پنجاب تقسیم کرنے والوں کی خدمت میں چند گزارشات

پاکستان کے ممتاز دانش وار محمد حنیف رامے اپنی کتاب "پنجاب کا مقدمہ" میں لکھتے ہیں کہ پاکستان بنا تو سندھ ‘ سرحد اور بلوچستان کسی نئے تجربے اور تقسیم کے عمل سے گزرے بغیر ہی پاکستان کا حصہ بن گئے ۔ پنجاب واحد صوبہ ہے جسے قیام پاکستان کے وقت‘ تقسیم کے تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑا ۔مشرقی پنجاب میں آباد لاکھوں مسلمان کوہندؤوں اور سکھوں کی وحشیانہ قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑا ۔ جس کی بازگشت اس وقت کے ادیبوں اور شاعروں کے کلام میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ والٹن کیمپ میں ہیضے کی وبا پھیلنے سے اتنی اموات ہوئیں کہ کتنے ہی ٹرکوں میں انسانی نعشوں کو بھر کے نہ جانے کہاں دفن کیا گیا ۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ 9لاکھ مسلمان تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی نذر ہوگئے ۔کتنی ہی ٹرینیں کٹے پٹے انسانی اعضا سے بھری لاہور پہنچیں۔اس گہرے صدمے سے گزر کر بھی پاک سرزمین پر پہنچنے والوں نے اپنے دکھ بھولا دیئے اور خود کو پاکستان کے دامن میں سمو دیا ۔پنجابی زبان ‘ کلچر‘ تہذیب اور ثقافت سب کچھ انجام کو پہنچ گئے۔سندھ میں ‘سندھی‘ بلوچستان میں بلوچی اور کے پی کے میں پشتو تعلیمی نصاب کا لازمی حصہ ہے ۔اگر کوئی غلطی سے پنجابی میں ماسٹر کرلیتا ہے تو اسے زندگی بھر پچھتاناپڑتا ہے۔ اب جبکہ پنجاب کو ایک بار پھر تقسیم کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔اس ضمن میں‘ میں چند گزارشات عرض کرنا چاہتاہوں ۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ پنجاب کے کچھ علاقے صوبائی دارلحکومت سے دور ہونے کی وجہ سے اتنی ترقی نہیں کرسکے جتنی ترقی لاہور ‘ ملتان ‘ راولپنڈی ‘ گوجرانوالہ ‘ سیالکوٹ ‘ فیصل آباد ‘ اور سرگودھا نے کی۔ذرائع آمدو رفت کی ترقی نے سفر اور بھی آسان کردیئے ہیں‘جس کی وجہ سے دور دراز رہنے والے بھی آسانی سے لاہور پہنچ جاتے ہیں ۔ میرے ایک دوست سعید جاوید( جن کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے) بتا رہے تھے کہ لاہور سے فورٹ عباس کے لیے ہر دس منٹ بعدکوچز چلتی ہیں ۔وہ زمانے گئے جب شام کے بعد ٹرانسپورٹ بند ہوجایاکرتی تھی ۔ مظفر گڑھ ‘ لیہ ‘ میانوالی ‘ بھکر اور ڈیرہ غازی کے علاقوں میں جانے والوں کے لیے بھی رات دن بہترین ٹرانسپورٹ میسر ہے ۔ لاہور سے ملتان اور ملتان سے سکھر موٹروے تقریبا مکمل ہوچکی ہے جس کی وجہ سے اور بھی آسانی ہوجائے گی ۔پھر پنجاب کوتقسیم کرنے کا جواز کیا رہ جاتا ہے ۔ میری نظر میں بنیادی سہولتوں کے فقدان یا دارلحکومت سے دوری کی بنا پر پنجاب کو تقسیم کرنے کا اقدام انتہائی غلط ہے ۔ اس وقت سردار عِثمان بزدار وزیر اعلی پنجاب کے منصب پر براجمان ہیں ‘ وہ اپنے علاقے کی پسماندگی دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں ۔جسے اطمینان بخش قرار دیاجاسکتا ہے ۔ بالفرض اگر نیا صوبہ بنا بھی دیا جائے تو وزیروں مشیروں اور سرکاری افسروں کے انبار لگانے کے سوااور کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ بنیادی وجہ بیورو کریسی کی نااہلی ہے اگر موجودہ بیورو کریسی جنوبی پنجاب کو ترقی نہیں دے سکی تو کیا ضمانت ہے کہ جو سرکاری افسروں وہاں تعینات کیے جائیں گے وہ دودھ کی نہریں بہادیں گے ۔ یہاں میں ایک اور سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ایسا صرف پنجاب میں ہی ہے ‘ سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے تمام علاقے یکساں ترقی یافتہ ہیں ۔ کراچی جہاں پینے کا پانی میسر نہیں ‘ بجلی اور گیس کے بحران نے صنعتی ترقی اورگھریلو زندگی کو اجیرن کررکھا ہے‘ کوڑے کا ڈھیر بننے کی بنا پر جیسے ایشیا کا گندا ترین شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہو چکا ہے ۔اندرون سندھ لاڑکانہ سمیت تھر اور کچے کے علاقوں میں زندگی سسک سسک کردم توڑ رہی ہے ۔ اگر پسماندگی اور عدم ترقی کوہی معیار بنانا ہے تو پھر کراچی کو الگ صوبہ بنانے کے علاوہ سندھ کو بھی تین ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ہوگا ۔ پیپلزپارٹی کے وہ لوگ جوجنوبی پنجاب کے غم میں مرے جارہے ہیں جب سندھ کی بات آتی ہے تو مرنے او ر مارنے پر تل جاتے ہیں ۔بلوچستان کی بات کریں تو نہ وہاں اچھے ہسپتال ‘تعلیمی ادارے اور نہ ہی مواصلاتی نظام موجود ہے ۔کتنے ہی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں بارش کے بعد انٹر سٹی ٹرانسپورٹ بند ہوجاتی ہے ‘ آج بھی وہاں 18ویں صدی کا ماحول ہے۔ خیبر پختون خوا کے آدھے لوگ روزگار کی تلاش میں اس لیے پنجاب آ چکے ہیں کہ وہاں نہ تو زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر ہیں اور نہ ہی روزگار کے مواقع ۔ تو کیا خیبر پختوانخواہ کو بھی دو تین حصوں میں تقسیم نہیں کرنا چاہیئے ؟ہزارہ صوبے کا مطالبہ تو پرانا ہوچکا ۔پنجاب ہی سب کی نظروں میں کیوں کھٹکتا ہے ‘ پہلے پیپلز پارٹی کے سرپر جنون طاری تھا‘ اب مسلم لیگ ن کی جانب سے دو نئے صوبے بنانے کی قرار داد قومی اسمبلی میں جمع ہوچکی ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر پسماندگی کی بنا پر ہی پنجاب کو تقسیم کرنا ہے تو سندھ ‘ بلوچستان اور خیبرپختوانخوا پیرس کیسے قرار پاتے ہیں ان کو بھی کیوں نہ تقسیم کیاجائے ۔ پنجاب دشمنی کی آڑ میں اس کے ٹکڑے کرنا ہمیں ہرگز قبول نہیں اور نہ ہی اس کا جواز بنتا ہے۔ یادرہے کہ جنوبی پنجاب کے جتنے بھی سیاسی قائدین اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے ‘ سب اپنا اپناپیٹ بھرکے چلتے بنے‘کیا اب فرشتے آسمان سے اتریں گے۔ سابق چیف سیکرٹری پنجاب ‘جاوید محمود کا ذکر یہاں کرنا چاہتاہوں ‘جنہوں نے قصور جیسے گندے شہر کو بھی نہ صرف پیرس بنادیا ہے بلکہ اتنی کشادہ اور خوبصورت سڑک بنوائی کہ لاہور کا فاصلہ صرف آدھ پون گھنٹہ رہ چکا ہے۔ موجودہ وزیر اعلی جنوبی پنجاب کی ترقی کے لیے اقدامات کررہے ہیں اگراسی پر اکتفا کیا جائے تو بہتر ہوگا وگرنہ ملتان اور بہاولپور میں چند اہم محکموں کے سپیشل سیکرٹری بھی تعینات کیے جاسکتے ہیں ۔ اگر پنجاب کو ہر حال میں تقسیم کرنا ہی ہے تو پھر سندھ ‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو پسماندگی کا معیار پیش نظر رکھ کر تقسیم کرنا ہوگا ۔اس مقصد کے لیے عدالتی کمیشن قائم کیاجائے جو چاروں صوبوں کے عوام کو فراہم کی جانے والی سہولتوں کا جائزہ لے کر تجویز کرے کہ کہاں کہاں نئے صوبے بنانا مفید رہے گا۔وگرنہ ہم یہی سمجھیں گے کہ یہ سب کچھ پنجاب دشمنی میں ہی کیا جارہا ہے جس کو تقسیم ہند کے وقت بھی دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیاگیا اور اب مزید تقسیم کے تکلیف دہ عمل سے گزارا جارہاہے ۔غیر تو غیر اپنے بھی دھرتی ماں کے ٹکڑے کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔بقول ڈاکٹر محمد اجمل نیازی
اینے زخم مرے جثے تے ‘ جنے ترے وال نی مائیں
ہن تے کجھ نیئں نظریں آندا ہور اک دیوا بال نی مائیں

میں طارق محمود کی یادداشتوں میں شامل ایک کہانی "بنگلہ گوگیرہ " پڑھ رہا تھا ۔ مصنف کا تعلق بیوروکریسی سے تھا ۔ وہ لکھتے ہیں ‘جب اوکاڑہ کو تحصیل سے ضلع کادرجہ دینے کا فیصلہ ہوا تو ضلع کی سہولتیں ‘عمارتیں اور سرکاری نٹ ورک قائم کرنے اور تجاویز دینے کا کام مجھے سونپ دیا گیا ۔میرا اہم ہدف ڈسٹرکٹ کمپلیکس کی تعمیر کے لیے زمین کا حصول اور فزیلبٹی تیار کرنا بھی تھا۔ ڈسٹرکٹ کورٹس ‘ ڈپٹی کمشنر کا دفتر ‘ سرکاری خزانہ ‘ جیل ‘ لاک اپ ‘ پولیس لائنز ایسی بنیادی ضروریات تھیں جن کے بغیر کسی بھی ضلع کے خدو خال مکمل نہ ہوتے ۔اس سارے عمل میں برسوں صرف ہوجاتے ہیں ۔طویل راہداریوں ‘ محرابی برآمدوں پر مشتمل کئی منزلہ عمارتیں وجود میں آتیں جہاں مجسٹریٹوں کی عدالت ‘اہم سرکاری محکموں کی برانچیں کام کرتیں ‘ کچہری کے قریب سول لائنز بھی ضروری تھی جہاں سرکار ی افسر رہائش اختیار کرتے ۔ان تمام تعمیرات کے لیے میں نے دو سو ایکڑ اراضی حاصل کرنے کی تجویز دی۔ جو نہر کے ساتھ ساتھ ملٹری فارم والوں کے قبضے میں تھی ۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ پنجاب کو دو یا تین حصوں میں تقسیم کرنے کی جستجو کررہے ہیں۔ان کی خدمت میں یہی عرض کرنا ہے کہ کیا پہلے پنجاب کے انتظامی اخراجات کم ہیں کہ مزید دو صوبوں کے وزرائے اعلی ‘ گورنرسمیت سرکاری افسران اور ملازمین کی فوج ظفر موج کے دفاتر ‘ رہائش گاہوں اور تنخواہوں کے اخراجات کہیں پورے ہوں گے ۔پنجاب کاصوبہ تو پہلے ہی مقروض ہے جبکہ وفاقی حکومت کا خزانہ بھی خالی ہے اور غیرملکی قرضے اتارنے کے لیے حکومت دوست ممالک اور آئی ایم ایف کے سامنے کشکول لیے بیٹھی ہے۔ایک تحصیل کو ضلع بنانے کے لیے اربوں روپے اضافی خرچ کرنے پڑتے ہیں ۔ جہاں نئے ڈویژن ‘ نئے اضلاع‘ نئی تحصیلیں اور سب تحصیلیں بھی ایک بار پھر وجود میں آئیں گی۔ اس پر کتنا سرمایہ خرچ ہوگا ۔پنجاب تقسیم کرنے والوں کو شاید اس کا اندازہ نہیں ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 659643 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.