زندگی اپنے ہی قدموں سے چلتی ہے

زندگی تو اپنے ہی قدموں سے چلتی ہے فراز
اوروں کے سہارے تو جنازے اٹھا کرتے ہیں
یہ تو سچ ھے اور پوری دنیا نے دیکھا بھی کہ جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھے مگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے.

اور دوسری طرف دکھ, درد, خوشی, مال ؤ دولت کی فراخی, عزت ؤ ذلت کے فیصلے بھی اللہ کی طرف سے ھوتے ہیں وہ کسی کو لاکھ دے کر واپس فقیر کر دے اور کسی فقیر کو زمین سے آسمان کی بلندی جیسی عزت ؤ شہرت عطا کر دیں. بہرحال‏ساتھ رہنا اتنا اہم نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ جتنا ساتھ ہونا اہم ہے ۔۔ دکھ کی ساعت میں ایک دوسرے کے آنسو سمیٹنے میں تعلق کی سچائی ہے ، نہ کہ آنسو دیکھنے میں ۔۔۔۔۔ فاصلہ دلوں میں آئے تو تکلیف ہوتی ہے ، ورنہ جسموں کی دوری بھی کوئ دوری ہے ....

ایک تحریر نظر سے گزری وہ درج ذیل ھے اور آخر میں میری راۓ بھی کہ شاید اتر جاۓ تیرے دل میں میری بات......

فیس بک پر آج اس کے بارے تعارفی پوسٹ اور بھیا کا اہلیان چیچہ وطنی کیساتھ شکوہ کا پڑھ کر جہاں دکھ ہوا وہیں پر مجھے اپنا زمانہ طالب علمی 1988 تا 1996 یاد آگیا۔۔غالباً کلاس چہارم تا ایف۔اے۔
اسکول سے کالج تک بھیا چنے والا سے چنے لے کر کھانا۔۔۔!!

بہت اچھے دن تھے۔۔مگر اس وقت بھیا سب کے دلوں کا راجہ ہوا کرتا تھا۔۔اسکول اور پھر کالج ، ہر طرف بھیا بھیا ہوا کرتی تھی۔۔اسکی مخصوص اسٹائل میں آواز دینے پر سب بچے ہاتھ میں پیسے لیے۔۔اسکی چھابڑی کے گرد جمع ہو جاتے تھے۔۔۔تب اسکو کوئی تنگ نہیں کیا کرتا تھا۔۔۔۔کاغذ میں چنے اور پھر مصالحہ ڈال کر۔۔ساتھ گتے کا چمچ ۔۔۔۔بھیا کے چنوں کا سنا ہے آج بھی وہی ذائقہ ہے۔۔۔۔بھیا کے بال سفید ہوگے۔مگر ہمت وہی ہے..آج بھی چیچہ وطنی کے اسکولز میں اپنا اور اپنے بچوں کا رزق تلاش کرنے آتا ہے۔۔!!

30 سال بعد بھی غربت سے لڑ رہا ہے۔۔۔اسکی حالت آج بھی ویسی ہی ہے۔۔۔مخیر حضرات سے اپیل ہے اسکو تلاش کر کے اسکی مدد کریں۔۔اسکی زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔۔۔اللہ پاک احباب کو استقامت دے۔۔۔آمین

بھیا کے ساتھ ایک کالا سموسے والا ہوا کرتا تھا۔۔ہمارے زمانہ طالب علمی میں ایک روپے کے 2 سموسے اور پھر بعد میں ایک روپیہ کا ایک ہو گیا۔۔۔ کالا سموسے والا کا اپنا اسٹائل ہوا کرتا تھا۔۔ایک ہاتھ سے کاغذ اٹھانا،اُسی ہاتھ سے سموسے رکھنا اور پھر اُسی ہاتھ کے انگوٹھے سے سموسے کے سنٹر میں سوراخ کرنا اور آلو والی چٹنی ، لکڑی کے چمچ سے ڈالنا۔۔اسکا اسٹائل ہوا کرتا تھا۔۔۔!! اسکول ٹائم کے بعد 39 چک ، حیات آباد ،شہر اور مضافات میں اپنی روزی روٹی کمایا کرتا تھا۔

سموسوں کے تھال کے نیچے چھوٹی سی ہنڈیا میں گرم کوئلے۔۔۔ویسے سموسے اور ذائقہ پھر اہلیان چیچہ وطنی کو نہیں مل سکا۔۔۔

سنا ہے کالا سموسوں والا آجکل احمد نگر(غریب محلہ) میں رہتا ہے اور ہیپائیٹس سی جیسی موذی مرض کا شکار ہے۔۔انتہائی مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔۔۔۔!!!

‏جب عقل پر پردہ پڑا ہو تو پھر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دل کی کھڑکیاں اور دروازے بند ہیں کہ کھلے...میرے خیال میں مخیر حضرات کو آگے آ کر ان کا سہارا بننا چاہیے انہیں تلاش کر کے ان کی مدد کرنی چاہیے۔۔اللہ پاک انہیں تندرستی اور انکا سہارا بننے والوں کو اجر دے۔۔۔۔میرے اہل وطن کے اہل علم ؤ ہنر میری گزارش ہے کہ ‏ہر حال میں مثبت رہنا سیکھئے، اس سے چاہے آپ کے مسائل حل ہوں یا نہ ہوں مگر آپ کو "اطمینان قلب" ضرور نصیب ہو جاتا ہے، اور یقین کیجئے آج کے دور میں جس شخص کو دل کا سکون مل جائے، اس سے بڑھ کر اور کوئی خوش نصیب نہیں__

اس تحریر کا کچھ حصہ ہمارے پیارے ساتھی چوھدری صابر رحمن صاحب کا تحریر کردہ تھا جسکو میں اپنے انداز میں کچھ ترامیم کے ساتھ پیش کیا ھے اس امید کے ساتھ کہ ہم اپنے اردگرد کوئی اور اگر ایسا چنے والا بھیا دیکھ لیں تو اسکی مدد کرنے کا بھی عملی مظاہرہ کریں...
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 455269 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More