سرائیکی ادب دنیا کا قدیم ترین ادب ہے جس میں شعر ، غزل، گیت ، عارفانہ کلام کا عظیم ذخیرہ موجود ہے۔ حضرت خواجہ غلام فرید ، حضرت سچل سرمست ، حضرت شاہ حسین وغیرہ کے صوفیانہ کلام کی آج بھی پوری دنیا میں دھوم مچی ہے۔ قارئین کے ذوق کی تسکین کے لیے آئیے اِن بڑے صوفیاء کرام کی حقیقی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ " />

کافی کے امام حضرت خواجہ غلام فرید

آپ سڈاویں کول عرشاں تے ، ذمے درد فرید دے لاویں
خواجہ غلام فرید ایک آفاقی شاعر تھے۔ آپ کو اپنی دھرتی اور دھرتی کے لوگوں سے بہت پیار تھا۔ آپ نے سرائیکی کے علاوہ فارسی، سندھی، عربی اور اردو میں شاعری کی۔٢٧٢( دو سو بہتر ) کافیوں پر مشتمل " دیوان فرید " اور اردو شاعری کے دیوان کے علاوہ نثر میں "شرح لوائح جامی ، حاشیہ لوائح جامیشرح گلشن زار، مناقبِ محبوبیہ اور فوائدِ فریدیہ" سمیت فارسی شاعری کا کلام کتابی صورتوں میں موجود ہے۔ آپ کی سرائیکی شاعری کے انگریزی ، فارسی ،عربی، پنجابی، بنگالی سمیت دیگر کئی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں ۔ آپ نے اپنی شاعری میں علاقائی ثقافت ، بجھارتوں ، وسیب کی رسموں کو خصوصی رنگ دیا ، جس کی وجہ سے آپ کی شاعری کو منفرد مقام حاصل ہو ا۔
سرائیکی ادب دنیا کا قدیم ترین ادب ہے جس میں شعر ، غزل، گیت ، عارفانہ کلام کا عظیم ذخیرہ موجود ہے۔ حضرت خواجہ غلام فرید ، حضرت سچل سرمست ، حضرت شاہ حسین وغیرہ کے صوفیانہ کلام کی آج بھی پوری دنیا میں دھوم مچی ہے۔ قارئین کے ذوق کی تسکین کے لیے آئیے اِن بڑے صوفیاء کرام کی حقیقی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں۔

آپ سڈاویں کول عرشاں تے ، ذمے درد فرید دے لاویں
کافی کے امام حضرت خواجہ غلام فرید

سرائیکی زبان دنیا کی قدیم ترین زندہ زبانوں میں سے ایک ہے، اور یہ سب سے زیادہ حروفِ تہجی رکھنے والی زبان کا اعزاز بھی رکھتی ہے۔ اللہ تعالی کی سرائیکی وسیب پر ایک خاص کرم نوازی یہ بھی ہے کہ سرائیکی بولنے والا، دنیا کی کوئی بھی زبان اہلِ زبان کے لہجے میں بولنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ پاکستان کی میٹھی زبان کہلائی جاتی ہے۔

سرائیکی ادب دنیا کا قدیم ترین ادب ہے جس میں شعر ، غزل، گیت ، عارفانہ کلام کا عظیم ذخیرہ موجود ہے۔ حضرت خواجہ غلام فرید ، حضرت سچل سرمست ، حضرت شاہ حسین وغیرہ کے صوفیانہ کلام کی آج بھی پوری دنیا میں دھوم مچی ہے۔ قارئین کے ذوق کی تسکین کے لیے آئیے اِن بڑے صوفیاء کرام کی حقیقی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں۔

برصغیر پاک و ہند کے عظیم بزرگ ،صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید ٢٦ ذیقد ١٢٦١ھ بمطابق ١٨٤٣ء کو ضلع رحیم یار کے قصبہ "چاچڑاں شریف" میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام خورشید عالم تھا اور آپ کے آباو اجداد ایران سے سندھ ، اور پھر سندھ سے ملتان اور ملتان سے چاچڑاں شریف آباد ہوئے ۔ آپ کے والدخواجہ خدا بخش وقت کے کامل بزرگ تھے۔ آپ نے آٹھ سال کی عمر میں اپنے چچا تاج محمود کی شاگردی میں قرآن مجید حفظ کیا ۔ آپ ١٨٧٥ء میں حج کے ارادے سے براستہ ملتان ، لاہور ، دہلی ، اجمیر پہنچے۔جہاں پر خواجہ خواجگاں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے مزار پر آپ کی دستار بندی ہوئی، اور بمبئی کے راستے بذریعہ بحری جہاز حجازِ مقدس پہنچے۔

خواجہ غلام فرید ایک آفاقی شاعر تھے۔ آپ کو اپنی دھرتی اور دھرتی کے لوگوں سے بہت پیار تھا۔ آپ نے سرائیکی کے علاوہ فارسی، سندھی، عربی اور اردو میں شاعری کی۔٢٧٢( دو سو بہتر ) کافیوں پر مشتمل " دیوان فرید " اور اردو شاعری کے دیوان کے علاوہ نثر میں "شرح لوائح جامی ، حاشیہ لوائح جامیشرح گلشن زار، مناقبِ محبوبیہ اور فوائدِ فریدیہ" سمیت فارسی شاعری کا کلام کتابی صورتوں میں موجود ہے۔ آپ کی سرائیکی شاعری کے انگریزی ، فارسی ،عربی، پنجابی، بنگالی سمیت دیگر کئی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں ۔ آپ نے اپنی شاعری میں علاقائی ثقافت ، بجھارتوں ، وسیب کی رسموں کو خصوصی رنگ دیا ، جس کی وجہ سے آپ کی شاعری کو منفرد مقام حاصل ہو ا۔

حضرت خواجہ غلام فرید نے ٧ ربیع الثانی ١٣١٩ھ بمطابق ١٩٠١ء کو وفات پائی۔ اس وقت آپ کی عمر ٥٨ (اٹھاون) برس تھی اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو " کوٹ مٹھن شریف" میں مدفن کیا گیا۔ صوفی شاعری کے حوالے سے آپ کا نام بہت معتبر ہے اور پورے سرائیکی وسیب میں حضرت خواجہ غلام فرید کا کوئی ثانی نہ ہے۔ خواجہ غلام فرید کی شاعری میں سوز و گداز ، رنگ و علم، تسکین وفا، غربت و افلاس، رنج و عالام، محرومی، انسان کی گریہ داری، وفاداری، ہمت و حمیت، عزم و یقیں مفلسی و بے نیازی اور محبوب کے رعب و فن کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔
گھر گھر جھیڑے جھگڑیں دے نِت بلدے بٹھ ڈہداں میں
وت وی جیندن لوک نمانے، لوکاں دے ہٹھ ڈہداں میں
سیندھ سوہیندے یا لتڑیندے، پیراں ہیٹھ خدا جانے
جو کجھ تھیسی ڈٹھا ویسی، پیار دے پھل پٹھ ڈہداں میں
ہاں دے اندھے کھوہ دے اندر، بے سیتی دے ٹھکر پِن
اکھ دی لوٹی کروی کروی ، دل بھوندی لٹھ ڈہداں میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
خواجہ غلام فرید محبت اور رعنایت کے احساس اور آس آمید کے نویکلے رنگوں کے موتی یوں پروتے ہیں۔ اُن کی مشہور کافی "پیلوں پکیاں" میں رنگ و اسلوب کی جھلک ملاحظہ فرمائیں۔
پیلوں پکیاں نی
آ چنوں رل یار
کئی بگڑیاں کئی ساویاں پیلیاں
کئی بھوریاں کئی پھِکڑیاں نیلیاں
کئی اودیاں گلنار ۔۔۔ آچنوں رَل یار
بھر بھر پچھیاں نی وے
جال جلوٹیں تھئی آبادی
پل پل خوشیاں دم دم شادی
لوکی سہنس ہزار ۔۔۔ آچنوں رَل یار
کل نے پھکیاں نی وے
حوراں پریاں ٹولے ٹولے
حسن دیاں ہیلاں برہوں دے جھولے
راتیں ٹھڈیاں ٹھار ۔۔۔ آچنوں رَل یار
رانداں رسیاں نی وے
پیلوں چنڈیں بوچھن لیراں
چولا وی تھیا لیر کتیراں
گِلڑے کرن پچار ۔۔۔ آچنوں رَل یار
سینگیاں سکیاں نی وے
آیاں پیلوں چنن دے سانگے
اوڑک تھیاں فریدن وانگے
چھوڑ آرام قرار ۔۔۔ آچنوں رَل یار
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اُجیاں لمیاں لال کھجوراں تہ پتر جنہاں دے ساوے
جس دم نال سانجھ ہے اساں کوں او دم نظر نہ آوے
گلیاں سنجیاں اجاڑ دسن میں کو ،ویڑا کھاون آوے
غلام فریدا اوتھے کی وسنا جتھے یار نظرنہ آوے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اُچیاں لمیاں لال کھجوراں تہ پتر جنہاں دے ساوے
ننگے پنڈے مینوں چمکن مارے، میرے روندے نیں نین نمانے
جنیاں تن میرے تے لگیاں ، تینوں اک لگے تے توں جانے
غلام فریدا دل اوتھے دیئیے جتھے اگلا قدر وی جانے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
خواجہ صاحب سسی پنوں کی لوک داستان کو دو شعروں میں بیان کرتے ہیں۔
عزرائیل آیا لین سسی دی جان اے
جان سسی وِچ نظر نہ آوندی
اوتاں لئے گیا کیچ دا خان اے
قسم قرآن اے۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگر یہ کہا جائے کہ خواجہ غلام فرید کافی کے امام ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اُن کے کلام میں وجد و سرور کی ایک ایسی مئے موجود ہے جو ہر سننے اور پڑھنے والے میں سرایت کرجاتی ہے۔ اس مئے و سرور کی بستی میں بسنے والے رندوں پر جب وجد تاری ہوتا ہے تو "اتھاں میں مٹھری نِت جان بہ لب " کی صدائیں گونج اٹھتی ہیں۔
اتھاں میں مٹھڑی نِت جان بہ لب
اوتاں خوش وسدا وِچ ملک عرب
ہر ویلے یار دی تانگھ لگی
سنجے سینے سِک دی سانگ لگی
ڈکھی دِلڑی دے ہتھ ٹانگھ لگی
تھئے مل مل سول سمولے سب

اگلے دو شعر ملاحظہ کریں جس میں خواجہ غلام فرید مونث کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے اپنی کیفیات کا ذکر کررہے ہیں کہ کس طرح وہ نیم جان اور دیوانی بن کر چاروں طرف یعنی ہند سندھ پنجاب اور ماڑ ، شہر ، ویران جنگل بیاباں میں ماری ماری پھرتی ہوں صرف اس لیے کہیں تو اُس کا محبوب اُسے مل جائے گا۔ یہاں محبوب کو حقیقی معنوں میں لیا گیا ہے یعنی خواجہ صاحب واحد اور یکتا کی تلاش میں جگہ جگہ چکر کاٹ رہے ہیں۔
تتی تھی جوگن چو دھار پھراں
ہند سندھ پنجاب تے ماڑ پھراں
سنج بار تے شہر بزار پھراں
متاں یار ملم کہیں سانگ سبب

خواجہ غلام فرید کئی مقامات پر تو کمال ہی کردیتے ہیں۔ یہاں خواجہ غلام فرید عشق کو شیر سے منسوب فرمارہے ہیں یعنی جس دن سے عشق کے شیر نے مجھے زخمی کیا ہے، دکھوں کے نشتر لگ رہے ہیں عیش ختم ہو گیا ہے۔ سر سے جوانی کا جوش و خروش اتر گیا۔ سکھ ختم ہو گئے اورخوشیاں مٹ گئی ہیں۔ تیرے لئے دھکے اور ٹھوکریں کھاتی ہوں۔ تیرے نام پر بے مول بک جاتی ہوں۔ تیری باندیوں کے بھی باندی ہوں۔ تیرے در کے کتوں کا بھی ادب کرتی ہوں۔
جیں ڈینہ دا نینہ دے شینہ پٹھیا
لگی نیش ڈکھاں دی عیش گھٹیا
سر جوبن جوش خروش ہٹیا
سکھ سڑ گئے مر گئی طرح طرب
توڑیں دھکڑے دھوڑے کھاندڑیاں
تیڈے نام تے مفت وکاندڑیاں
تیڈی باندیاں دی میں باندڑیاں
ہے در دیاں کتیاں نال ادب

خواجہ غلام فرید کافی کے آخر میں بالاخر راز سے پردہ اٹھا ہی دیتے ہیں۔ کہتے ہیں سبحان اللہ کیا پیارا لاڈلا محبوب ہے۔ اور کیا ہی پیارا حجاز کا وطن ہے۔ آ ذرا فرید کا غموں کا گھر تو دیکھ، مجھے تو ازل سے ہی تیرا انتظار ہے۔
واہ سوہنا ڈھولن یار سجن
واہ سانول ہوت حجاز وطن
آدیکھ فرید دا بیت حزن
ہم روز ازل دی تانگھ طلب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(حوالہ جات : وکی پیڈیا، سرائیکی جھوک)
 

واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 60 Articles with 90538 views i like those who love humanity.. View More