سیاست میں مشترکہ تہذیب کا متضاد رویہ

ہمیں نہ صرف ہندوستان کے مشترکہ کلچر کی تاریخ پر فخر ہے،بلکہ آج بھی بہت سے نازک حالات میں بقائے باہم اور کمپوزِٹ کلچر کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔یہاں کے راجا ؤں اورمہاراجاؤں نے بھی چند بہترین ایسی مثالیں پیش کیں جن سے ہمارے ملک کا فخر یہ کردار سامنے آتا ہے۔اسی طرح ادبی تاریخ میں فروغِ کلچر یا مشترکہ تہذیب کی ایک سے ایک نادر مثالیں موجود ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک جمہوری ملک ہم سے فقط تیج وتہوار کے مواقع پر ہی مشترکہ تہذیب کا تقاضاکرتا ہے؟کیا سیکولر زم کا مفہوم یہ ہے کہ ہم مذہبی بندشوں سے آزاد ہوکر ذات پات کے بندھنوں میں الجھ جائیں؟اعداد وشمارموجود ہیں کہ انتخابا ت کے قریبی دِنوں میں سماجی نفسیات کو مجروح کرنے کی جو کوشش کی جاتی ہے ،وہ ایک جمہوری ملک کے لیے مفید نہیں۔

عظیم پریم جی یونی ورسٹی کے سی ایس ڈی ایس( سینٹر فاردی اسٹڈی آف ڈپولپنگ سوسائٹی )کے تحت 2018 میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق 55فیصد ووٹرس اپنی ذات اور اپنے مذہب کے ماننے والوں کو ہی ووٹ دینا چاہتے ہیں۔اس ادارے نے ملک کے فقط 22اسمبلی حلقوں کا ایک سروے کیا۔ایک دوسری رپورٹ میں ہے کہ ہندوستان کی تمام تر ذات کو ایک اکائی تسلیم کر لینے کے بعد جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ 25فیصد لوگ ذات پات کے معاملات میں الجھنا چاہتے ہیں۔ 45فیصد افراد اس ایشو کو کبھی سنجیدگی سے لیتے ہیں کبھی نہیں لیتے،جب کہ 30فیصد لوگوں کا ذات پات کے معاملے میں کوئی دل چسپی نہیں۔

ذات پات اور الیکشن کے مسئلہ پر کوئی بھی رپورٹ سامنے رکھیں، معلوم ہوگا کہ ہمارے ملک کی نصف سے زائد آبادی (ووٹرس) انتخابات کے وقت ایسا کام کرتی ہے جو حقیقی یا مثالی جمہوریت کے خلاف ہوسکتی ہے۔ظاہر ہے جب کسی ملکِ جمہور کی نصف آبادی کا نصب العین؛ ذات برادری کی سیاست یا مذہبی عصبیت ٹھہرجائے تو خود جمہوریت شرمسارہو نے لگے گی۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم اپنے تیج تہوار کے مواقع پر مشترکہ تہذیب کا ثبوت تو دیتے ہیں مگر جمہوریت کے بڑے تہواروں یعنی انتخابات میں جمہوری قوانین کو ہی بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور ملک وقوم کی قسمت لکھتے وقت ذات پات کے بھول بھلیوں میں گم ہوجاتے ہیں۔افسوس کہ پالیسی میکروں نے ہماری سماجی نفسیات ایسی ہی بنادی ہے۔

کئی موڑ پر ہم تضادات کے شکار ہیں۔ مشترکہ تہذیب کے نام پر ہم جو عیدملن یا ہولی ملن کی تقریبات برپا کردیتے ہیں وہ بھی دراصل مشترکہ تہذیب کی علامت نہیں بن پاتی۔ کیوں کہ ان میں بھی خالص سیاسی مقصد کی کارفرمائی ہوتی ہے۔اس لیے یہ کہنے کی گنجائش نکلتی ہے کہ جن قربتوں اور محفلوں کو ہم مشترکہ تہذیب یا ثقافتی رویہ کہہ رہے ہیں،وہ بھی جمہور یت یا ذات پات کی صلیب پر لٹکی ہوئی ہے۔ چناں چہ یہ سوال ابھرتا ہے کہ ماضی میں مشترکہ تہذیب کی جو مثالیں ملتی ہیں، کیا وہ بھی اسی نوعیت کی ہیں؟ کیا جمہوریت اور سیکولرزم کے معاملا ت میں ہمیشہ مطلب یا ذات پات کی زیریں لہریں ہی دوڑتی رہتی ہیں؟ مشترکہ تہذیب کے نام پر منعقد ہونے والی محفلوں اور تقریبوں میں کسی سطح پر شفافیت یا مشترکہ تہذیب کی اصل روح شامل ہوتی تو اس کا مثبت اثر انتخابات کے موقعے پر کسی نہ کسی طرح ظاہر ہوتا مگر اے کاش․․․! حقیقت یہ ہے کہ ہم ریہرسل یا تیاری کے مواقع پر مشترکہ تہذیب کا نمونہ تو پیش کرتے ہیں مگر انتخابات کے وقت ایسا الجھ جاتے ہیں کہ جمہوریت خود زخم خوردہ نظر آنے لگتی ہے۔

