جہنم کے سوداگر(نویں قسط)

بیداریِ شعور کے بعد میں اپنے آپ میں خود کو تلاش کرتارہا۔جب میں نے بہت کوشش کے بعد خود کو پالیاتو گزشتہ تمام واقعات کسی فلم کی طرح میرے ذہن میں چلنے لگے۔جوں جوں میرے سامنے وہ منظر چلنے لگے میرے وجود میں عجیب سادرد بھی اٹھنے لگاجس سے میرا وجود ہل کررہ گیا۔بے شک میں انسان ہوں کوئی سوپر میں یا خلائی مخلوق نہیں ،مگر رفتہ رفتہ اس درد کی شدت میں کمی آتی گئی ، جب تمام منظر پورے ہوکر میری دماغ کی اسکرین پر فلم ختم ہوئی تو میں نے بے اختیار اپنی آنکھیں کھول دیں۔کچھ دیر میں یوں ہی خالی خالی نظر وں سے چھت کو گھورتارہا۔
مجھے مکمل طور پر ہوش سمجھالنے میں کچھ وقت لگا،آہستہ آہستہ مجھے گر دوپیش کا منظر واضح ہوتاچلاگیا۔یہ ایک خالی کمرہ تھاجس کے فرش پر میں پڑا ہواتھا۔زمین گردو غبار سے اٹی ہوئی تھی،پاس ہی مجھے ایک اور کمرہ نظر آیا جو اپنی بناوٹ کے اعتبار سے مجھے باتھ روم لگا۔اس کا دروازہ چھوٹا ساتھا،اس کے علاوہ کمرے کی چھت پر جالے لگے ہوئے تھے معلوم ہوتاتھاکہ یہاں کافی عرصے سے صفائی کا کام نہیں ہوا۔مجھ سے تھوڑا فاصلے پرچیونٹیاں لائن بناکر دیوار کے اوپر چڑھتی ہو ئی اوپر جارہی تھیں۔ان کی ایک قطاراوپر جارہی تھی اور ایک نیچے زمین کی طرف رواں دواں تھی۔وہ نہ معلوم کہاں سے اناج اکٹھا کر کے آجارہی تھیں۔ان کانظم و ضبط دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا،یہ وہ عمل تھا جو میں بچپن سے دیکھتاہواآرہاتھامگر ہر بار انہیں دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتاتھا۔بے شک خدا کی یہ انمول تخلیق تھی۔
کچھ چیونٹیاں میرے اوپر سے بھی راستہ بناتی ہوئی باتھ روم کی جانب جارہی تھی ۔اوپر چھت پر انہوں نے دو تین سوراخ بنائے تھے جس میں یہ اندر جاکر کہیں غائب ہوجاتی تھیں۔ایک طرف ایک سیاہ چھپکلی مجھے گھور رہی تھی۔پتہ نہیں وہ کس سوچ میں گم تھی اور مجھ سے کون سا بدلہ لیناچاہ رہی تھی حالانکہ میں نے اسے بالکل نہیں چھیڑا تھا۔میرے تن پر اس وقت بھی وہی سوٹ تھا جو میں اپنی رہائش گاہ سے پہن کر نکلاتھا۔کپڑے بھی اب کافی میلے ہوچکے تھے ان کی ساری چمک کا ہی بیڑا غرق ہوگیاتھا۔مجھے ابھی یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ میری بے ہوشی میں کتناوقت بیت گیاتھااور کیا میجرڈریگن اور کرنل اشر کی ملاقات ہوگئی تھی یانہیں۔
کرنل اشر مجھ پر غصہ تو ضرور ہوا ہوگا کہ میری وجہ سے اس کا اتناقیمتی راز افشاں ہوگیااور نہ صرف افشاں ہوگیاتھابلکہ وہ جس کے ہاتھ لگاتھاوہ چلتاپھرتاڈھول تھا۔جب کبھی بھی اس کی ذہنی رو بھٹکتی تواس نے ڈھول گلے میں ڈال کر پورے شہر میں یہ میادی کردینی تھی ۔وہ کرنل اشر کی اس کمزوری کو پوری طرح سے ایکسپلائٹ کرنے کی صلاحیت رکھتاتھااور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتاتو کرنل جو مجھ پر اب تک اتنامہربان بناہواتھاوہ میر امخالف بھی ہوسکتاتھا۔لہذا میرا یہاں سے جلداز جلدنکلنابھی بے حد ضروری تھا۔تاکہ فوری ایکشن میں آکر اپنی غلطی کا ازالہ کرسکوں۔
کمرے کا اکلوتا دروازہ پوری شان کے ساتھ بندتھا،ایک روشندان تھاجس سے باہر کی روشنی چھن چھن کر اندر آرہی تھی ۔اس سے لگتاتھا کہ باہر دن ہی ہے رات نہیں البتہ اس سے قبل میں جس کمرے میں تھا وہاں سے مجھے بالکل اندازہ نہیں ہورہاتھاکہ باہر دن ہے یارات ۔میں نے چاروں طرف کمرے پر ایک طائرانہ نظرڈالی اور کوئی ایسی چیز دیکھنے لگاجس کو استعمال کرکے میں کسی قسم کا کوئی فائدہ اٹھاسکتاتھا۔مجھے لیٹے لیٹے تو کچھ بھی ایسانہ ملاخیر میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ایک بھر پور انگڑائی لی اوراپنے جسم کو ہلانے جلانے لگاتاکہ اسے ایکٹو کرسکوں۔مجھے اندیشہ تھا کہ کہیں پڑے پڑے میرے جسم کو زنگ ہی نہ لگ گیاہو۔ایسا کچھ نہیں تھامجھے اپنی جسمانی حالت دیکھ کر کچھ تسلی ہوئی تو میں اٹھ کر کھڑاہوگیا۔کپڑے جھاڑ کر ان سے چیونٹیاں ہٹائیں ،پھر میں نے آگے بڑھ کر کمرے کے دروازے کو خوب اچھی طرح سے چیک کیاوہ آہنی دروازہ مضبوطی کے ساتھ بند تھا۔میں کچھ دیر تک اس کا موئنہ کرتارہامگر مجھے اس سے کچھ بھی نکلنے کی امید نہ ہوئی ۔ تو سیدھا باتھ کی طرف بڑھ گیا۔اس کادروازہ کھول کر میں اندر داخل ہواتو بدبو کاایک بے رحم جھونکا میرے نتھنوں سے ٹکرایااور میں نے اس کے ساتھ ہی اپنا ہاتھ ناک کے اوپر رکھ لیا۔
اس کی حالت بھی کمرے سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی ،بیڑہ غرق ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہر قسم کے ضروری سامان سے عاری تھا۔وہ لوگ مجھے ایک فالتوکچرا سمجھ کر کوڑے دان کے اوپر پھینک کر چلے گئے تھے۔ دل سے بے اختیاران کے لئے دعاؤں کا ایک سیلاب نکلاجس میں یہ دعابھی تھی کہ خدا میجر ڈریگن کو بھی ایسی ہی جگہ نصیب کر ے تاکہ اگر اسے تھوک پھینکے کادل کررہاہوتووہ بھی نہ پھینک سکے۔پھر اسے پتہ چلے گاکہ انسانوں سے ایساسلوک کرنے کی کیا سزاتھی۔مجھے رہ رہ کر اس پر غصہ آرہا تھامگر یہاں کھڑے رہ کر تو میں اس سے کوئی بدلانہیں لے سکتاتھا۔یہ خیال آتے ہی کہ وہ مجھ سے دور تھامیں صبر کاکڑوا گھونٹ پی گیا۔
وہ ایک چھوٹا ساباتھ روم تھاخیر میں اندر داخل ہوااور سیدھا واش بیسن کے پاس آیااور اس کی ٹوٹی کھول کر اس میں سے منہ دھویااور میلے آئینے میں اپنی شکل دیکھنے لگاتو دوسرے پل مجھ پر انکشاف ہواکہ میں خود کو پہچان ہی نہیں پارہا۔شیو بڑھی ہوئی تھی بال بری طرح سے الجھے ہوئے تھے ۔چہرے پر نامعلوم کتنے دنوں کی میل جمی ہوئی تھا۔ہوناتو یہ چاہیے تھاکہ میں اب نہاتامگر شاید ابھی وہ لوگ مجھے اس کی مہلت نہیں دیناچاہتے تھے ۔کیونکہ باتھ روم میں نہانے کا کوئی بھی مناسب بندوبست نہیں کیاگیاتھا۔
میری حالت بھی کمرے کی طرح ابتر تھی بلکہ میں خود اس کمرے کاپراناباسی معلو م ہورہاتھا۔گلے میں ٹائی لٹکی ہوئی تھی جو اتنے مشکل حالات سے گزرنے کے بعد ڈھیلی پڑچکی تھی۔میں نے اسے مزید ڈھیلاکیااور پھر اپنی گردن کو اس کی قید سے آزاد کروالیا۔اسے لپیٹ کر میں نے پینٹ کی جیب میں رکھ لیا،اس کے بعد میں ٹوٹی میں ہاتھ دے کر کافی دیرتک ٹھنڈے پانی کو محسوس کر تارہاتھا۔مجھے وہ کافی بھلالگا۔اس کے بعدمیں نے ٹوٹی بند کی اور ایک خیال کے آتے ہی میں نے ایک بار پھر سے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال دیا۔وہاں سے ٹائی باہر نکال لی اور کچھ دیر تک اسے دیکھتارہا۔
اس کی گرہ کھو ل کر میں نے اسے اپنے ہاتھو ں میں لپیٹ لیا۔اب یہ میرے کام آسکتی تھی اور اسے کام میں لانے کے لئے مجھے صحیح موقعے کا انتظار تھا۔میں نے خود سے سوا ل کیا کہ آخر میں کب تک یوں ہاتھ پر ہاتھ رکھے فارغ بیٹھ سکتاتھااور وہ لوگ مجھے میری مرضی کے خلاف استعمال کرتے رہتے آخر کب تک یہ میں برداشت نہیں کرسکتاتھا۔میں ایک آزاد انسان تھااور مجھے خود پر پورا اختیار ہوناچاہے تھا۔ایک بے ہوشی کے بعد دوسری اور پھر تیسری یہ کھیل آخر کب تک چلتارہتا؟مجھے اس سب کچھ سے جان چھڑانی تھی اور بہت جلد چھڑانی تھی۔
یہی سب کچھ سوچتاہوامیں ٹائی کو اپنے دائیں ہاتھ پر لپیٹتاہواواپس کمرے میں آگیا۔پیٹ خالی تھا،بھوک اور پیاس کااحساس شدت سے غالب تھا۔میجر ڈریگن تو واقعی مجھے عام انسانوں کی طرح ٹریٹ کررہاتھااور بقول اس کے کہ وہ ہر انسان کو محض کیڑے مکوڑے کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھتا۔وہ بات اب سچ ہوتی جارہی تھی۔اس نے مجھے اس کمرے میں رکھنے سے لے کر کھانے پینے تک کسی با ت کا خیال نہیں رکھاتھا۔وہ واقعی ایک ظالم جابر قسم کاشخص تک اور جومیں نے اس کے بارے میں اس کی پروفائل میں پڑھاتھاوہ سچ ہوتاہوا محسوس ہورہاتھا۔لیکن برداشت کی بھی کوئی حد تھی سو عنقریب وہ برداشت ختم ہوکر میجرڈریگن کے لئے کاؤنٹ ڈاؤن شروع کرنے والی تھی ۔
********
میں اس وقت تمام ضروری چیزوں سے فارغ ہوکراسلام آباد کے سب سے بڑے فائیوسٹار ہوٹل میں ایک امیرکبیرعربی شیخ قاسم کے روپ میں موجود تھا۔ہوٹل گرین اسٹارم کی تیسری منزل کے ایک سو چوبیسویں روم میں ایک آرام دہ کرسی پربیٹھاہوا چائے سے اپنادل بہلارہاتھا۔میری آج شام پانچ بجے کی فلائٹ تھی جو اسلام آباد سے سیدھادبئی جانی تھی۔میری واپسی کے تمام انتظامات کرنل اشر نے خود کئے تھے۔میں لیبارٹر ی سے لفٹ مانگتاگاڑیاں بدلتاسب سے پہلے ایک مقامی ہوٹل پہنچاتھاجہاں پر کرنل کے مقامی ایجنٹ نے میرااستقبال کیاتھا۔پھر ایک گھنٹے میں میں خفیہ طور پر وہاں سے شیخ قاسم کے میک اَپ میں ہوٹل گرین اسٹارم پہنچاتھا۔
بات دراصل یہ تھی کہ مصنوعی لیبارٹری میں ڈاکڑ عباس کے ہاتھوں جب ڈیوڈ کی کہانی کا ڈراپ سین ہواتو اس کے بعد میں نے مکمل طور لیبارٹری کاکنڑول اپنے ہاتھ میں لے لیاتھا۔سب سے پہلے ڈاکڑ صاحب کو باحفاظت وہاں سے روانہ کیا۔وہ ایک آرمی کے ہیلی کاپٹر پر وہاں تک پہنچے تھے جس کا ہیلی پیڈ لیبارٹری کی چھت پر بناہواتھا۔سو ان کی واپسی بھی اسی ہیلی کاپٹر میں ہوئی تھی جواس دوران مسلسل چھت پر موجود رہاتھا۔ان کی روانگی کے بعد میں نے سب سے پہلے اپنے ہیڈ کواٹر فون کر کے انہیں مکمل رپورٹ دی ۔وہاں سے مجھے جو نئے احکامات ملے ان کے مطابق مجھے دشمنوں کی تمام لاشیں وہیں دفن کرنی تھیں اور مرزامنصور سمیت ہمارے دیگر دوست جوشہید ہوئے تھے ان کے لئے آرمی کے خفیہ طیارے کا بندوبست ہواتھا۔جو ان کی لاشیں وہاں سے سیدھاہیڈکواٹر لے گیا۔
پھر وہاں سے وہ لاشیں قومی پرچموں میں لپیٹ کر پورے اعزاز کے ساتھ ان کے آبائی گاؤں میں پہنچائی جانی تھیں۔مجھے مرزامنصور کی موت کا بے حد دکھ تھا۔وہ کافی قابل اور ہونہار ساتھی تھامگر وہاں رونے اور غم کرنے کاوقت نہیں تھا۔زندگی کی اس بے رحم گاڑی نے آگے بڑھ جاناتھااور اس فانی دنیا کی یہی حقیقت تھی۔میں نے دل پر پتھر رکھ کر اس سارے غم کو برداشت کیا۔وہاں کی تلاشی کے دوران ڈیوڈ کا پرسنل موبائل فون بھی مل گیاجو میں نے اپنے قبضے میں لے لیاتھا۔میں نے اس کی مدد سے سب سے پہلے ڈمی ڈاکڑ کی لاش کی فوٹوکرنل اشر کوموبائل کے ذریعے کھینچ کر بھجوائی اور ساتھ میں لکھ دیاکہ اس کی موت عابد ڈان کے زہر سے ہوئی ۔
جواب میں کچھ ہی دیر میں کرنل اشر کی مبارک بھری فون کال آگئی،اسی دوران اس نے میری واپسی کا ذکرچھیڑدیاکہ اس نے میری واپسی کا بندوبست اس دفعہ کچھ الگ ہی طریقے سے کیاہے۔مجھے راستے میں چند ضروری کام کرتے ہوئے واپس امریکہ پہنچناتھا۔انہی کاموں کے سلسلے میں عربی شیخ کاروپ بھی تھا۔فون کال کے اختتام پر میں نے مصنوعی لیبارٹری کے تہہ خانے میں ڈائنامائیٹ لگاکراسے مکمل طور پر مسمار کردیا۔چند ہی دنوں کے اندر ڈاکڑ عباس کی موت کی خبر اخبارات کی زینت بننی تھی اور میرے بطور ڈیوڈ مشن کی کامیابی پرمہر ثبت ہوجانی تھی۔یہ سارا کام ہیڈکواٹر نے بیک اینڈ پر کرناتھایہاں پر میراکام تمام ہوا۔
تمام ضروری کام سے فارغ ہونے کے بعد اب میں ہوٹل میں موجود تھا۔اس وقت شام کے چار بجنے والے تھے میں نے ٹیکسی پہلے ہی بک کروالی تھی جو مجھے ٹھیک ساڑھے چار بجے لینے آنے والی تھی۔میں بلیک ڈائمنڈ ایجنسی کے جس مقامی ایجنٹ سے یہاں پر ملاتھااس نے میرے تمام ضروری کاغذات پورے کرکے مجھے ہوٹل کے بیک ڈور سے خاموشی سے رخصت کروادیاتھا۔وہاں سے میں ایک گلی میں پہنچاتھاجو مجھے سیدھا مین روڈ پر لے آئی تھی۔اس کے بعد میں ایک مہنگی ٹیکسی کرکے وہاں سے روانہ ہوگیاتھا۔اس نے مجھے اسلام آباد کے سب سے مہنگے ہوٹل گرین اسٹارم میں پہنچایاتھا۔
میری کہانی پڑھنے والے بہت سے قارئین کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور گردش کررہاہوگا کہ میں جس دور کی کہانی آپ کو سنارہاہوں ،اس دور میں تو اتنی ترقی نہیں ہوئی جتنی میں نے دکھادی، جیسے جدید ترین موبائل فون اور پھر اس میں انٹر نیٹ کی سہولت تو اُن قارئین کے لئے میراسیدھاساجواب یہ کہ میں جس ایجنسی میں کام کرتاتھایا میرے مقابلے میں جو تنظیمیں آتی تھیں وہ سب کی سب یہ سہولیات استعمال کررہی تھیں کیونکہ ان سہولیات کااستعمال ان کی ایجادات کے فوری بعد سب سے پہلے ہماری جیسی انٹیلی جنس ایجنسیاں کرتی ہیں پھر جب وہ ٹیکنالوجی ہمارے لئے پرانی ہوجاتی ہے یااس کی جگہ کوئی نئی آجاتی ہے تو اسے پھر عوام کے استعمال میں لایاجاتاہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ہمیشہ عوام الناس سے آگے ہوتے ہیں اور جس ترقی کا ہم فائدہ اٹھارہے ہوتے ہیں وہ عوام سے کوسوں دور ہوتی ہے۔
میں اس وقت بیٹھابظاہر چائے کی چسکیاں لے رہاتھا مگردرحقیقت اپنی ماضی کی حسین یادوں میں کھویاہواتھا۔وہ لمحے کتنے بھلے تھے جب میں ایک چھوٹا بچہ تھا۔ماں کی آغو ش میں میں نے دنیاکو دیکھا،اس نے مجھے ہرپت جھڑ ،سردی ،گرمی سے بچایا۔بے شک ہر ماں کی طرح میری ماں بھی مجھ سے بہت کیا کر تی تھی۔ اکلوتا ہونے کی وجہ سے میں اپنے ماں باپ کی آنکھوں کاتارہ ہواکرتاتھا۔ابھی چیزمیری زبان سے نکلی نہیں ہوتی کہ مجھے وہ لے کر دے دی جاتی تھی ۔پڑھائی میں بھی میں بچپن سے ہی اول آیاکرتاتھا۔میں ہرگز شرارتی نہیں تھا بلکہ اکثر دوسروں کی شرارتوں کا نشانہ بنتاتھا۔میرے پچپن میں میری ماں ہی میری دوست ہوتی تھی کیونکہ والد صاحب فوج میں ہواکرتے تھے اور انہیں اپنے محاز سے ہی فرست نہیں ہوتی تھی ۔ْمگر میں نے اس بات کا شکوہ کبھی ان سے نہیں کیاکیونکہ انہی جیسے سپاہیوں کی وجہ سے ملک کاہربچہ محفوظ ہے۔
میرے کمرے میں کھلونوں کی بھرمار ہواکرتی تھی اور مجال ہے کہ کوئی کھلونہ ایک سے زیادہ دن ٹکا ہو۔اس لئے نہیں کہ میں شرارتی تھا بلکہ محلے داروں اور رشتہ داروں کے بچے جو کہنے کو میرے دوست ہوتے تھے آکر سب کچھ فناکردیاکرتے تھے ۔مجھے بچپن میں ریل گاڑی لینے کا بہت شوق تھا۔اکثر رشتہ داروں کے گھر آناجاناہواتو ریل گاڑی کا ہی سفر کیاجو ہمیشہ ہی یادگارہواکرتاتھا۔مجھے کھڑکی میں سے سر باہر نکال کر چلتی ٹرین میں انجن دیکھنے کا بہت شوق تھا اور اسی وجہ سے میں ایک آدھ دفعہ ڈانٹ بھی کھاچکاتھا۔
بے شک کسی کی زندگی میں اس کے والدین کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں۔میری اب نہیں تھی ،مجھے وہ بیتے پل ایک ایک کرکے یاد آنے لگے ،مجھے آج بھی یادہے کہ جب مجھے میری ماں پہلے دن اسکول چھوڑنے گئی تو میں بہت رویاتھا۔مگر پھر اس دن کے بعد مجھے کبھی رونا یادنہیں ۔میں بہت جلد ایڈجیسٹ ہوگیا۔میر ا بچپن والد صاحب کی پوسٹنگ کی وجہ سے مختلف شہروں میں گذرا۔جس میں کراچی ،ملتان اور لاہور قابل ذکر ہیں ۔ہمیں ہمیشہ پاکستان کے بہترین لوگو ں سے پالاپڑا جہاں جاتے تھے تو ان سے کافی پیارملا۔
میرے اکثر رشتہ دار آج بھی سندھ میں آباد ہیں اور سیاست سے دور ایک پر امن زندگی گزاررہے ہیں ۔مجھے اپنے والدین کے بعد سب سے زیادہ پیار اپنے چچاسے ملا۔جو والد صاحب کے واحد چھوٹے بھائی ہیں ۔جبکہ میرے دو ماموں اور ایک خالہ تھیں۔مگر اس فیلڈ میں آنے کے بعد ان سے تمام رشتے ناتے ٹوٹ گئے ۔بلاشبہ یہ فیلڈ سب سے زیادہ کھٹن ہے جو آیا ہے اسے واپسی کے تمام دروازے بند کرنے کپڑے ہیں ،تمام کشتیاں جلاکر آنا پڑا ہے۔
میں ابھی انہی یادوں میں کھویاہواتھاکہ روم سروس کی جانب سے مجھے کال آنے لگی ۔میں نے ہاتھ بڑھاکر ریسور اٹھایاتو دوسری جانب سے کاروباری انداز میں منیجر نے کہناشروع کیا۔
"جناب شیخ صاحب آپ کو ڈسٹرب کرنے کی میں بہت معذرت چاہتاہوں ۔امید ہے آپ بر ا نہیں منائیں گے ،جناب آپ نے جو ٹیکسی بک کروائی تھی وہ آپ کو لینے کے لئے آگئی ہے ۔آپ کی روانگی کاٹائم ہوگیاہے برائے مہرنانی آپ نیچے تشریف لے آئیں۔۔۔"میں نے اس کی بات سنی تو چونک کر اپنی ہاتھ پر بندھی ہوئی گھڑی پر نظر دوڑائی تو واقعی میرے مقررہ وقت سے ٹائم پانچ منٹ زیادہ ہوگیاتھا۔
"جی میں آپ کا بے حد مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے کال کر کے یاددہانی کرادی میں بس ابھی آرہاہوں۔۔"
"ارے نہیں نہیں جناب ایسی کوئی بات نہیں ،شکرگزار تو مجھے آپ کا ہونا چاہیے کہ آپ نے ہمیں اتنی عزت بخشی اور ہمیں اپنی خدمت کا موقعہ دیا۔آپ نے اپنے قیام کے لئے ہمارے ہوٹل کا انتخاب کیا۔میں امید کرتاہوں کہ آپ آئند ہ بھی آکر اسی طرح ہمارے ہوٹل کو عزت بخشیں گے ۔۔۔"اس کے روایتی فقروں کے بعد لائن ڈارپ ہوگئی تومیں ایک گہرا سانس لے کرچائے کا کپ خالی کیااور اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔چائے میری یادوں کے چکروں میں پہلے ہی ٹھنڈی ہوچکی تھی ۔
میں پہلے وہاں سے سیدھاواش روم گیا،ضروریات سے فارغ ہوکر میں نے اپنا بریف کیس اٹھایااور پھر روم کو لاک کرتاہواراہداری میں آگیا۔وہاں سے میں نے لفٹ پکڑی اور فوراً گراؤنڈ فلور پرآیاپھروہاں سے میں کاؤنٹر پر آیاانہیں کمرے کی چابی تھمائی اور پھر تیزتیزچلتاہواباہر پارکنگ کی جانب بڑھ گیا۔جہاں پر ایک ٹیکسی پہلے سے ہی میراانتظار کررہی تھی۔
********
نہ معلوم مجھے سکھ کاسانس کب نصیب ہواس کے لئے مجھے حالات کو اپنے موافق بناناتھا۔جب جب میری آنکھ کھلی تھی میں نے تب تب اپنے آپ کو کسی نہ کسی حوالے سے مجبور اور بے بس پایاتھا۔مجھے ایک نیامنظر ،نئے کھیل اور نئی صورت حال کا سامنا کرناپڑاتھا۔مجھے وہ جہنم کی آگ بھی کسی طور نہیں بھول رہی تھی جس نے قریب قریب مجھے جلاکر بھسم کردیاتھا۔پتہ نہیں وہ کیاتھاشاید فلیش فارورڈ تھے ،مگر زندگی میں میں نے کبھی بھی مستقبل بینی نہیں کی اور نہ ہی مجھے یوں خواب آئے ہوں کہ اور اس میں مجھے کوئی اشارہ ملاہو کہ آگے آنے والے دنوں میں کیاہوگا۔فل الحال اسے میں نے ایک ڈراؤنہ خواب سمجھ کر ایک بارپھر سے بھلادیا۔کیونکہ جس بھی صورت حال کاسامنا مجھے کرناپڑتامیں اس کے لئے تیارتھا۔
میں نے کبھی بھی بھوک پیاس کی ہرچند ہ پراہ نہیں کی۔لیکن آخر میں کب تک خلاء میں یوں ٹامک ٹوئیاں مارسکتاتھامجھے یہاں سے نکلناتھااور اس کے لئے میرا ہر لمحہ بہت قیمتی تھا۔مگر میں خود کچھ نہیں کرسکتاتھامجھے جہاں حالات لے جارہے تھے میں اسی رو میں بہتاچلاجارہاتھا۔میں اس وقت دوسروں کے رحم و کرم پے تھا۔لیکن اگر مجھے تھوڑ ا سابھی موقعہ ملاتو میں اس موقعے سے پورا فائدہ اٹھاناچاہتاتھا۔
میں نے ایک بار پھر کمرے کاجائزہ لیاتو میری نظر روشن دان پرپڑی جو میری پہنچ سے بہت دور تھا۔مجھے اس تک پہنچنے کے لیے کسی شخص کا لازماً کندھاچاہیے تھااور وہ شخص کم از کم یہاں سے تو نہیں مل سکتاتھا۔یاپھر کوئی ایسی چیزہوجس پر میں چڑھ کر اس تک پہنچ پاتاوہ چیزبھی مجھے دکھائی نہیں دی تھی۔اس کے علاوہ مجھے کوئی جگہ ایسی نہ ملی جس سے میں باہر نکل سکتا۔اب مجھے کوئی اللہ کابندہ ہی باہر سے آکر نکالے تو نکالے ورنہ اندر سے تو کچھ بھی ممکن نہیں تھا۔
مجھے امیدتھی کہ اتنالمباعرصہ بھوکا پیاسانہیں رکھا جاسکتاتھا۔میجر ڈریگن کی میری بارے میں جو بھی رائے رہی ہو پر اسے اپنی مائیکروفلم لازی چاہیے تھی ۔اس کی خاطر ہی تو وہ یہ سار کھڑاپ کررہاتھا۔وہ مجھے بھی کھونانہیں چاہتاتھااس لئے مجھے پوری امید تھی کہ وہ ضروراپنے آدمیوں کو اس کمرے میں بھیجے گا۔سو میں سکون سے واپس آکر اپنی سابقہ جگہ پر بیٹھ گیا،اب انتظار کے سواکوئی چارہ نہیں تھااور مجھے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ چڑانتظار کرنے سے تھی۔ایک تو بلاوجہ کاوقت ضائع ہوتاتھادوسرا یہ جتنابھی ہو اپنی اصل مقدار سے زیادہ ہی معلوم ہوتاتھا۔انتظار کرکرکے انسان کاوزن کم ہوجاتاہے بلکہ جلد ہی اس کے چہرے پرجھریاں پڑناشروع ہوجاتی ہیں جس سے وہ اپنی عمر سے کچھ زیادہ ہی بڑھالگنے لگتاتھا۔ویسے بھی ابھی تو میری عمر دوڑنے بھاگنے کی تھی وہیل چیئر پر گھومنے گھومانے کی تو ہرگزنہیں تھی۔
********
میں ہوٹل کے مین ڈور سے باہر نکل کر پارکنگ کی جانب بڑھ گیا۔وہاں ایک ٹیکسی والاپہلے سے ہی میرے لئے اپنی ٹیکسی کا پچھلادروازہ کھول کرکھڑاہواتھا۔وہ کوئی بیس بائیس سال کانوجوان تھااور معلوم ہوتاتھاکہ اپنی تعلیم چھوڑکراس دھندے میں لگاہواتھا۔گاڑی کے پاس پہنچتے ہی اس نے مجھے ہاتھ اپنے ماتھے پے لے جاکر سلام کیاجس کا میں نے سر کی ہلکی سی جنبش سے جواب دیااور آگے بڑھتاہواگاڑی میں بیٹھ گیا۔میرے ہاتھ میں اس وقت سوائے ایک بریف کیس کے اور کچھ نہیں تھا،اس نے میرا دروازہ بند کیااور خود ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر اسٹیئرنگ سنبھال لیا۔مجھے وہ شکل و صورت سے کافی اچھادکھائی دیا۔ٹیکسی اسٹارٹ کرتے ہی میں اس سے گویاہوا:
"کیسے ہو دوست ؟ کیانام ہے تمہارا ؟۔۔۔۔"میں نے اس سے اردو میں بات کی کیونکہ میں ایک کاروباری شیخ تھااس سلسلے میں میرااکثر پاکستان آناجاناتھاتو وہی رول میں اب نبھارہاتھا۔البتہ میں نے اپنے لہجے میں خالصتاً عربی اسٹائل رکھاتھابالکل ویسے ہی جیسے مجھے ڈیوڈ کا رول ادا کرتے ہوئے خالصتاًامریکی لب و لہجہ رکھناپڑتاتھا۔
"ٹھیک ہوں صاب میرے اللہ کی بہت ہی نوازشیں ہیں کہ وہ مجھے روزی دے رہااور میراگھر چل رہاہے۔۔۔۔صاب میرانام صابر ہے "
"لیکن تمہاری توابھی پڑھنے کی عمرہے پھر یہ تم یہاں کیاکررہے ہو؟تمہیں تو کسی مدرسے میں ہوناچاہیے تھا۔۔؟"
"صاب کیاکروں ؟میری ماں بیمار ہے اگر میں پڑھوں گاتو میرے چھوٹے بہن بھائی فاقوں پر آجائیں گے اور میری ماں کی حالت کافی نازک ہے تو آپ بتاؤ صاب میں کیسے پڑھ سکتاہوں؟"اس کی بات سن کر مجھے بھی کافی افسوس ہوا۔
"کیوں تمہارے والدصاحب نہیں ہیں کیا؟"
"نہیں صاب وہ تو میں جب ایف ایس سی میں تھاتو انتقال کرگے ۔انہیں ٹی بی جیسامہلک مرض لاحق تھابس اعلاج کرواتے رہے جب اوپر سے بلاوا آیاتو یوں ہی کھانستے کھانستے دنیاسے رخصت ہوگئے ۔۔۔۔"
"تمہاری باتیں سن کر افسوس ہو ا ۔۔۔۔کیاتمہاری خواہش ہے کہ تم آگے پڑھو اور تمہاری والدہ کااچھے سے علاج بھی ہوجائے۔"
"ہاں صاب ہمارا کیوں دل نہیں چاہیے گاکہ میرے چھوٹے بہن بھائی کو تعلیم بھی ملے اور ان کی شادیوں بھی ہوجائیں ۔اس کے علاوہ میری خواہش ہے کہ میری والدہ کااچھے سے آپریشن ہو جائے اور پھر میں ان کو عمرہ بھی کرواؤں ۔پر لیکن یہ سب باتیں خواب وخیال میں ہی اچھی لگتی ہیں ان کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔۔۔"
"اگر تمہاری یہ سب خواہشیں پوری ہوجائیں تو کیا تم میری بات پر یقین کرلوگے؟"
"کیابات کررہے ہو صاب ؟پیسے کوئی پیڑ پر لگتے ہیں کیا؟صاب آپ ایسا مذاق نہ کرو ہم سے ،تمہیں خدا کا واسطہ صاب "
"اچھا چھوڑو یہ بتاؤ کیاتمہیں آگے پڑھنے کی خواہش ہے؟"
"کیسی باتیں کر رہے ہو صاب ،میری سب سے بڑی ذاتی خواہش ہی پڑھنے کی ہے اور شاید اب تو مرتے دم تک میں کبھی نہ پڑھ سکوں"
"ایسی باتیں نہیں کرتے ،یاد رکھنایہ جو اوپر والا ہے ناں یہ ہر کام کرسکتاہے ۔۔۔اس سے کبھی مایوس مت ہونا، یہ بتاؤایف ایس سی میں کیامضامین تھے ؟"
"صاب یہ تم میرا کیوں انٹرویولے رہوہو،ہم بہت عام آدمی ہے ۔ہمیں بہت ڈر لگتاہے صاب ام آپ کو اور کچھ نہیں بتائے گا ۔صاب ام کو معافی دے دو ۔۔۔۔۔"
"ارے نہیں نہیں گھبراتے کیوں ہو؟میں تم سے وعدہ کرتاہوں ،میں شیخ قاسم بذات خود یہ کہہ رہاہوں کہ تمہارا سارا خرچہ پورا ہوجائے گا۔مجھ سے اترتے وقت ایک نمبر لے لیناوہ تمہاری مدد کرے گا۔میرا یہاں جاننے والا ہے وہ تمہاری ہر خواہش پوری کردے گااور تم سے ایک روپیہ بھی نہیں لے گا تمہاری ماں کا علاج بھی ہوگا ،اس کے عمرہ کرنے کی خواہش بھی پوری ہوگی اور تمہارے چھوٹی بہن بھائی کی شادی بھی ہوگی ۔یہ میراتم سے وعدہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"میں نے بیک مررمیں دیکھتے ہوئے اسے انتہائی وثوق سے کہاتو اس نے بے اختیار ٹیکسی روک دی۔اور میری جانب گھورنے لگا۔اسے میری باتوں پر یقین نہیں آرہاتھا۔
"ہاں ہاں مجھ پر یقین رکھومیں ایساگھٹیامذاق نہیں کرتاجس سے کسی کے جذبات مجروح ہوں ۔۔۔۔بلکہ رکو۔۔۔۔ میں تمہیں ایک کارڈ دیتاہوں اس پر تمام نمبرزاور پتے وغیر ہ درج ہیں۔ان پر رابطہ کر نا وہ تمہاری ہر قسم کی مدد ہوجائے ۔۔۔۔۔۔"یہ کہتے ہی میں نے بریف کیس سائیڈ سے اٹھاکراپنی گود میں رکھا اور پھر اسے کھول کر اس میں سے ایک کارڈ نکال کر اس کے حوالے کردیا۔اس پر نام پتہ سب فرضی تھایہ دراصل میرا ہی قائم کیاہواایک فلاحی ادارہ تھاجو صابرجیسے مستحق لوگوں مدد کی کرتاتھا۔یہ میراایک درپردہ چلنے والا عوامی فلاحی ادارہ تھاجسے مخیرحضرات ڈونیٹ کر کے لوگوں کے لئے ویسلہ بناتے تھے۔اس کی میں مزید تفصیل بتاکرقارئین سے اپنی تعریف نہیں کرواناچاہتاسو اسے راز ہی رہنے دیں۔یہ میرااور میرے رب کا معاملہ ہے، اس نے خوشی خوشی دعائیں دیتے ہوئے وہ کارڈ اپنے پاس رکھ لیااور ایک بارپھر سے ٹیکسی دوڑانے لگا۔ہماری منزل اسلام آباد ائرپورٹ تھی اور فلائٹ شام پانچ بجے کی تھی۔
********
میں گزشتہ واقعات پر غور وفکر کرنے لگاجب کرنل اشراور میجر ڈریگن اپنے معاملات طے کررہے تھے۔اس بات چیت کے بات وہ مجھے لاسٹ واننگ دے کر گیاتھااس دوارن اس نے ایک ایسی بات کہی تھی جو مجھے اب تک کھٹک رہی تھی اور وہ یہ کہ اس وقت میں جس جگہ پر تھا، جو ابھی تک دنیاکے نقشے پر ابھی تک ظاہر نہیں ہوئی۔اس بات کے دوران اس کے لہجے کی پختگی اس بات کی چغلی کھار ہی تھی کہ وہ جو کہہ رہاتھا وہ سچ تھا۔
تووہ اگر درست کہہ رہاتھاتو کیا واقعی میں اس وقت دنیا کی خشکی کے اس حصے پر تھاجو اب تک دریافت نہیں ہوئی تھی۔اگر ایسا ہی تھاجیساکہ وہ کہہ رہاتھاتو پھر اس بات کا کیا مطلب ہو سکتاتھا؟اور اگر وہ مجھ پر صر ف دھونس جمانے کے لئے یہ سب کچھ کہہ رہاتھاتو یقیناکرنل اشر نے اس کی کال اب تک ٹریس کرلی ہوگی اور اب وہ میری تلاش میں اپنی ٹیم بھیجنے والا ہوگا۔کیونکہ وہ مجھے کبھی بھی نہیں کھوناچاہتاتھا۔جیسے وہ فوٹوگرافس اس کے لئے اہم تھیں ویسے ہی میں بھی اب اس ٹاپ سیکرٹ ایجنسی کا لازمی جذو بن چکاتھا۔
لیکن اگر میں یہاں سے نکلنے میں کسی طرح سے کامیاب بھی ہوگیاتو کرنل اشر سے کس طرح رابطہ قائم کرونگااور اگر اس سے کسی طرح سے رابطہ ہوبھی گیاتو کیا وہ لو گ میری لوکیشن ٹریس کرلیں گے ۔بات صرف کرنل اشرکی ہوتی تو ٹھیک تھامگر میں توڈبل کراس ایجنٹ تھامیرے پیچھے سارے معاملات پاکستان سے چلتے تھے اور ان کے گرین سگنل کے بغیر میں باز اوقات ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھاسکتاتھااور جو خفیہ پیغام میں نے ٹشوپیپرپر لکھ کر بھجوایاتھااب تک اس کا جواب بھی آگیاہوگا۔مجھے اس کی طرف بھی تو جہ دینی تھی۔
یہ وہ ساری باتیں تھیں جن میں میں الجھاہواتھااور بظاہر مجھے کوئی واضح لائن آف ایکشن بھی نظر نہیں آرہاتھاکہ جس کے عمل کرتے ہی میں آگے بڑھ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے قبل کے میں کچھ مزید سوچ پاتا مجھے باہر سے چند تیزتیزچلنے والے قدموں آوازیں آنے لگیں ۔وہ کون تھے اور آکر میرے میرے ساتھ کیاکرنے والے تھے مجھے کچھ معلوم نہیں تھا۔میں ان کی آوازیں سن کر ہوشیار ہوگیااور اٹھ کر کھڑاہوگیا۔مجھے لگ رہاتھاکہ میرے نکلنے کی سبیل پیداہونے والی تھی۔
میں نے ٹائی اپنے دائیں ہاتھ سے کھول کر اسے اپنے دونوں ہاتھوں میں لپیٹ لیا۔بظاہر ایک عام سی دکھائی دینے والی ٹائی میرے کس کام آسکتی تھی یہ چیزقارئین کے لئے یقینادلچسپی کا باعث ہوگی ۔ان نامعلوم افراد نے آہنی دروازے کے پاس ایک دوسرے سے روسی زبان میں بات کی جو میرے پلے نہ پڑسکی ،جس کی ٹون میں رفتہ رفتہ اضافہ ہونے لگا۔اسی چکر میں کچھ دیر صرف ہوگئے ،پتہ نہیں شاید ان کے درمیان کسی مسئلے پر گرماگرم بحث ہورہی تھی۔میں خاموشی سے ان کے بولنے کے انداز سے اندازہ لگاتارہا۔دل ہی دل میں میرے یہی صدا تھی کہ وقار اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا۔۔۔۔
پھر آہنی دروازہ کھولاجانے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک دھماکے سے کھلااور چار پانچ لمبے تڑنگے روسی فوجی کودتتے ہوئے اندر داخل ہوئے اور کمرہ خالی دیکھ کر ششدر رہ گئے ۔اس سے قبل کے وہ مجھے تلاش کرپاتے میں ان کے پیچھے دروازے کے عین اوپر لگے ہو ئے ہک کے کے ساتھ لٹکے ہوئے ایک دم سے اچھل کر نیچے اترااور سب سے پیچھے والے فوجی کی گردن میں میں نے اپنی ٹائی پھنسادی ۔وہ بری طرح سے تڑپنے لگااور پھر اسے پوری قوت سے لیتاہواباہر راہ داری میں آگیاجہاں ایک اور فوجی گن لئے میر امنتظر تھااس سے قبل کہ وہ اس نئی افتاد کے لئے تیار ہوتامیں نے اچھل کر پور ی قوت سے اس کے پیٹ میں ایک بھرپورلات رسید کی اور وہ اڑتاہوا سامنے والی دیوار سے جالگا۔اس کاسر پوری شدت سے دیوار پر لگااور وہ نیچے گر کر بے ہوش ہوگیا۔معلوم نہیں اس قدر قوت میرے اندر کیسے عود آئی تھی۔۔اس کے بعد میں دہاڑا:
"خبردار اگر تم میں سے کسی ایک نے بھی کوئی بھی حرکت کرنے کی کوشش کی تو ۔۔۔۔ تمہارا یہ ساتھی ابدی نیند سو جائے گا۔۔۔" وہ ایک راہ داری تھی اور میں نے اس دوران پوری راہ داری دیکھ ڈالی مجھے ظاہری طور پر کوئی نظر نہیں آرہاتھا۔میں نے اس موقعے سے بھرپورفائدہ اٹھانے کافیصلہ کرلیا۔انہوں نے غیرارادی طور پر پلٹ کر دیکھاتو ان کی بندوقوں کے رخ میری طرف ہوگئے ۔لیکن اس سے قبل کہ وہ لوگ میری کسی حرکت کو سمجھتے میں نے اپنے بازؤں میں پھنسے ہوئے شکار کو پوری قوت سے ان کے اوپر اچھال دیا۔
وہ بے چارہ چیختاہو ااڑکر ان کے اوپر گر ا ہی تھا کہ میں نے ہاتھ بڑھاکر آہنی دوروازہ گھومایااور اسے بند کردیا۔میرے پیچھے گولیوں کی ایک بوجھاڑآئی مگر تب تک میں دروازہ اچھی طرح سے بند کرکے باہر سے اسے تالہ لگاچکاتھا۔اس وقت تو میں چھلاوہ بناہواتھا،میرے ہاتھ اس وقت جو لگتااس کی موت یقینی تھی اور سب سے حیرت انگیزبات یہ تھی کہ میرے ہاتھ میں اب بھی کوئی ہتھیار نہیں تھا۔میری ٹائی ہی میرا سب سے بڑا ہتھیار تھی اور اگر اس ٹائی کو ٹھیک طرح سے استعمال کیاجاتو یہ بیک وقت کئی خطرناک ترین ہتھیاروں پر بھاری تھی ۔بس بات تھی تو وہ اس کے استعمال کی جس کا عملی مظاہر ہ میں اپنے قارئین کو ابھی بیان کر چکا۔۔۔
********
اس نے ٹیکسی ٹھیک دس منٹ پہلے جاکر ائرپورٹ پر روکی ۔شام پانچ والی فلائٹ مجھے سیدھا دبئی لے کر جانے والی تھی ۔ہماری ٹیکسی ابھی ائیرپورٹ کی عمارت کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوئی تھی کہ مجھے دور سے وہ چہرہ نظر آگیاجس نے اب تک میرے قیام میں مکمل مدد کی تھی۔یہ کرنل اشرکا مقامی ایجنٹ ڈاگ وولف تھامذہب کے اعتبار سے کڑیہودی تھا مگر میرے پیارے پاکستان میں عیسائی کی حیثیت سے رہ رہاتھا۔یہاں پر اس کا کاروں کا شوروم تھاجس میں وہ امپورٹ ایکسپورٹ کا کاکاروبارکرتا تھا۔دنیابھر سے نئی اور جدید ماڈل کی کارزمنگواتااور انہیں یہاں کی اشرافیہ میں بیچ دیتاتھا۔انہی میں چند اس کے ایسے بھی گاہک تھے جو چند روز گاڑی رکھ کر پھر کوئی نئی خرید لیتے تھے۔جتنے امیراتنے ہی فضول خرچ،انہیں یہ خوب جی بھر کر لوٹتاتھااور کمائی کرتاتھا۔
یہ کرنل اشر کا سب سے اعتباری بندہ تھااور جب بھی اسے پاکستان میں کسی بھی حوالے سے کوئی مشکل درپیش ہوتی تھی تو وہ اسے کال کرلیتا تھا۔ڈاگ وولف نے درپردہ اپنی ایک باقاعدہ پرائیویٹ فورس بنائی ہوئی تھی جسے وہ وقتاً فوقتاً استعمال کرکے پاکستان میں مختلف قسم کی تخریب کاریاں کرتارہتاتھا۔جیسے جلاؤگھراؤ،توڑپھوڑ سڑکیں جام کرنا،دنگے فساد کرنااور اس جیسے دیگر کئی کام یہ اپنی فورس کی مدد سے سادہ لوح عوام کو بے وقوف بناکر کروالیاکرتاتھا۔
ہمارے پاکستان کے سیاست دانوں کا یہی المیہ تھاکہ انہوں نے ہمیشہ عوام کو جاہل رکھاتھااور جب بھی کہیں کوئی بات ان کے جذبات کے خلاف ہوجاتی تھی تو یہ بے چارے جلاؤ گھراؤکرنے اور سڑکیں بلاک کرنے نکل کھڑے ہوتے تھے۔انہیں ایکسپلائٹ کرنا کا یہ بہترین موقع ہوتاتھا ۔ان کے نزدیک ہر مسئلے کا حل سرکاری املاک کوآگ لگانااور سڑکیں بند کرناہوتاتھامگر ہمارے نادان لوگ یہ نہیں جانتے کہ اس میں ان ہی کا نقصان تھا۔
خیر ڈاگ وولف جیسے لوگ اس طرح کے کام باخوبی کرالیاکرتے تھے۔اس کے حکومتی سطح پر بہت گہرئے تعلقات تھے جن کا یہ فائدہ اٹھاکراکثر گرفتاری وغیر ہ اور پکڑدھکڑسے بچ جاتاتھا۔ڈاگ وولف کی شکل بھی اس کے نام کی ہی طرح تھی اور اس کے اعمال بھی ویسے ہی تھے ۔ایک نمبر کا چٹھہ ہوا بدمعاش لگتاتھااور چہر ے پر دنیاجہاں کی پھٹکار پڑی ہوئی تھی ۔
ٹیکسی پارکنگ میں لگتے ہی وہ دوڑتاہواٹیکسی کے پاس آیا اور پھر اس نے آگے بڑھ کر مجھے ہیلوکہااور ٹیکسی کادروازہ کھول دیا۔میں اس کے ہیلوکاجواب دیتاہوا اپنابریف کیس تھامے ٹیکسی سے باہر نکلاتو ڈاگ وولف نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھادیا۔میں نے بھی اس کا ہاتھ گر م جوشی سے تھامااور پھر اسے اپنابریف کیس دیتاہوا میں صابر کی جانب متوجہ ہواتو وہ مجھے دعائیں دیتاہوا باہر نکلا میں نے اسے لاپرواہی سے تین بڑے بڑے نوٹ پکڑائے جو اس کے کل کرائے سے تین گنازیادہ تھے۔ اس نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے ردِعمل کا اظہار کیاتو میں نے اسے ٹِپ کا کہہ کر اسے بغیر سلام کئے وہاں سے نکل آیا۔کیونکہ اس وقت میں ڈیوڈ کا کردار شیخ قاسم کے روپ میں اداکررہاتھااو ر کرنل اشر کابُل ڈاگ میرے سامنے موجود تھااسی لئے میں اسے تھوڑ ا سا بھی شک نہیں ہونے دیناچاہتاتھا۔
اسلام آباد کی وسیع و عریض پارکنگ انڈرگراؤنڈ تھی ۔میں بُل ڈاگ کی راہ نمائی میں تیزی سے آگے بڑھنا لگاکہ اچانک ایک گولی شاں کرتی ہوئی ہم دونوں کے پاس سے گذرگئی ۔ہم دونوں ایک ساتھ جھکے ،پھر فوراً ایک کار کی اوٹ میں ہوکر گولی کے چلنے کا رخ دیکھنے لگے۔پتہ چلاکہ گولی ہم سے تین گاڑیاں چھوڑ کر ایک گاڑی کے اندر سے چلائی گئی ہے ۔اس گاڑی کے شیشے بھی کلرڈ تھے،مجھے اس نئی افتاد پر قدرے حیرت ہوئی مگر ڈاگ وولف نے اس دوران اپنی جیب سے اپنا پستول نکال لیا ۔
فائر جس نے بھی کیاتھااس نے اپنی پستول میں سائلنسر لگایاہواتھااس لئے ہمارے علاوہ کسی کو بھی آواز پتہ نہ چلاکہ کیاہوا ہے ۔آن کی آن میں دو تین فائر ہوئے اور ہم دونوں جس گاڑی کی اوٹ میں چھپے ہوئے تھے اس کے شیشے اور ایک ٹائر کو وہ برسٹ کر گئیں۔ٍوہ ٹارگٹ کلر جو بھی تھاوہ ہم دونوں کوختم کرنے کے درپے تھے ،آن کی آن میں اس کی گاڑی اسٹارٹ ہوئی اور اس نے ایک لمباکٹ لگاکر اسے ہماری طرف موڑلیا۔پس منظر میں صابر اپنی ٹیکسی کے اندر سہماہوابیٹھاتھااب تک اسے یہاں سے چلے جانا چاہیے تھا مگرپتہ نہیں وہ تک کیو ں یہاں بیٹھاہماراتماشہ دیکھ رہاتھااور اب ٹارگٹ کلر کی کارطوفانی رفتاری سے ہماری جانب بڑھے چلے آرہی تھی۔قریب تھاکہ وہ ہم دونوں کو بری طرح سے روندھ دیتی ۔ہم دونوں اس نئے چکر کے شروع ہونے پر حیران ضرورتھے ۔۔
(جاری ہے)
 

Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 56574 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More