جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اسلام دنیاکا یگانہ مذہب ہے جس نے بنی نوع انسان کی مکمل رہنمائی کی ہے۔ دینی، مذہبی، اخلاقی، سیاسی ، سماجی ،اقتصادی غرض کہ زندگی کے ہر شعبہ میں فلاح و کامیابی کا ایک ایسا جامع رہنما اصول دیا ہے جس پر چل کر ہم دین و دنیا دونوں جہاں میں کامیاب و کامراں ہوسکتے ہیں۔اسلام نے کبھی بھی دین و دنیا کی تفریق کو روا نہیں رکھا۔اس کی نظر میں دنیاوی کام بھی اگر شریعت کی روشنی میں انجام دیئے جائیں تو وہ بھی دین ہے اس پر بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اجر ملے گا۔ اگر شرعی اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاست تدبیر و حکمت اورتنظیم کا نام ہے جو افراد معاشرہ کی فلاح عامہ کیلئے کام کرتی ہے۔بہتر تدبیر و انتظام اور جامع حکمت عملی سے معاشرہ کو ایسے اصولوں پر گامزن کرنا جو ریاست مدینہ کے اصول تھے۔

آج ہماری معتبر مذہبی تحریکیں، علماء و مشائخ اور پیر خانے اپنے آپ کو سیاست سے الگ کر کے بیٹھ گئے ہیں اور اپنے اوپر لیبل چسپاں کر دیا کہ ہم غیر سیاسی ہیں، ہمارا سیاست سے کسی قسم کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ ارے محترم ! دین سیاست سے کب جدا ہے؟اگر تم دین کو سیاست سے الگ تھلک کر کے بیٹھ جاؤ گے تو وہ ظلم و جبر ، لوٹ گھسوٹ ، ناانصافی، بے اعتدالی و بد عنوانی کے سوا کچھ نہیں رہے گی ، اور یہ خونخوار معاشی درندے آزاد اور وحشی ہو جائیں گے اور اپنی من مانیاں کرتے پھریں گے اور معاشرہ کو گمراہی و ضلالت کی تاریکیوں میں لے ڈوبیں گے جیسا کہ آج ہے۔اوپر چند سو لوگ ہیں اور نیچے کروڑوں کی عوام ہے ۔ اگر آپ اوپر چند سو کو قابو کر لو گے تو کروڑوں کو قابو کرنا آسان ہے۔ اگر یہ چند سو سدھر جائیں اور دینی اصولوں کے مطابق چلیں اور اس کے مطابق قوانین ترتیب دیں تو معاشرہ کو سدھارنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ سیاست سے دور رہ کر علماء ارب ہا کوششیں کر لیں وہ معاشرہ کی اصلاح نہیں کر سکتے۔ اگر تم حکمرانوں پر چڑھ کے نہیں رہو گے اور ان کی لگام اپنے ہاتھوں میں نہیں لو گے تو معاشرہ کو برائیوں سے کیسے بچا پاؤ گے؟ جب تک ضلالت و گمراہی کے مراکز ، معاشرتی تباہ کاریوں اور بد اخلاقیوں پر اوپر اعلیٰ سطح سے پابندی نہ لگے اور سخت قوانین نہ بنیں ، نیچے سے آپ لاکھ کوششیں کر لیں ان کو نہیں روک پائیں گے۔
مذہبی اصولوں پر چلنے اور چلانے میں حکومت کو بڑاعمل دخل ہے۔اس کو جزا و سزا کا قانون نافذ کرنے والی قوت کہا جا سکتا ہے۔جو قرآن و حدیث اور رشد و ہدایت سے نہ بدلیں، شیطان کی راہ، فساد کی راہ پر چلیں تو ان کو قانون کا ڈنڈا، سخت قوانین کا شکنجہ سیدھا کر دے گا ۔ہمارا معاشرہ جس حد تک پستی میں جا چکا اب اسے سیدھا کرنے کیلئے صرف ڈنڈا پیر ہی کارگر ثابت ہو سکتا۔ روحانی پیر سب بے وقعت و بے اثر ثابت ہو چکے ہیں، وہ معاشرہ میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکے، وہ معاشرتی برائیوں کے سامنے بند باندھنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ وہ معاشرہ کی اصلاح اور پاکیزگی و پاکدامنی کو برقرار رکھنے میں کوئی کردار ادانہیں کر سکے۔ آج کتنی جماعتیں تبلیغ کر رہی ہیں؟ کتنی تحریکیں، کتنی تنظیمیں، کتنے گروہ اور ٹولے معاشرہ کی اصلاح کا بیڑہ اٹھائے ہوئے لیکن کیا معاشرہ کی اصلاح ہو رہی ہے؟ کیا معاشرہ گمراہی و ضلالت کی پستیوں سے نکل کر فلاح، نیکی اور پاکیزگی کی طرف گامزن ہے؟ وہ تو روز بروز گمراہی و ضلالت ، فسق و فجور کی گھٹا ٹوپ اندھیریوں میں گرتا جا رہا ہے۔آخر اتنی اصلاحی تحریکیں ہونے کے باوجود ایسا کیوں ہے؟معاشرہ میں تبدیلی کیوں نہیں آرہی ؟ معاشرہ کی اصلاح کیوں نہیں ہو رہی؟ اصلاحی تحریکیں کیوں مؤثر اور کارگر ثابت نہیں ہو رہیں ہیں؟ کیا اتنی تحریکوں نے مل کر کئی عشروں کی انتھک محنت سے کسی ایک معاشرتی برائی پر قابو پا یا ہے جو اس وقت معاشرہ میں نہیں پائی جاتی؟ کوئی ایک ثابت کر کے دیکھائیں کہ یہ برائی ان کی کوششوں سے معاشرہ میں موجود نہیں۔اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تحریکوں ، گروہوں، ٹولوں اور گدی مکینوں نے اپنے آپ کو سیاست سے الگ کیا ہوا ہے،ان کے ہاتھ کچھ نہیں، ان کے ہاتھ اختیار سے خالی ہیں۔ ان کے ہاتھ وہ قانون اور وہ قدرت نہیں جو برے کا منہ پکڑے اور حق کی طرف موڑ دے۔یہ صرف دھیمی اور نرم بات، نرم لہجہ سے منع تو کر سکتے ہیں مگر کوئی عملی اقدام نہیں اٹھا سکتے۔ اگر ان کے ہاتھ سیاست، قیادت اور اختیارو انتظام ہوتا تو ہر طرح کا عملی اقدام اٹھا سکتے تھے۔ ایسی تحریکیں، ایسے گروہ، ایسے ٹولے ، ایسے گدی مکین حکیم الامت حضرت اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول یاد رکھیں۔
جلالِ بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
ڈاکٹر علامہ اقبال کا یہ شہرہ آفاق شعر بڑا با معنی اور پراثر ہے۔ چنگیزی سے مراد لا قانونیت ہے ظلم و جبر اور خون خرابہ ہے۔ اگر مسلمان قوم ملک کے نظم و نسق اور نظام چلانے میں دین سے علیحدگی اختیار کر لیں تو پھر تباہی شروع ہو جاتی ہے، ظلم و زیادتی ، ناانصافی، بے راہ روی اور خون خرابہ ہی بڑھتا چلا جاتا ہے جیسا کہ آج کا ہمارا معاشرہ بے لاگا م و بے مہار ہے اور ہزار کوششوں کے باوجود نہیں سنبھالا جا رہا۔
ہنوز اندر جہان، آدم غلام است
نظامش خام و کارش نا تمام است
غلام فقر آن گیتی پناہم
کہ در دینش ملوکیت حرام است
اسلام دنیاکا یگانہ مذہب ہے جس نے بنی نوع انسان کی مکمل رہنمائی کی ہے۔ دینی، مذہبی، اخلاقی، سیاسی ، سماجی ،اقتصادی غرض کہ زندگی کے ہر شعبہ میں فلاح و کامیابی کا ایک ایسا جامع رہنما اصول دیا ہے جس پر چل کر ہم دین و دنیا دونوں جہاں میں کامیاب و کامراں ہوسکتے ہیں۔اسلام نے کبھی بھی دین و دنیا کی تفریق کو روا نہیں رکھا۔اس کی نظر میں دنیاوی کام بھی اگر شریعت کی روشنی میں انجام دیئے جائیں تو وہ بھی دین ہے اس پر بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اجر ملے گا۔ اگر شرعی اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاست تدبیر و حکمت اورتنظیم کا نام ہے جو افراد معاشرہ کی فلاح عامہ کیلئے کام کرتی ہے۔بہتر تدبیر و انتظام اور جامع حکمت عملی سے معاشرہ کو ایسے اصولوں پر گامزن کرنا جو ریاست مدینہ کے اصول تھے۔ اسلامی سیاست کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکے، ایک ایسی مضبوط اور لاثانی سیاسی قوت میدان عمل میں ہو جو انسانوں کے عام فائدے ، عام بہتری اور عام تنظیم کے لئے ہو۔ جس میں تمام افراد معاشرہ کو یکساں حقوق دئیے گئے ہوں، کسی پر ظلم نہ ہو ، کسی کا حق نہ دبایا جائے ، کمزوروں کو نہ ستایاجائے ، کوئی شخص اپنی طاقت، مال و جاگیر اور رعب کے نشے میں کسی کمزور پر ظلم و جبر نہ کر سکے، کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو،سبھی کے ساتھ مکمل انصاف ہو ، ہر ایک کی عزت و آبرو کا احترام کیاجائے۔ حکومت تمام افراد کی جان و مال ، عزت و آبرو کی محافظ اور نگراں ہو۔سبھی لوگوں کی طبعی ضرورتیں پوری ہوں، خوراک و لباس کی تنگی نہ ہو، رہن سہن دشوار نہ ہو، کسی پر زندگی تنگ نہ ہو، تعلیم، صحت، روزگار کے انتظامات سبھی افراد معاشرہ کے لئے ایک جیسے ہوں، مالیانے کی جمع اور مستحقین میں تقسیم، غریبوں اور بے کسوں کی خبر گیری، قرض دار کے قرضوں کی احسن ادائیگی، بے گھروں کیلئے رہائش کا اہتمام، بیواؤں کی نگرانی الغرض ہر وہ کام جسے سیاسی قرار دے کر دین سے جدا کر دیا گیا اور جس سے علماء بھی دستبر ہوگئے اور اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا وہ اسلامی تاریخ کا حصہ رہا ہے اور اسے انبیاء و علماء ہی سرانجام دیتے رہے ہیں۔اللہ کے تمام انبیاء و مرسل خود یہ ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں۔ حضور نبی آخر الزماں ﷺ خود اور آپ ﷺ کے اصحاب و تابعین یہ کام سرانجام دیتے رہے ہیں۔آپ ﷺ نے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کیلئے رات دن قربانیاں دی ہیں۔
مسلمانوں کی نظریاتی اساس اسلام ہے۔ ایک مسلمان کسی ایسے سیاسی نظام کو نہیں اپنا سکتا جو مذہب کی بندش سے آزاد ہو یعنی دین کے بغیر ہم مسلمان کسی فلسفہ زندگی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں چاہے وہ معاشرت ہو یا سیاست یا تجارت۔ اسلام کا حکومت و قیادت اور سیاست سے وہی تعلق ہے جو اس کائنات کی کسی بڑی سے بڑی حقیقت کو ہوسکتا ہے۔قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کا ایک بہت بڑا حصہ مذہب، سیاست و حکومت کے تعلق کو ثابت کرتا ہے۔ اللہ کریم کا زمین پر انبیاء بھیجنے کا مقصد صرف زمین تک، زمین کے باسیوں تک اپنا پیغام پہنچانا نہیں تھا بلکہ انہیں بھیجنے کا اصل مقصد زمین پر خدا کے احکامات کا عملی طور نفاذ کرنا اور کروانا تھا، منکرین کے خلاف ٹکر لینا تھا، خدا کا قانون زمین پر رائج کرنا تھااور سیاست سے دور رہ کر نفاذ اور راج ممکن ہی نہیں ہو سکتا ہے۔ پھر یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کے پیغمبر سیاسی نہیں تھے۔ کیا کسی حکمران کا کارکن غیر سیاسی ہو سکتا ہے؟ کیا کسی بادشاہ کے متوالے غیر سیاسی ہو سکتے ہیں؟ کائنات کا سب سے بڑا بادشاہ کون ہے؟ کائنات کا سب سے بڑا حکمران کون ہے؟ کائنات کا سب سے بڑا مدبر، تدبیر و انتظام کرنے والا کون ہے؟ یہ کائنات کے سب سے بڑے بادشاہ، مدبر و تنظیم کرنے والے کے کارکن ہو کر اپنے اوپر غیر سیاسی ہونے کا لیبل لگاتے ہیں۔یہ اس سب سے بڑے بادشاہ کے کارکن ہو کر اس کی کائنات میں اس کے احکام رائج کرنے کی سیاست نہیں کرتے ۔یہ سیاست تو انبیاء کا وظیفہ رہا ہے یہ جس سے الگ تھلگ ،بے وقعت و بے اختیار ہو کر بیٹھے ہیں۔احادیث مبارکہ اور ان کی تشریحات میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سیاست انبیاء اور علماء کا وظیفہ ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے۔
کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء
’’بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کیا کرتے تھے‘‘۔
جتنی امتیں بھی گذری ہیں رب کائنات نے ان کی قیادت و سیاست ، امور ریاست ان کے انبیاء کے ہاتھوں میں دی تھی اور وہ انبیاء اسے خدا کے احکام و ہدایات کے مطابق سر انجام دیتے تھے گویا کہ انبیاء خدا کی کائنات میں خدا کے متعین کردہ نظام حیات و مملکت کے نفاذ کے ذمہ دار و نگران تھے۔اب کیونکہ نبوت و رسالت کا سلسلہ حضور نبی کریم ﷺ پر بند کر دیا گیا ، آپ ﷺ رب کی طرف سے ا س کی کائنات کے آخری منتظم و نگران ہیں اور آپ ﷺ نے تمام ذمہ داریاں احسن طریق سے سر انجام دیں، دین کی تبلیغ بھی کی، سیاست و قیادت بھی کی، جنگیں بھی لڑیں، سرحدوں کا بھی پہرہ دیا، دیکھ بھال بھی کی،معاشرہ سے برائیوں کا بھی قلع قمع کیا،عدل قائم کیا، انصاف کا بھی بول بالا کیا۔بے سہاروں ، لاچاروں کو سہارا بھی دیا۔مساوات قائم کی، اخوت پیدا کی، بھائی چارہ کو فروغ دیا، شریعت و قانون کی نظر میں سب کو ایک کیا۔ کیا یہ سب سیاسی و ریاستی امور نہیں تھے جو آپ ﷺ ساری زندگی ادا کرتے رہتے اور اپنے بعد اپنا جانشیں، اپناوارث علماء کو ٹھہرا کہ یہ میرے کام کو اسی طرح جاری و ساری رکھیں گے۔کیا علماء و مشائخ وہ جانشینی نبھا سکے؟ وہ ذمہ داریاں پوری کر سکے؟ کیا وہ سلسلہ ، وہ معاشرتی روایات، وہ معاشرتی و اخلاقی پاکیزگی ، وہ معاشرتی امن، وہ معاشرہ کی پاکدامنی اسی طرح جاری و ساری رکھ سکے جو حضور رسالت مآب ﷺ نے انہیں وارثت میں دی تھی؟ انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی وراثت میں مال اور جائیدایں نہیں چھوڑیں، علم اور قوم کی قیادت ، سیاست و سیادات چھوڑی ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
’’ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہو ں گے‘‘۔
اب بنی اسرائیل کے نبیوں نے تو ساری زندگی خدا کی حاکمیت قائم کرنے کی سیاست کی ہے، ساری زندگی قوم کی قیادت کی ہے۔ نبوت ملنے کے بعد قوم کی قیادت بنی اسرائیل کے انبیاء نے اپنے ہاتھوں لی حتیٰ کہ وقت کے بادشاہ کو بھی نبی کا حکم تسلیم کرنے کا کہا گیا کہ وہ نبی کے آگے سر تسلیم خم کر دے۔ اب جب ہماری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ قیادت کا کوئی بھی منصب ہو اس کے حقدار علماء ہیں۔ علماء کی موجودگی میں کسی اور کو سیاست و قیادت، راہنمائی و راہ گیری کا قطعاً کوئی حق حاصل نہیں ہے۔اللہ کریم نے روز ازل سے ہی قیادت و سیادت، اختیار و حکومت کا منصب رکھا ہی اپنے نیک اور صالحین بندوں کے لئے ہے۔ قرآن کریم میں حکم خداوندی ہے۔
وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ
اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَo
’’ اور بیشک ہم نے ذکر ( پہلی آسمانی کتاب نصیحت یعنی تورت) کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث ہمارے نیک اور صالح بندے ہوں گے۔‘‘ ( سورہ الانبیاء 21: 105)
مسجد و منبر کی قیادت و امامت علماء کے پاس، نماز کی قیادت علماء کے پاس، حج طواف و عمرہ کی قیادت علماء کے پاس،سفر آخرت (جنازہ ) کی قیادت بھی علماء کرتے ہیں۔مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھ کر میدان محشر کے سفر کی قیادت بھی علماء کریں گے۔ ہر قوم ، قبیلہ، محلہ و قصبہ کے لوگ اپنے اپنے امام جس کی اقتداء میں وہ دنیا میں نمازپڑھا کرتے تھے، اس کی قیادت میں اس کے پیچھے ہوں گے۔ اگر دنیا میں کوئی حکمران و بادشاہ ہے تو وہ بھی آخرت میں اپنے امام کے پیچھے کھڑا ہو گا۔گویا وہ علماء ہی ہیں جن کی قیادت دائمی ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ جب خداوند تعالیٰ نے قیادت و اختیار ، ہدایت و رہنمائی کا منصب رکھا ہی اپنے نیک، صالحین، متقی و پرہیزگار بندوں کے لئے ہے تو وہ دنیا میں قوم کی قیادت سے کیوں پیچھے ہیں؟ کیوں ہاتھ دھو کر بیٹھے ہیں؟ وہ دنیا میں قوم کی قیادت اپنے ہاتھوں لے کر دین کا پابند اور تابع کیوں نہیں کرتے؟قوم کو دین کا پابند کرنااور احکامات خداوندی کے آگے سر تسلیم خم کروانا علماء کی ذمہ داری ہے اور اس کی آخرت میں ان سے پوچھ گچھ ہو گی۔سوال ہو گا، پوچھا جائے گاکہ تم تو میرے فرامین جانتے تھے اور میرے تابع تھے۔ کیا تم نے اس تابعداری کو اپنی ذات تک محدود رکھا اور دوسروں سے کروانے کی کوئی کوشش، کوئی سعی و حرکت نہیں کی ؟تم نے قوم سے میری تابعداری کیوں نہیں کروائی؟
خدا کا ایک فرمانبردار بندہ ہی خدا کی فرمانبردار قوم پیدا کر سکتا ہے۔خدا کا ایک تابع دار بندہ ہی حقیقی معنوں میں قوم سے خدا کی تابعداری کر وا سکتا ہے۔خدا سے ایک ڈر رکھنے والا بندہ ہی قوم کو خدا سے ڈرنے والے راستے پر ڈال سکتا ہے۔اور دنیا میں خدا سے سب سے زیادہ ڈرنے والے کون لوگ ہیں؟ اس پر کسی سے گواہی و شہادت لینے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کہ کون خدا سے کتنا ڈرتا ہے اس پر قرآن کی شہادت کی موجود ہے۔
اِنَّمَا یَخْشِی اللَّہُ مِنْ عِبَادِہْ الْعُلَمَآءُ
خدا کی مخلوق میں سے خدا سے سب سے زیادہ ڈر والے علماء حق ہیں۔ (سورہ فاطر : 28)
اب جب خد اکے نزدیک سب سے زیادہ ڈرنے والے علماء ہیں تو علماء ہی ایک خدا سے ڈرنے والی قوم پیدا کر سکتے ہیں۔علماء ہی سب سے بہتر اور زیادہ احسن طریق سے قوم کی قیادت و رہنمائی کر سکتے ہیں اور معاشرہ کو رب احکامات کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ خدا کے احکامات کا نفاذ کر سکتے ہیں۔ جب قوم کے حکمران خدا سے ڈرنے والے ہی نہیں ہو ں گے تو وہ قوم کیسے خدا سے ڈرنے والی ہو گی؟وہ قوم کیسے خدا کے احکامات کے آگے سر تسلیم خم کر دے گی جس کے حکمران ہی اس کے نافرمان، خائن و بدکارو بدکردار ہوں؟ آج کا منظر آپ کے سامنے ہے۔ آج قیادت و منصب، عہدہ و اختیار خدا سے ڈرنے والے لوگوں کے پاس نہیں تو قوم کی مجموعی صورت حال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جب قیادت و اختیار خدا سے ڈرنے والے لوگوں کے پاس آئے گا تو قوم بھی خدا کا ڈر رکھنے والی بنے گی وگرنہ یہ کسی بھی صورت ممکن نہیں۔
یاد رکھیں وہ قوم ذلت و پستی ، گمراہی و ضلالت کی گہری کھائیوں میں گر جاتی ہے جس کے علماء و مشائخ سیاست سے لا تعلق ہو جاتے ہیں۔ اگر علماء سیاست و قیادت سے الگ ہو کر بیٹھ جائیں تو دین کو فروغ کیسے ملے گا؟سیاسی دوکاندار، پارٹیاں،چور، لیٹرے، ڈاکو، بدمعاش، خائن، دنیادار، لادین جمہوری مداری تو دین کی بات نہیں کریں گے۔آج کی سیاست کا منظر ہمارے سامنے ہے اور سیاسی مداری سیاست میں دین کی بات کرنا سیاست کی توہین سمجھتے ہیں اوریہ ان کے مزاج کے بھی خلاف ہے۔آج ہمارے تاجر و کاروباری حضرات ہیں تو وہ تجارت میں دین کی بات کرنا، دین کا پیغام پہنچاناجرم اور تجارت کا نقصان سمجھتے ہیں۔یہ اس تاریخ سے بے خبر ہیں کہ دنیا میں چار سو اسلام پھیلانے کا سہرا ہی تاجروں کے سر ہے۔ وہ تجارت میں پہلے دین کی بات کرتے تھے بعد میں مال کی، کیا انہیں کوئی نفع نہیں ہوتا تھا؟
اگر علماء و مشائخ سیاست کو اپنے ہاتھوں میں نہیں لیں گے تو دین کو فروغ کیسے ملے گا۔ دین کی فروغ اشاعت، باہر سے آنے والے وفود سے ملاقاتیں اور ان کو دین حق کی دعوت، بیرون ملکوں میں سرکاری سطح پر دین کی تبلیغ و اشاعت اور دعوت حق کا کام، مقدموں کے دینی اصولوں کے مطابق فیصلے، ٹیکس کی جمع اوراس کا احسن تصرف، مستحقین میں منصفانہ تقسیم، لشکروں کی تیاری، سرحدوں کی حفاظت، افراد معاشرہ کے دفاع کی ذمہ داری، سب کے لیے ایک قانون، عدل ، انصاف، باہمی مساوات،یکساں وسائل و روزگار کی تقسیم یہ سب علماء ہی دینی اصولوں کے مطابق احسن طریق سے سر انجام دے سکتے ہیں۔ ہم سیاسی گدھوں سے ان عوامل کی کیا توقع کر سکتے ہیں جنہیں دین کی کچھ سمجھ اور شعور ہی نہیں کہ وہ دین کے مطابق ہی سر انجام دیں گے ۔
متاع معنی بیگانہ از دون فطرتان جوئی
ز موران شوخی طبع سلیمانی نمی آید
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کاری شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید
ہم ایک اچھوتے اور حکیمانہ خیال کی توقع ایسے لوگوں سے کریں جو جاہل اور پست فطرت ہیں ، کہاں چیونٹی اور کہاں حضرت سلیمان علیہ السلام ۔ ہم ایک چیونٹی سے سیدناسلیمان علیہ السلام کی سی ذہانت و ذی طباحت کی توقع نہیں کرسکتے۔ان (لا دین جمہوری مداریوں)سے توقع کرنا گدھوں پر کتابیں لادنے کے مترادف ہے اگردوسوگدھے بھی جمع ہوجائیں تو ان سے ایک انسان کے فکر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
تاریخ شائد ہے کہ جب تک علماء نے سیاست کی اور ریاستی امور انجام دئیے تو دین کو بھی فروغ ملتا رہا، اس کی سرحدیں بھی وسیع ہوتی رہیں ، جب سے علماء دینی سیاست سے لاتعلق ہوئے فروغ دین کے دروازے بھی بند ہو گئے، اس کی سرحدیں تنگ ہونا شروع ہو گئیں۔ سرزمین اندلس و قرطبہ ہم سے چھین لیے گئے، سپین ، فارس، روم ، یونان اور مشرقی یورپ کے کئی مفتوحہ علاقے ہم سے خالی کروا لئے گئے۔ کیا آج ان سب علاقوں پر اسلام کی حکومت قائم ہے جو شروع سے ہی اسلام کو عطا کر دئیے گئے تھے؟ کیا آج ان سب علاقوں پر اسلام کا جھنڈا لہراتا ہے جہاں جہاں دورِ فاروقی اور دورِ عثمانی میں سر بلند تھا؟ ابتدائی چند سالوں میں آدھی دنیا کا کنڑول اپنے ہاتھ لینے والوں کے پاس آج دنیا کا ایک چوتھائی بھی نہیں رہا۔جہاں پورے ہندوستان و برصغیر پر اسلام کا راج تھا اور مسلمانوں کا سکہ چلتا تھاوہاں ہم غلام بن کر رہ گئے، ہماری خلافت توڑ دی گئی، ہمارا تحاد پارہ پارہ کر دیا گیا، ہماری اخوت ہم سے چھین لی گئی، ہمارا بھائی چارہ عداوت و دشمنی میں بدل کر ایک دوسرے کے دست و گریبان کر دیا گیا مگر ہم نے ابھی تک ہوش کے ناخن نہیں لئے۔
آج ہمارا کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں رہا جس پر غیروں نے اپنی یلغار نہ کی ہو، جہاں غیروں نے اپنا اثر نہ دیکھایا ہو۔ آج جوکچھ بچا کچھا ہمارے پاس موجود ہے اس پر بھی غیر اقوام کا اثر غالب ہے ، غیروں کی ثقافت، غیروں کی تہذیب، غیروں کا کلچر راج کرتا نظر آتا ہے۔ہمارا طرز معاشرت ہو، رہن سہن ہو، واضح قطع ہو، لباس ہو، قانون و حکمرانی ہو سب پر غیروں کا طریق غالب نظر آتا ہے۔آج ہمارے پاس کوئی ایسا خطہ زمین بھی نہیں جس پر اسلام کی حکومت، اسلام کا طریق، اسلام کا کلچر غالب نظر آتا ہو۔ شرم اور غیرت میں ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ آج سے مٹھی بھر لوگوں نے چند سالوں میں آدھی د نیا کو اسلام کے زیر اثر کردیا۔ہم جیسے جیسے تعداد میں بڑھتے گئے بے اثر،بے وقعت و بے وزن اور مغلوب ہوتے گئے۔ غیر ہم پر راج کرنے لگے۔ غیر ہمیں قانون، حکمرانی و معاشرت کے اصول بتانے لگے۔ دوسرے لوگ اور دوسری اقوام ہم پر غالب آ گئیں۔اگر ہم وہی اصول، وہی طرز، وہی قانون بالکل اسی طرح جاری رکھتے جو اسلام کی ابتداء تھی، جو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رائج کیا تھا تو آج دنیا کا کوئی ایسا کونہ نہ ہوتا جس پر اسلام کا جھنڈا نہ لہرا رہا ہو تا۔
علماء جب تک دین کے انفاذ کی سیاست کرتے رہے ، دین کے نفاذ اور عمل درآمد کیلئے لڑتے رہے یہ اس وقت تک مصلہ امامت پر بیٹھے شہر و محلہ کے حاکم و امیر رہے، منتظم اور قاضی القضات کے منصب پر فائز رہے۔جب یہ تدبیر و تنظیم سے منہ موڑ کر دین کو اس سے الگ کر کے بیٹھ گئے تو ان کی حیثیت مسجد اور اس کے متولین اور محلہ داروں کے خادم و نوکر کی سی رہ گئی کہ وہ جب مسجد آئیں ان کے لئے صفیں بھی صاف ہوں، لیٹرینیں بھی صاف ہوں، یہ امام ہو کر گٹر اور نالیاں بھی صاف کریں۔یہ دین کی سیاست چھوڑ کر بے وقعت و بے اثر ہو گئے جس کا اثر براہ راست قوم پر پڑا۔ یہ جیسے معاشرہ میں بے اثر ہوئے، قوم اسی طرح غیراقوام میں بے اثر ہوئی۔ جیسے انہوں نے اپنی قدر و منزلت کھوئی ، قوم نے غیروں کی صفوں میں اپنی قدرو منزلت کھو دی۔ یہ جیسے جیسے دین کی سیاست سے دور ہوئے غیروں نے قوم کو دین سے دور کر دیا۔ جیسے جیسے دین دار طبقہ نے حکومت و سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی ویسے دنیا دار طبقہ دین سے کنارہ کشی اختیار کر تا چلا گیا اور دین اور سیاست کے درمیان ایک بہت بڑی دیوار حائل کر دی گئی۔
آپ حضور سید عالم ﷺ کی عملی زندگی کا مطالعہ کریں تو ثابت ہو گا کہ آپ ﷺ کی زندگی دین سے بڑھ کر زیادہ سیاسی تھی۔آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب دن رات خدا کی کائنات میں اس کے قانون، اس کی شریعت کے نفاذ کیلئے لڑے ہیں، قربانیاں دیں ہیں۔خلفائے راشدین سے بڑھ کر زیادہ سیاسی، مدبرو منتظم کو ن تھا؟ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسا مدبر و منتظم آج تک تاریخ انسانی نے پیدا نہیں کیا۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ و اہل بیت اطہار کی قربانیاں بھی زمین پر خدا کے قانون کے نفاذ کیلئے تھیں۔ اسلام ایسی ہی سیاست و حکومت کا قائل ہے جس میں دین، سیاست اور تنظیم ایک ساتھ ہو۔ دین کی بات کریں اور پھر اس کے عملی نفاذ کی کوشش کریں ، ان کے نفاذ کے لئے لڑیں اور قربانیاں دیں۔ انفاذ کر چکنے کے بعد اس کی بہتر سے بہتر تنظیم کریں تاکہ وہ سلسلہ نسلوں تک جاری رہے، اسی کا نام سیاست ہے اور یہ ایمان کا سب سے اولین درجہ ہے۔
حدیث مبارکہ ہے کہ تمہیں جہاں کہیں کوئی برائی، کوئی غلط کام، کوئی خلاف شرع فعل ہوتا نظر آئے تو اسے اپنے زور بازو سے روکو، اس کا منہ پکڑو اور حق طرف موڑ دو، یہ ایمان کا سب سے اولین درجہ ہے۔ کیا اس درجہ کو پانا سیاست و اختیار کے بغیر ممکن ہو سکتا ہے؟ کیا اختیار کے بغیر آپ معاشرہ میں کسی کا منہ پکڑ کر حق کی طرف موڑ سکتے ہیں؟
اگر علماء سیاسی اور صاحب اختیار نہیں ہوں گے تو غلط معاشرتی اطوار کیسے روک پائیں گے؟ علماء کیلئے یہ ضروری ہے کہ ان کے ایک ہاتھ میں دین ہو اور دوسرے ہاتھ سیاسی اختیار، تدہی وہ معاشرہ پر دینی احکامات کا نفاذ کر سکتے ہیں۔اس کے بر عکس اگر سیاسی اختیار ہو ہی غلط لوگو ں کے پاس، دین سے بیزار و منحرف لوگوں کے پاس تو وہ غلط کام ہوتے کیسے روک پائیں گے؟جس دین کی وہ بات کرتے ہیں اس کا عملی نفاذ کیسے کر پائیں گے؟ایسی صورت میں علماء لاکھ کوششیں کر لیں وہ غلط معاشرتی اطوار نہیں روک سکتے جیسا کہ آج کا منظر اس کی خوب عکاسی کرتا ہے۔آج سیاست و اختیار غلط لوگوں کے پاس ہے، علماء بے اختیار ہیں اور سمندر کی جھاگ کی طرح بے وزن ہیں۔ کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں، کوئی ان کی طرف دیکھنے کو تیار نہیں، ان کی طرح ان کی باتیں بھی بے وزن ہیں اور کوئی اثر نہیں رکھتی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ یہ سب بے اختیار ہیں اور شیطانی قوتیں اختیار میں ہیں۔ان کے ہاتھ کچھ نہیں اور شیطانوں کے ہاتھ بھرے ہیں۔ یہ سیاست سے دور ہیں اور شیطان سیرت ان پر سیاست کر رہے ہیں، یہ قوم کی قیادت سے محروم ہیں اور خائن قسم کے لوگ قوم کی قیادت کررہے ہیں تو قوم کیونکر گمراہی و ضلالت میں نہیں پڑے گی؟
قوم کو سیدھے راستے پر ڈالنے کیلئے علماء کا بااختیار ہونا بہت ہی ضروری ہے اس لئے کہ بااختیار دین دار طبقہ ہی برے کا منہ پکڑ کر حق کی طرف موڑ سکتا ہے۔ با اختیار طبقہ اخلاقی فساد کا علاج نگران ادارے قائم کرکے کرتاہے ۔ سودخوری، رشوت ستانی کو فروغ پاتے دیکھا تو اس کے انسداد کا محکمہ بنا دیا۔ ملاوٹ اور چور بازاری کی وبا کو دیکھا تو چھاپہ مار عملہ ترتیب دے کر اس پر قابو پانے کی کوشش کی گئی۔ حکومت کے کارکنوں میں بدعنوانی کی گرم بازاری کو دیکھا تو قواعد و ضوابط میں ترامیم کا سہارا لے لیااور سخت قوانین کا انفاذ کیا۔ اصلاحی کمیٹیاں قائم کی گئیں کہ وہ اس ہمہ گیر فساد پر قابو پانے کے لیے سفارشات پیش کریں،معاشرہ پر نظر رکھنے کیلئے گشت پر معمور عملہ ترتیب دیا کہ وہ معاشرہ میں خفیہ و ظاہری طریقوں سے چلیں پھریں، گشت کریں لوگوں کے روزمرہ کے معمول کا جائزہ لیں، ان کے احوال پر نظر رکھیں، ان کے رہن سہن، ایک دوسرے سے برتاؤ اور رسومات کو دیکھیں کہ کہیں وہ اسلامی قوانین، اسلامی اصول و ضوابط کے خلاف تو نہیں جاتیں۔ان کے کاروبار پر نظر رکھیں کہ کہیں وہ اشیاء میں میل ملاوٹ تو نہیں کرتے، دھوکہ دہی سے اپنے مال اسباب تو نہیں بیچتے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے دین اور سیاست کی تفریق مٹادی۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف نبی و رسول بھی تھے تو دوسری طرف عظیم قائد و رہنما بھی۔آپ بشیر بھی تھے اور نذیر بھی ، رات کے عابد و زاہد بھی اور دن کے سپاہی او رمجاہد بھی ، امام و مفتی بھی اور سیاست و قیادت کے پیشوا بھی۔آپ ﷺ بر وقت حاکم بھی تھے اور رعایا بھی۔حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیک وقت خلیفۃ المومنین بھی تھے اوروقت کے فرماں رواں اور شہنشاہ بھی ، جرنیل و سپہ سالار بھی ، جن کے جاہ و جلال سے قیصر و کسری کے محلات بھی کانپتے تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وقت کے حاکم ہو کر قاضی کے سامنے پیش بھی ہوتے تھے اور اپنی صفائی پیش کرنے والے تھے، آپ نے قانون نفاذ کرنے والے ہو کر بھی خود کو کبھی قانون سے بالاتر نہیں سمجھا۔ راتوں کو جاگ کرتنہا گشت کرنا، پہرا دینا اور لوگوں کے احوال معلوم کرنا ان کا طرہ امتیاز تھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیک وقت حاکم بھی تھے اور رعایا بھی، آپ امام و مفتی بھی تھے اور روحانی پیشوا بھی، آپ دین کے مجاہد و سپہ سالار بھی تھے اور خادم بھی۔ آپ قاضی و جج کے سامنے پیش ہونے والے بھی تھے اور جواب دہ بھی۔ ہمارے خلفاء سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ، سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے کبھی خود کو عدلیہ اور رعایا سے بالاتر نہیں سمجھا۔ جبکہ ہمارے حکمران رعایا سے بالاتر ہیں ہی اور وہ عدلیہ پر بھی بالادستی چاہتے ہیں کہ وہ جو مرضی کرتے پھیریں وہ عدالت جوابدہی سے مستثنیٰ ہوں۔ اور منصف ایسے ہیں کہ جو فیصلہ ان کے خلاف آئے خواہ صحیح بھی ہو ، کہیں گے بہت بڑی نا انصافی ہو ئی ہے، ظلم ہوا ہے ، عدل نہیں ہے ملک میں۔ طرح طرح کا واویلہ کریں گے کہ مجھے کیوں نکالا؟ مجھے کیوں باہر کیا؟ اس کے برعکس اگر کوئی فیصلہ ان کے حق میں آئے خواہ غلط بھی ہو ، بد نیتی اور ناانصافی پر مبنی ہوتو کہیں گے اب انصاف ہوا ہے، اب ٹھیک فیصلہ آیا ہے کیونکہ ان کے حق میں جو ہے۔ اب عدل ہے ملک میں، اب عدلیہ آزاد ہے اور اس کی بالادستی بھی قبول ہے۔
