اوڑھنی ( دسویں قسط)☆☆

آج تو شاہ زیب ولا کی بارہ دری عصر کی نماز سے بھی بہت پہلے آباد ہوگئی ۔ چند لڑکیاں ددو سے سیپارے لے کر پڑھنے بیٹھ گئیں ۔ددو کی قرات اس عمر میں بھی دلآویز تھی۔ کچھ لڑکے سر جھکا کر قرات سن رہے تھے ۔جیسے ہی موزن نے نماز عصر دی۔ کچھ لڑکوں نے ددو کے پیچھے صف باندھ لی۔ کچھ لڑکے خجل سے ہوکر باغ میں چلے آئے۔ آج شاہ زیب نے بھی سالوں کے بعد اپنے ابا کے پیچھے نماز کی نیت کی تھی ۔
لڑکیوں میں سے بیشتر نے بارہ دری کے ایک کونے میں نماز کی نیت کرلی۔ عجیب سکون و برکت سے بھرا منظر تھا۔ دادا ابا اپنی گہری آواز میں امامت کررہے تھے اور سب لوگ خاموشی سے نماز ادا کر رہے تھے ۔سلام پھیر کر دادا ابا نے بڑی خوبصورت اور فصیح و بلیغ دعا کروائی، باغ میں سے نماز نہ پڑھنے والے بھی دعا میں شریک ہوگئے ۔
فضا میں عجیب سا طلسم تھا۔ سفید براق کبوتر پھڑپھڑاتے، بارہ دری کی چھت پر کبھی بیٹھتے، کبھی پرواز کر جاتے۔ آج مطلع ابر آلود سا تھا، ٹھنڈی ہوا اپنے ساتھ فوارے کے پانی کے بخارات ساتھ لے آتی۔ دادا ابا نے آج شیف کو پکوڑوں، سبز چائے اور انڈوں کا حلوا بنانے کا حکم دیا تھا۔ سب لڑکے ،لڑکیاں دادا ابا کے گرد گھیرا بنا کر بیٹھ گئے ۔شاہ زیب نے تنویر کے منع کرنے کے باوجود اس کے پیر دبانے شروع کردیئے ۔دادا ابا کھوئے کھوئے بولے :
بھیا لوگ شادی کے چند دنوں کے بعد رخصت ہوگئے ۔میں بھی تعلیم میں مصروف ہوگیا ۔ کچھ عرصے کے بعد مجھے چاچاجی بننے کی خوشخبری ملی۔ میری دونوں بھابھیوں کو اللہ تعالی نے بیٹوں سے نوازا ۔ اس دوران میں میرے دونوں بھائی تعلیم ختم کر کے واپس آگئے تھے۔ سبتین بھیا کو ایک اچھی نوکری دلی میں مل گئی تھی، وہ شکیلہ بھابھی کو لے کر وہاں رہائش پذیر ہوگئے ۔
آکا بھیا باوجی کا ہاتھ بٹاتے، میرا داخلہ لاہور میں ہوگیا اور میں اعلی تعلیم کے لئے لاہور آگیا ۔لاہور آنے سے ایک دن قبل میں چچا جان کے آستانے پر انھیں خدا حافظ کہنے گیا، تو گھر میں کوئی نہیں تھا۔ دوپہر کے وقت نوکر بھی قیلولہ کر رہے تھے ۔میں چچا جان کو آوازیں دیتا، باغ میں آپہنچا ۔ وہاں پر میرا سامنا سکینہ سے ہوا۔ سکینہ اب بند کلی سے ایک شاداب گلاب بن چکی تھی وہ اپنے سرخ ملبوس میں ایک حور لگ رہی تھی جو جنت سے بھٹک کر زمین پر آگئی تھی۔مجھے دیکھ کر اس کے عارض پر حیا کئ لالی آگئی، مگر مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتی تھی۔ اچانک اس کی آنکھوں میں طغیانی آگئی، وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی ۔
"میری صبح آپ کے دیدار سے ہوتی تھی اب میری صبح کیسے ہوگئی؟
