وقت کیساتھ ثقافت کی تبدیلی

اس زمانے میں قلفی وہ برتن جس میں گوندھا ہوا آٹا رکھتے تھے اگر صاف ہوتا تو اس سے اندازہ کیا جاتا تھا کہ لڑکی سگھڑ ہے اور آٹا گوندھ سکتی ہے یعنی باہر سے روٹی نہیں آتی اور برتن کی صفائی کا اندازہ لڑکی کی صفائی پسندی سے کیا جاتا اسی طرح چولہے میں پڑی راکھ سے بھی اندازہ کیا جاتا کہ گھر کے کام کاج میں لڑکی کتنی ماہر ہے اور صفائی کتنی کرتی ہے.اسی طرح ادوان کی مضبوطی کا اندازہ لڑکی کے گھر والوں کے بارے میں ہوتا کہ گھر والے اس پر توجہ دیتے ہیں کہ نہیں . اگر ادوان مضبوط بندھی نہ ہوتی تو اس کا مطلب ہوتا کہ گھر والے اس پر توجہ نہیں دیتے یعنی لاپرواہ لوگ ہیں. اور اگر مضبوط ہو تو پتہ چلتا کہ ہاں گھر والے اس پر توجہ دیتے ہیں. پشتون معاشرے میں یہ ایک عام سی روایت تھی جو کئی دہائیوں تک چلتی رہی اور رشتے کے بارے میں لوگ کسی کو کچھ کہے بغیر باتیں سمجھ لیتے. یعنی یہ بتائے بغیر کہ گھر میں رشتے کی نیت سے آئے ہیں خواتین بہانے سے کچن میں جاتیں اور چارپائی پر بیٹھ جاتیں اور اندازوں سے پتہ چلاتیں اور پھر بعد میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہوتا اور رشتے طے ہوتے.
لیکن پھر تبدیلی آگئی ایسی تبدیلی کہ گھر والوں کی ترجیحات بدل گئیں اور اب لڑکے والے لڑکی کے گھر جاکر گھر والوں کی حالت کا اندازہ ان کے کپڑوں ‘ گاڑی اور عمارت سے لگاتے ہیں کہ جہیز میں کیا ملے گا اب لڑکی کے کام اور خاندان پر توجہ کے بجائے دولت پر نظریں ہوتی ہیں اب لڑکے والے لڑکی کے گھر جا کر باتھ روم چیک کرتے ہیں کہ باتھ روم کتنا گندا ہے اس سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ لڑکی یا لڑکی کے گھر والے کتنے صفائی پسند ہیں . یعنی اتنی تبدیلی آگئی کہ پہلے کچن میں پڑی اشیاء سے پتا چلتا کہ خاندان کی لڑکی کیسی ہے اور خاندان کیسا ہے لیکن اب لوگ گھر کی بلڈنگ سے پتہ چلاتے ہیں کہ گھر والوں کے پاس کتنا پیسہ ہے . اور اگر کوئی زیادہ ہی پرتجسس ہے تو باتھ روم کی صفائی سے اندازہ لگاتے ہیں یعنی کئی دہائیوں کے بعد اب کچن کا سفر باتھ روم تک پہنچ گیا ...

وقت تیزی سے گزرتاجارہا ہے اور پتہ ہی نہیں چل رہا کہ تبدیلی کہاں سے آرہی ہے- تبدیلی کے دعوے تو حکومت کررہی ہے مگر ہماری ثقافت میں تبدیلی کہاں تک آئی ہے اس کا اندازہ اپنے ارد گرد ہونیوالے واقعات سے کیجئے. ہمارے معمولات زندگی تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں،ڈیجیٹل دور میں پیدا ہونیوالے بچے اب گلیوں ‘ میدانوں میں کھیلنے کے بجائے کمپیوٹر ‘ آئی پیڈ کے سامنے کھیلنے کو ترجیح دینے لگے ہیں اور اب یہ تبدیلی صرف شہروں تک محدود نہیں رہی بلکہ اب تو دیہی علاقے بھی اس تبدیلی کی زد پر آگئے ہیں .

کسی زمانے میں اگر کوئی اپنے بیٹے کیلئے رشتہ دیکھنے کسی کے گھر جاتے تو لڑکے کے گھر والوں یعنی خواتین کی کوشش ہوتی کہ ان گھروں کے کچن میں جائیں اور اس برتن جسے پشتو زبان میں قلفی کہتے تھے اور اس میں گوندھا ہوا آٹا رکھتے تھے کو دیکھتے کہ آیا یہ صاف ہے کہ نہیں اسی طرح کچن میں جا کر خواتین پرانے زمانے کے مٹی کے چولہے دیکھتے کہ آیا اس میں راکھ پڑی ہے کہ نہیں ؟ پھر خواتین گھر کے صحن میں جا کر پرانے زمانے میں استعمال ہونیوالی چارپائی دیکھتیں کہ آیا یہ صاف ہے اور اس کی ادوان ٹھیک طرح سے مضبوط باندھی گئی ہیں کہ نہیں . ان تین چیزوں سے لڑکے والے لڑکی کے گھر والوں اور لڑکی کے مشغلوں اور گھریلو مصروفیات کا اندازہ لگاتے اور پھر رشتہ طے کرتے.

اس زمانے میں قلفی وہ برتن جس میں گوندھا ہوا آٹا رکھتے تھے اگر صاف ہوتا تو اس سے اندازہ کیا جاتا تھا کہ لڑکی سگھڑ ہے اور آٹا گوندھ سکتی ہے یعنی باہر سے روٹی نہیں آتی اور برتن کی صفائی کا اندازہ لڑکی کی صفائی پسندی سے کیا جاتا اسی طرح چولہے میں پڑی راکھ سے بھی اندازہ کیا جاتا کہ گھر کے کام کاج میں لڑکی کتنی ماہر ہے اور صفائی کتنی کرتی ہے.اسی طرح ادوان کی مضبوطی کا اندازہ لڑکی کے گھر والوں کے بارے میں ہوتا کہ گھر والے اس پر توجہ دیتے ہیں کہ نہیں . اگر ادوان مضبوط بندھی نہ ہوتی تو اس کا مطلب ہوتا کہ گھر والے اس پر توجہ نہیں دیتے یعنی لاپرواہ لوگ ہیں. اور اگر مضبوط ہو تو پتہ چلتا کہ ہاں گھر والے اس پر توجہ دیتے ہیں. پشتون معاشرے میں یہ ایک عام سی روایت تھی جو کئی دہائیوں تک چلتی رہی اور رشتے کے بارے میں لوگ کسی کو کچھ کہے بغیر باتیں سمجھ لیتے. یعنی یہ بتائے بغیر کہ گھر میں رشتے کی نیت سے آئے ہیں خواتین بہانے سے کچن میں جاتیں اور چارپائی پر بیٹھ جاتیں اور اندازوں سے پتہ چلاتیں اور پھر بعد میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہوتا اور رشتے طے ہوتے.

لیکن پھر تبدیلی آگئی ایسی تبدیلی کہ گھر والوں کی ترجیحات بدل گئیں اور اب لڑکے والے لڑکی کے گھر جاکر گھر والوں کی حالت کا اندازہ ان کے کپڑوں ‘ گاڑی اور عمارت سے لگاتے ہیں کہ جہیز میں کیا ملے گا اب لڑکی کے کام اور خاندان پر توجہ کے بجائے دولت پر نظریں ہوتی ہیں اب لڑکے والے لڑکی کے گھر جا کر باتھ روم چیک کرتے ہیں کہ باتھ روم کتنا گندا ہے اس سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ لڑکی یا لڑکی کے گھر والے کتنے صفائی پسند ہیں . یعنی اتنی تبدیلی آگئی کہ پہلے کچن میں پڑی اشیاء سے پتا چلتا کہ خاندان کی لڑکی کیسی ہے اور خاندان کیسا ہے لیکن اب لوگ گھر کی بلڈنگ سے پتہ چلاتے ہیں کہ گھر والوں کے پاس کتنا پیسہ ہے . اور اگر کوئی زیادہ ہی پرتجسس ہے تو باتھ روم کی صفائی سے اندازہ لگاتے ہیں یعنی کئی دہائیوں کے بعد اب کچن کا سفر باتھ روم تک پہنچ گیا ...

اور اب آیا ہے تبدیلی کا دور .. جس نے بہت کچھ تبدیل کردیا ہے اب تو لگتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی والے ایک دوسرے کے موبائل فون چیک کرینگے اور اس میں پڑی ویڈیوز کس نوعیت کی ہیں اور اس سے اندازہ کیا جائیگا کہ لڑکے اور لڑکی کا ماحول کیسا ہے اور اس کی طبیعت کیسی ہے کس نوعیت کے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے لیکن ڈیجیٹل دور کے جوانوں کو اب ان چیزوں کا پتہ بھی ہے اس لئے کچھ لوگ تو پاس ورڈ لگاتے ہیں اور کچھ مخصوص فائل بنا کر اسے چھپا دیتے ہیں جسے دیکھنا بھی مشکل ہوتا ہے. جبکہ اس سے پہلے غیر مخصوص انداز میں لوگ رشتوں کیلئے چوری چھپے معلومات لیتے اور لوگوں کو اگر پتہ چلتا کہ رشتے کا معاملہ ہے تو لوگ انتہائی ایمانداری سے بات بتاتے تھے لیکن اب جھوٹ اتنا ہوگیا ہے کہ لوگ رشتوں کے بارے میں بھی بات بتاتے ہوئے جھوٹ بولتے ہیں. حالانکہ یہ ایک ثقافت تھی کہ ان معاملوں میں جھوٹ نہیں بولا جاتا تھالیکن.. اللہ جانے ہم جا کہاں رہے ہیں اور اس سے آگے کیا ہوگا.. اللہ ہم پر رحم کرے ..شش
 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420187 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More