30 دسمبر 1973 ---- جب آگ سے رزق حاصل کرنا قبول کیا

45 برس پہلے کی بات ہے - یہ وہ زمانہ تھا جب اخباروں کی کتابت کاتب حضرات کیا کرتے تھے- طرح طرح کے قلم ان کے پاس ہوا کرتے تھے - موٹے ‘ پتلے باریک - انہیں یہ علم نہیں تھا کہ آنے والا دور ایک کمپیوٹر مشین لیکر آئے گا اور طباعت کے شعبے کو ہاتھ کی کتابت سے بے نیاز کر دے گا -

اور یہی 45 برس پہلے کی بات ہے کہ کاتب حضرات اخبارات کے دفترمیں بیٹھے ایک بہت بڑی خبر کی کتابت کر رہے تھے - یہ تھی ایک بہت بڑے ادارے کی 30 دسمبر 1973 کو سنگ بنیاد رکھنے کی خبر -

ادارہ تھا پاکستان اسٹیل مل پپری بن قاسم کراچی -
یعنی ایسا کارخانہ جس میں ایک طرف کوئلہ اور لوہے کی معدنی مٹی انڈیلی جائے گی اور دوسری طرف سے لال لال گرم پگھلا ہوا لوہا نکلے گا -

اس کا سنگ بنیاد اس وقت کی حکومت کے سربراہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا تھا -یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آگ ہی سے ڈرایا ہے لیکن کئی لوگوں کی روزی اسی آگ میں رکھ دی ہے - اس روز ہزاروں خاندانوں کے لئے اس طریقے سے روزی حآصل کرنے کا انتظام ہو رہا تھا تمام قوم اس طریقے سے روزی حاصل کر نے پر خوشی کا اظہار کر رہی تھی - اخبارات نے دس دس بارہ بارہ صفحوں کے ضمیمے نکالے تھے اور کیوں نہ نکالتے پاکستان ایک بہت بڑی بنیادی صنعت کے اہم دروازے میں قدم رکھنے جارہا تھا - ہر طرف ایک مسرت کا سماں تھا - اس سے پہلے جنرل یحیٰ خان نے اپنے دور حکومت میں ' حکومتِ روس سے اس کا معاہدہ طے کیا تھا اور اس بات پر ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے لئے تحسین کے کلمات کہے تھے -

پھر یہ ادارہ چلا -

پاکستان کے انجینئرز کا وقار بھی بلند ہوا کہ روسی ماہرین کے بغیر بھی کئی کارنامے اسی اسٹیل مل کے اندر انجام پائے

کئی کام ایسے بھی ہوئے جس پر روسی ماہریں نے ہاتھ ہی اٹھا لئے تھے کہ اس کے لئے خصوصی طور پر الگ ماہرین بلانے پڑیں گے وہ بھی چشم فلک نے پاکستانی انجینئروں کے ہاتھوں ہوتے دیکھے

اس حیرت انگیز بات کا بھی مشاہدہ ہوا کہ روسی مشینوں کے نظام میں بھی خامیاں تھیں جنہیں بتدریج پاکستانی مہندسین دور کرتے رہے اور ملکی اخراجات میں کمی کا سبب بنے -

اسی ادارے کے سبب کئی اور کارخانے وجود میں آئے جہاں اس کی مصنوعات بطور خام مال استعمال ہو نے لگیں - لوگوں کے لئے نئے نئے روزگار کے دروازے کھلے -

اتنے سب کارناموں کے ہوتے ہوئے بھی اسٹیل مل کیوں اس حال کو پہنچی کہ آج تنخواہ دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں ؟

آج اس کے سنگ بنیاد 45 ویں سالگرہ پر یہ میرا موضوع نہیں میں اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا کہ ایک شاد باد مستقبل کی نوید دینے والا سنگ بنیاد کیسے سنگ لوح کی علامت بن گیا ہے - میں آدھا گلاس خالی ہے کہنے کی بجائے کی بجائے آدھا گلاس بھرا ہوا کہہ کر بات کر نا چاہتا ہوں-

جب میں آدھا گلاس بھرا ہوا کہہ کر بات کرنا چاہتا ہوں تو میری مدد کے لئے کتاب 'شہاب نامہ ' آجاتی ہے -اس میں قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں کہ
ہمارے ڈاکٹر انجینئر بینکر اور دیگر فنی ماہریں امریکہ برطانیہ یورپ اور مشرق وسطیٰ اپنی قابلیت کا کا لوہا منوا چکے ہیں -
پاکستان میں جمبو جیٹ جو پائلٹ چلاتے ہیں وہ ہمارے اسکول و کالج سے ہی پڑھ کر نکلے ہیں -
بڑے عظیم الشان ڈیم -بلند و بالا عمارات جدید ترین مشینوں سے چلنے والی ملیں اور فیکٹریاں جو انجینئر بناتے اور چلاتے ہیں وہ بھی ہماری ہی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر نکلے ہیں - ایٹمی شعبوں میں کام کرنے والے افراد و نوجوان بھی ہماری ہی یونیورسٹیو ں کی پیداوار ہیں

اسی تناظر میں میں نے جب اسٹیل مل کا جائزہ لیا اور یہاں کے جواہر قابل کی فہرست بنانے لگا تو ایک طویل فہرست بن گئی -
ہر ایک اپنی کارکردگی میں ایک مقام کا حامل -
ہر ایک اپنی جگہ صاحب ہنر کامل
ان میں ایک محمد ایوب آرائیں بھی ہیں -
جناب محمد ایوب آرائیں - اب ہم میں نہیں ہیں - تین برس پہلے اس سرائے فانی کو الوداع کہا اور عالم جاودانی کو روانہ ہو گئے --- انا للہ و انا الیہ راجعون - بے شک ہم اللہ ہی کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی جانب لوٹیں گے -
مرحوم جب تک اسٹیل مل میں رہے وہ اس کو ایک نئی جہت اور نیا رخ دینے کی تگ و دو کرتے رہے - اسٹیل مل کے کارخانے بلٹ مل میں ان کے مختلف بکھرے ہوئے کارنامے ان کی یاد دلاتے رہتے ہیں
یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے کبھی اس کا چرچا نہیں کیا - نہ ان میں یہ استکبار نفس پیدا ہوا کہ میں اعلیٰ ہوں -بس اپنے کام سے تعلق رکھا
آپ کا تعلق صوبہ سندھ کے پس ماندہ علاقے ڈکری سے تھا - آپ نے حیدر آباد کے پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ سے میکانیکل انجینئرنگ کا ڈپلومہ حاصل کیا - اور بعد میں اسٹیل مل میں ملازمت اختیار کی - یہ اسٹیل مل کی خوش نصیبی تھی جو ان جیسے افراد کی ہنر مندی سے فیض اٹھاتی رہی -
مجھے وہ قرینہ نہیں آتا کہ کسی با کمال فرد کا تعارف کراؤں یا اگر تھوڑا بہت آتا بھی ہے تو ایوب صاحب کی صلاحیتیں اتنی وسیع ہیں کہ میں ان کا احاطہ کرنے میں ناکام ہو جاتا ہوں - اس صورتحال میں یہی سمجھ میں آتا ہے کہ ایک واقعہ کا تذکرہ کردوں -

ایک مرتبہ اسلام آباد سے ایک وفد آیا - یہ مختلف شہروں کے زیر تربیت اساتذہ کرام تھے اور غالباً اسلام آباد میں کوئی کورس کر رہے تھے - ان میں خواتین بھی شامل تھیں -
مجھے چیف انجینئر نے فون کیا اور کہا کہ انہیں میکانیکل انجینئرنگ کے معاملات کے لحاظ سے اپنے کارخانے کی بابت بتاؤں - خواتیں و حضرات پہنچے - میں نے پہلے ایک بریفنگ دی

بریفنگ کا آغاز یہاں سے کیا کہ آپ لوگوں کی اس ادارے کے بارے میں کیا رائے ہے -

ایک خاتوں جو گلشن اقبال کراچی سے تھیں -ان سے خصوصی طور پر پوچھا کہ آپ کیا کہتی ہیں کیوں کہ کارخانہ آپ کے شہر کے مضافات میں ہی لگا ہے اور اس کے کام کرنے والے افراد زیادہ تر شہر سے ہی جاتے ہیں -
اس سے پہلے وہ جواب دیتیں - میں نے کہا کہ یہی نہ کہ یہ ادارہ قوم کے لئے ایک سفید ہاتھی ہے - - قوم کا پیسہ کھائے جا رہا ہے-پاکستان پر بوجھ ہے - یہاں کے افسران و کارکنان کام چور ہیں -ٹکے کا کام نہیں کرتے - وغیرہ وغیرہ
میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ بولنا چاہتے ہیں لیکن جھجھک بھی رہے ہیں - میرے سامنے ہی میرے ادارے کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کرنا ان کے جواب دینے میں مانع ہو رہا تھا - میں نے کہا چلئے آپ نہ بولیں لیکن اخبارات تو لکھتے رہتے ہیں - خیر ایک خاتوں جنہوں نے بھڑک دار کپڑے پہن رکھے تھے اور چہرے پر کچھ شوخی بھی تھی نے دبے الفاظ میں کہا کہ ہاں ہماری بھی یہی رائے ہے -لیکن آپ نے کچھ زیادہ ہی شدید الفاظ استعمال کئے ہیں - اس کے بعد انہوں نے دوسرے افسران کی جانب دیکھا کہ انہیں کچھ اعتراض تو نہیں - لیکن وہاں بھی تائید ہی نظر آئی -
میں مسکرایا اور کہا کہ آپ وزٹ کر کے آئیں گے پھر ہم اس پہلو پر سیر حاصل گفتگو کریں گے -

میں نے اپنےسینئر انجینئر کو ان کے ہمراہ کردیا اورانہیں ہدایت دی کہ وزٹ کے دوران کچھ مقامات کا خصوصی طور پر بتائیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں یا ہم نے کیا کیا ہے - سینئر انجینئر کوان مقامات کی نشان دہی بھی کردی - وزٹ کے دوران وہ ایک مقام پر گئے جہاں ایک ہی کام کرنے کے لئے دو الگ الگ مشینِن لگی ہوئی تھیں -لیکن ان کی ساخت اور شکل بالکل الگ تھیں - ان میں‌ زمین آسمان کا فرق تھا - اتنا فرق جتنا ایک پرندے اور ایک چوپائے میں ہوتا ہے - سینئر انجینئر نے انہیں بتایا کہ ہمیں جو مشینیں مہیا کی گئیں تھیں اس کا پرانا ڈیزائن یعنی کام کرنے کا طریقہ ' موٹر سائیکل کی چین یا عام سی سائیکل کی چین قسم کا تھا - اس موٹی سی چین پر لوہا رکھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے تھے - اس میں کئی لاکھ روپے سالانہ کی گریس استعمال ہوتی تھی -
خیر یہ مسئلہ بھی اتنا بڑا نہیں تھا لیکن اس میں کچھ ایسی تکنیکی خرابیاں بھی تھیں کہ روزانہ دو گھنٹے کارخانے کا یہ حصہ بند کرکے اس کی مرمت کرنا پڑتی تھی - مرمت کرنے کا یہ کام آسان نہیں تھا - چاروں طرف گرم لال سرخ لوہا حرکت کر رہا ہو تا اور اس شدید گرمی میں پسینے میں شرابور لوگ اس مشین کی مرمت کر رہے ہو تے - ایک مرتبہ ایک کارکن نے کہہ بھی دیا تھا کہ یہ تو ہمارے نصیب میں ہی لکھ دیا گیا ہے اور ہم پیدا ہی اس لئے ہوئے ہیں کہ کہ آتے ہی اس کام میں جت جائیں -
اس کا معاشی پہلو بھی نہایت ہی گمبھیر صورتحال پیش کرتا تھا - دو گھنٹے کارخانہ بند ہونے کا مطلب ساٹھ گھنٹے ماہوار اور سات سو بیس گھنٹے سالانہ یا پورے سال میں ایک ماہ بند رکھنا - کوئی کارخانہ یا کارخانے کا حصہ ایک ماہ بند رہے یہ اسٹیل مل کے انجینیئروں کو قبول نہیں تھا - کیونکہ قوم نے ان انجینئروں پر اعتماد کر کے انہیں کارخانہ چلانے کے لئے دیا تھا نہ کہ بند کر نے کے لئے - سوچ بچار کرتے رہتے تھے آخر کار اس میں تبدیلیاں کی گئیں اور نئی مشینیں ہمارے انجیئروں نے لگائیں -اب گریس کا خرچ صفر ہو گیا ہے اور کارخانہ بند کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی
نہج البلاغہ میں بنی نوع انسان کو نصیحت کی گئی ہے کہ لوگ تمہاری ذات سے راحت پائیں - وہ کارکنان جو تپتے گرم لوہے کے بیچ کھڑے ہو کر مشینوں کی درستگی کرتے تھے انہیں اب اس سے نجات مل گئی ہے اور اب وہ راحت میں ہیں -

پھر دوسری جانب کچھ مشینں دکھائی گئیں جن پر لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے رکھ کر بھٹی کے اندر دھکیلے جاتے تھے - بتایا گیا ان مشینوں میں گڑ بڑ ہو گئی ہے - اگران مشینوں کو روس کے کہنے کے مطابق بنائیں تو چھ مہینے تو ڈرائنگ بنانے میں ہی لگیں گے - اس کے بعد چھ ماہ مزید اس کے سانچے بنانے میں لگیں گے - اور اسکے بعد اصل مشین بننا شروع ہوگی -پاکستانی انجینئرز نے اس کا حل بھی سوچا اور چار ماہ کے قلییل عرصے میں مشین بنا کر تیار کردی اور خرچہ نہ ہونے کے برابر -

پھر ایک اور مشین پر لیجایا گیا - اس کے اندر جو بیرنگ استعمال ہوتی تھی وہی لاکھوں روپے مالیت کی تھی - جی ہاں وہی بیرنگ جو آپ پنکھوں میں استعمال کرتے ہیں - یہاں خصوصی بیرنگ استعمال ہوتی تھی - اتنی قیمتی بیرنگ تھی تو اس کا معائنہ کرنا ضروری تھا - - لیکں اس کی دیکھ بھال اور چیکنگ کا جو طریقہ تھا اس کے لئے کارخانے کو آدھے دن کے لئے بند کرنا پڑتا تھا اور مشقت الگ - نہیں صاحب نہیں قوم کا وقت بہت قیمتی ہے - ایک منٹ بھی کیوں ضائع ہو اور اس دوران جو پانی گیس بجلی کا زیاں ہوتا ہے وہ بھی کیوں ہو - اس کے لئے نیا طریقہ سوچا گیا اور اس کےنتیجے میں صرف دو گھنٹے میں بیرنگ کا معائنہ مکمل ہو نے لگا -

اس طرح کئی چیزوں کے بارے میں بتایا گیا -

اسلام آباد سے آئے ہوئے افسراں کارخانے کا دورہ مکمل کر کے واپس آئے - کھانا میرے ہمراہ کھایا - کھانے کے بعد چائے کا دور چلا اور اس پر ہلکی پھلکی بات چیت شروع ہوئی -میں نے انہیں عبدالقادر حسن کے ایک کالم کا حوالہ دیا کہ وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی اداروں خصوصاً سرکاری اداروں میں تیس فی صد افراد کام نہیں کرتے - پچاس فیصد بس گزارے لائق کام کرتے ہیں - بیس فیصد افراد پیں جو قوم کا درد دل میں رکھتے ہیں اور سخت محنت سے ادارے کو چلتا رکھتے ہیں - معاملات صحیح رکھنے کے لئے جان توڑ محنت کرتے ہیں - دن کو دن اور رات کو رات نہیں سمجھتے - ان کے بدولت ہی ملک چل رہا ہے - ( مجھے جناب عبدالقادر حسن کا صحیح اعدادی تجزیہ یاد نہیں اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے ) - میں نے کہا اس ادارے میں بھی یہ حال ضرور ہے - لیکن جو بیس فیصد افراد کام کر رہے ہیں ان کی تعریف ضرور کریں - میں نے اس کے بعد دوبارہ اس بارے میں مختصر سا بتایا اور پوچھا کہ اب ان کی کیا رائے ہے - ان کے چہرے ان کی دلی کیفیت کے آئینہ دار تھے اور وہ حقیقت میں متاثر لگ رہے تھے - ان کے چہرے اب سنجیدہ تھے - ایسے لگتا تھا کہ وہ کسی گہری سوچ میں پڑے ہوئے ہیں یہاں تک کہ شوخ بھڑکدار لباس پہنی ہوئی خاتوں بھی اب خاموش تھیں - آخر کسی نے سکوت توڑا اور دھیمے لہجے میں کہا کہ اب ان کی رائے بدل گئی ہے -

