5لاکھ اور 20مریض

کلاس نہم کے دوطالب علم آپس میں کافی دیر سے کھسر پھسر کر رہے تھے ۔ کلاس میں موجود استاد کو ان کی کھسر پھسر سے آخرکار کوفت ہونا شروع ہوئی تو اس نے بہ آواز بلند ان کو کھسر پھسر کرنے سے منع کیا مگر ان کی کھسر پھسر پھر بھی جاری رہی ۔اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے استاد نے پڑھانا بند کیا اوردونوں طالب علموں کو کھڑاکرکے پوچھا کہ آخر مسئلہ کیا ہے ۔ان دو میں سے ایک طالب علم بولا کہ سر اس نے میرے کپڑوں پر مارکر سے لائن لگائی ہے ۔استاد نے دوسرے طالب علم سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو دوسرا طالب علم بولا کہ سر غلطی سے لگ گئی تھی جس پر میں نادم ہوں اور میں نے اس سے اس غلطی کی معافی بھی مانگی ہے مگراس کے باوجود اس نے میرے سارے کپڑوں پرلائنیں لگادی ہیں اور پھر بھی یہ مجھے دھمکیاں دے رہا ہے کہ میں تمھیں چھوڑوں گا نہیں ۔ استاد نے پہلے طالب علم سے پوچھا کہ اس نے ایک لائن لگائی جس پر اس نے تم سے معافی بھی مانگی تو بس بات ختم ہوگئی مگر تم نے پھر بھی اس کے سارے کپڑے کیوں لائنوں سے بھردیے؟ تو وہ طالب بولا کہ سر پہلے لائن اس نے لگائی تھی۔اس پراستاد نے کہا کہ ٹھیک ہے پہلے لائن اس نے لگائی تھی مگر جب اس نے غلطی مان لی ہے تو بس بات ختم مگر تم نے اس کے پورے کپڑے لائنوں سے بھر دیے ہیں ۔ چلو معافی کوچھوڑوجب تم نے اس کی ایک لائن کے بدلے میں اس کے سارے کپڑے لائنوں سے بھر دیے ہیں توبس بدلہ اتر گیامگریہ سب کرنے کے باوجود بھی تم اس کومعاف نہیں کررہے اوردھمکی دے رہے ہو کہ میں تمھیں چھوڑوں گانہیں ۔اس پر وہ طالب علم پھر بولا کہ سر اس نے پہلے میرے کپڑوں پرلائن لگائی تھی ۔۔۔استاد پہلے طالب علم کو جب سمجھا سمجھا کر تھک گیا تو اس نے ’’مار نہیں پیار ‘‘ والے حکم کو پس پشت ڈالا اور طالب علم کو دوسرے طریقے سے سمجھایا تو تب جاکر اس پہلے طالب علم کو بات سمجھ آئی کہ جب اس طالب علم نے غلطی کی معافی مانگ لی تو بس بات ختم۔

لیکن یہاں نہ ہماری بات ختم ہوتی ہے اور نہ ہی ایسے واقعات پرغور وفکر کرنے والوں اور اُمت کے لیے درد رکھنے والوں کی بات ختم ہوتی ہے ۔ مذکورہ بالا واقعہ سے آپ دونتائج بہ آسا نی اخذ کرسکتے ہیں :نمبر ایک، سمجھ بوجھ اورکنٹرول سے باہر عد م برداشت کہ جس میں شیطان جسم و جان میں اتنا حاوی ہوجاتا ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتا ہے کہ اگلابندہ معافی مانگ رہا ہے ترلے ،قسمیں یاواسطے دے رہا ہے ۔ نمبر دو،بہ ذریعہ طاقت حق بات سمجھانا۔۔۔یہ نامکمل تربیت ہے اور اس نامکمل تربیت کے اثرات اور کیاہوں گے کہ ایک ہی پیٹ سے پیداہونے والے بھائی تھوڑی سی رنجش پرایک دوسرے کو قتل کردیتے ہیں ، بیٹاماں کی ذراسی روک ٹوک پراسے کلہاڑے کے وار کر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے، باپ اپنے حقیقی بیٹوں کے ہاتھوں گلیوں میں گھسیٹے جاتے ہیں ، معصوم بچوں کے گلے ان کے والدین اپنے ہاتھوں سے ہی چھڑیوں سے کاٹتے ہیں۔

اثرات کے بعد جب ہم وجوہات کی طرف آتے ہیں تو ہمیں تربیت کافقدان ہر طرف نظر آتا ہے ۔ تربیت کے لیے والدین کے پاس وقت نہیں ، اساتذہ سکول و کالجز کے لیے دی گئی ہدایات پر پابند ہیں ، بڑے بہن بھائی اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور اگر ان کے پاس وقت ہے تو انھیں بھی تربیت کی اشد ضرور ت ہے ،دوست یار اپنے اپنے دھندوں میں مصروف کے چلو کئی بار اچھی صحبت بھی تربیت کروادیتی ہے ،مساجد کو رونق جمعہ کے دن بخشی جاتی ہے اور وہ بھی عین نماز کے وقت کیوں کہ وعظ ونصیحت کے وقت یانوکری جاری ہوگی یاکاروباریا طالب علموں کی کلاسز ۔۔۔لہٰذاتعلیم کے ساتھ ساتھ جو تربیت مذکورہ عوامل سے ملنی ہے وہ تو ناممکن سی بات ہوگئی ہے باقی رہ گیاہمارا میڈیا۔۔۔الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیااور سوشل میڈیا ۔۔۔میڈیا کے ان ذریعوں تک رسائی سب کی ہر جگہ اور ہر وقت ممکن ہے، لہٰذا اچھے برے کاتعین بھی یہی میڈیاکرتا ہے اور سفید کو سیاہ اورسیاہ کوسفید بھی اسی سے ممکن ہوچکا ہے ۔ریٹنگ کا مقابلہ میڈیا کو بے لگام گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑا رہا ہے ،اچھوتا اور باقیوں سے کچھ نیا دکھانے کی چاہت نے منفی سوچ کواتنا فروغ دیا ہے کہ ہمیں اس کے اثرات جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں ،بات یہاں تک ٹھہری رہتی تو بہر حال کچھ بہتر تھا مگر اب تو یہ حال ہے کہ منفی سوچ کاپرچار کرنے کے بعد اس پر نادم ہونے کے بجائے ’’میں نہ مانوں ہار‘‘ اور’’ میں کیوں مانوں ہار‘‘کی منطق پر مَصر ہوا جاتا ہے۔

