دارالعلوم کراچی کے نائب رئیس معروف عالم دین شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ !

دارالعلوم کراچی کے نائب رئیس ،شرعی عدالت کے جج،اسلامی بینکاری کے سرخیل اور میزان اسلامی بینک کے شریعہ بورڈ کے سربراہ معروف عالم دین شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی پر ۲۲ مارچ کو قاتلانہ حملہ دراصل 23 مارچ کو یوم پاکستان پر ملک گیر سطح پر منائی جانی والی سرکاری اور پرائیوٹ تقریبات کو سبوتاژ کرنے کے لیے ملک دشمن قوتوں کی جانب سے پاکستان کی بنیادی اساس کو کمزور کرنے کی ایک مجرمانہ اور سفاکانہ کاروائی تھی جو خوش قسمتی سے ناکام رہی اور بھارتی ایجنسی’’ را ‘‘ایک بار پھر اپنا منہ دیکھتی رہ گئی ،بڑی مشہور کہاوت ہے کہ جسے اﷲ رکھے اسے کون چکھے ۔ اگر ہم مفتی تقی عثمانی کے ساتھ رونما ہونے والے اس واقعے کی تفصیلات اور شواہد کا بغور جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل کر عیاں ہوتی ہے کہ زندگی اور موت صرف اﷲ کے ہاتھ میں ہے جسے اﷲ بچانا چاہے اسے کوئی نہیں مار سکتا۔ مفتی تقی پر قاتلانہ حملہ اس ناقابل تردید حقیقت کی روشن دلیل ہے۔

راقم الحروف (فرید اشرف غازی ) خود کو بڑا خوش قسمت سمجھتا ہے کہ اس کاتعلق برصغیر کے ایک نامور علمی اور مذہبی گھرانے سے ہے ۔ میرے دادا حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمتہ اﷲ علیہ جو کہ پاکستان کے پہلے مفتی اعظم تھے ان کا شمار پاک و ہند کے نامور علمائے دیوبند میں ہوتا تھا جن کی لکھی ہوئی قرآن پاک کی تفسیر’’ معارف القران ‘‘ کا شمار اپنے موضوع پر لکھی گئی دنیا کی سب سے مستند اور مشہور تفاسیر میں ہوتا ہے اور ان کی طرح ان کے پانچوں بیٹے بھی علمی اور مذہبی حوالے سے اپنی علیحدہ شناخت اور مقام رکھتے ہیں ۔ پاکستان کے پہلے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمتہ اﷲ علیہ کے سب سے بڑے صاحبزادے محمد زکی کیفی مرحوم لاہور میں واقع مذہبی کتب کے قدیم اور نامور ادارے ’’ ادارہ اسلامیات ‘‘ کے بانی ہونے کے ساتھ ایک نامور شاعر بھی تھے جن کے مجموعہ کلام’’ کیفیات ‘‘ نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔جبکہ ان سے چھوٹے بھائی محمدرضی عثمانی کراچی میں مذہبی کتب کے قدیم اور مشہور ادارے ’’ دارالاشاعت ‘‘ کے بانی اور بے شمار اسلامی کتب کے ناشر تھے۔ان سے چھوٹے بھائی مولانا محمدولی رازی ( میرے والد) معروف مذہبی اسکالراور عالمی سطح پر مشہور اردو زبان میں تحریر کی جانے جانے والی پہلی سیر ت پاک’’ ہادئی عالم ‘‘ کے مصنف ہونے کے علاوہ ،ٹی وی کے مذہبی پروگراموں اور شاعری کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں جبکہ وہ ایک طویل عرصہ سے روزنامہ امت سے ایک کالم نگار کے طور پر بھی وابستہ ہیں ان کا لکھا ہوا ہفتہ وار کالم’’ روشن جھروکے‘‘ روزنامہ امت کے قارئین میں بہت مقبول ہے اور بہت شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ ان سے چھوٹے بھائی معروف عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی جامعہ دارالعلوم کراچی کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد اسلامی کتابوں کے مصنف اور مذہبی کتابوں کے ادارے ’’ ادارت المعارف‘‘ کے بانی ہیں جبکہ عمر میں سب سے چھوٹے بھائی عالمی سطح پر مشہور ومعروف حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دارالعلوم کراچی کے نائب رئیس ہونے کے ساتھ بہت سی اسلامی کتابوں کے مصنف ،مذہبی کتب کے ادارے’’ مکتبہ دارالعلوم کراچی ‘‘ کے بانی،شرعی عدالت کے جج ،اسلامی بینکاری کے موجد اورمیزان اسلامی بینک کے شریعہ بورڈ کے سربراہ ہونے کے حوالے سے دنیا بھر میں جانے پہچانے جاتے ہیں جبکہ شاعری کا بھی بڑا ستھرا ذوق رکھتے ہیں لیکن علمی مصروفیات کی وجہ سے اس طرف زیادہ وقت اور توجہ نہیں دے سکے مگر اس کے باجود ان کی لکھی ہوئی شاعری ،خاص طور پر حمد اور نعت عوامی سطح پر بھی کافی مقبول ہیں جن میں ایک مشہور زمانہ نعت ’’ الہی ٰتیر ی چوکھٹ پر سوالی بن کر آیا ہوں‘‘ کو معروف نعت خوان جنید جمشید مرحوم نے جس خوش ا الحانی کے ساتھ پڑھا ہے اس کا لطف اسے سن کر ہی آتا ہے۔

مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ بیت المکرم مسجد جاتے ہوئے راشد منہاس روڈ پرنیپاچورنگی کے قریب ہوا ۔2 موٹر سائیکلوں پر سوار چار دہشت گردوں نے اس کاروائی میں حصہ لیا جبکہ ایک کار میں سوار ان کے ساتھی نے فائرنگ کے وقت مفتی تقی عثمانی کی کار کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔دہشت گردوں نے ان کی کار پر 2 بار حملہ کیا لیکن مفتی تقی عثمانی ،ان کی اہلیہ اور کم عمر پوتا اور پوتی معجزانہ طور پرمحفوظ رہے ۔تقی عثمانی کے بیک اپ پر چلنے والی درالعلوم کورنگی کی کار پر بھی فائرنگ کی گئی جس میں ڈرائیور کے ساتھ گارڈ سوار تھے جو تقی صاحب پر حملے کے وقت ان کی کار سے آگے جاکر دہشت گردوں کا راستہ روکنے کی کوشش میں جان سے گئے۔گولیوں کی بارش کے باوجود مفتی تقی عثمانی اور ان کے اہل خانہ کو ایک بھی گولی نہیں لگیبلکہ چھو کر بھی نہیں گزری جو کسی معجزے سے کم نہیں۔ صرف کار کے شیشے ٹوٹنے کی وجہ سے ان کی اہلیہ کے ہاتھ پرچوٹ آئی جو اس پلانٹڈ قاتلانہ حملے کے حوالے سے انتہائی غیرمعمولی بات ہے ۔تقی عثمانی کاباہمت کار ڈرائیور دائیں بازو پر گولی لگنے اور خون بہنے کے باوجود کار کو بائیں بازو سے چلاتا ہوا لیاقت نیشنل ہسپتال لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔ جبکہ تقی عثمانی کی کار میں موجود گارڈ دہشت گردوں کی گولیاں لگنے سے موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔الیکٹرانک میڈیا پر اس واقعے کے حوالے سے متضاد خبریں چلائی گئیں جن پر اس واقعے میں متاثر ہونے والی کاروں اور افراد کے بارے میں غلط رپورٹنگ کی گئی اور دارالعلوم کراچی کی ان دونوں کاروں پر دہشت گردوں کے قاتلانہ حملے کو ایک ہی وقت میں 2 الگ جگہوں پر رونما ہونے والے الگ الگ واقعات قرار دیا گیا جبکہ یہ ایک ہی واقعہ تھا جس میں دارالعلوم کراچی کے نائب رئیس شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی پر ان کی ریکی کرکے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ حملہ کیا گیا۔

جس وقت چچا محترم تقی عثمانی صاحب کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا اس وقت میں اپنے والدمولانا محمدولی رازی صاحب کے ساتھ گلستان جوہر میں واقع جامع مسجد ’’ دارالخیر ‘‘ میں نماز جمعہ کی ادائیگی میں مصروف تھے اس لیے ہمیں فوری طور پر اس واقعے کا علم نہ ہوسکا لیکن جب نماز کے بعد دوائیں لینے کے لیے قریبی میڈیکل اسٹور گئے تو وہاں ٹی وی پر اس قاتلانہ حملے کی خبریں چل رہی تھیں جسے دیکھ کر ہمیں گھبراہٹ ہوئی کہ پتہ نہیں کیا معاملہ ہوا ہے کیونکہ ٹی وی چینل اس حوالے سے متضاد خبریں نشر کررہے تھے لیکن یہ بات باعث اطمینان بنی کہ الحمد اﷲ چچا تقی اور ان کے اہل خانہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے ۔خبر کاعلم ہوتے ہی میں اپنے والد ،بیٹے ،بہن اور بہنوئی کے ہمراہ دارالعلوم کراچی کے لیے روانہ ہوگئے۔دارالعلوم پہنچے تو نہایت غیرمعمولی سیکوریٹی لگی دیکھی جن میں پولیس موبائلز،پولیس اہلکار اور رینجرز کے اہل کاردارالعلوم کے مرکزی دروازے سے لے کر چچا محترم تقی عثمانی کی رہائش گاہ تک راستے میں جگہ جگہ موجود تھے ۔اس زبردست سیکوریٹی سے گزر کر جب ہم تقی عثمانی صاحب کے گھر میں واقع ڈرائنگ روم میں پہنچے تو وہاں پہلے سے ہی بہت سے دیگر لوگ موجود تھے جن سے چچا محترم گفتگو میں موجود تھے۔والد صاحب کو دیکھ کر چچا احترامً میں کھڑے ہوگئے اور ان سے معانقہ کیا جس کے بعد میں اور میرے بیٹے محمد عامر عثمانی ان سے گلے مل کر ایک جانب بیٹھ گئے تاکہ وہ پہلے سے آئے ہوئے مہمانوں کے ساتھ اپنی بات چیت مکمل کرسکیں۔دس منٹ بعد مہمان چلے گئے تو چچا ہم سب کی طرف متوجہ ہوئے اورخیر خیریت دریافت کرنے کے بعد اس واقعے کے حوالے سے گفتگو شروع ہوئی جس کے دوران راقم نے ان کے چہرے پر اطمینان اور بشاشت دیکھی اس سے اندازہ ہوا کہ اﷲ کے ولی کسی بھی سانحہ کے وقت یا بعد اپنے اوسان نہیں کھوتے جیسا کہ چچا محترم کے ساتھ ہوا کہ انہوں نے اتنے خطر ناک دہشت گردانہ حملے کے دوران بھی نہ تو گھبرائے اور نہ ہی ہمت ہاری بلکہ بڑی حاضر دماغی اور فعالیت کا ثبوت دیااور حادثے سے زندہ بچ جانے کے بعد بھی ان کے چہرے پرموجود اطمینان دیکھ کر خوشی ہوئی کہ چچا محترم بہت مضبوط اعصاب کے مالک انسان ہیں ورنہ ایسے موقع پر اکثر لوگ اپنے اوسان کھو بیٹھتے ہیں۔چچا محترم نے والد صاحب اور ہم سب گھر والوں کے سامنے اس سانحے کی بعض اہم باتیں بیان کیں جو قارئین کے لیے اس خصوصی آرٹیکل میں تحریر کی جارہی ہیں۔

مفتی محمد تقی عثمانی کے مطابق جس وقت ان پر حملہ ہوا تو وہ قرآن پاک کی سورت کہف کی تلاوت کررہے تھے ان کے ساتھ گاڑی میں اس وقت ان کی اہلیہ اور ان کا 5 سالہ پوتایمان اور 7 سالہ پوتی دینا پچھلی سیٹ پر موجود تھے جبکہ اگلی سیٹوں پر ڈرائیور اور چچا کا گارڈ بیٹھے ہوئے تھے کہ جوں ہی چچا کی گاڑی راشدمنہاس روڈ پر نیپا چورنگی کے قریب پہنچی تو تین موٹر سائیکلوں پر سوا ر 6 دہشت گردوں نے ان کی کار پر چاروں طرف سے فائرنگ شروع کردی اور انہیں ایسا محسوس ہوا کہ گویا گولیوں کی بارش شروع ہوگئی ہے ۔واضح رہے کہ چچا محترم جب بھی دارالعلوم سے کسی بھی کام کے سلسلے میں باہر نکلتے ہیں تو چچا کی کار کے علاوہ دارالعلوم کی ایک اور کاران کے عقب میں چلتی ہے تاکہ کسی دہشت گردانہ حملے کی صورت میں حملہ آوروں کو روک کر چچا کی جان کی حفاظت کو ممکن بنایا جاسکے اور ایسا ہی حادثے والے روز بھی ہوا ۔چچا کے بیک اپ پر چلنے والی کار میں ڈرائیور عامر اور چچا کا ذاتی گارڈ صنوبر موجو تھا ۔چچا محترم اگر کراچی میں موجود ہوں تو وہ اکثر گلشن اقبال میں موجود مسجد بیت المکرم میں نماز جمعہ کی امامت کرواتے ہیں اور نماز کے بعد بعض اوقات کئی افراد کے نکاح پڑھا کر اپنے گھر یا خاندان کے دیگر قریبی رشتہ داروں کے گھر جانے کے لیے روانہ ہوتے ہیں لیکن مذکورہ واقعے والے روز دہشت گردوں نے ان پردوران سفر قاتلانہ حملہ کردیا جس کی وجہ سے وہ نماز جمعہ پڑھانے کے لیے بیت المکرم مسجدنہ پہنچ سکے لیکن بفضل خد اس پلانٹڈ حملے میں ا وہ خود ااور ان کے اہلیہ وغیرہ محفوظ رہے البتہ ان کی کارمیں اگلی سیٹ پر موجود پولیس اہلکارشہید ہوگیا جبکہ ان کے ڈرائیورحبیب کو چند گولیاں لگیں جن سے وہ زخمی ہوگیا اس دوران دہشت گردوں کی جانب سے فائرنگ جاری تھی کہ ڈرائیور کے کہنے پر چچا اور ان کی فیملی کار سیٹ پر نیم دراز ہوگئے جس سے ان کے چہرے اور جسم ونڈ اسکرین سے کافی نیچے کی جانب ہوگئے اور یوں آگے اور پیچھے کی جانب سے آنے والی گولیوں کی زد سے اﷲ تعالیٰ نے انہیں بچا لیا۔ ۔چچا محترم حملے کے وقت اپنی اہلیہ اور پوتا پوتی کے ہمراہ کار کی پھلی سیٹ پر بائیں دروازے کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈرائیور نے زخمی ہونے اور خون بہنے کے باوجود کار کو روکا نہیں اس دوران ڈرئیور نے چچا سے کہا کہ حملہ آور دوبارہ واپس آرہے ہیں آپ لوگ مزید نیچے ہوجائیں چنانچہ جتنا نیچے ہونا ممکن تھا چچا اور چچی نیچے کی طرف نیم دراز ہوگئے اس موقع پر چچا نے اپنے پوتے اور پوتی اور اپنی بانہوں میں سمیت لیا اور اﷲ تعالی سے دعا کی کہ اﷲ ان بچوں کو اس حملے سے محفوظ رکھ اور ان کی جان بچالے اور اﷲ نے بھی چچا کی مانگی گئی دعاکو رد نہیں کیا چنانچہ اس خطرناک دہشت گردانہ کاروائی میں نہ صرف ان کے پوتا پوتی محفوظ رہے بلکہ اﷲ تعالیٰ نے چچا اور چچی کو بھی کسی بھی قسم کے نقصان سے محفوظ رکھا جو کہ اس واقعے کی نوعیت اور دہشت گردوں کی مسلسل فائرنگ کی شدت کے لحاظ سے ایک بہت ہی غیرمعمولی بات ہے کہ نہ تو چچا کی کار بلٹ پروف تھی اور نہ ہی چچا کے آگے پیچھے کوئی پولیس موبائل چل رہی تھی اس لیے شدید فائرنگ کے باوجود اس قاتلانہ حملے میں چچا ،چچی اور ان کے پوتا پوتی کا زندہ بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں ۔یہ اﷲ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ اس واقعے میں چچا اور چچی کے بہت قریب سے گولیا ں گزرنے کے باوجود کوئی گولی انہیں زخمی نہ کرسکی البتہ کار کے شیشے ٹوٹنے کی وجہ سے چچی کے ہاتھ زخمی ہوئے جبکہ ایک شیشے کا ٹکڑا ان کے پانچ سالہ پوتے یمان کے سینے پر بھی لگا جسے وہ گولی سمجھا اور اس نے حملے کے دوران چچا سے کہا کہ میرے سینے پر گولی لگی ہے جس پر چچا نے فوری طور پر اس کی قمیض کے بٹن کھول کر چیک کیا تو معلوم ہوا کہ کار کے شیشے کا کوئی ٹکڑا اسے آلگا تھا جسے وہ بچہ گولی سمجھ کر خوف زدہ ہوگیا تھا۔

دہشت گردوں کی جانب سے چلائی گئی کئی گولیا ں کار کی اگلی اور پچھلی ونڈ اسکرین سے آر پار ہوگئیں جبکہ پیچھے کی جانب سے چلائی گئی گولیاں ڈگی کے اندر بھی گئیں اور کچھ گولیاں اگلی سیٹوں کی بیک پر بھی جا کر لگیں جبکہ جس طرف چچا بیٹھے ہوئے تھے اس دروازے سے بھی ایک گولی اندر آئی لیکن حیرت انگیز طور پر ان میں سے ایک بھی گولی چچا ،چچی اور بچوں کو نقصان نہ پہنچا سکی ۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گویافرشتے ان سب کی حفاظت پر معمور ہوکر گولیوں کا رخ پھیر نے میں مصروف تھے ورنہ اس دہشت گردانہ حملے میں چچا محترم اور ان کی اہلیہ کا زندہ بچ جانے اور گولیوں کا ان میں سے کسی کو نہ لگنا اتنا حیرت انگیز اور غٰیر معمولی واقعہ ہے کہ اسے سوائے اﷲ تعالی کے خصوصی کرم کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔اس دہشت گردانہ حملے میں دارالعلوم کراچی کی دو کاروں پر سوار 8 افراد پر کیے جانے والے افراد میں سے دو افراد شہید اور دو شدید زخمی ہوئے جبکہ اﷲ تعالی کی مہربانی سے چچا اور ان کی فیملی کا بال بھی بیکا نہ ہوا جس سے یہ سچائی ثابت ہوتی ہے کہ جسے اﷲ بچانا چاہے اسے کوئی نہیں مار سکتا ۔

چچا کی گاڑی چلانے والے ڈرائیور حبیب کو مجموعی طور پر چار گولیا ں لگیں جن کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوگیا جبکہ اگلی سیٹ پر موجود پولیس گارڈ محمد فاروق کے سر میں گولی لگی اس موقع پر زخمی ڈرائیور نے حاضر دماغی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے نہ تو ہمت ہاری اور نہ ہی اپنے اوسان خطا کیے بلکہ نہایت جاں فشانی کے ساتھ چچا تقی کی کارکو لیاقت نیشنل ہسپتال تک بہ حفاظت لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔دہشت گردوں کی کوشش یہ تھی کہ چچا جس کار میں موجود تھے اس کے ڈرائیور کے سر کو ٹارگٹ کیا جائے جس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے ورنہ اگر ڈرائیور کے سر میں گولی لگ جاتی تو وہ لوگ اس قاتلانہ حملے میں کامیاب ہوجاتے اور بقول چچا تقی :’’ میں آج آپ سب کے درمیان یہ تفصیلات بیان کرنے کے لیے موجود نہ ہوتالیکن میرے اﷲ نے دہشت گردوں کی گولیوں کا رخ پھیر دیا اور مجھے اپنی پوری فیملی سمیت محفوظ رکھا جس پر میں اﷲ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے‘‘۔ چچا نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ واقعے کے دوران میں نے دیکھا کہ میری کار کے ڈرائیور حبیب کے دونو ں بازؤں اورہاتھوں سے خون بہہ رہا تھا جس کی وجہ سے اس کے لیے کار چلانا مشکل ہورہا تھا اور وہ بمشکل بائیں ہاتھ سے کار کو چلاکر محفوظ مقام پر پہنچانے کی کوشش کرنے میں مصروف تھا۔ڈرائیور کی یہ حالت دیکھ کر میں نے اس سے کہا کہ تمہارا بہت خون بہہ چکا ہے تم کار کو آگے کسی جگہ روکے اور پیچھے آؤ کار میں خود چلا لوں گا تو اس نے کہا کہ نہیں حضرت یہ نہیں ہوسکتا ، آپ کی جان کو خطرہ ہے ،دہشت گرد دو بار آپ پر حملہ کرچکے ہیں اورہو سکتا ہے کہ وہ تیسری بار بھی کوشش کریں لہذا اس حالت میں کوئی رسک نہیں لیا جاسکتا چنانچہ وہ نہایت تیزر فتاری سے کار چلا کر ہمیں لیاقت نیشنل ہسپتال پہنچانے میں کامیاب ہوگیا اور یوں اس نہایت خطرناک سفر کا اختتام ہوا۔ابھی ہماری مفتی تقی عثمانی سے گفتگو جاری تھی کہ چچا محترم کے شہید گارڈ صنوبر کی میت آگئی اور ہم سب مفتی تقی عثمانی کے ہمراہ دارالعلوم کراچی کی وسیع و عریض اور خوبصوت مسجد کے ’’ باب شفیع‘‘ کے دروازے کے باہر نماز جنازہ پڑھنے کے لیئے کے لیے پہنچ گئے جہاں پہلے سے ہی اساتذہ طلبا اور صنوبر گارڈ کے عزیزو اقارب کی بڑی تعداد موجود تھی ۔صفیں باندھنے کے بعد مفتی تقی عثمانی کی امامت میں سب شرکاء نے مرحوم کی نماز جنازہ پڑھی جس کے بعد ہم سب چچا محترم سے اجازت لے کر واپس اپنے گھرکی طرف روانہ ہوگئے کیونکہ ان کے پاس اس وقت مہمانوں کے تانتا بندھا ہوا تھا اور ایسی مصروفیت کے وقت ان کے ساتھ زیادہ دیر تک بیٹھنا مناسب نہیں تھا۔
تحریر : فرید اشرف غازی ۔ کراچی

Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 125576 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More