یہ سب کارنامے اور دیگر ہنر مندیاں جو اسلام آباد کے وفد کو بتائی گئی تھیں سب کے سب مرحوم محمد ایوب آرائیں کے ہاتھوں سر انجام پائیں ( سوائے نمبر تین کے ) - مرحوم محمد ایوب آرائیں ملک کے سب سے بڑے قومی صنعتی اثاثے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ودیعت اور قوم کی طرف سے امانت سمجھتے تھے اور اسی نیت سے انہوں نے اپنے فرائض سر انجام دئے -

بلٹ مل کی سالانہ مرمت کاری کا کام شروع ہوتا تو یہ متواتر دس پندرہ دن جاری رہتا تھا - سب کی
ڈیوٹیاں بارہ گھنٹے کی لگتی تھیں یعنی صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک اور رات آٹھ بجے سے صبح آٹھ بجے تک - اس میں ایوب آرائیں صاحب بھی شامل تھے - لیکن ایوب آرائیں رات آٹھ بجے نہیں جاتے تھے بلکہ رات دس بجے ساڑھے دس بجے جاتے تھے تاکہ نئی آنے والی ٹیم کو سارا کام انفرادی طور پر سمجھا سکیں - ذمہ داری کا یہ احساس بہت کم لوگوں میں نظر آتا ہے لیکن مرحوم ایوب آرائیں‌ میں اللہ کی یہ برکت اور یہ احساس بدرجہ اتم موجود تھا -

ایک مرتبہ کارخانے کی سالانہ مرمت کے دوران وہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہ حسب معمول رات ساڑھے دس بجے گھر جارہے تھے - اسٹیل مل کی گاڑی جو انہیں رات کے لئے خصوصی طور پر دی گئی تھی ان کے پاس تھی - کہ اچانک انہیں خیال آیا کہ ایک ماہ ہونے کو آیا ہے -بال بڑھ گئے ہیں کٹا لینا چاہئے - یہ سوچ کر ایک حجام کی دکان پر یہ پوچھنے گئے کہ دکان کب تک کھلی رہے گی تاکہ گھر سے واپس آکر بال کٹالیں - ابھی وہ دہلیز پر ہی تھے کہ اسٹیل مل سیکیورٹی نے ان کا نام درج کر لیا کہ گاڑی کا ناجائز استعمال ہو رہا ہے - ایوب مرحوم پریشان سے ہوگئے اور انہوں نے مجھے فون کیا کہ ایسا معاملہ ہوا ہے - میں پہنچا - پہلے حجام سے بات کی -سامنے ایک پشاوری چپلی کباب والے سے بھی معاملے کی بابت سنا اور پھر میں سیکیورٹی والوں کے پاس پہنچا - سیکیورٹی انچارج نفیس طبیعت کے مالک تھے - جب میں نے انہیں بتایا کہ ایوب صاحب کے کیا کیا کارنامے ہیں -انہوں نے کیسا ملک کا پیسہ بچایا ہے اور یہ پیسہ جب تک یہ کارخانہ قائم ہے بچتا رہے گا تو وہ دم بخود رہ گئے - ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا "ان کو یہ گاڑی مفت بھی دے دی جائے تو ہم ان کے احسانات کا قرضہ نہیں اتار سکتے " ایک دوسرے سیکیورٹی گارڈ نے کہا "ہماری تنخواہ بھی ان کی دی ہوئی بچت سے نکل رہی ہے - مرحبا --- سائیں مرحبا -

