جہاز تماشہ

ہم افواہوں اور حقیقت کے زد میں آئی ہوئی اور یقینی اور بے یقینی کے درمیان کھڑی قوم ہیں ۔اور ہمیں اس صورتحال میں مبتلا کرنے میں میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے ۔جو پر سے کوا اور کوے سے کووں کا اڈار بنانے پہ قادر ہے ۔بچپن میں ایک کھیل کھیلا کرتے تھے بات بتنگڑ ۔سب ایک لائن میں بیٹھ جاتے پہلا ممبر دوسرے کے کان میں ایک جملہ کہتا اور اسے وہ اگلے کے کان میں کہنا ہوتا اس طرح جب وہ جملہ سفر کرتے آخری فرد تک پہنچتا تو اسے کہا جاتا وہ بتائے کہ کیا جملہ اس تک پہنچا ۔جب وہ جملہ دہراتا تو وہ کچھ کا کچھ بن جاتا ۔ایسا ہی واقعہ اسرائیلی جہاز کا ہے۔ وہ کیا کہتے کہ پتہ کسی کو ککھ کا نہیں ہے۔

ایک اسرائیلی صحافی ایوی شراف نے ٹویٹ کیا کہ ایک اسرائیلی طیارہ اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب سے اُڑا، اردن کے دارالحکومت عمان سے ہوکر پاکستان آیا،اسلام آباد ایئرپورٹ پر اُترا پھر 10 گھنٹے وہاں رک کر جہاں سے آیا واپس چلا گیا۔گویا طیارہ جھاتی مار کر چلا گیا کہ پاکستان میں سب خیریت ہے یا نہیں ۔اگرچہ مقاصد کی کوئی تصدیق نہ ہو سکی ۔

مگر اسرائیلی صحافی کے مذکورہ بیان سے سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا ہوگیا جبکہ وفاقی حکومت اور سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے)نے اسرائیلی صحافی کے بیان کو مسترد کردیا۔اور کہا کہ کوئی طیارہ نہیں آیا۔جبکہ اسرائیلی صحافی اپنے بیان پہ بضد ہیں اور کہا کہ پاکستان میں اُن کی ٹوئیٹس سے ہنگامہ برپا ہوگیا، انٹرنیٹ ویب سائٹ فلائٹ ریڈار ٹوئنٹی فور کے مطابق جہاز کی لوکیشن عمان سے سعودی عرب اور پھر خلیج عمان تک موجود رہی، لیکن رات 11 بجے خلیج عمان سے ٹریکنگ غائب ہوگئی ۔صحافی نے مزید کہا کہ اس کے ایک گھنٹہ چالیس منٹ بعد جہاز اسلام آباد کی فضائی حدود میں 20 ہزار فٹ کی بلندی پر نظر آیا اور پھر ٹریک نظروں سے اوجھل ہوگیا، 10 گھنٹوں بعد اسلام آباد سے جہاز کا ٹریک ایک بار پھر سامنے آیا جو عمان کے راستے اسرائیل پہنچا۔ایوی شراف نے کہا کہ، اس بات کو بھی 100 فیصد حتمی نہیں کہا جاسکتا کہ جہاز نے اسلام آباد میں ہی لینڈنگ کی کیونکہ ویب سائٹ سے ٹریکنگ آتی جاتی رہی لیکن اگر آپ مسلسل شمال کی طرف جارہے ہیں تو 40 ہزار فٹ کی بلندی سے 20 ہزار فٹ پر آنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ایوی شراف نے یہ بھی کہا کہ اس پرواز کا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دورہ عُمان سے کوئی تعلق نہیں۔ ایوی شراف کے مسلسل بیانات کے بعد پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے بھی بیان سامنے آگیا کہ کسی اسرائیلی طیارے کی پاکستان کے کسی بھی ایئرپورٹ پر آمد کی خبر میں قطعی کوئی صداقت نہیں کیونکہ ایسا کوئی طیارہ پاکستان کے کسی بھی ایئرپورٹ پر نہیں اُترا۔ اب اس میں حقیقت کیا ہے یہ تو یا جہاز والے جانیں یا جہاز ۔ہم آپ تو قیاس ہی کر سکتے ۔ویسے اسرائیلی صحافی نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ طیارہ کیوں اترا تھا ؟اگر یہ بھی بتا دیتے تو مذید قیاس آرائیوں میں آسانی ہو جاتی ۔اب آتے ہیں سول ایوی ایشن کے بیان کی طرف کہ کوئی طیارہ نہیں اترا ۔تو اگر طیارہ آیا بھی تو کیا اس نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی تھی جو دکھائی نہ دیا۔

سب کو غالبا یہ احتمال ہے کہ کہیں درپردہ اسرائیل سے دوستانہ تعلقات تو استوار تو نہیں ہو رہے ۔جبکہ پاکستان تو ہمیشہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کرتا رہا ہے ۔سو کسی قسم کی بدگمانیاں سوائے انتشار کے کچھ نہیں ۔اس معاملے کو حکومت کو خود دیکھنا ہوگا اور اس کے بارے میں انکار یا اقرار کی توضیح بھی پیش کرنا ہوگی ۔بصورت دیگر خاموشی بہت سے سوالات کو جنم دے گی کیونکہ اسرائیل سے پاکستان کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور بغیر اجازت کوئی طیارہ کسی اور ملک کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتا ۔حکومت کی اس معاملے پہ خاموشی نقصان دہ ہوگی ۔ اسرائیل کے عمان سے خیر سگالی کے اور نیتن یاہو کی عمان آمد اور اسی دوران طیارہ کی خاموشی سے آمد اور روانگی ایک کڑی کی مانند معلوم ہوتے ہیں کیا اندرون خانہ کوئی اور کہانی ہے یا محض افواہ اس کی حقیقت جلد یا بدیر سامنے آ ہی جائیگی ۔

دوسری طرف اویگدور لیبر مین کا بیان بھی پاکستان کے لیے فکر انگیز ہےجس میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ ایران کی صورت میں اسرائیل کے لیے ایک ممکنہ جوہری خطرہ موجود ہے لیکن اس وقت پاکستان اور افغانستان میں سامنے آنے والے مسائل زیادہ اہم ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’یہ ممالک(پاکستان اور افعانستان) نہ صرف اسرائیل بلکہ عالمی نظام کے لیے ایک خطرہ ہیں‘۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کے لیے سب سے بڑا سٹریٹیجک خطرہ اب ایران نہیں بلکہ پاکستان اور افغانستان ہیں۔کیونکہ پاکستان ایک غیر مستحکم جوہری طاقت ہے جبکہ افغانستان کو طالبان کے ممکنہ قبضے کا سامنا ہے اور ان دونوں ملکوں کے اشتراک سے انتہاپسندی کے زیر اثر ایک ایسا علاقہ وجود میں آ سکتا ہے جہاں اسامہ بن لادن کے خیالات کی حکمرانی ہو‘اسرائیلی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک اس خیال سے چین، روس اور امریکہ میں سے کوئی بھی خوش نہیں۔اسرائیلی وزیرِ خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل کی خواہش ہے کہ مشرقِ وسطٰی میں کردار کے حوالے سے امریکہ اور روس کو قریب آنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسرائیل کا کام ہے کہ وہ روس اور امریکہ کو قریب لائے۔’مسلم ممالک پر روس کا خاصا اثر ہے اور میرے خیال میں روس ایک ایسا سٹریٹجک ساتھی ہے جسے مشرقِ وسطٰی میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔۔