’’ک‘‘ سے کرسی’’ک‘‘ سے کرپشن

نشہ حُسن کا ہو، جوانی کا ہو یا اقتدار کا جب اپنے جوبن پر ہوتا ہے تو ہر شے بھُلا دیتا ہے۔ اقتدار کا نشہ ایسا ہے جو نہ صرف خود کو اپنوں سے بیگانہ کر دیتا ہے بلکہ اس نشے میں بدمست لوگ دُنیا و آخرت کو بھی بھُلا بیٹھتے ہیں۔قدرت کا سارا نظام اصولوں کے تابع ہے مگردُنیا دار تو اقتدار کے نشے میں مست ہو کر تمام اصولوں کی حدیں پھلانگ جاتا ہے ۔ قدرت اپنے جزا اور سزا کے نظام کو تواتر سے چلاتی ہے جب صاحبِ اقتدار کی رُسوائی اور بے قدری شروع ہوتی ہے تو پھر اُسے احساس ہوتا ہے لیکن تب وقت گُذر چُکا ہوتا ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی نہیں بلکہ آگے بڑھاتی ہے تاریخ کا سب سے تلخ سبق یہ ہے کہ کبھی کسی نے تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا۔لوگوں کے لیے مثالیں ضروربنتی ہیں مگر اس پر عمل پیرا کوئی نہیں ہوتا۔
قیام پاکستان سے لیکر آج تک مختلف ادوار میں مختلف حکمران برسر اقتدار آئے اور کسی نے اپنی مدت پوری کی اور تو کوئی مدت سے پہلے ہی گھر کو چلاگیا۔ان حکمرانوں کے بلندوبانگ دعوے بھی ہم نے سنے لیکن ان کی کرپشن کی کہانی بھی ابھی تک سن رہے ہیں۔ ہر دور میں ان حکمرانوں سے کچھ لوگ خوش تو کچھ لوگ ناخوش، کوئی خوشی سے تو کوئی مجبوری سے ان کو قبول کررہے ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاستدان بھی اپنے جماعت کے حکمرانوں کو دل سے نہیں بلکہ اپنے مفاد کے لیے قبول کرتے ہیں۔ آپ اپنے علاقے کے لوکل ممبر سے لیکر ایم این اے اورایم پی اے تک دیکھ لو جو اپنے مفاد کے لیے پارٹی تبدیل کرتا نظر آئے گا۔ کل تک جو بندہ ایک لیڈر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا تھا وہی آج دوسرے لیڈر کی تعریف میں زمین آسمان ایک کررہا ہے اور پرانے لیڈر کی برائیاں اس طرح کررہا ہوتا ہے جیسے اس سے برا کوئی ہے ہی نہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے مفاد پرست لوگوں کودوسری پارٹی والے کیسے قبول کرلیتے ہیں؟ صاف ظاہر ہے وہ بھی اپنے مفاد کے لیے کرتے ہیں۔ ایک چیز اور جو نوٹ کی گئی ہے کہ یہ لوگ میڈیا پرآ کر ایک دوسرے کے خلاف ایسے بولتے ہیں جیسے پتہ نہیں کتنے بڑے ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر جب آمنا سامناہوتاہے تو ان سے بڑا ایک دوسرے کا مخلص کوئی نہیں ملے گا۔

سیاستدان ہی نہیں آج کل کے دور میں جس کسی کے پاس کسی بھی قسم کے اختیارات ہیں وہ اختیارات کی کرسی پر خدا بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ وہ نہیں سوچتا کہ میرا رب جب روز قیامت ترازو پکڑے گا تو میرے اختیارات میں کیے گئے فیصلے کون سے پلڑے میں جائیں گے؟ اگر ہم دنیا کو بھول کر آخرت کو یاد رکھیں تو مجھے نہیں لگتا کہ ہم کسی سے حق تلفی کریں گے۔ میرے سامنے ہزاروں مثالیں ایسے محکموں کی ہیں جہاں میرٹ تو دور کی بات رشوت لیکر بھی کام نہیں کیا جاتابلکہ سائل کوذلیل و رسوا کرواتے ہیں۔

