کٹھوعہ واقعہ کے سال بھر بعد ایک اور کلی حیوانیت کا شکار

گزشتہ سال ۲۰۱۸ء کے پہلے ہی ما ہ میں کٹھوعہ کے رسانہ گاؤں میں انسانیت کو شرمسار کردینے والا ایک ایسا درد ناک ، خوفناک ،شرمناک ،دلسوز اور انسانیت سوز واقعہ انجام دیا گیا ، انسانیت کے نام پر ایسا ناپاک کھیلا گیا کہ جس نے ملکی شان کی مٹی پلید کر کے رکھ دی یہاں تک کہ بیرون ممالک کے لوگ ہندوستان میں معصوم بچیوں کے ساتھ ہورہی اس حیوانیت کو لیکر سراپا احتجاج ہوئے اور اِن انسانیت سوز واقعات پر ملک کے وزیر اعظم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ملک کی تصویر اس قدر داغ دار ہوئی کہ ہندوستان کو ’’ریپستان ‘‘تک کہا جانے لگا۔ ملکی سالمیت کے نام نہاد ٹھیکیدارمودی بھگتوں نے کو دنیا بھر میں ملک کو داغدر کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی ۔ ملکی جمہویت کا راگ الاپنے والے اور حقوق ِ نسواں کی بڑی بڑی باتیں کرنے والے شر پسندوں کا اُس وقت منہ کالا ہو گیا جب جموں میں بھاجپا کے بڑے بڑے لیڈروں، لٹیروں اور وڈیروں نے نام نہاد انتہا پسند تنظیم’’ ہندو ایکتا منچ‘‘ کے بینر تلے ہاتھوں میں ترنگا جھنڈے لئے رسانہ قتل وعصمت دری کیس میں ملوث گدھ نما قصورواروں کے حق میں احتجاج کیا۔ملک کے ہر ذی حس انسان کیلئے یہ بات انتہائی غمناک اور باعث شرمندگی تھی کہ جب وکلاء کا ایک مکار اور بدمعاش ٹولہ بھی قصور واروں کے حق میں احتجاج کرنے کیلئے سڑکوں پر اُتر آیا، بجائے کہ وہ اِس انسانیت سوز سانحہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہو جاتے اور متاثرہ والدین کو انصاف دلاتے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس معاملہ کو فرقہ پرستوں نے جتنا دبانا چاہا اُتنا ہی وہ اُبھر کر سامنے آیا اور ملک کی حقیقی جمہوریت کا پردہ فاش کیا۔

گو کہ سرپسندوں کو رسانہ معاملہ میں کسی حد تک زبردست شکست کا سامنا رہا لیکن ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت درندگی اور حیوانیت کے اس ناپاک عمل کو بار بار دہرایا جا رہا ہے ۔ اقلیتی طبقہ کو زیر کرنے کیلئے آئے روز ایسے ایسے واقعات انجام دہئے جا رہا ہیں جو کہ مسلمانان ِ جموں کے لئے ایک چیلنج بن کر رہ گیا ہے۔ گو کہ کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس سے قبل وادی کشمیر میں خاکی وردی میں ملبوس درندوں نے سینکڑوں معصوم کلیوں کو اپنی ہوس کا شکار بنایا ان سیاہ کرتوتوں کی سینکڑو ں داستانیں ہندوستان کی جمہوریت پر ایک بدنماداغ کی طرح آج بھی رقم ہیں اور انصاف کی منتظر ہیں ،لیکن انصاف کیا ملتا کہ ایک کے بعد ایک ایسے واقعات دہرائے جا نے کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔اندھے قانون میں کشمیر کی آسیہ اور نیلوفر کو انصاف ملنے کا انتظار کیا تھا کہ انسانی شکل میں درندہ صفتوں نے کٹھوعہ رسانہ گاؤں کے ایک دیواستھان میں آٹھ سالہ معصومکلی کو باری باری اپنی ہوس کا شکار بنا کر موت کی نیند سلا دیا اور پھر درندگی کی ایسی شرمناک تاریخ کر دی گئی کہ معصوم بچی کو انصاف دینے کے لئے آگے آنے کے بجائے بڑے بڑے سیاسی پنڈتوں نے کھل کر مسلم دشمنی کا ثبوت پیش کیا۔ ہو نہ ہو آئے روز معصوم بچیوں کا درندہ صفتوں کے ہاتھوں ہوس کا شکار بنناایسے ہی نام نہاد سیاسی لٹیروں کی گندی سوچ اور پالیسی کا شاخسانہ ہے۔

ابھی رسانہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، جی ہاں! عدالت میں! میرے بزرگو! دوستو،بھائیو! یہ (ع) والی عدالت نہیں بلکہ (الف) والی ادالت ہے۔’’یعنی ……آؤ……دعویٰ کرو……لڑو اور تباہ ہوجاؤ۔یہ وہ عدالت ہے جہاں غریبوں کے جنازے اُٹھتے ہیں، انصاف نام کی چیز غریبوں کیلئے نہیں امیروں ،مالداروں اور وڈیروں کا مقدر ہوتی ہے۔ واضح رہے کٹھوعہ معاملہ گزشتہ برس کے پہلے ہی ماہ میں رونما ہوا تھا اور اِسی ماہ میں ہمسایہ ملک میں بھی اسی طرح کا ایک شرمناک واقعہ رونما ہوا تھا ……انصاف کس بھلا کا نام ہے آؤ میں بتا دیتا ہوں، پاکستان میں درندگی کا شکار بنی زینب کو چند ہی ماہ کے اندر وہاں کی عدالت نے انصا ف دیاقصوار کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا ، اسے (عدالت ) کہتے ہیں جہاں مظلوموں کو انصاف دیا جا تا ہے، جہاں قصواروں کوعبرتناک سزا دی جاتی ہے لیکن افسوس صد افسوس ہمارے ملک میں انصاف کی باتیں تو ہوتی ہیں لیکن انصاف دیئے جانے کی ایک بھی مثال کہیں نظر نہیں آتی ۔ ہزاروں ایسے معاملات عدالتوں میں دھول چاٹ رہے ہیں جن کے متاثرین نے اب انصاف ملنے کی اُمیدیں دفن کر دی ہیں ۔انصاف کی وفات اور ظلم و جبر کے بڑھتے رجحان کی ایک مثال کٹھوعہ رسانہ معاملہ ہے جس کے متاثرین کو سال گزرنے کے بعد بھی انصاف ملنے کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی ۔ رسانہ معاملہ بھی ماضی کی طرح آسیہ و نیلوفر جیسی کئی معصوم کلیوں کے ساتھ پیش آئے درندگی کے واقعات کی تحقیقاتی بھول بھلیوں میں گم ہونے کو ہے ۔

گویا ہمارے ملک ہندوستان میں انصاف مر چکا ہے، دفن ہو چکا ہے، انصاف کو سیاست اور خباثت کے مرگزار میں گاڑ دیا گیا ہے۔ رسانہ معاملہ کو مذہبی اور سیاست رنگت دیکر جو ننگا ناچ کھیلا گیا اُسی کا نتیجہ ہے کہ آج پھر سے صوبہ جموں ضلع رام بن کے گاؤں رامسو درنالہ میں ایک معصوم کلی درندگی کا شکار ہو گئی۔درندہ صفتوں نے معصوم بچی کو اپنی ہوس کا شکار بنایا ، نتیجاً بچی حاملہ ہو گئی ۔یہ تازہ معاملہ انسانیت کے نام پر بدنماداغ ہے ۔بزرگ والدین کی بے بسی کافائدہ اُٹھاتے ہوئے قریب کے چند درندوں نے کمسن بچی کوکئی ماہ تک اپنی ہوس کاشکاربنایاجس دوران وہ حاملہ ہوگئی اورصحت بگڑنے کے بعد والدین نے جب اسپتال میں بھرتی کرایاتو معلوم ہوا کہ بچی تین ماہ سے حاملہ ہے۔یہ خبر ملتے ہی والدین پرقیامت ٹوٹ پڑی۔ والدین کے مطابق متاثرہ بچی نے اپنے ساتھ پیش آیاجو دردناک واقعہ گھرکی خواتین کو سنایاوہ کچھ ا،س طرح سے ہے ……’’میں پانی کے قریب گھاس کاٹ رہی تھی تواسی دوران چندافراد نے مجھے اپنے قابو میں کر لیا اور زبردستی مجھے گھسیٹ وہاں سے تھوڑی دور لے گئے اور وہاں پر میرے ساتھ زیادتی کی، درندوں نے مجھے باری باری اپنی ہوس کا شکار بنایا اور پھر یہ دھمکی دے کر چلیگئے کہ اگر آپ نے اِ س سارے واقعے کے بارے میں کسی کو سنایا تو ہم آپ کی جان لیں گے۔