مجھے اپنی خوش نصیبی پر ناز آگیا ۔میں سمجھتا تھا کہ سکینہ میری چاہت سے بے خبر ہے مگر وہ تو میری چاہت میں باوری ہوچکی تھی۔ میں نے آہستہ سے اس کی سرخ اوڑھنی اس کے سر پر ڈالی اور مسکرایا:
جان تنویر! انشاءاللہ میں جلد ہی آپ کو اپنی منکوحہ بنا کر لے جاونگا ۔"
سکینہ ایک دم سے منہ پر ہاتھ رکھ کر بولی:
ارے آپ تو بہت بے باک ہیں ۔
اس سے پہلے میں کچھ کہتا ، چچا جان اور چچی کی آوازیں سنائی دیں ،وہ ہرنی کی طرح کلانچیں بھرتی بھاگی، مگر رک کر بولی:
اپنا وعدہ مت بھولیے گا۔"۔
مجھے آج بھی اس کی وہ شریر مسکراہٹ اور شوخی یاد ہے ۔
میں لاہور آیا تو ایسا لگا کہ اپنا آدھا وجود پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔
1946 کا زمانہ تھا، میں بیس سال کا کڑیل جوان تھا۔ اچانک ایک دن باوجی کا فون آیا کہ سبتین بھیا کو انگریز سرکار نے غداری کے جرم میں پھانسی چڑھا دیا ہے ۔ میں غم سے بے حال امرتسر پہنچا، میرے عزیز از جان چچا جان بہت ضعیف لگ رہے تھے ۔چچی مسلسل غشی کا شکار تھیں ۔سکینہ کو سکتہ طاری تھا۔ میں سب کو دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوا۔سبتین بھیا کی لاش تک ورثا کو دینے سے انگریز سرکار انکاری تھی۔ شکیلہ بھابھی امید سے تھیں، پھر ابھی علی رضا بھی فقد چار سال کا تھا،وہ بار بار اپنے ابا کی بابت پوچھتا ۔مجھے دیکھ کر بھابھی ایسے چیخیں مار مار کر روئیں کہ میرا بھی ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ میں مرد ہوکر زندگی میں پہلی بار اونچی آواز سے رویا۔ باوجی نے بڑی سفارش لگوا کر چار دن بعد سبتین بھیا کی لاش حاصل کرلی ۔میں نے اور آکا بھیا نے کفن دفن کا فورا بندوبست کیا کیونکہ لاش کی حالت ایسی نہیں تھی کہ کسی کو بھی دیدار کروایا جاسکتا ۔جب جنازہ اٹھا ،تو نہ جانے سکینہ کا سکتہ کیسے ٹوٹا، وہ زنان خانے سے بغیر اوڑھنی کے وحشت زدہ بھاگتی آئی اور میرا گریبان پکڑ کر چیخی:
اللہ کے واسطے تنویر میرے راجا بھیا کو تم کدھر لے جارہے ہو؟
ابھی تو اس نے میری ڈولی اٹھانی تھی، تم اس کو کندھا دے کر کدھر لے جارہے ہو؟
اس پر ایک ہذیانی کیفیت طاری تھی، اس نے میرے گریبان کو تار تار کردیا،اور آخر کار میرے ہی بازوں میں بے ہوش ہوکر جھول گئی ۔
سارے حاضرین پر ایک عالم سکوت طاری تھا ۔لڑکیاں اپنے آنسو پونچھ رہی تھیں۔لڑکے اپنے آنسو ایک دوسرے سے چھپا رہے تھے ۔صرف تنویر اور شاہ زیب کی آنکھیں خاموشی سے شہید کو خراج عقیدت پیش کررہی تھیں ۔دور موزن نیکی کے راستے پر بلانے کے لئے ازان دے رہا تھا۔
(باقی آئندہ )☆☆☆

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 262863 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More