رومن اردو…… ایک منظم سازش

خلافت عثمانیہ دنیا میں اسلامی تشخص کا استعارہ تھی۔ صرف چند سالوں میں اس کا ذکر تک مسلمانوں کی گفتگو،مجالس، مضامین، مکالموں اور کتب سے غائب ہوگیا ہے۔ براعظم پاک وہند کے مسلمانوں نے تو ترکوں سے بھی چند قوم آگے بڑھ کر خلافت تحریک چلائی تھی لیکن آج خلافت تحریک اور خلافت عثمانیہ کے نام سے بھی واقف نہیں۔ترکی ٹوپی علامہ اقبال، مرزا سداﷲ خان غالب کو کئی دیگر قائدین خلافت عثمانیہ سے اپنی عقیدت کے نشان کے طور پر پہنتے تھے۔

جب ترک قوم کے میر جعفر کمال اتاترک نے خلافت عثمانیہ کی بغل میں چھرا گھونپا، مغربی آقاؤں کے اشارے پر اسرائیل کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔ سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر ممالک باالخصوص فلسطین سے ازخود پسپاہی اختیار کی۔ ترکی کی مساجد کو اصطبلوں میں تبدیل کیا اور ترکی میں خواتین کے پردے پر پابندی لگائی۔

سب سے خطرناک کام اس نے یہ کیا کہ ترک زبان کو عربی رسم الخط سے رومن رسم الخط میں بدلا۔ وہ محض رسم الخط کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ اس کے ذریعے ترک قوم کو اسلام سے کوسوں دور لے جانے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو ترک تہذیب وثقافت سے محروم کرنے کا ایجنڈا تھا۔

آج یہی سازش براعظم پاک و ہند میں اردو کے ساتھ ہورہی ہے۔ ہندوستان کے تعلیمی اداروں سے اردو مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔ہندوستان میں عوام کی زبان اردو ہے لیکن نئی نسل اردو لکھنے سے قاصر ہے۔ اس لیے وہ مجبورا رومن اردو لکھ رہے ہیں۔ مقبوضہ جموں کشمیر کی سرکاری زبان اردو ہونے کے باوجود نصاب تعلیم سے اردو کو خارج کرنے کے نتیجے میں آج کی نسل اردو کے حروف تہجی سے ناآشنا ہیں اور اپنا نام بھی اردو میں لکھنے سے قاصر ہے۔

پاکستان میں گزشتہ عشرے میں نصاب تعلیم کو مکمل طور پر انگریزی میں بدل دیا گیا ہے۔ جبکہ اشرافیہ کی اولادیں تو قیام پاکستان سے ہی انگریزی ہی پڑھتی رہی ہیں۔ پاکستان میں رابطے اور لین دین کی زبان تو اردو ہے اورانگریزی کا اب تک معاشرے میں چلن ہوپایا۔ ایسے میں اشرافیہ کے گھروں سے رومن اردو نے جنم لیا اور آج موبائل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنیاں، مشروبات اور دیگر رومزہ استعمال کا سامان بنانے وال ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرپرستی اور اربوں روپے کے اشتہاری بجٹ کے ذریعے رومن اردو کا زہر ہمارے معاشرے میں پھیلایا جارہا ہے۔

یہ بات چند خاندانوں کی ضرورت نہیں بلکہ ایک منظم سازش سے اہل پاکستان کو اردو رسم الخط سے غیر محسوس انداز میں محروم کرنے کی منظم سازش ہے۔ جس کے نتیجے میں ہم اپنی تہذیب آور ثقافت سے محروم ہوں گے۔ اپنے دینی عقائد، اقدار اور تعلیمات ہمارے لیے اجنبی ہو جائیں گے۔ یوں ہمارا مذہب، ہماری تہذیب، ہماری اقدار اور روایات نئی نسل کے لیے مذاق سے زیادہ کچھ بھی حیثیت نہیں ہوگی۔ اشرافیہ طبقہ ان سب اوصاف سے محروم ہوچکا ہے اور اب عوام کو بھی ان کے ماضی سے کاٹا جارہا ہے۔

دشمن نے تو اپنا کام کرنا ہے، اس پر تو حیرانگی کی کوئی بات نہیں۔ فکرمندی اس بات کی ہے کہ بائیس کروڑ عوام، سیاسی قائدین، مذہبی پروہت اور اہل علم سب ہی اس رو میں بخوشی بہہ رہے ہیں۔ کہیں کوئی توجہ اور مزاحمت نظر نہیں ارہی۔ ہم آنکھیں بند کرکے استعمار کی تقلید کیے جارہے ہیں۔ ہمارے ہاں پانچ جماعت پڑھا ہوا فرد بھی انگریزی میں دستخط کرنے کو اعزاز سمجھتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ علماء کرام بھی قومی زبان میں دستخط کرنے میں عار محسوس کرنے لگے ہیں۔ قومی شناختی کارڈوں پر نوے فیصد شہریوں نے انگریزی میں دستخط ثبت کررکھے ہیں۔ نوکر شاہی اور سیاستدانوں میں دو تین کے علاؤہ سب ہی انگریزی میں دستخط کرتے ہیں حالانکہ یہ خالصتاً استحقاقی معاملہ ہے۔

الحمدﷲ تحریک نفاذ اردو پاکستان نے ملک سے انگریزی کے جابرانہ تسلط کے خلاف جدوجہد شروع کردی ہے اور اس کے اثرات ملک کے طول وعرض میں محسوس بھی ہورہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کے پڑھے لکھے لوگ، سیاسی اور مذہبی قائدین، طلبہ تنظیمیں اور باشعور طبقات انگریزی زبان کے غاصبانہ قبضے اور رومن اردو کے زہر افشانی کے خلاف آواز اٹھائیں، عوام کو بیدار کریں اور اس استعماری سازش کی بیخ کنی کے لیے رات دن ایک کردیں۔ اس کے بغیر عالمی استعماریت کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

YOU MAY ALSO LIKE: