم کی موتی اور ہماری نوجوان نسل

 علم وہ عظیم نعمت ہے جس کی عظمت اور سر بلند یوں کا صحیح معنوں میں احاطہ کرنا ممکن تو نہیں مگر یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ علم فطرت کے اسرار کو منکشف کرتا ہے، زندگی گزارنے کے آداب سکھاتا ہے، اور خاک نشینوں کو افلاک کی رفعتوں کا ہمراز بناتا ہے علم وہ ذریعہ ہے جس کے بدولت انسان خود آگہی سے لے کر خدا شناسی تک کے منازل طے کرتا ہے۔علم جیسے لا زوال دولت کا ایک بڑا ذریعہ کتابوں کا وجود ہے کتابوں کے فیوض و برکات علمِ انسانیت تک پہنچانے کے لئے سب سے اہم کردار ان لائیبریریوں کا ہے جو صدیوں سے حالات کی ظلمتوں میں تاریخ ساز اجالے بکھیر رہی ہے۔لائیبریری کا وجود ایک دانش کدہ کی حیثیت رکھتا ہے ایسا دانش کدہ جس کی فضاوں میں پہلا سانس لیتے ہی علم و حکمت کی خوشبو محسوس ہو نے لگتی ہے۔ اہلِ حکمت نے مدتوں قبل کتاب کو بہترین ساتھی اور معلم اخلاق قرار دیا ہے ۔کتاب کی حیثت ایک ایسے رفیق کی ہے جو دلوں کے خلوتوں میں گھر کرکے فقط منزل کا سراغ ہی نہیں بخشتا بلکہ منزل ہمکنار ہونے کا سلیقہ بھی بتاتا ہے۔

مگر افسوس صد افسوس کہ آج کا نوجوان موبائل اورانٹر نیٹ کی بھول بلیوں میں اتنا مصروف ہے کہ اسے لائیبریری سے استفادہ کرنے کی مہلت ہی نہیں ،وہ اپنا قیمتی وقت فیس بک وغیرہ جیسے مشغلوں میں ضائع کرتا ہے۔آج کئی لوگ پاکستان تحریکِ انصاف کے نو جوانوں سے یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ان کے کمنٹس تہذیب اور دائرہ اخلاق سے باہر ہوتی ہیں ، نوجوان کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں، ان کا مخصوص نظریات کا اسیر ہونا کوئی اچھی بات نہیں۔اپنی بات سب تک پہنچانا مگر دوسروں کی بات سننے پر آمادہ نہ ہونا دورِ حاضر کا ایک بڑا المیہ ہے ۔آج کے نوجوانوں کی محدود سوچیں انہیں یہی لوریاں دے کر سلا دیتی ہیں کہ ان جیسا اور کوئی نہیں ہے ۔ اس محدود سوچ کی بدولت بہت سے ذہن پرا گندگی اور فکری کم مائیگی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ انسان دوسروں سے کچھ پوچھنے یا سیکھنے کی بجائے اپنی ذات کو ہی عقلِ کل سمجھنے لگ جاتا ہے۔راقم الحروف یہ سمجھتا ہے کہ فکری پسماندگی ہمیں ایک دوسرے سے دور لے جا رہی ہے ، با ایں وجہ اگر ہمارے نوجوان کسی کتب خانہ کا رخ کر لیں ، تو انہیں جلد یہ احسا س ہوگا کہ مو بائل اور نیٹ وغیرہ کی بجائے یہاں کی کتابیں اس پر کو نین کی وسعتوں کا علم ظاہر کرتی ہیں، انہیں جلد یہ احساس ہوگا کہ وہ ایک مخصوص سوچ کا پابند بن کر قدرت کے بخشے ہو ئے علوم سے کس قدر تہی دامن تھا ، یہاں داخل ہو کر محدود سوچ کے کنارے ٹوٹنے لگتے ہیں اور عالمگیر مطا لعاتی فیوض عطا ہونے لگتے ہیں۔دوسروں سے نفرت کرنے کا جذبہ دم توڑنے لگتا ہے اور خلوص کی خوشبو پھیلنے لگتی ہے۔مطا لعہ کی دنیا میں کھو کر کر اسے احساس ہونے لگتا ہے کہ علوم و فنون کی اس بحرِ بے کنار کے مقابلے میں میری حیثیت تو ایک قطرہ کی بھی نہیں ہے۔اپنی ذات کی خود ساختہ خول میں بند رہنے والا نوجوان علومِ قدیمہ و جدیدہ سے استفادہ کر کے کشادہ ظرفی، بلند فکری، عالی ظرفی اور اعلیٰ ذوق کا بہرین نمونہ بن سکتا ہے۔پھر وہ ایک نظرئیے کا نقیب نہیں بلکہ معا شرتی اصلاح اور قومی ترقی کا سبب بن سکتا ہے ،اس کی سوچ کسی ایک لیڈر( خواہ وہ نا اہل ہی کیوں نہ ہو ) پر جمی ہی نہیں رہتی بلکہ اپنی ذہنی بالیدگی کے سبب اس قابل ہو تا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور ان لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لائے جو نہر کے متوازی کناروں کی طرح کبھی نہ ملنے کا عزم رکھتے ہوں۔

دورِ حاضر ذرائع ابلاغ کے استمال اور اس سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کا دور ہے،عصرِ حاضر میں ابلاغ اور ایک دوسرے سے تعلق جوڑنے کے بہت سارے ذرائع ہیں،جن میں اخبارات و رسائل، ٹیلی ویژن،موبائلز اور سوشل میڈیا خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

بے شک یہ تمام ذرائع معاشرے کے منتشر اجزاء کی شیرازہ بندی کرکے ایک مقام پر جمع کر سکتے ہیں مگر ان تمام ذرائع کے پسِ پردہ لائبریریوں کی فکری امداد کار فرما ہے۔راقم الحروف کے قلم کو جو تھوڑی بہت طاقت اﷲ نے ودیعت کی ہے ، اس قوت کا اصل ماخذ لائبریری ہے۔لہذا میں آج کے نوجوان نسل سے یہی گزارش کروں گا کہ وہ موبائل کی دوستی چھوڑ کر لا ئبریری سے اپنا رشتہ استوار کر لیں۔لائبریری ہی وہ جگہ ہے جہاں تنگ نظری کی برف پگھلتی ہے،جہاں خلوص و مروت کا سورج یخ بستہ ذہنوں کو بالیدگی کی حرارت پہنچاتا ہے۔ یقین جانیئے لائبریری ایک بہترین تربیت گاہ ہے مگر اس کا انداز دوسروں سے جدا ہے ،لائبریری کی سرمائے کی حیثیت معلم ضرور ہے مگر یہ معلم زبر دستی اپنا وجود نہیں منواتا،یہ تو خوشبو کا سفر ہے ،گلستاں میں جاؤ تو وہاں کی خوشبو اس آہستگی مگر پائیداری کے ساتھ مشامِ جاں کو معتر کرتی ہے کہ نہ چاہتے ہو ئے بھی یہ خوشبو لا شعور کی گم شدہ تہوں کو مہکا دیتی ہے۔ تعصب اور بغض کی بد بو انسانی حسیات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا کر دیتی ہے ۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری نوجوان نسل کتب خانوں سے اپنا رشتہ جو ڑ لیں ، اپنی آواز صدائے رائیگاں نہیں بلکہ متاعِ بصیرت کا درجہ دیتے ہوئے نگاہِ بلند ، سخن دلنواز اور جاں پر سوز کا حامل ہو جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 285094 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More