اگر میں اپنا یہ کالم محکموں کی کاکارکردگی پر لکھنا شروع کردوں تو اتنے محکمے ، آفیسر اور ان کے ماتحت کلرک ہیں جو میرٹ کی دھجیاں اڑارہے ہیں۔ ایک بات واضح کردوں کہ سارا تالاب گندہ نہیں بلکہ چند گندی مچھلیوں کے مترادف محکموں میں لوگ ہیں جو اداروں کو بدنام کرارہے ہیں۔جہاں وہ لوگ گندے ہیں ادھر ہم خود بھی گندے ہیں کیونکہ جائز کام کو کرانے کے لیے بھی ہم خود رشوت دیتے ہیں تاکہ ہمارا کام جلدی اور آسانی سے ہوجائے۔ قائداعظم کے تصویر میں بڑی طاقت ہے بشرطیکہ وہ تصاویر تعداد میں بڑھتی جائیں تو۔۔

پچھلے سال مجھے ایک عزیز کے ساتھ حج منسٹری آفس جانے کا اتفاق ہوا۔ ادھر جو کچھ دیکھا مجھے یقین نہیں ہورہا تھا کہ ہم مسلمان حج جیسے مقدس فریضے کے لیے بھی اس حد تک بھی جا سکتے ہیں؟ وہاں پر میں نے جو مشاہدہ کیا تو حج منسٹری کے جو سیکرٹری صاحب اس وقت سیٹ پر تھے تو ان کے پی اے صاحب کی اجازت کے بغیر اندر جانا منع تھا۔ اندر وہی جاسکتا تھا جس کی سفارش تگڑی یا قائداعظم کی محبت۔کئی گھنٹوں انتظار کرانے اور اپنے خاص لوگوں کو نبٹانے کے بعد سیکرٹری صاحب نے تمام سائل کوایک ہال میں جمع کیا اور دو الفاظ میں یہ کہہ کر کہ ’’اب کسی کے لیے جگہ نہیں‘‘ ، فارغ کردیا۔ جس کے ساتھ میں گیا تھا انہوں نے ادھر اُدھر فون گھمائے کہ ہمارا کام ہوجائے اور ان کا کام جائز بھی تھا مگر صاحب کرسی کے لے جائز نہیں تھا۔فون گھمانے کے بعدآخر قائداعظم کی تصویر نے کہا کام ہوجائے گا مگر جتنی تعداد میں تصاویر مانگی وہ جائز کام کرانے والوں کی پہنچ سے دور تھی ۔میں نے بھی ان کو گائیڈ کیا کہ حج جیسے فریضے کے لیے حرام پیسے دیکر حج کرنے سے بہتر ہے نہ ہی کرو۔ا ب کوئی حج منسٹریا سیکرٹری سے پوچھے تو اس نے کہنا ہے سب جھوٹ ہے ایسا نہیں ہوتا مگر۔۔۔۔

پاسپورٹ آفس میں جا کر دیکھا تو ادھر تو باہر ہی سڑک پر لمبی لائن لگی ہوتی ہیں اگر اندر جانا ہے تو پہلے گیٹ پر قائداعظم کی فوٹو کا دیدار کراؤ یا پھر فون گھما کر سفارش کراؤ۔ اند ر جانے کے بعد بھی یہی لوازمات پورے کرتے جاؤ تو ٹھیک ورنہ دھکے کھا کر شام کو گھر آجاؤ۔اب ضلعی پاسپورٹ آفس کے ہیڈآف ڈیپارٹمنٹ سے پوچھو تو اس نے کہنا میرے ماتحت ایسا نہیں کرسکتے۔کیا اﷲ کے ہاں وہ جواب دہ نہیں ہونگے؟

ہسپتال میں جاکر دیکھا ہے۔ بڑے ہسپتالوں کی بڑی بات یہاں تو دیہی علاقوں کے بنیادی ہسپتال میں بھی بندر بانٹ ہے۔ کسی چپڑاسی ،ہیلتھ ورکر یا ڈسپنسر کا واقف کار ہے تو آؤ اور جاو ٔ اور گر تم اپنی مدد آپ کے تحت گئے ہو تو پھر صبح ناشتہ کرکے جاؤ اور چار بجے ہی واپس آؤگے کیونکہ آپ کا حق مارنے کے لیے ہسپتال کا عملہ کافی ہے۔ ڈاکٹر جو اس ہسپتال کاہیڈ ہے کیا اس کو خوف ِ خدا نہیں؟پرائیویٹ ہسپتالوں کا تو اﷲ ہی حافظ ہے وہاں تو ہر کام پر پیسہ ہے۔ ٹائم لینے کے لیے بھی پہلے پیسہ دو۔

پولیس کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے پولیس کی تحویل میں کسی بندے سے ملنے کے لیے بھی پہلے منشی کو راضی کرواور پھر ملنا ہوگا۔ ایف آئی آراور دوسرے کاموں کے لیے آپ خود سمجھ دار ہو کیا کیاپاپڑ بیلنے پڑتے ہیں پھر پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈز نے کبھی نہیں کہا کہ ہمارے لوگ کرپشن میں ملوث ہیں۔

اسی طرح محکمہ ایجوکیشن کے ضلعی دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا وہاں پر گورنمنٹ سکولزکے اساتذہ اپنے کام کے لیے ذلیل وخوار ہورہے ہوتے ہیں۔ تبادلے سے لیکرفنڈ نکلوانے کے لیے بھی اپنی جیب ہلکی کرنا پڑتی ہے۔ پرائیویٹ سکولزمالکان اپنی رجسٹریشن نیو اور ری نیو کرانے کے لیے فائل جمع کراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ قائداعظم کی فوٹوکے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ۔ ہیلتھ سرٹیفیکیٹ ، بلڈنگ سرٹیفیکیٹ سے لیکر فائل جمع کرانے تک سب میں رشوت ضروری ہے۔اس کے بعد سی او کی مرضی کئی کئی ماہ تک فائلوں کو ہاتھ نہ لگائے مجال ہے جو کوئی اس سے پوچھ سکے کہ ان کو چیک کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ آپ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے منسٹر سے لیکر آفیسر تک پوچھ لو تو وہ بھی کہیں گے سب جھوٹ ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ سچ سننے اور بولنے کی سکت کسی محکمے کے سربراہ میں نہیں۔ عوام سے جا کرملو اور ان کے مسائل پوچھو تو آنکھ کھلتی ہیں کہ کرپشن کہا ں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم؟کون رشوت لے رہا ہے اور کون دے رہا ہے؟

میں نے تو آٹے میں نمک کے برابر مثالیں آپ کے سامنے رکھی ہیں ورنہ اگر اس کرپشن کے موضوع پر کالم لکھوں تو ایڈیٹوریل انچارج صاحب کالم چھاپنے سے انکار کردیں گے کہ اتنے پیج ہمارے اخبار میں نہیں ہوتے جتنا بڑا کالم ہے۔اگر کرپشن پکڑنی ہے تو پہلے ان تمام محکموں سے پکڑوں جہاں پر درجہ چہارم سے شروع ہوجاتی ہے۔ بچہ چوری گھر سے کرناسیکھتا ہے اگر اس کے پہلی بار نہ روکا گیا تو پھر اس کا رُکنا مشکل ہے اوروہ مستقبل میں اپنے ، اپنے گھروالوں کے لیے اور ملک کے لیے ناسور ثابت ہوگا۔

جب صاحب کرسی اپنے اردگرد کے ماحول کو جھوٹ، بے ایمانی، ناانصافی اور کرپشن سے پاک رکھے گا تو اس سے نہ صرف عوام خوش ہوگی بلکہ اس گاؤں، شہر اور ملک کی ترقی ہوگی اور روز قیامت میرا رب بھی اس سے خوش ہوگا اور اس کے کیے گئے فیصلے اس کو جنت کی راہ پر لیکر جائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فضل و کرم سے اپنا پسنددیدہ بندہ بنا لے تو یہی ہماری آخرت کی کامیابی ہوگی۔
 

Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 211277 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.