خود شناسی

عائشہ طارق
زندگی میں سب سے زیادہ ضروری خود شناسی ہوتی ہے۔ رچرڈرائٹ کہتے ہیں کہ جیسے آدمی روٹی نہ ملنے سے ہلاک ہو سکتا ہے ویسے ہی خود شناسی کے بغیر انسان مردہ ہو جاتا ہے۔ ایک مشہور مقولہ ہے:- جس نے خود کو پہچانا، گویا اس نے خدا کو پہچانا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اگر ہم اپنے رب، اپنے مالک کو پہچانا چاہتے ہیں، اس کو کھوجنا چاہتے ہیں تو سب پہلے ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا کہ میں کون ہوں؟۔ دیکھنے میں یہ سوال بہت آسان سا، سادہ سا لگتا ہے۔ مگر یہ سوال اتنا بھی آسان اور سادہ نہیں ہی۔ اس کا جواب ڈھونڈنے میں لوگوں کی عمریں گزر گئیں ہیں۔

زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ہر انسان کے دل ودماغ میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ میں کیا ہوں؟ اس کا جواب پانے کے لیے خدا کے سامنے سجدے کرنے پڑتے ہیں، رونا پڑتا ہے اور پھر جا کر کہیں اس کا جواب ملتا ہے۔

انسان جب وقت کے ہاتھوں اپنی آرزؤں کو بے بسی سے بکھرتا ہوا دیکھتا ہے تو یہ جاننے کی کشمکش بڑھ جاتی ہے. وہ کون ہے؟ اور یہی کشمکش اس کو اس سوال کا جواب ڈھونڈنے پر مجبور کرتی ہے۔انسان پیدائش سے موت تک خود شناسی کی کھوج میں مصروف رہتا ہے مگر ہر انسان کو خود شناسی نصیب نہیں ہوا کرتی۔بقول شاعر:
یہ بڑے نصیب کی بات ہے ،جسے چاہا نواز دیا۔

ہم اس دنیا میں آتے ہیں جیسے کیسے زندگی گزارتے ہیں اور پھر بلاآخر اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ مگر یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ ہم اس دنیا میں کیوں آئے ہیں؟ اور ہمیں دنیا میں بھجنے کا مقصد کیا ہے؟۔انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جس کے دل میں سوال اٹھتا ہے کہ میں کون ہوں؟ دنیا کی کوئی دوسری مخلوق اپنے دل میں خود سے یہ سوال نہیں اٹھا سکی کہ میں کون ہوں؟ اور میں کدھر جا رہا ہوں؟

یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کوئی کسی کے لیے ڈھونڈ کر نہیں لا سکتا۔ اس کا جواب ہر انسان کو خود ہی تلاش کرنا ہوتا ہے۔ اپنی ذات کی تلاش کا سفر انسان کو اکیلے ہی کرنا پڑتا ہے۔ اس سفر میں دوسرے ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے۔ دراصل انسان کی ساری کامیابی، انسان کی ساری ترقی صرف اور صرف اسی سوال کے گرد گھومتی ہے کہ میں کون ہوں؟ اور میں نے جانا کہاں ہے؟ اور انسان کو اس سوال کا جواب ملتا ہے تو کہہ اُٹھتا ہے۔ نہ میں موسٰی، نہ فرعون۔۔۔۔۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے کچھ بن کردکھایا، اور دنیا کے وہ تمام لوگ جن کا نام ہے۔ ان تمام لوگوں کو اس سوال کا جواب مل گیا تھا کہ میں کون ہوں؟۔ پھر وہ دنیا کی ہر قید سے آزاد ہو کر کام کرتے رہے۔ اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ مگر انسان نے خود ہی کو خود مختلف زنجیروں میں جکڑا رکھا ہے۔ خود شناسی ان زنجیروں کو توڑنے میں انسان کی مدد کرتی ہے۔ تائے یون کیم کہتے ہیں کہ: "خود شناسی انسان کو آزاد زندگی گزارنا سکتی ہے"۔ اگر ہم زندگی میں کامیابی اور آخرت میں تعالیٰ کا انعام چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی ذات کو، خود کو جاننا ہوگا۔ اور جب ہم خود کو جاننے کے سفر پر نکلے گے تو راستہ مشکل ہو گا۔ مگر جو اس رہ پر دتا رہا اس نے منزل کو پا لیا۔ خود شناسی کا سفر مشکل ضرور ہے۔ مگر اس کے بعد انسان کی زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ جب انسان کو خود شناسی ملتی ہے تو زمین پہ رہتے ہوئے بھی اس کے لیے آسمانوں کے پردے ہٹ جایا کرتے ہیں۔ انسان کے سامنے ایسے راز فاش ہوتے ہیں کہ وہ خود بھی بعض اوقات دنگ رہ جاتا ہے کہہ اٹھتا ہے کہ
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے۔

خود شناسی سے انسان صرف اپنا آپ کو ہی نہیں پہنچتا بلکہ اس کو اپنے رب کو پہچانے کا، اس تک پہنچنے کا راستہ مل جاتا ہے۔۔

خود شناسی سے ہی انسان کو اپنی قوتوں کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اس کو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو ایسے بھگا رہی ہے اور وہ کیا چیز ہے جو اس کی ڈرائیونگ فورس بن جاتی ہے۔ تو پتہ لگتا ہے کہ وہ انسان کی اپنی خودی ہے، انسان کی اپنی شناخت ہے جو اس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ کچھ کرے۔ کسی مقام تک پہنچے۔ پھر وہ ستاروں پر ہی اکتفا نہیں کرتا ہے بلکہ وہ سے بھی آگے کی کھوج میں نکل پڑتا ہے۔ کیونکہ وہ سمجھ جاتا ہے کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

خود شناسی کے سفر پر نکلنے والا ہی اپنی شناخت حاصل کرتا ہے۔ ہر انسان بہت سے خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ اس کے اندر موجود اچھائیاں اس کا کمال نہیں ہے یہ خدا کا اس پر انعام ہے ۔ اگر ہم کسی برے شخص کے ساتھ بھی اچھے ہو جاتے ہیں تو یہ ہمارا کمال نہیں ہے یہ چیز اللہ نے انسان کی ذات کے ساتھ اسی طرح پیوست کی ہے۔ مگر ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک صفت ایسی رکھی ہوتی ہے جس نے ہمیں شناخت دینی ہوتی ہے۔ ہماری ذات اس صفت کے بغیر صفر ہوتی ہے ۔ ہر شخص نے اپنا تشخص کو اسی صفت کے ساتھ پانا ہے جس صفت کے ساتھ خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ عین اسی طرح معاملہ انسان کی خامیوں کا بھی آ جاتا ہے۔ ہر انسان کے اندر ایک یا دو خامیاں ایسی موجود ہوتی ہیں جو انسان کے بس میں نہیں ہوتیں ہیں۔ ہم نے کسی قلعے کو فتح نہیں کرنا ہوتا، ہم نے کوئی پانی پت کی جنگ نہیں لڑنی ہوتی، ہم نے صرف اور صرف ایک جنگ لڑنی ہوتی ہے جو انسان کی خود اپنے ساتھ جنگ ہے۔ یہ جنگ وہ ہوتی ہے کہ جو فالٹ یا وہ خامی جو ہمارے اندر بائی ڈیفالٹ موجود ہے اس کے خلاف لڑنا ہوتا ہے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہر شخص کی شناخت ایک ہی ہوتی ہے لیکن فلسفہ یہ کہتا ہے کہ ہر شخص کی شناخت ایک ہو ہی نہیں سکتی۔ کارخانہ قدرت کو چلانے والا اگر تمام انسانوں کو ایک ہی مزاج کا پیدا کر دیتا تو دنیا سے حسن ختم ہو جاتا۔ اگر تمام لوگوں کے سیکھنے کی صلاحیت ایک جیسی ہو جاتی تو دنیا سے حسن ختم ہو جاتا، اسی طرح اگر تمام سکھانے والے برابر ہو جاتے تو دنیا سے حسن ختم ہو جاتا۔ اگر دنیا میں تمام ڈاکٹر ایک ہی درجے کے ہوتے تو کیا حال ہوتا۔ اگر دنیا کے اندر تمام شاعر ایک ہی درجے کے ہوتے تو کیا معاملہ ہوتا۔ اگر تمام شاعروں کے شعروں کا وزن برابر ہوتا تو دنیا کے اندر توازن نہ رہ سکتا۔ قدرت نے اتنی ورائٹی رکھی ہے کہ ہر شخص کی جدا جدا خودی ہے اور ہر شخص کی جدا جدا شخصیت ہے، ہر شخص کی جدا جدا شناخت ہے۔ کیونکہ قدرت نے اس سارے کارخانے کو چلانا تھا۔

کر سٹن کیولری کا کہنا ہے کہ "بچوں کو غلطیاں کرنے اور خود کو کھوجنے کا موقع دیا جائے۔ کیونکہ خود شناسی ایک لمبا راستہ ہے"۔ خود کو کھوجنے کا سفر شروع ضرور کیجئے۔ کبھی نہ کبھی ہمارا جذبوں میں آتی سچی ضرور آ جائے گی کہ ہمارا رب ہمارے اس مشکل سفر کو آسان کر دے گا۔ دپیک چوپڑا کا کہنا ہے کہ "اپنے اندر وہ مقام تلاش کیجئے جہاں کچھ بھی ناممکن نہیں ". ہر ناممکن کو ممکن کرنا کا جذبہ ہر انسان کے اندر موجود ہوتا ہے۔ اور جب انسان اپنے اندر وہ جذبہ، وہ مقام پیدا کر لیتا ہے تو کچھ بھی ناممکن نہیں رہتا۔
جیمس گارڈنر کا کہنا ہے کہ " خود شناسی ایک نہ ختم ہونے والا عمل ہے"۔ یہ عمل انسان کی آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔۔۔۔۔

Tariq Javed
About the Author: Tariq Javed Read More Articles by Tariq Javed: 28 Articles with 22563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.