یہ ہماری کم بختی ہے کہ آج اگر کوئی عالم دین ہے تو بس وہ عالم دین ہی ہے اور کچھ نہیں، وہ دین کا ورکر، دین کا خادم و مجاہد نہیں، وہ محافل سے ہٹ کر بغیر عوض کے کسی راہ چلتے کو گمراہی پر دیکھ کر حق کی طرف راغب کرنے کو تیار نہیں۔ وہ معاشرہ میں گشت کر کے لوگوں کے احوال جاننے اور درست کرنے کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا۔ اگر کوئی خطیب ہے تو بس خطیب ہے اور کچھ نہیں ، بس اسے دین کی بات سنا کر، حکایات بیان کر کے لوگوں سے واہ واہ کروانا آتا ہے اور اسے کچھ خبر نہیں کہ اس کے دین میں کیا کیا خرافات شامل ہو چکی ہیں،اس کے دین میں کیا کیا باطل روایات داخل ہو چکی ہیں، اس کے دین کے خلاف دنیا میں کیا کیاسازشیں ہو رہی ہیں اور ان سازشوں اور غارت گری کے خلاف اسے کیا کیا تدابیر کرنا ہیں۔ جب حضرت ملاں بیرونی سازشوں اوردین پر غارت گری سے ہی نا آشنا ہے تو اس کے پاس بچاؤ کی تدابیر کہاں سے آئیں گی؟ آج اگر کوئی نعت خواں ہے تو بس نعت خواں ہی ہے دین کا مجاہد و مبلغ نہیں، اس کا کام صرف نعت سنانا ہے لوگوں کو راہ راست پر لانا اور اخلاق عالیہ پر گامزن کرنا نہیں۔اسے بس نعت میں ایسے ایسے گُر آتے ہیں وہ جانتا ہے کہ نعت میں کس طرح کے جملے کس انداز میں پڑھنے سے لوگوں جھومیں گے اور اٹھ کر پیسے نچاور کریں گے۔ لوگوں سے اسلامی تعلیمات، اصول و ضوابط پر عمل کروانے کا گر اور ہنر کسی کے پاس نہیں ۔ حضور ﷺ کے ثنا ء خواں تو بیک وقت ثناء خواں بھی تھے اور دین کے رہنما اور مجاہدو مبلغ بھی۔وہ حضور ﷺ کی ثناء خوانی بھی کرتے اور جنگ و جدل، معرکہ حق و باطل میں بھی سب سے اولین صف میں کھڑے دیکھائی دیتے تھے۔ وہ معاشرہ میں کسی شر یا برائی کو سر اٹھاتے دیکھتے تو اپنے زورِ بازو سے روک دیتے تھے۔
آج ان سب لوگوں علماء ، مشائخ، پیر، خطیب ، امام و نعت خوانوں کی موجودگی میں معاشرہ میں کتنی خرافات جنم لے رہی ہیں؟ کتنے شر اٹھ رہے ہیں؟کتنے فساد برپا ہیں؟ کتنی باطل روایات ہمارے اندر شامل ہو رہی ہیں؟ گمراہی و ضلالت کس قدر پھل پھول رہی ہے؟ ظلم و ستم، میل ملاوٹ، دھوکہ دہی، بد عنوانی کس قدر فروغ پا رہی ہے؟بے حیائی و بے پردگی ، بد نگاہی و بد گفتاری ، فحش بینی و فحش گوئی کس قدر بڑھتی چلی جا رہی ہے مگر اس طبقہ نے ان سے لڑنا، ان سے ٹکرانا ، ان کے سامنے بند باندھنا ، ان کے خلاف جہاد کرنا تو درکناران کے خلاف جاندار آواز اٹھانا ہی گوارا نہیں کی بلکہ ان کے لیے ہر راستہ کھولا رکھا ہے کہ آؤ، جوک در جوک آؤ ہمارے میلوں، خانقاہوں اور عرسوں پر، تمہارے لئے کوئی رکاوٹ نہیں۔ معاشرہ کو ثقافتی حملوں کے دفاع سے آزاد چھوڑ دیا گیا، ان کی طرف سے کسی معاشرتی عفریت، کسی معاشرتی برائی کے خاتمہ کیلئے احتجاج اور دھرنے نہیں دئیے گئے، کسی معاشرتی ناسور کے خلاف کوئی اجتماعی و مؤثر آواز بلند نہیں کی گئی۔
اگر کوئی مسجد کا ملا ہے تو بس اسی کی چار دیواری تک محدود ہے باہر کے ماحول کی کوئی خبر نہیں رکھتا کہ اس کے اردگرد معاشرہ میں کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ انہیں اس سے کچھ سروکار بھی تو نہیں ہے کہ کوئی بگڑے یا سنورے ، ان کا کام تو صرف نماز پڑھانا اور اجرت لینا ہے۔ قوم کی اخلاقیات، قوم کے روز مرہ کے معمولات درست کرنا اور شعور دینا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ کچھ کم فہم و کم ظرف اور کم عقل لوگ مذہب اور سیاست کے درمیان تفریق کی دیوار حائل کرکے اسلام کو سیاست و حکومت سے بے تعلق اور بے واسطہ کرنا چاہتے ہیں۔وہ دراصل مسلم مخالف عناصر کے شاتم دماغ لوگوں کی سازش کا شکار ہیں جو حقیقی معنی میں خود تو حکومت کو مذہب سے آزاد نہ کرسکے لیکن مسلمانوں کی سیاسی پرواز کو مضمحل کرنے کے لئے دین و دنیا ، مذہب و ریاست کی علیحدگی کا زہر گھول ر ہے ہیں۔دین و مذہب کے بغیر سیاست و قیادت کا تصور گمراہی اور سرکشی ہے۔جس کا نتیجہ ظلم و ناانصافی ،بے اطمینانی و بے ضمیری اور حق تلفی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔جب سیاست کو دین سے الگ کردیاجائے تو صرف ہوس کی امیری اور ہوس کی وزیری رہ جاتی ہے۔بالفظ دیگر چنگیزی رہ جاتی ہے۔حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے۔
ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی
رہی ہوس کی امیری ، ہوس کی وزیری
دینی اصول و روایات، اخلاقیات ، عدل و انصاف، برابری و مساوات، رواداری، مشورہ، مکالمہ، تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا، جھوٹے پروپیگنڈوں سے اجتناب، غلط دعوؤں سے احتراز، عوام کو غلط بیانی کے ذریعے گمراہ نہ کرنا، محنت اور ہر وقت ملک کی بھلائی کے لیے سوچنا جیسی اقدار شامل ہیں۔ اگر ان مسلمہ اخلاقیات سے ہٹ کر سیاست کی گئی اور امورِ مملکت انجام دیے گئے تو اس کا نتیجہ ملک وقوم کے لیے تباہی اور بدترین ڈکٹیٹر شپ کی صورت میں نکلتا ہے۔ جواس بات کاثبوت ہے کہ سیاست کواگرمذہب سے الگ کردیاجائے تو سیاست کاوہ حال ہوتاہے جو آج کل ہماری سیاست کاہے۔ ہر طرف چور، لیٹرے اور ڈکیٹ راج کرتے نظر آتے ہیں۔ حکومتی امور چلاتے اور سیاست کرتے وقت مسلمہ دینی اصولوں اور عالمگیر اخلاقیات کاخاص خیال رکھا جاتا ہے ۔ اخلاقیات کسی بھی حکومت کا سب سے اہم جزو ہوتا ہے۔ اخلاقیات اسلامی تعلیمات میں تو شامل ہیں ہی، دنیا کے سب اہم مذاہب میں بھی اخلاقیات درس ملتا ہے۔ گویا اخلاقیات ایک عالمگیر فعل ہیں جن پر عمل ہر قوم اور ملک کے لیے ضروری ہے۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے اسلامی ملک میں اخلاقیات ہماری اسمبلیوں میں دیکھنے کو نہیں ملتیں باقی معاشرہ میں کہاں سے آئیں گی؟
