خان صاحب کاش آپ وزیراعظم نہ بنتے

عمران خان کی گفتگو اور حسین وعدے جس انداز میں پوری قوم کو آکسیجن کا کام دیتی تھی بلکل اسی طرح عمران خان کی باتیں مجھے بھی بہت اچھی لگتی تھی جہاں قوم میں سنہرے خوابوں کے شوقین افراد یہ چاہتے تھے کہ عمران خان اس ملک کا وزیراعظم بنے وہاں کبھی کبھی میرے دل میں بھی تنگی حالات میں یہ بات کہیں نہ کہیں آ ہی جاتی تھی کہ کم ازکم ایک موقع تو انہیں ضرور ملنا چاہیے مگر اس سوچ کے ساتھ ابا جی کے الفاظ کانوں سے ضرور ٹکراتے تھے بیٹا حکمرانی کی سوچ رکھنا ایک الگ معاملہ ہے اور ملک چلانا ایک الگ معاملہ ہے ضروری نہیں ہے کہ ایک اچھی سوچ رکھنے والا آدمی اچھا حکمران بھی ثابت ہو اور پھر ریاست کی اپنی مجبوریاں اور اصول ہوتے ہیں جسے اس قدر آسانی سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا-
 

image

خیر آج حکومت کے چھ ماہ گزرنے کے بعد مجھے یہ تمام باتیں یاد آنے لگی ہیں۔سوچتا ہوں کہ اس ملک کی عوام کو اگر مسلسل وعدوں پر رکھا جائے تو یہ پوری عمر اس بات کا انتظار کرتے کرتے دنیا سے چلی جائے گی کہ فلاں شخص کو اس ملک کی تقدیر سنوارنے کا موقع ملتا تو وہ ضرور اس ملک میں دودھ کی نہریں بہا دیتا،اور ایک دن وہ آئے گا جب وہ شخص اس ملک کا وزیراعظم بنے گا اور وہ دن ایسا ہوگا جب اس کے بھی دن بھی پھریں گے وہ بھی خوشحال ہونگے ان کے پاس بھی نوکر چاکر ہونگے اور آگے پیچھے گاڑیاں ہونگی،لیکن ایک غریب طبقہ اس قسم کا بھی ہوتاہے کہ جب وہ خوشحالی کی بات کرتا ہے تو اس کی نظر میں صرف یہ ہی بات ہوتی ہے کہ اس کے پاس سر چھپانے کے لیے ایک چھت ہوگی اوراس کے بچوں کا علاج اور تعلیم اس کے بس میں ہوگا،لیکن جب خواب ٹوٹتا ہے نہ تو پھر نہ تو بڑے بڑے سپنے رکھنے والوں کو کچھ ملتا ہے اور نہ ہی مختصر سی سوچ رکھنے والوں کو کچھ مل پاتا ہے-

اس ملک کے 72سالوں سے قوم کے خوابوں کے ٹوٹنے کاسلسلہ جو پرانے پاکستان سے چلا آرہا ہے وہ نئے پاکستان میں جس انداز میں چکنا چور ہوا ہے اس کی آواز بہت دور دور تک سنائی دی گئی ہے بہتر ہوتا کہ عمران خان کنٹینر پر کھڑے رہتے اور قوم کے ساتھ یونہی اچھی اچھی باتیں کرتے رہتے انہیں کروڑوں نوکریاں دینے کی بات کرتے عوام کو نئے نئے خواب دکھاتے اور انہیں بتاتے کہ نیا پاکستان اس کلر کا ہوگا اس پر ہم اس ڈیزائن کی اینٹیں لگوائیں گے جہاں غریب کے لیے آٹو میٹک تندور ہونگے جو حسب منشا انہیں مفت میں روٹیاں نکال نکال کردینگے دنیا بھر کے رئیس اس ملک میں غریبوں کی جوتیاں صاف کرنے کی نوکریاں مانگنے پاکستان میں آئیں گے اور اس نئے پاکستان میں کوئی کرائے کے مکان میں نہیں ہوگا بلکہ انگریز ان کے بڑے بڑے بنگلوں میں آکر کرائے پر رہیں گے۔کتنی اچھے لگتی ہیں نہ اس قسم کی گفتگو ،عمران خان کی بائیس سالہ جدوجہد سے زیاد ہ پر کشش ان کے دھرنے کے 126دن تھے جن میں مجھ جیسے سیاستدانوں سے باغی شخص کے دل میں بھی یہ خیال ضرور آیا تھا کہ ایک موقع تو ضرور عمران خان کو ملنا چاہیے ،خدا شاہد ہے کہ اس سوچ سے آگے میں نہیں جاسکا اگر گیا ہوتا تو یقیناً حسن نثار کی طرح آج میں بھی اپنے آپ کو لعنتیں دے رہا ہوتا۔

