معصومیت حالات کی جکڑ میں

انٹرنیٹ پر دورانِ سرفنگ ایک تصویر آنکھوں کے سامنے سے گزری اور کچھ دیر کے لئے مجھے خاموش کر دیا میری خوش گپیاں مسکراہٹ یکسر خاموشی کی اوٹ میں چھپ گییں-

یک معصوم سا کم عمر کمسن بچہ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس اپنے کندھوں پر بوجھ لادے ہوئے ہے وزن کے باعث اُس کی آنکھیں جُھکی ہوئی ہیں اور وہ فقط ایک دو قدم کے فاصلے تک دیکھ سکتا ہے اُس کی آنکھوں اور چہرے سے اُس کی ٹھکاوٹ اور بوجھ کی زیادتی کا معلوم ہو رہا ہے-

ایسا بھی ممکن ہے کہ باپ کے سائے سے محروم یتیمی کی قیمت چکا رہا ہو تبھی تو اس حال میں ہے نہیں تو کس باپ کی ذات گوارا کرے گی کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اس کا راج دلارا اس کمسنی میں اپنا بچپن مزدوریوں اور زمانے کی دھدکاروں کے نظر ہونے دے-

غربت کے ہاتھوں اس عمر میں مزدوری اور وسائل کی کمتی اور گھر والوں کی ضرورتیں پوری کرنے کی جستجو میں اپنا پیٹ خالی ہی ہو اب آپ چند پل کے لئے غور کریں عمر کا یہ حصہ جب جسم بہت ناتواں ہو جتنی بھی اجرت ملے اگلے سے تقاضہ بھی ممکن نہیں ہو اپنی معصوم سی خواہشوں جیسا کہ دوسرے بچوں کو مہیا ہیں حسرت بھری نظروں سے دیکھتا ہو خالی پیٹ دن بھر کبھی ادھر کے دھکے کبھی اُدھر کی تکلیفیں شب و روز کس اُلجھن اور ذہنتی تناوَ میں رہتا ہو گا-

دوسری طرف ایک ہوٹل دکھائی دے رہا ہے اور لوگ کھا نا تناول اور گفت و شنید میں مصروف ہیں جس ٹیبل کے پاس سے بچہ گزرتا دکھ رہا ہے وہاں دو عورتیں بیٹھی ہیں ایک موبائل پر کسی سے بات کرتے ہوئے مسکرا رہی ہے جبکہ دوسری اُسے مسکراتا دیکھ اُس کی باتوں اُس کے انداز سے محظوظ ہو رہی ہے موبائل پر بات کرتے ہوئے ایک ہاتھ میں موبائل جبکہ دوسرے ہاتھ سے اپنے پالتو کتے کو سہلا رہی ہے یہاں یہ با ت سوچ کر بہت تکلیف محسوس ہوئی کہ کیا زمانہ آ گیا ہے ہوٹل پر موجود ہر کوئی اپنے اپنے معاملات میں لگا ہوا ہے کسی کو نہ یہ معصوم بچہ دکھ رہا نہ اُس کی بھوک بس ہر کوئی اپنی اپنی مصروفیت میں دکھائی دے رہا ہے -

میں ہوتا تو شاید میں بھی اپنے ضمیر کی آواز کو خاموش کر کے اس حقیقت سے نظریں چرا لیتا کہ یہ عمر اس بچے کی ان ذمہ داریاں اُٹھانے کی نہیں بلکہ جیسے باقی بچے تعلیم وافر خوراک اور ماں باپ کی شفقت و محبت میں زندگی گزار رہے ہیں اس طرز پر زندگی گزارنے کی ہے-

واہ رے ابن آدم کیا زمانہ آ چکا ہے جانوروں کے حقوق اور ان سے پیار ہمارا خاصا بن چکا اور اس کے بر عکس انسان چاہے وہ زندگی کے جس حصے میں بھی ہو خصوصا بچے بوڑھے اور خواتین جو ضرورت مند ہوں سہارے اور انسانیت کی امداد کے منتظر ہوں اُن کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں احساس سے عاری ہو چُکے ہیں اپنے بچے ماں باپ بہن بھائی بہت عزیز جبکہ ہماری نظر میں تو غریب کے تو نہ ہی رشتے نہ ہی کچھ ضروریات ہیں-

اے مالک بزرگ و برتر ہم سب کو صیح معنوں میں انسانیت سے شناسائی عطا فرما اور اپنے ضرورت مند بہن بھائیوں کے دکھ سکھ میں شرکت اور امداد کی توفیق دے تا کہ جب تیری بارگاہ میں حاضر ہوں تو کوئی تو ایسا عمل ہمارے ساتھ ہو جس سے ہماری نجات یقینی بنے. آمین ثم آمین-

Syed Zulfiqar Haider
About the Author: Syed Zulfiqar Haider Read More Articles by Syed Zulfiqar Haider: 23 Articles with 25471 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.