دین و مذہب سے بیزار ،قوم و ملت کے نفع و ضرر سے بے نیاز ،ضمیر فروش و مفاد پرست جن کادل و ذہن اور دماغ غلام ہے ، مغرب کے متقلد، جو دوسروں کی فکر سے سوچتے اور دوسروں کی نظر سے دیکھتے ہیں وہ علماء اور دین دار افراد کی سیاست میں شمولیت یا حصہ داری کو دین و اسلام سے خارج مانتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ علماء اور دین دار لوگوں کو سیاست و قیادت سے کیا واسطہ۔ ان کو تو سیاست سے الگ تھلک رہنا چاہئے۔سیاست تو جھوٹ کا نام ہے، سیاست دغا بازی، دھوکہ دہی، فراڈ، بہتان تراشی اور لوٹ مار کا دوسرا نام ہے علماء کو اس سے دور رہنا چاہیے۔ سیاست کی یہ بھونڈی تصویر بھی عوام میں ایک مقصد کے تحت پیدا کی گئی تاکہ عوام سیاست کو دین سے جدا سمجھ کر مساجد اور منبروں تک محدود رکھیں۔ ان کا کام تو صرف نماز پڑھنا ،عبادت کرنا اور دوسرے مذہبی امور کو انجام دینا ہے۔لیکن شاید وہ ایسا کہتے وقت اسلامی تعلیمات کو بھول جاتے ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔وہ صحابہ کرام کے کردار کو فراموش کردیتے ہیں۔ اسلاف کی زندگی ان کی نظروں سے غائب ہوجاتی ہے۔ان کے ذہن میں یہ بات نہیں آتی کہ سب سے پہلے اسلام نے ہی مضبوط جمہوری سیاست کی بنیاد ڈالی تھی۔جس میں تمام افراد معاشرہ کے حقوق کی یکساں رعایت کی گئی ہے۔محکمہ وزارت ،سول سوسائٹی کا قیام ، تھانے اور پولیس چوکی کا انتظام ،رات کا پہرہ اور گشت، وائے سرائے اور اسٹیشن کا بندوبست ،انصاف کے ساتھ ترقی اور سماجی برابری کا حق سب سے پہلے اسلام نے ہی عطا کیا ہے۔اسلام ایک ایسے نظام حکومت کا امین اور علمبردار ہے جو بہتر نظام ، پاکیزہ سماج ، صاحب اخلاق و کردار اور صحت مند معاشرہ کا ضامن ہو۔جس میں ہر فرد کو آزادی اور برابری کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہو۔جس میں امیری اور غریبی کا فرق مٹ جائے۔سب انسان بھائی بھائی بن کر رہیں۔اس لئے ایک اچھی حکومت کی تشکیل کے لئے علمائے کرام ،دین دار اور ایماندار لوگوں کا سیاست میں قدم رکھنا انتہائی ضروری ہے۔اگر ہمیں معاشرہ کی اصلاح کرنی ہے اور قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنا ہے تو دین اور سیاست میں تفریق ختم کرنا ہو گی۔
دین صرف عبادات کا نام نہیں ہے۔ خدا کی رضاو خوشنودی کثیر ذکر و اذکار میں نہیں بلکہ معاشرتی پاکیزگی اور خدمتِ خلق میں ہے۔ یہ بالکل غلط تصور لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھا دیا گیا ہے کہ دین صرف عبادات کا نام ہے۔ عبادات تو ظہور اسلام سے قبل بھی ہوا کرتی تھیں، اللہ رب العزت کے سامنے جھکنے والے تو پہلے بھی موجود تھے، روزہ، بیت اللہ شریف کا طواف اور حج تو اسلام سے قبل بھی ہوا کرتے تھے پھر وہ نئی چیز کیا ہے جو اسلام نے ہمیں عطاء کی ، جس کا تصور اس سے قبل نہیں تھا وہ کیا ہے؟ دین اسلام نے ہمیں وہ نئی چیز ’’ اسلامی نظام مساوات اور حسن اخلاق ‘‘ کی صورت میں دی، عدل و انصاف، حسن سلوک، رواداری کی شکل میں دی، تمام انسانوں کے برابری کے حقوق کی شکل دی۔شاہ و گدا، امیر و غریب، ادنیٰ و اعلیٰ، گورے اور کالے، راٹھ اور کمی کی تفریق ختم کر کے انسانی برابری و مساوات کی صورت میں دی۔ یہ تاریخ انسانی کا پہلا موقع تھا کہ سیدنابلالؓ حبشہ سے، سیدنا سلمانؓ فارس، سیدنا صہیبؓ روم سے بطور غلام آکر عرب کے تاجداروں، عرب کے سرداروں اور پیشواؤں کے برابر حقوق حاصل کیے۔ یہ تاریخ بیت اللہ کا پہلا موقع تھا ایک حبشی غلام کو جوتوں سمیت کعبہ اللہ پر چڑھا کر اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے کا کہا گیا۔یہ اسلام ہی تھا جس نے عربی و عجمی، کالے گورے، امیر و غریب، شاہ و گداکی تفریق کو مٹا کر ایک صف میں لا کھڑا کیا اور سب کو ایک جیسے حقوق دیئے، سب انسانوں کو ایک دوسرے کی نگاہ میں برابر کرکے ایک لائن میں کھڑا کر دیا۔
اگر دین صرف عبادات کا ہی نام ہوتا تو انبیاء و رسل ساری زندگی بیٹھ کر عبادت کرتے اور کرواتے رہتے، تسبیح و اذکار کرتے رہتے، ہمارے آج کے پیرو مشائخ کی طرح، انہوں نے جہاد کیوں کیے؟ ان کی تو ساری کوششیں، ساری توانائیاں ، ساری صلاحیتیں معاشرہ میں قیام امن کیلئے تھیں، افراد معاشرہ میں باہمی مساوات، بھائی چارہ، حسن سلوک، اچھا برتاؤ، رواداری،انسانی مساوات، قانونی مساوات، معاشی مساوات، ذات پات کی تفریق ختم کرنے کیلئے دن رات ایک کیے۔ یکساں حقوق، یکساں قانون، یکساں وسائل کی تقسیم ، سب کیلئے یکساں معاش و روزگار کے مواقع،عدل اور انصاف کی بالادستی کیلئے انتھک محنتیں کیں، انہوں نے تو اپنے شب و روز ان فلاحی کاموں کی تنظیم و تنفیذ کیلئے گذاری۔ کیا یہ سب سیاسی امور نہیں؟ بلکہ یہ وہ سیاسی امور ہیں جو دین اسلام کی اصل ہیں، دین اسلام کی بنیاد ہیں۔گویا ثابت ہوا کہ اسلام خود ایک سیاست کا نام ہے جس کی سیاست کا مقصد زمین پر خدا کی حاکمیت قائم کرناہے۔ اب یہ حاکمیت مساجد و مدارس، حجروں اور خانقاہوں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے سے تو قائم نہیں ہو گی؟ اس کے لئے باہر نکالنا پڑے گا، لوگوں میں گشت کرنا پڑیں گے۔لوگوں کے معمول پر نظر رکھنا پڑے گی، قربانیاں دینی پڑیں گی، جہاد کرنے پڑیں گے، پتھر کھانے پڑیں گے، کانٹوں پر چلنا پڑے گا۔یہ سب ایسے گھربیٹھے اللہ اللہ کرنے سے حاصل نہیں ہو گا۔آپ حضور سید عالم ﷺ کی عملی زندگی کا مطالعہ کریں تو ثابت ہو گا کہ آپ ﷺ نماز ، روزہ، حج ، فرض عبادات کے بعد جتنا بھی وقت ملتا وہ اسی طرح کے دنیاوی و سیاسی امور کی بجا آواری میں صرف ہوتا تھا۔ آپ ﷺ گھر نہیں بیٹھے رہتے تھے۔