اس کی ایک مثا ل میں آپ کے سامنے پیش کرتاہوں : چند دن پہلے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے نے بیچ سڑک ایک شخص کوجھگڑے کے دورا ن تھپڑ مارے ، اس سارے جھگڑے کی وڈیو منظرعام پر آئی اور چند منٹوں میں ٹی وی چینلز سے ہوتے ہوئے یہ وڈیو سوشل میڈیا پر پھیل گئی ،جس پر اس ایم پی اے کو پارٹی قیادت کی طرف سے سخت تنبیہ کرنے کے ساتھ ساتھ اظہار وجوہ کانوٹس دیاگیا ،تھوڑی دیر بعد جب میڈیا پر اس وڈیو اور اس ایم پی اے کے بارے میں لعن طعن شروع ہوئی تواس ایم پی اے نے جس کے ساتھ جھگڑاہواتھا اس کے گھر جاکر اس سے معافی مانگی اور دوسرے شخص نے بھی اس ایم پی اے کو معاف کردیا، جس کی وڈیو بھی منظر عام پر آئی ۔ اب اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بات ختم ہوجاتی مگر ۔۔۔مگر میڈیا نے اس کیس کو نہ چھوڑا ،یعنی کہ معافی مانگنے اور معاف کرنے کے بعد بھی میڈیا نے اس جھگڑے کو اتنا اچھالا کہ ایک دفعہ تو یہی گھمان ہوتا تھا کہ تھپڑ مارنے والے ایم پی اے کو پھانسی چڑھنا پڑے گا تو تب ہی میڈیا اس جھگڑے کافیصلہ کرپائے گی اور کسی دوسری ’’اہم خبر‘‘ پر توجہ دے گی مگر اس پر بھی سوفی صد یہ یقین ہے کہ یہ’’ اہم خبر‘‘ پھانسی ہی ہوتی، لہٰذا اس گھمان کوجھٹکنا پڑا۔

مذکورہ بالا کیس کو ہی آگے لے کر چلیں اور دیکھیں کہ کیسے منفی سوچ کاپرچارکیا جارہا ہے اورمزے کی بات ان منفی خیالات کو ہرممکن اور ہر جگہ پھیلا کر ہم بہ ذات خود بھی منفی سوچ کے پرچار میں معاون و مددگار بن رہے ہیں ۔۔۔خیر اوپر بیان کیے گئے ایم پی اے کے اس جرم پرحکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے سزا کا تعین یہ کیا گیا کہ موصوف ایم پی اے 5لاکھ روپے جرمانہ اداکرنے کے ساتھ ساتھ20ضعیف مریضوں کامفت علاج کریں گے۔

سیاسی اختلاف اور پسند و ناپسند کو بالائے طاق رکھ کر ذرا سوچیں کہ کیا آج تک کسی پاکستانی سیاسی جماعت نے اپنے رہنما کو ایسی حرکت پر ایسی یا اس جیسی سزادی ؟بلکہ یہاں تو یہ رواج چلا آرہا ہے کہ ایسے لوگوں کو خصوصی طور پر اپنی پارٹی میں شامل کیا جاتاہے جو تشدد اور مار کٹائی سے عوام پراپنا رعب ودبدبہ بٹھاتے ہیں۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ ایسے رہنماؤں کے بڑے بڑے مظالم کو چھپا یا جاتا ہے،مظلوموں کی آہ وزاری کو دبادیا جاتا ہے صرف اور صرف اپنے رہنما کوبچانے کے لیے۔ جب کہ یہاں حکمران جماعت نے اپنے جیتے ہوئے ایم پی اے کوجرمانے کے ساتھ ساتھ دوبارہ ایسا کرنے پر پارٹی سے نکالنے کی بھی دھمکی دی۔پاکستا ن کے ماضی کے حالات کو پرکھ کر دیکھا جائے تو یہ حکمران جماعت کا ایک اچھا اور مثبت فیصلہ ہے جو مستقبل میں معاشرے میں اچھے نتائج کا پیش خیمہ ہے ۔۔۔مگر افسوس کے اس پر بھی نقطہ چینی کرنے والوں نے، کیڑے نکالنے والوں نے اور منفی سوچ کاپرچار کرنے والوں نے اپنے اپنے تئیں اپنا اپناحصہ ڈال کر اپنا وہ فرض اداکردیاجس کے اثرات مضمون کے پہلے پیراگراف میں درج ہیں ۔

Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 78103 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.