مذکورہ ایشو یعنی عید ملن اور ہولی ملن وغیرہ کا’ بہ ظاہر‘ تعلق مشترکہ تہذیب سے ہے،اس لیے اس میں سیاست کی کارفرمائی ہوتوکوئی’ عجب‘ بات نہیں، مگر کوئی سنجیدہ قانونی معاملہ بھی مشترکہ تہذیب کے نام پرمحض سیاسی بن جائے تو معاملہ تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔حالیہ برسوں میں چیف الیکشن کمشنروں نے کئی دفعہ عندیہ ظاہر کیا کہ انتخابات میں ذات برادری کا پتہ نہیں چلنے دیا جائے گا۔ مشترکہ تہذیب کا نمونہ پیش کرتے ہوئے انتخاب ہوں گے۔اسی طرح جنوری2017میں بھی سپریم کورٹ نے ذات پات کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کو غیر قانونی قرار دیا۔ جسٹس ٹی ایس ٹھا کر نے کہا تھا کہ کوئی بھی سیاست داں ذات پات،مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگ سکتا۔ یاد رہے کہ یہ معاملہ فقط اخلاقی نہیں،قانونی بھی ہے۔اس قانونی معاملے کو ذات پات کے مذکورہ اعداد وشمار کی روشنی میں دیکھنے سے ہماری حقیقت خود سامنے آجا تی ہے۔

گہرائی وگیرائی سے سوچنے والے یہ کہے بغیر نہیں رہ پائیں گے کہ آج مشترکہ تہذیب کے تناظر میں قانون اور اخلاق کا معاملہ ایک دوسرے سے مختلف نہیں رہ گیا۔ اگر ذات برادری کے خاتمہ میں قانونی ادارے سنجیدہ ہوتے تو پالیسی بناتے وقت سنجیدیدگی کا ضرور مظاہرہ کرتے۔ آج حقیقت یہ ہے کہ قوانین تو بن رہے ہیں۔ مشترکہ کلچر کو فروغ دینے کا نعرہ بھی بلند کیا جارہا ہے مگر پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کی تقسیم تک میں ذات برادری اور مذہب کا ہی خاص خیال رکھا گیا۔سیاست دانوں سے یہ کہا گیا کہ وہ ذات برادری کے نام پر سیاست نہ کریں، مگر سیاسی پارٹیوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ ان حلقوں سے اپنے نمائندوں کو انتخاب لڑاسکتی ہیں جہاں ان کی ذات برادری کے لوگ بڑی تعداد میں ہوں۔ اس تضاد کے ساتھ ذات پات کا خاتمہ نہیں ہوسکتا او ر نہ ہی انتخابات کے مواقع پر مشتر کہ تہذیب کو فروغ دینے میں ہماری جمہوریت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔’قانونی تلقین‘ کے ساتھ ساتھ سخت قوانین کا نفاذ بھی اہم ایشو ہے۔

ذات برادری کی سیاست روکنے اور انتخابات میں مشترکہ کلچر کی فضا قائم کرنے کے لیے یہ بہتر ہوسکتا ہے کہ امید وار اور حلقوں کے مسائل پر باریکی سے غور کیا جائے۔ جس حلقے میں جس ذات کے افراد کی تعداد زیادہ ہو، اُس ذات کے کسی فرد کو اُس حلقے سے ٹکٹ نہ دیے جانے کا قانون وضع کیا جائے۔ غالب گمان ہے کہ اس کا فائدہ کئی سطح پر برآمد ہوگا۔ سیاسی رسہ کشی میں قدرے کمی آئے گی۔ دَلت کثیر آبادی والے حلقے کا کوئی لیڈر فقط دلت لیڈر نہیں ہوگا۔ کوئی مسلم کامیاب ایم پی /ایم ایل اے فقط مسلمانوں کا ہی ایم پی نہیں ہوگا۔ کوئی مخصوص ذات کا لیڈر،مخص اسی ذات کا لیڈر نہیں ہوگا۔ظاہرہے اس حکمت عملی کی بنیاد پر سیاست آلائشوں سے پاک ہوسکتی ہے۔ہندومسلم کارڈ یا ذات برادری کی سیاست کا خاتمہ بھی ممکن ہے اور حقیقی معنوں میں انتخابات کے معاملات میں مشترکہ تہذیب بھی مثالی بن سکتی ہے۔ گویا جس طرح ہم اپنے تیج تہوار اور تقریبات میں مشترکہ تہذیب کا نمونہ پیش کرتے ہیں،اسی طرح جمہو ری تہوار یعنی انتخابات میں بھی مشترکہ تہذیب کا مظاہرہ کرسکیں گے ،وہ بھی سچے معنوں میں !حقیقی مفہوم کے ساتھ !
 

Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92034 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More