نہ آپ ﷺکا ، نہ آپ ﷺ سے پہلے کسی نبی کا یہ وطرہ رہا ہے جو آج کے پیرو مشائخ، آج کے شریعت و طریقت کے رہبروں نے اپنا رکھا ہے ۔ کسی نبی و رسول نے گھروں اور حجروں میں مقید ہو کر اللہ اللہ اور دم درود کر کے نذرانے نہیں کھائے۔صبح گھر سے تیار ہو کر آنا اور ٹھکانے پہ جا بیٹھنا اور گاہکوں کا انتظار کرنا۔ لوگوں نے آنا ،اللہ اللہ کروانی، دعائیں لینی، نذرانے دینے اور رہبر شریعت کا شام کو سب کچھ سمیٹ کر گھر چلے جانا، یہ تو دوکانداری طرز ہے، یہ قوم کی رہبری نہیں ہے۔ یہ دوکاندار لوگوں کا معمول ہے کہ صبح گھر سے تیار ہو کر آئیں، اپنے ٹھیے پر بیٹھیں اور شام کو سمیٹ کر گھر چلے جائیں۔یہ دین کے خادموں اور مجاہدوں کا کام نہیں ہے۔ دین کوئی دوکانداری نہیں ہے یہ تو محنت مشقت اور جہد مسلسل کا نام ہے۔ خدا کے انبیاء علیہم السلام نے تو ساری زندگی جہاد کئے ہیں۔خدا کے دین کے نفاذ کے لئے قربانیاں دی ہیں،لوگوں کے معمول پر نظر رکھی ہے اور جہاں کہیں کوئی برائی دیکھی ہے اس کی جڑتک پہنچے اور اس کا خاتمہ کیا ہے۔ معاشرہ میں خدا کے قانون کی بالا دستی ، عدل ، انصاف ، مساوات اور جملہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے ساری زندگی لڑے ہیں اور دن رات قربانیاں دی ہیں۔ آج ہمارے اسلامی معاشرہ میں کسی اسلامی قانون کا نفاذ نہیں ہے، مجموعی طور پر معاشرہ میں کسی ایک شرعی حکم کی پاسداری نہیں ہو رہی اور شریعت کے رہبر بڑے سکون و اطمینان سے گھر بیٹھے ہیں بہت مطمئن ہو کر، ان کے نزدیک یہ جنگ اور جہاد کی سی کیفیت ہی نہیں ہے۔ خدا کا تو حکم ہے کہ اس وقت تک جہاد کرو جب تک دین غالب نہ آ جائے۔ اس وقت دین کہاں غالب ہے؟ کوئی ایسا خطہ زمین ہے جہاں دین کسی اعتبار سے غالب ہو، معاشرتی رہن سہن کے اعتبار سے، اخلاقی پاکیزگی و مساوات کے اعتبار سے( اور یہ مساوات آئے بھی کیسے؟ جنہوں نے مساوات کا درس دینا تھا وہ تو کہتے ہیں ہم ارفع و اعلیٰ ہیں، ہم فاضل و برتر ہیں ہمارے ہاتھ پاؤں چومے جائیں)، معاشی اعتبار سے یا عسکری اعتبار سے؟ ہمارے سب میدان مغلوب و سنسان پڑے ہیں اور کہیں کوئی دین کے مجاہد نظر ہی پڑتے ہیں جو دفاع کریں۔
اگر یہ سب امور دین سے الگ ہوتے تو آپ ﷺ نے ان کیلئے قربانیاں کیوں دیں؟ لڑے کیوں؟ ان کے قیام و تنفیذ کیلئے جہاد کیوں کیے؟ ان کے حصول کے لیے جدوجہد کیوں کی؟ ان کے انفاذ کے لئے کیوں چھین سے نہیں بیٹھے؟ پتھر کیوں کھائے؟ ذکرو اذکار، تسبیح و تعریف اور حمد و ثناء تو گھر بیٹھے بڑے سکون و اطمینان سے کر سکتے تھے؟
آج ہمارا ملت اسلامیہ کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہمارے بڑے کارپرداز، دین کے بڑے ٹھیکیدار،بڑے رہبرو رہنما،علماء اور پیرو مشائخ،شریعت اور طریقت کے رہبراور محراب و منبر والے خطیب و مولانا حضرات سب کے سب خوابِ غفلت کی بہت گہری آغوش میں محوِ نوم ہیں اور بہت گہری نیند سو رہے ہیں۔ ظلم و جفا کی تاریکی ، گمراہی و ضلالت کے بلند بانگ شور و غل سن کر بھی ان کی آنکھیں نہیں کھل رہیں۔بڑے سکون و اطمینان سے اپنے اپنے سرد خانوں میں مقید ہیں اور ملت کی موجودہ صورت حال سے مطمئن نظر آتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے کچھ کرنے کرانے کی ضرورت نہیں۔ انہیں معاشرہ میں کوئی تاریکی، کوئی شر، کوئی برائی ، ظلم و جفاکی نظر ہی نہیں آتی ہے کہ یہ جس کے خلاف آواز اٹھائیں اور سراپا احتجاج ہوں۔
اس سے بڑی اور کم بختی کیا ہو سکتی ہے کہ آج نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ اور ملت کی بیداری و اصلاح کا نعرہ محراب و منبرسے بھی لگانا چھوڑ دیا گیاہے۔ محافل و اجتماعات کے سٹیج ہیں تو وہاں پر سے بھی صرف شانیں اور فضائل و کمالات بڑھائے اور بلند کیے جاتے ہیں، ایک دوسرے پر تنقید، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے، ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے میں سر گرم عمل ہیں ۔ کوئی اتحاد، مفاہمت، رواداری ، اخوت و بھائی چارہ کی بات نہیں کرتا۔ آج سب کی صلاحیتیں، سب کی توانائیاں افتراق و انتشار پھیلانے میں صرف ہو رہی ہیں۔ سب ایک دوسرے پر کفر و شرک و بدعت کے فتوئے دینے میں ماہر ہیں ، ملت کے باہمی اتحاد و یکجہتی کی تدبیر و حکمت عملی کسی کے پاس نہیں اور نہ ہی کوئی چاہتا ہے کہ ایسا ممکن ہو۔ آج نظام مصطفی ﷺ، اخوت و بھائی چارہ ، اسلامی مساوات ، اسلامی نظام حیات کے عملی نفاذ کا نعرہ ملت کے اجتماعات کے سٹیجوں سے بھی گرجتا اور جوش مارتا سنائی نہیں دیتا ہے۔
اس سے بڑی کم بختی، اس سے بڑاالمیہ اور ہمارے لیے کیا ہو سکتا ہے کہ ہم ایک اخوت، ہم ایک ملت ، ایک وحدت، ایک خدا، ایک رسول،ایک کلمہ، ایک کتاب، ایک شریعت،ایک قبلہ، ایک سمت والے ہو کر بھی خود ایک سمت نہیں ہو پا رہے۔اس میں سب سے بڑے مجرم و قصور وار ہر ہر مسلک اور گروہ کے علماء ہیں جو ایک ملت کو ایک نہیں ہونے دے رہے،جو ایک وحدت کو جسد واحد نہیں بننے دے رہے۔ کوئی ایک دین ، ایک نظام کی بات نہیں کرتا، ہر کوئی اپنے اپنے عقیدہ و مسلک کا جھنڈا لے کر دنیا پر پنپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک دین، ایک نظام،ایک ملت، ایک اخوت، ایک وحدت کو سب چھوڑ چکے ہیں تو اس کی بالادستی کی بات اور اس کی سربلندی کی جدوجہد سب کیسے کریں؟
 

Allah Bakhash Fareedi
About the Author: Allah Bakhash Fareedi Read More Articles by Allah Bakhash Fareedi: 101 Articles with 101378 views For more articles & info about Writer, Please visit his own website: www.baidari.com
[email protected]
اللہ بخش فریدی بانی و مدیر بیداری ڈاٹ کام ۔ ہ
.. View More