ماہ ربیع الاول ----- تجاویز اور احتیاط

مولانا عبدالقدوس اعوان دینہ ضلع جہلم کے معروف ،ہر دلعزیز اور انتہائی فعال عالم دین ہیں ۔وہ کئی عشروں سے متعدد شعبوں میں دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ویسے تو ان کی اور ضرب مومن کے دریچہ والے قاری منصور صاحب کی دوستی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے ۔انہیں کوئی بھی بات یا تو براہ راست اخبار کی وساطت سے کہنی چاہیے یا قاری منصور صاحب کی وساطت سے لیکن یہ میری خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے اپنے دل کی آواز قارئین تک پہنچانے کے لیے ”اجالا “کا انتخاب کیا ۔شاید ان کے پیش نظر نام کی مماثلت ہو تاہم نام کے علاوہ کام ،عمر ،علم ،مرتبہ اور دینی خدمات کے لحاظ سے مولانا عبدالقدوس اعوان بلاشبہ ہمارے بزرگوں میں سے ہیں ان کا کہا ہمارے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے اس لیے آج کے” اجالا“ میں ماہ ربیع الاول کے حوالے سے مولانا کے دل کی آواز ملاحظہ فرمائیے جو یقیناً مجھ سمیت تمام قارئین کے دل کی بھی آواز ہے ۔

مولاناعبدالقدوس اعوان اپنے مکتوب گرامی میں رقمطراز ہیں ” الحمدللہ ہر مسلمان کے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت موجود ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی بھی مسلمان نہیں کہلا سکتا ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی محبت اور ایمان کو تو اللہ تعالیٰ نے معیار بنایا ہے ۔صحابہؓ کے بعد کسی کے دل میں کتنی محبت ہے اس کا پیمانہ اللہ نے بندوں کے ہاتھ میں نہیں رکھا کہ کوئی کسی کے کہنے سے محب وعاشق قرار دیا جائے اور کسی کے گستاخ ِ رسول ہونے کا فتویٰ لگا دیا جائے ۔ ہاں جس کی ادا جتنی صحابہ ؓ سے مماثلت رکھے وہ اتنا ہی عاشق رسول ہے ۔

یہ بات تو یقینی ہے کہ ادنیٰ مسلمان بھی ناموس رسالت کے لیے جو بن آئے کر گزرتا ہے لیکن اس وقت ایک اہم سوال یہ ہے کہ ” حب رسول کے تقاضے ہیں کیا ؟“اس کے لیے ہمیں سنجیدہ اور شعوری عمل بھی اپنانا ہوگا مثلا ً آپ ماہ ربیع الاول کی مثال ہی لے لیجیے کہ اس ماہ مبارک میں ملک بھر میں سیر ت طیبہ کے حوالے سے جلسے جلوس ہوتے ہیں۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دشمنا نِ رسول نے انتہائی چالاکی سے مسلمانو ں کو تفرقہ میں ڈال کر ایک ہی نبی کا کلمہ پڑھنے والوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا۔ جس نبی کی آمد کی برکت سے یہ امت امت واحدہ بنی آج اسی نبی کے نام پر امت میں انتشار نظر آتا ہے ۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانو ں،بالخصوص پاکستانی قوم کو نبی کے نام اور ناموس پر متحد ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔

گزشتہ سال ربیع الاول میں فیصل آباد میں میلاد النبی ﷺ کے جلوس میں شامل مسلمانو ں نے مسلکی عصبیت کی بنا پر وہ کا م کر دکھایا جو غیر مسلم بھی کرنے کی جرات نہیں کرسکتے ۔ایک عالم دین کے گھر کو آگ لگائی گئی ، مسجد کی بے حرمتی کی گئی اور دینی کتب پر مشتمل لائبریری جس میں قرآن کریم ، تفاسیر اور احادیث پا ک کی کتابیں بھی شامل تھیں اسے جلا کر راکھ کر دیا گیا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بعد کے حالات و واقعات سے ثابت ہو گیا کہ یہ کام کس کی کارستانی تھی لیکن اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ بھی مان لیا جائے کہ جلوس میں شرپسند لوگ شامل ہوگئے تھے تو کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ وہ کام جس کے ترک کرنے سے مسلما ن ایسے حادثوں سے محفوظ رہ سکیں اس کو تر ک کردیا جائے ۔حضو ر علیہ الصلوة والسلام نے تو اپنی خواہش کے باوجود کعبہ کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا کہ عوام الناس فتنہ میں نہ پڑ جائیں ۔ اور پھر یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی قرون اولی ٰ میں کوئی مثال نہیں ملتی لیکن سمجھ نہیں آتی کہ اس کے باوجود اس پر اصرار کیوں ؟ ابھی تو محرم کے مہینے میں نکالے جانے والے جلوسوں کا معاملہ پوری قوم ،ملک ،سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے پریشانی کا باعث بنے ہوئے تھے اور اب ماہ ربیع الاول میں معاملہ محرم سے بھی پیچیدہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔کراچی نشتر پارک کا جو واقعہ ہوا اس میں کتنی انسانی جانیں ضائع ہوئیں لیکن اس کے باوجود کسی نے بھی نہیں سوچا کہ ان جلوسوں پر نظر ثانی کی جائے ۔اس لیے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر مسلک والوں کو اس بات کا پابند بنانا چاہیے کہ وہ اپنی عبادات اپنے عبادت خانوں تک محدود رکھیں ۔کا ش ! ارباب اقتدار جرات کے ساتھ اور کسی کے پریشر کو خاطر میں لائے بغیر یہ فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں کہ آئندہ تمام مذہبی رسومات اپنی اپنی عبادتگاہوں میں ادا کی جائیں گی اور اگر کبھی کو ئی بہت بڑا جلسہ یا اجتماع کروانا مطلوب ہو تو اس کے لیے کچھ جگہیں مخصوص کر دی جائیں اور پھر حکومت کی طرف سے مکمل حفاظتی انتظام کا بندوبست بھی ہو ۔

اس کے علاوہ بھی ماہ ربیع الا ول کے حوالے سے چندا یک اہم اور قابل غور امور ہیں جن پر تمام مکاتب فکر کے سنجیدہ رہنماؤں کو مسلکی تقسیم سے بالاتر ہو کر غور کر نا چاہیے مثلاً اس ماہ ِ مبارک میں سیرت کے جلسوں کے لیے جو اشتہار چھاپ کر دیواروں پر چسپاں کیے جاتے ہیں وہ بعض اوقات بالکل غیر موزوں جگہوں پر چسپاں کر دئیے جاتے ہیں بلکہ بعض جگہوں پر تو اللہ معاف فرمائے اشتہار گر کر گندی نالیوں میں جا پڑتے ہیں ۔یہ سخت بے ادبی ہے ۔اس کے بجائے چند بینر آویزاں کردیے جائیں اور جلسہ کے بعد اتروا لیے جائیں یا کسی اور ذریعے سے تشہیر کی جائے اور اگر اشتہارات ہی لگانے ہوں تو انہیں احتیاط سے اشتہارات کے لیے مختص جگہوں پر لگایا جائے ۔

اسی طرح نعت خوانی میں بھی اس معاملے میں بہت احتیاط کی جائے کہ نعتیں گانوں کی طرز پر نہ پڑھی جائیں اور بالخصوص ان میں کسی قسم کا ساز وغیرہ قطعاً نہ استعمال کیا جائے ۔

اسی طرح روضہ مبارک کے ماڈل تیار کر کے بھی روضہ رسول کے تقدس کو پامال کرنے کا سلسلہ روکا جائے ۔

خواتین کی تیزی سے رواج پاتی محافل میلاد جہاں شریعت کے احکامات کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں انہیں شریعت کے دائرے میں لایا جائے۔

اس کے علاوہ بھی اس ماہ مبارک میں بہت سی باتیں اور بہت سے کام ایسے کیے جاتے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے منافی ہیں ۔اس لیے مختصر بات یہ ہے کہ ہمیں حضور ﷺ کے ساتھ محبت کا وہ طرز عمل اور وہ طریقہ اپنا نا چاہیے جسے اللہ نے معیار بنا یا ہے اور وہ صحابہ کرام ؓ کا طرز عمل ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نبی کی عزت وتوقیر اور اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دانستہ یا نادانستہ سرزد ہو جانے والی ادنی سے ادنی ٰ بے ادبی سے بھی بچائے اور ہمارے تمام قصور معاف فرمائے ۔آمین
باخدا دیوانہ باش
با محمد ﷺ ہوشیار “
Abdul Quddoos Muhammadi
About the Author: Abdul Quddoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Quddoos Muhammadi: 120 Articles with 129543 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.