مجھے جینے کی وجہ دو

اس کا جسم گولیوں سے چھلنی تھا مگر اسے کوئی درد محسوس نہیں ہورہا تھا۔وہ بے یقینی سے کھڑا تھا اور سوچ رہا تھا:
" میں نے تو کبھی ٹریفک سگنل نہیں توڑا ،یہ اچانک کیسا الزام مجھ پر لگایا گیا ہے ۔میں بھلا دہشت گرد ہوں یا اغواکار ہوں ۔"
اس کا جسم سن تھا،اس کا ذہن حقیقت اور خواب میں تمیز نہیں کر پارہا تھا،اس نے سوچا :
"ابھی میری آنکھ کھل جائے گی اور میں محفوظ و مامون اپنے گھر میں موجود ہوں گا ۔"
اچانک اس کی بہن اور بیوی نے مل کر اس کو جھنجوڑ ڈالا ،وہ دونوں زور زور سے رو رہیں تھیں،ان کے کپڑے خون سے تر تھے ،اس نے ہول کر کہا :
"ارے کوئی جنگل کا قانون ہے کیا ؟
یہ ہمیں دن دہاڑے قتل کردیں گے،ایسے تھوڑی ہوتا ہے ،ہم آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں ۔"
مگر اس کی بیوی اور بہن کی بین کی آواز سے پتا چل رہا تھا کہ کوئی انہونی ہوچکی ہے ، اردگرد کے درختوں سے پرندے اڑ گئے تھے ،پوری فضا پر سوگواری طاری تھی۔وہ چونک سا گیا ۔وہ دونوں خوف کے مارے پیلی پھٹک پڑ چکیں تھیں ۔دور سے کچھ انجان چہرے آتے نظر آئے ،ان کی وضع قطع بتاتی تھی کہ وہ اس دنیا سے تعلق نہیں رکھتے تھے ۔آنے والوں کے کاندھے جھکے ہوئے تھے ،ان کی آنکھیں نیچی تھیں ، وہ دھیمی آواز میں بولے:
"چلو ! بس اب اس دنیا سے تمھارا رابطہ ختم ہوگیا ہے۔ہمارے ساتھ چلو۔"
اس کی بیوی نے چلا کر کہا:
" میں ہرگز نہیں جاوں گی،میری پریوں کو رات کو کہانی سنے بغیر نیند نہیں آتی ،میرا چاند روز مجھ سے لوری سنتا ہے۔"
آنے والوں کے چہرے متغیر سے ہوگئے مگر وہ آہستہ سے بولے :۔
"دیکھو اب تمھارا خاکی پنجرہ خالی ہوگیا ہے۔"
انھوں نے ہول کر دیکھا گاڑی میں خون میں لت پت ان کی لاشیں پڑیں تھیں ۔اس کے بچے بھی زخمی تھے مگر زندہ تھے۔اس نے حسرت سے اپنے بچوں کی طرف دیکھا اسے یاد آیا پوری شادی میں پہننے کے لئے کتنے پیارے پیارے کپڑے اس نے خریدے تھے ،وہ کیسے بچوں کو سجانا سنوارنا چاہتی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی شاید گھر سے نکلنا ہی غلط فیصلہ تھا۔
وہ جانتی تھی اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے ،وہ تھکے تھکے قدموں کے ساتھ آنے والوں کے ساتھ چل پڑی،اس کے میاں نے چلتے چلتے کہا:
"اللہ تعالی بھی کہیں ہمیں دوزخ کا ایندھن تو نہیں بنا دے گا؟
یقین کرو ہم تخریب کار نہیں ہیں، ہمارے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا،بس ایک کپڑوں کا بیگ اور ایک استری تھی،جس سے شادی والے گھر میں ہم اپنے کپڑے استری کرتے رہے تھے۔"
اس کی بہن ہچکیاں لیتے ہوئے بولی:
"بھیا نے تو گاڑی روک دی تھی،ان کے تیور دیکھ کر ان کو کہا تھا کہ پیسے لے لو مگر ہمیں جانے دو ،مگر ان ظالموں نے ایک نہ سنی اور فائر کھول دیئے ۔"
اس کی بیوی بولی:
"یقین کرو یہ تو دکان دار ہیں، دہشت گرد نہیں ہیں۔"
ہیڈ فرشتے نے اپنے آنسو صاف کیے اور مدہم لہجے میں بولا:
"ہم سب جانتے ہیں، خدارا ہمارا کام اور مشکل مت کرو۔"
روشنی کا دروازہ کھلا اور وہ سب اس میں داخل ہوگئے۔پیچھے بس معصوم بچیوں کی سسکیاں رہ گئیں جو بار بار رو کر ایک ہی بات کررہیں تھیں ۔
"امی ،ابو ہمیں بھی ساتھ لے جاؤ۔۔۔۔
اب اس دنیا میں ہم کیسے جی پائیں گے؟"
یہ ان معصوم بچوں کا سوال ہے ،آپ سب جواب سوچیں۔
اب یہ بچے کیسے جی پائیں گے اور اگر جیں گے تو انھیں جینے کی وجہ تو دے دو۔

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 263432 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More