تحریک انصاف کی اس حکومت کے اس چھ ماہ میں حج مہنگا ہونے کے علاوہ بھی بہت سے ایسے امتحان آئے ہیں جس نے تبدیلی کی سوچ رکھنے والوں کے کڑاکے نکال دیئے ہیں ۔ جسے محسوس کر کے دل میں جہاں بہت سے خیالات دل میں جنم لیتے ہیں وہاں یہ خیال بھی دل میں آہی جاتا ہوگا کہ اچھا ہوتا کہ عمران خان یوں ہی تقریریں کرتے رہتے اور ہم تبدیلی کی سوچ میں ہی لگے رہتے سنہرے خوابوں میں ہی گم رہتے اور عمران خان ایسے ہی کنٹینر پر کھڑے رہتے اور ہمیں اپنی پیاری پیاری لوریاں سناتے رہتے کیونکہ ایک آس اور امید ہی وہ چیز ہے جو انسان کو اگلے دن کا انتظار کرنے پر مجبور کردیتی ہے جو مایوسیوں کو وقتی خوشحالیوں میں بدل دیتی ہے۔ ایک نوجوان شاید اس میں میں بھی شامل تھا جب کسی سے محبت کا اظہار کرتا ہے تو اسے لندن اور دبئی کی شاپنگ کروانے کا وعدہ بھی کرلیتا ہے اور ایسے ایسے سپنے دکھاتا ہے جو بعد میں شادی کے بعد ہونے والی ہر لڑائی میں زیربحث ہوتے ہیں لیکن اس ملک سیاستدان ہی وہ واحد آدمی ہوتا ہے جو اس طرح کے سپنے صرف اپنی محبوبہ کو نہیں بلکہ پوری قوم کو ہی دکھا دیتا ہے جس کے سہارے وہ جلسے جلوسوں کے معاملے میں اپنے پنڈالوں کو بھرنے میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے الف لیلیٰ کی ہزارداستانیں سنانے والا یہ سیاستدان پوری قوم کو ہی اپنی محبوبہ بنا کر پیش کرتا ہے اس کی میٹھی میٹھی باتوں اور حب الوطنی کے جذبے کو دیکھ کر پوری قوم ہی اس کے پیچھے لگ جاتی ہے اور پھر ایک دن شادی ہوجاتی ہے ،یعنی وہ سیاستدان اس ملک کا حکمران بن جاتا ہے اور پھر کیا ہوتا ہے وہ ہی دبئی اور لندن میں شاپنگیں کروانے کے وعدے یعنی اس ملک میں روزگار نوکریاں ،خوشحالی مفت تعلیم اور مفت علاج اور پتہ نہیں کیا کیا کیے گئے وعدوں کے نا پورا ہونے کے بعد بلکل ایسے ہی جھگڑے جو پسند کی شادی کے بعد میاں بیوی کے اکثر ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں-
 
image

لیکن ایک شادی کا اثر ایک کنبے پر تو ضرور پڑسکتا ہے مگر اس سے ملک کی خوشحالی یا دوسری عوام کا تعلق ہر گز نہیں ہوتا مگر جس لیڈر کی چکنی چپٹی باتوں سے متاثر ہوکر ہم اسے کامیاب کرواتے ہیں تو اس کی وعدہ خلافیوں کا تعلق یقیناً پوری قوم کے ساتھ جڑا ہوتا ہے جس کی خراب کارکردگی اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کی عادت سے پوری قوم کو ہی نقصان اٹھانا پڑت اہے ، میں سمجھتاہوں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے وعدے اور نعرے فی الحال سنائی نہیں دے رہے ہیں کیونکہ یہ دونوں جماعتیں اس وقت اپنے اپنے بچاؤ میں لگی ہوئی ہیں اور پھر رہ گئی موجودہ حکومت یعنی تبدیلی سرکار تو اسے دیکھ کر تو یہ لگتاہے کہ حکومت اس موڈ میں ہی نہیں ہے کہ وہ مزید آگے بڑھنے کی خواہش رکھتی ہے اور اس پر اپوزیشن جماعتیں بھی فی الحال اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ فوری اپنے سہانے سپنوں کا ٹوکرا لاکر عوام کے سروں پر رکھ دیں لہٰذا اب جو کچھ ہے تبدیلی سرکار ہی ہے جس سے ہماری ریکویسٹ ہے کہ جناب ہمت کریں اور وہ تمام وعدے جو آپ نے عوام سے کیئے ہیں وہ پورا کریں کیونکہ آپ کے پاس تو یہ جواز بھی نہیں ہے کہ آپ قوم کو یہ کہہ سکیں کہ ہمیں حکومت نہیں کرنے دی جارہی ہے آپ کو فری ہینڈ حاصل ہے حج مہنگا ہوگیا تو کیا ہوا نماز تو سستی ہے نا لہٰذا سیاسی شہید بننے کی بجائے گھسیٹے اس حکومت کو اگر ایسا کرنے کی مزید سکت نہیں ہے۔ اور آپ سمجھتے ہیں کہ انہیں صرف وزیراعظم بننے کی خواہش ہی تھی جو اب پوری ہوچکی ہے تو پھر اس پر کیا کہہ سکتے ہیں۔ لیکن ایک کام تو آس اور امیدوں میں ڈوبی عوام کے لیے کررہی دیں اور وہ یہ کہ اس ملک کی 22کروڑ عوام کو پھر سے اپنے کنٹینر کے نیچے لے جائیں جہاں آپ اور آپ کے ملک چلانے والے200 ایکسپرٹ موجود ہوتے تھے جن کی باتیں اور وعدے سن کر سے بہت اچھا محسوس ہوتاتھا۔آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔
YOU MAY ALSO LIKE: