“ میری محبت جھوٹ نہیں تھی “ آخری قسط

وہ سجدے میں سر رکھے جانے کب سے رو رہی تھی، جیسے جیسے اسکے آنسو بہ رہے تھے اسکے دل کو سکون مل رہا تھا۔ یہ کیسا سکون تھا ؟ کون دے رہا تھا ؟ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکے سارے دکھ کسی نے ایک کن کہنے سے ختم کر دئیے ہیں۔ وہ کن کہ دینے والے نے ہی ایک کن کہ کر اسکے دل کو سکون دے دیا تھا۔ آنسو تھم چکے تھے ۔ بے چینی ختم ہو چکی تھی۔ اسنے سر سجدے سے اٹھایا تو اسے لگ رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو ، جیسے سب ٹھیک ہو ، پہلے جیساہو۔ اسنے جائے نماز اٹھا کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہوگئی۔ رات کے تیسرے پہر آسمان پر تارے چمک رہے تھے۔ اسنے ادھر ادھر سر گھما کر چاند کو تلاش کیا، جو آسمان کے ایک طرف جگمگا رہا تھا۔ وہ بے سد ہو کر چاند کو دیکھنے لگی۔ یہ وہ واحد کام تھا جو گھنٹوں وہ بنا تھکے کر سکتی تھی۔ جانے چاند میں ایسی کیا کشش تھی، کہ وہ اسے دیکھتی چلی جاتی تھی۔

اسے چاند دیکھتے ہوئے وہ شدد سے یاد آیا۔ اسنے اپنی آنکھیں بند کرلی پھر کچھ دیر وہ یونہی آنکھیں بند کئے کھڑی رہی۔ اسنے آنکھیں کھولتے ہی کھڑکی بند کردی ۔ اور بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔ اسنے ہونہی موبائل ہاتھ میں پکر کر اسے میسج کر دیا۔ پھر وٹس ایپ پر اسکا سٹیٹس دیکھنے لگ گئی جیسے جیسے وہ سٹیٹس دیکھتی جا رہی تھی۔ اسکی آنکھیں حیرت سے پھیلتی جا رہی تھی، سٹیٹس پر اسے ولید کی شیشہ پیتے ہوئے وڈیو لگی ہوئی تھی۔ اسے اچھی طرح یاد تھا ولید میں ایسی کوئی بری عادت نہیں تھی۔ اسنے سٹیٹس پر کمنٹ کیا اسے اس وقت اور حیرت ہوئی جب اسکا جواب آیا۔ اسنے رات کے اس وقت اسے جاگتا پا کر فورا سے کال ملائی جسے اسنے دوسری بیل پر ہی اٹھا لیا تھا۔
“ ہیلو ، جی بولو ؟ “ اسنے کال اٹینڈ کرتے ہی کہا۔ اسے زرا بھی امید نہیں تھی ولید اسکی کال اٹینڈ کر لے گا۔
“ آپ پلیز مجھ سے بات کر لیا کرے۔ “ اسنے فورا سے کہا
“ اچھا ٹھیک ہے اور کچھ ؟ “ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
“ مجھے کل ملنا آپ سے ،،، اپ پلیز جہاں پہلے ملا کرتے تھے وہاں آ جائے گا۔ کل شام چار بجے تک پلیز ایک بار مل لے پھر کبھی کچھ نہیں مانگو گی پلیز۔ “ اسنے التجا کرتے ہوئے کہا۔
“ اچھا یار میں آجاو گا ۔ “ اسے یقین نہیں آ رہا تھا جو اس سے بات نہیں کر رہا تھا اسکی کال اٹینڈ نہیں کر رہا تھا اب اچانک سے وہ اسکی ہر بات مانتا جا رہا تھا۔ وہ خوشی اور حیرت کے تاثرات لیے ہوئے تھی۔ اسنے زیادہ بات نہیں کی فورا سے اللہ حافظ بول کر فون سایئڈ ٹیبل پر رکھ کر ایک بار پھر سے کھڑکی کھول کر کھڑی ہوگئی، اور آنکھوں میں تشکر لئے آسمان کی طرف دیکھنے لگی۔ وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی۔ جس نے ولید کے دل میں اسکے لئے نرمی ڈالی وہی ہے جو دلوں میں احساس ڈالتا ہے۔ اسے اس وقت اپنے رب پر برا پیار آیا۔ اسے پتا چل گیا تھا آج اسے نیند خوب اچھی آئے گی۔
وہ شام کو مخصوص جگہ پر موجود تھی۔ یہ وہی پارک تھا جہاں وہ کبھی کبھار ملا کرتے تھے۔ پارک شہر سے تھوڑا دور تھا، اس لئے یہاں لوگ کم ہی دکھائی دیتے تھے۔ پارک بہت وسیع و عریز تھا۔ جگہ جگہ بلند و بالا درخت پر پرندے نغمیں گا رہے تھے ۔ یہ پرندوں کا جلنتر اسے برا ہی بھلا لگتا تھا۔ وہ یہاں اکثر آ کر بیٹھ جایا کرتی تھی، یہاں رنگ برنگے پھول ولید کی یاد کو اور خوبصورت بنا دیا کرتے تھے۔
وہ کافی دیر سے وہاں بیٹھی اسکا انتظار کر رہی تھی۔ وہ اسکی یادوں میں ایسا کھوئی کہ اسے پتہ بھی نہیں چلا وہ ایک گھنٹے سے وہاں بیٹھی ہوئی ہے۔ اب اسے کچھ لڑکے مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اسکا دل ایک دم سے ڈر گیا اسنے جلدی دے اپنے بیگ سے موبائل نکالا اور مولید کو کال کرنے لگ گئی۔ ابھی اسنے کان سے موبائل لگایا ہی تھاکہ سامنے سے ولید آتا دیکھائی دیا۔
وہ دھیرے دھیرے چلتا اسکے پاس بینچ پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ وہ ان لڑکوں کو دیکھ رہی تھی جو ولید کے آنے پر وہاں سے جا رہے تھے۔ اسنے دل ہی دل میں شکر ادا کیا۔ اور ولید کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگ گئی۔ ولید بھی اسکی طرف دیکھ کر مسکرا دیا دونوں کو دیکھ کر لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ اتنا ناراض تھے۔ ولید کو مسکراتا دیکھ اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اسنے دل میں کہا بے شک دعائیں قبول ہوتی ہے۔
“ رو کیوں رہی ہو ؟ “ ولید نے پوچھا۔
“ ارے کچھ نہیں بس ایسے ہی،،، “ شیزا نے آنسو صاف کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
“ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ، وہ جس لڑکی کے لئے آپ گھر جھگڑا کرتے ہے آپ کرلے اس سے شادی ، آپ کہتے ہیں تو میں آپ کی ماما سے بات کرتی ہوں ۔“ اسنے ہمت کرتے ہوئے ایک سانس میں سب کہ دیا۔
“ اچھا ،،، کونسی لڑکی ؟ بتاو گی؟ “ ولید نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو نظریں جھکائے اپنی انگلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی،،، کچھ دیر وہ اسے دیکھتا رہا وہ بغیر جواب دیئے انگلیوں سے کھیلتی رہی۔
“ بولو ،، کونسی لڑکی ؟“ ولید نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“ مجھے کیا پتہ “ اسنے یونہی سر جھکائے ہوئے کہا۔

“ اچھا ادھر دیکھو میری طرف “ وہ اسکی طرف دیکھنے لگی۔
“ وہ لڑکی تم تھی۔ میں کسی اور کے لئے نہیں تمھارے لئے جھگڑا کرتا رہا ہوں ،،، یہ بات صرف ماما کو پتہ تھی اس لئے تمہیں غلط فہمی ہو گئی۔ میں بتانا نہیں چاہتا تھا میں نہیں چاہتا تھا تمہیں یہ بات پتہ چلے مگر تم بہت بےوقوف ہو کوئی کچھ بھی کہتا ہے یقین کر لیتی ہو۔ تمہیں مجھ پر یقین کیوں نہیں ؟ “ اسنے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا شیزا کو بس حیرانی ہو رہی تھی۔ کچھ لمحے وہ کچھ بول ہی نہیں پائی ،، وہ بس اسے دیکھی جا رہی تھی۔ وہ سچ میں بے وقوف تھی۔ اسنے اسے کچھ بھی نہیں پوچھا تھا بس غصے میں اسے باتیں سنا دی۔
“ شیشہ کیوں پیا تھا؟ “ اسنے بات بدلتے ہوئے کہا شرمندگی سی شرمندگی تھی۔
“ آپ کی یاد میں ،،، “ ولید نے کہی دور دیکھتے ہوئے کہا۔
“ اتنی یاد آتی تھی تو بات کر لیتے آپ ،،، بات کیوں نہیں کی ؟ “ آج وہ سارے گلے شکوے کرنے آئی تھی۔
“ تم نے ہی کہا تھا، میں نفرت کرتی ہوں ۔“ ولید نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا ۔
“ اچھا چھورے سب ، اب شیشہ نہیں پینا میں نہیں کرتی اب جھگڑا کبھی بھی آئی ایم سوری “ شیزا نے اسکا ہاتھ پکر کر کہا۔
“ ارے کوئی بات نہیں ،،، اب نہیں پیتا بے فکر ہو جاو ۔“ ولید نے مسکرا کر کہا شیزا کو اسکی مسکراہٹ بری
بھلی لگی۔ اسنے دھیرے سے سر ولید کے کندھے پر رکھ دیا۔
“ اگر پہلے بتا دیتے آپ میں اتنی ازیت نہ سہتی ، آپ تو بس صفائی نہیں دوگا،،، ایسے کہتا کوئی ؟ غلط فہمی جتنی جلدی ہو دور کر دینی چاہیے اس سے رشتوں میں فاصلے نہیں بڑھتے۔ اسنے ایک بار پھر پیار بھرا شکوہ کیا۔
“ اچھا میری جان اور کچھ “ اس بات پر اسنے جھینپ کر سر کندھے سے آٹھا کر ولید کو دیکھا، اور مسکرا دی۔ ( دی اینڈ )

Zeena
About the Author: Zeena Read More Articles by Zeena: 92 Articles with 201478 views I Am ZeeNa
https://zeenastories456.blogspot.com
.. View More