اب جبکہ ایک بار پھر سے انسانیت کو شرمسار کر دینے والایہ انسانیت سوز واقعہ سامنے آیا ہے تو مختلف مقامات پراحتجاجی مظاہروں کاسلسلہ شروع ہوگیا۔حسب دستور سیاست دانوں کی جانب سے احتجاج اور بیان بازیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔بالکل اسی طرح سے جس طرح ہمارے نام نہاد سیاست دان اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لئے کسی بھی ایسے معاملے پر بیان دینے میں دیر نہیں کرتے جس سے وہ اپنی سیاسی بھٹی گرما سکیں ۔ حسب معمول بالکل اُسی طرح سے پولیس ’’سنجیو ‘‘نامی ایک ملزم کی گرفتاری عمل میں لاتے ہوئے دیگران کی جلدگرفتاری کی یقین دہانی کراتے ہوئے مظاہرین کو مطمئن کیا۔

واضح رہے آئے روز معصوم بچیوں کا درندگی کا شکار ہونااس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ مودی حکومت کی مسلم خواتین کے تئیں ہمدردی کے دعووں میں کوئی سچائی نہیں۔یہ مودی حکومت کا محض ایک انتخابی ہتھکنڈاہے جبکہ ریاستی سطح پر دیکھا جائے تو یہ مودی بھگتوں کا مسلمانوں کیلئے خوف کا ماحول بپا کرنے کاایک اور قدم ہے ۔ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت یہ سب واقعات مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کیلئے انجام دیئے جاتے ہیں ۔ افسوس کا مقام ہے کہ جس ملک میں معصوم بچیوں کی عصمتیں لوٹنے پر سیاست کی جارہی ہو اور بجائے معصوم بچیوں کو انصاف دلانے کے قصواروں کو بچانے کی ناپاک کوششیں کی جا ررہی ہوں اُس ملک کو ایک جمہوری ملک کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔وزیر اعظم بھلے ہیں چوڑی چکلی باتیں کر نے میں کمال رکھتے ہوں لیکن ’’بیٹی بچاو ، بیٹی پڑھاؤ‘‘،’’تین طلاق‘‘ اور حقوق نسواں سے متعلق صاحبِ اقتدار کے سبھی وعدے جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں اور اقلیتوں کے تئیں انتہا درجے کی نفرت کا کھلا ثبوت بھی ملا رہا ہے۔

لہٰذاموجودہ حالات میں مسلمانوں کو اپنی صفوں میں اتحاد پیداکرنے کی اشد ضرورت ہے ، اگر اب بھی مسلمانان ِ ریاست متحد نہ ہو سکے تو وہ دن دور نہیں کہ ایک ایک بچی کو درندگی کا شکار بنایا جائے گا۔ یہ مسلمانوں کے صبر کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ مسلمانو! اٹھویہ وقت غفلت میں رہنے کا نہیں، یہ وقت بیدار ہونے کا ہے ، آج کی یہ مجرمانہ غفلت مستقبل کی تباہی کا باعث بن جائیگی ،انہی حالات میں اتحاد پیدا کرنے کیلئے شاعر مشرق حضرت علاقہ اقبال ؒنے کہا تھا …………
تھے تو آباد وہ تمہارے ہی ،تم کیا ہو؟
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر ِ فردا ہو
اور
تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے؟

MOHAMMAD SHAFI MIR
About the Author: MOHAMMAD SHAFI MIR Read More Articles by MOHAMMAD SHAFI MIR: 36 Articles with 29958 views Ek Pata Hoon Nahi Kam Ye Muqader Mera
Rasta Dekhta Rehta Hai Sumander Mera
.. View More