ایک بڑی مشین پرایک حساس قسم کی مرمت کا مسئلہ درپیش تھا - ذرا سی بھول چوک --ذرا سی بھی کوتاہی کسی نئے مسئلے کی پیدائش کا باعث بن سکتی تھی - یہ کام جناب ایوب مرحوم کی زیر نگرانی سر انجام پانا تھا - کرین آپریٹر کے انتخاب کا مسئلہ آیا تو میں سب سے بہترین کرین آپریٹر اس کام میں ایوب صاحب کے ساتھ لگانے کی تجویز دی گئی - کرین آپریٹر کی مہارت کے بارے میں لوگ کہا کرتے تھے کہ کرین کی مختلف حرکات ' طرح طرح کی جُنبشیں ' اس کرین آپریٹر کی مٹھی میں آکر ایک غلام کی مانند تابع فرمان بن جا تی تھیں - لیکن جناب ایوب صاحب نے انکی صلاحیتوں کا اقرار کرتے ہوئے اس کرین آپریٹر کی جگہ کارگر دگی میں دوسرے نمبر آنے والے کرین آپریٹر کو لگانے کی درخواست کی - جناب ایوب صاحب کی دلیل یہ تھی کہ بہت زیادہ اعتماد بھی کئی مرتبہ لاپرواہی کی جانب لے جاتا ہے جب کہ اس کام میں اس کی قطعی گنجائش نہیں ہے - میں حیرت زدہ رہ گیا - مجھے اپنا ایک مشاہدہ یاد آگیا جہاں پر میں بے انتہا اعتماد کے حامل ویلڈر کے سبب اپنی ایک مشین کا نقصان کرا بیٹھا تھا - ایوب صاحب کی بات مان لی گئی - ایوب صاحب کی یہ دلیل پاکستان اسٹیل میں کئی جگہوں پر بطور حوالہ پیش کی جاتی رہی -

-محمد ایوب آرائیں کی کامیابیاں ' کامرانیاں اور ہنر مندیاں باعث صد رشک ہیں
سٹیل مل کی بہتری کے لئے ان کے تمام اقدامات کو ایک صدقہ جاریہ کی حیثیت حاصل ہے

یادوں کی لہریں ہیں جو سامنے آتی جا رہی ہیں جنہیں کتاب میں تو بند کیا جا سکتا ہے کالم میں نہیں - لوہا کاٹنے کی مشین کے بارے میں بتایا گیا کہ اس کے اندر کچھ تکنیکی خرابی پیدا ہو گئی تھی تو پاکستان میں موجود روسی ماہرین نے ہاتھ ہی اٹھالیا تھا کہ یہ مرمت کرنا ان کے بس کی بات نہیں - اس کے لئے خصوصی طورپر روس سے ٹیم بلائی جائے - لیکن محمد ایوب آرائیں نے ہمت کی اور اس کی خرابی دور کرنے کا عزم کیا اور کامیابی سے ہم کنار ہوئے - اسلام آبا د سے مطالعاتی دورے پر آئی ٹیم کو اس بات پر بڑی حیرت ہوئی کہ اس مشین کے ایک بولٹ کا وزن ہی آدھے ٹن سے زیادہ تھا اور لمبائی ہمارے گھروں کے کمروں کی اونچائی کے برابر تھی -جی ہاں وہی بولٹ جو عام موٹر سائیکلوں میں لگا ہو تا ہے -
زندہ اقوام اپنے محسنین کی خدمات کا تذکرہ کرتی رہتی ہیں تاکہ نئی پود کو علم ہو وہ جس قوم کے فرد ہیں ان میں ایسے جواہر قابل موجود ہیں - مولانا کوثر نیازی کہتے ہیں کہ گزرے ہوئے واقعات جن کا تعلق ممالک اور اقوام کی تقدیر سے ہوتا ہے تاریخ کی امانت ہوتے ہیں اور لکھاریوں کا فرض ہے کہ انہیں قرطاس و قلم کے حوالے کریں - اسی جذبے کے تحت پاکستان اسٹیل کے سنگ بنیاد رکھنے کے مناسبت سے میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اور اس دعا کے ساتھ کہ وہ مرحوم کو جنت کے اعلیٰ مقام پر فائز کرے - آمین -

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 333422 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More