جب زندگی شروع ہوئی۔۔۔۔۔ حصہ ۲۶

گیارہواں باب: آخر کار۔ ۔ ۔

جمشید کو ابھی حساب کے لیے پیش نہیں کیا گیا تھا۔ دو فرشتے اس کو عرش کے قریب لے کر کھڑ ے ہوئے تھے اور وہ اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کا چہرہ ستا ہوا تھا جس پر دنیا کے ساٹھ ستر برسوں کی دولتمندی کا کوئی اثر تو نظر نہیں آتا تھا، لیکن حشر کے ہزاروں برس کی خواری کی پوری داستان لکھی ہوئی تھی۔ میں اس کے قریب جانے سے قبل اپنے دل کو مضبوط بنا رہا تھا۔ ہم قریب پہنچے تو اس کے قریب کھڑ ے فرشتوں نے مجھے آگے بڑ ھنے سے روک دیا۔ مگر صالح کی مداخلت پر انہوں نے ہمیں اجازت دے دی۔ جمشید نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ وہ بے اختیار میرے قریب آیا اور میرے سینے سے لپٹ گیا۔ پھر وہ میری طرف دیکھ کر بولا:
’’ابو میں اتنا رویا ہوں کہ اب آنسو بھی نہیں نکل رہے ۔‘‘
میں اس کی کمر تھپتھپانے کے سوا کچھ نہ کہہ سکا۔ پھر اس نے آہستگی سے کہا:
’’ابو شاید میں اتنا برا نہیں تھا۔‘‘
’’مگر تم بروں کے ساتھ ضرور تھے ۔ بیٹا بروں کا ساتھ کبھی اچھے نتائج تک نہیں پہنچاتا۔ تم نے شادی کی تو ایسی لڑ کی سے جس کی واحد خوبی اس کا حسن اور دولت تھی۔ خدا کی نظر میں یہ کوئی خوبی نہیں ہوتی۔ تم ہم سے الگ ہوگئے اور اپنے سسر کے ایسے کاروبار میں شریک ہوگئے جس کے بارے میں تمھیں معلوم تھا کہ اس میں حرام کی آمیزش ہے ۔ مگر بیوی، بچوں اور مال و دولت کے لیے تم حرام میں تعاون کے مرتکب ہوتے رہے ۔ یہی چیزیں تمھیں اس مقام تک لے آئیں ۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں ابو، مگر میں نے نیکیاں بھی کی تھیں ۔ تو کیا کوئی امید ہے ؟‘‘
میں خاموش رہا۔ میری خاموشی نے اسے میرا جواب سمجھا دیا۔ وہ مایوس کن لہجے میں بولا:
’’مجھے اندازہ ہو گیا ہے ابو۔ اپنے بیوی بچوں اور ساس سسر کو جہنم میں جاتا دیکھنے کے بعد مجھے اندازہ ہو چکا ہے کہ آج کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے ۔ سارا اختیار اس رب کے پاس ہے جس کے احکام کو میں بھولا رہا۔ آج جس کا عمل اسے نہیں بچا سکا اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکے گی۔ میں ہزاروں برس سے اس میدان میں پریشان پھر رہا ہوں اور میں ان گنت لوگوں کو جہنم میں جاتا دیکھ چکا ہوں ۔ مجھے اب اپنی نجات کی کوئی امید نہیں رہی ہے ۔ میں نے اللہ سے بہت معافی مانگی ہے ۔ مگر میں جانتا ہوں کہ آج معافی مانگنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ ابو! اللہ میاں شاید مجھے معاف نہ کریں ۔ مگر آپ مجھے ضرور معاف کر دیجیے ۔ آپ تو میرے باپ ہیں نا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ میری آنکھوں سے آنسو نہ بہیں ، مگر نہ چاہتے ہوئے بھی میری آنکھیں برسنے لگیں ۔ اسی اثنا میں جمشید کا نام پکارا گیا۔ فرشتوں نے فوراً اسے مجھ سے الگ کیا اور بارگاہ ربوبیت میں پیش کر دیا۔
وہ ہاتھ باندھ کر اور سر جھکا کر سارے جہانوں کے پروردگار کے حضور پیش ہو گیا۔ ایک خاموشی طاری تھی۔ جمشید کافی دیر سے کھڑ ا ہوا تھا مگر اس سے کوئی سوال نہیں کیا جا رہا تھا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس خاموشی کی وجہ کیا ہے ۔ تھوڑ ی دیر میں وجہ بھی ظاہر ہوگئی۔ کچھ فرشتوں کے ساتھ ناعمہ وہاں آ گئی۔ اس کے ساتھ ہی صالح نے مجھے اشارہ کیا تو میں ناعمہ کے ساتھ جا کر کھڑ ا ہو گیا۔ ناعمہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں ۔ وہ مجھ سے کچھ پوچھنا چاہ رہی تھی، مگر بارگاہ احدیت کا رعب اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔
کچھ دیر میں جمشید سے سوال ہوا:
’’مجھے جانتے ہو، میں کون ہوں ؟‘‘
اس آواز میں اتنا ٹھہراؤ تھا کہ میں اندازہ نہیں کرسکا کہ یہ ٹھہراؤ کسی طوفان کی آمد کا پیش خیمہ ہے یا پھر مالک دو جہاں کے حلم کا ظہور ہے ۔
’’آپ میرے رب ہیں ۔ سب کے رب ہیں ۔ یہی میرے والد نے مجھے بتایا تھا۔‘‘
شان بے نیازی کے ساتھ پوچھا گیا:
’’کون ہے تمھارا باپ؟‘‘
جمشید نے میری طرف دیکھ کر کہا:
’’یہ کھڑ ے ہوئے ہیں ۔‘‘
اس کے اس جملے کے ساتھ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ مجھے اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ اب جمشید مارا گیا۔ کیونکہ میں نے اسے توحید کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزوں کی نصیحت کی تھی جن میں اس کا ریکارڈ اچھا نہیں تھا۔ اب مجھ سے یہی پوچھا جانا تھا کہ میں نے اسے کن باتوں کی نصیحت کی تھی اور میری یہی گواہی اس کی پکڑ کا سبب بن جاتی۔ مگر میری توقع کے بالکل برخلاف اللہ تعالیٰ نے مجھے گواہی کے لیے نہیں بلایا۔ انہوں نے جمشید سے ایک بالکل مختلف سوال کیا:
’’ابھی تم اپنے باپ سے کیا کہہ رہے تھے ۔ ۔ ۔ یہ کہ اللہ میاں شاید مجھے معاف نہ کریں ۔ مگر آپ مجھے ضرور معاف کر دیجیے ۔ آپ تو میرے باپ ہیں نا۔‘‘
لمحہ بھر پہلے جو میری امید بندھی تھی وہ اس سوال کے ساتھ ہی دم توڑ گئی۔ جمشید کو بھی اندازہ ہو گیا کہ اس کی پکڑ شروع ہو چکی ہے ۔ خوف کے مارے اس کا چہرہ سیاہ پڑ گیا۔ اس کے ہاتھ پاؤں لرزنے لگے ۔ اس کے سان و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اللہ تعالیٰ جو دوسرے حساب کتاب میں مصروف تھے ساتھ ساتھ اس کی بات بھی سن رہے تھے ۔ نہ صرف سن رہے تھے بلکہ اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کا سبب بن گئے تھے ۔ وہ بڑ ی بے بسی سے بولا:
’’جی میں نے یہ بات کہی تھی لیکن میرا مطلب بالکل وہ نہیں تھا جو آپ سمجھے ہیں ۔‘‘
’’تمھیں کیا معلوم میں کیا سمجھا ہوں ؟‘‘
پوچھا گیا، مگر آواز میں ابھی تک وہی ٹھہراؤ تھا۔
’’نہ۔ ۔ ۔ نہیں مجھے بالکل نہیں معلوم۔ ۔ ۔ آپ کیا سمجھے ۔‘‘، جمشید نے لڑ کھڑ اتی زبان سے جواب دیا۔
اس سے مزید کوئی بات کہنے کے بجائے ناعمہ سے پوچھا گیا:
’’میری لونڈی یہ تیرا بیٹا ہے ۔ اس نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا۔‘‘
ناعمہ بولی:
’’پروردگار! اس نے میرے ساتھ بہت نیک سلوک کیا۔ یہ بڑ ھاپے تک میری خدمت کرتا رہا۔ اس نے مال سے ، ہاتھوں سے اور محبت سے میری بہت خدمت کی۔ اس کی بیوی اسے ٹوکتی تھی لیکن یہ میری خدمت سے باز نہیں آیا۔ اس نے اپنا مال اور اپنی جان سب بے دریغ میرے لیے وقف کر دی تھی۔‘‘
ناعمہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ جمشید کے لیے اور بہت کچھ کہے ، مگر اسے معلوم تھا کہ جو پوچھا گیا ہے اس سے ایک لفظ زیادہ کہنے پر اس کی اپنی پکڑ ہوجائے گی۔ اس لیے وہ مجبوراً اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی۔
پروردگار نے فرشتے کی طرف دیکھ کر پوچھا:
’’کیا یہ عورت ٹھیک کہہ رہی ہے ؟‘‘
فرشتے نے ریکارڈ دیکھ کر کہا:
’’اس نے بالکل ٹھیک کہا ہے ۔‘‘
اس کے بعد جو کچھ ہوا ا س نے میرے دل کی دھڑ کن تیز کر دی۔ حکم ہوا اس کے اعمال ترازو میں رکھو۔ پہلے گناہ رکھے گئے ۔ جن سے الٹے ہاتھ کا پلڑ ا بھاری ہوتا چلا گیا۔ اس کے بعد نیکیاں رکھی گئیں ۔ ہم سب کے چہرے فق تھے ۔ ایک ایک کر کے نیکیاں رکھی گئیں ۔ مگر وہ گنا ہوں کے مقابلے میں اتنی کم اور ہلکی تھیں کہ میزان میں الٹے ہاتھ کا پلڑ ا بدستور بھاری رہا۔ آخر میں صرف دو نیکیاں رہ گئیں ۔ بظاہر فیصلہ ہو چکا تھا۔ ناعمہ نے مایوسی اور بے کسی کے ملے جلے احساس کے ساتھ آنکھیں بند کر لیں ۔ جمشید اپنا سر پکڑ کے بے بسی سے زمین پر گر گیا۔
میں جس وقت سے میدان حشر میں آیا تھا میں نے ایک دفعہ بھی عرش کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ مگر نجانے اس وقت پہلی بار بے اختیار میری نگاہیں مالک ذوالجلال کی طرف اٹھ گئیں ۔ ۔ ۔ ایک لمحے سے بھی کم عرصے کے لیے ۔ ۔ ۔ اور پھر فوراً میری نظر اور سر دونوں جھک گئے ۔
فرشتے نے پہلی نیکی اٹھائی۔ یہ ناعمہ کے ساتھ کیا گیا اس کا حسن سلوک تھا۔ حیرت انگیز طور پر سیدھے ہاتھ کا پلڑ ا بلند ہونا شروع ہوا۔ میں نے دھیرے سے اپنے برابر کھڑ ی ناعمہ سے کہا ناعمہ آنکھیں کھولو۔ میری آواز جمشید تک بھی چلی گئی۔ اس نے بھی سر اٹھا کر دیکھا اور آہستہ آہستہ کھڑ ا ہو گیا۔
لیکن ایک جگہ پہنچ کر سیدھے ہاتھ کا پلڑ ا ٹھہر گیا۔ الٹے ہاتھ کا پلڑ ا ابھی بھی بھاری تھا۔ ہمارے دلوں میں جلنے والی امید کی شمع پھر بجھنے لگی۔ فرشتے نے آخری نیکی اٹھائی اور بلند آواز سے کہا۔ یہ توحید ہے ۔ اس کے رکھتے ہی پلڑ ے کا توازن بدل گیا۔ میری زبان سے بے اختیار نکلا۔ اللہ اکبر و للہ الحمد۔
اس کے ساتھ ہی مدھم لہجے میں آواز آئی:
’’جمشید تمھارے باپ نے تمھیں میرے بارے میں یہ بھی بتایا تھا کہ میں ماں باپ سے ستر ہزار گنا زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہوں ۔ یہ تم تھے جس نے میری قدر نہیں کی۔ اسی لیے میدان حشر میں تمھیں اتنی سختی اٹھانی پڑ ی۔ میرا عدل بے لاگ ہوتا ہے ۔ مگر میری رحمت ہر شے پر غالب ہے ۔‘‘
فرشتے نے نجات کا فیصلہ تحریر کر کے نامۂ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دے دیا۔ جمشید کے منہ سے شدت جذبات میں ایک چیخ نکلی۔ اسے جنت کا پروانہ مل گیا تھا۔ ہزاروں سال پر مبنی اس طویل اور سخت دن کی اذیت سے اسے نجات مل گئی بلکہ ہر تکلیف سے اسے نجات مل چکی تھی۔ وہ بھاگتا ہوا آیا اور ہم دونوں سے لپٹ گیا۔ ناعمہ پر شادیٔ مرگ کی کیفیت طاری تھی۔ جمشید کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور میں اپنے وجود کے ہر رعشے کے ساتھ اس رب کریم کی حمد کر رہا تھا جس کی رحمت کاملہ نے جمشید کو معاف کر دیا تھا۔
Owais
About the Author: Owais Read More Articles by Owais: 27 Articles with 26397 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.