ذرا سوچیں! ماں دھرتی پر قربان۔۔۔۔۔۔

اے سی والے کمروں میں بیٹھ کر پاک فوج پر الزام تراشی اور طرح طرح کے الزامات لگانا آسان ہے کیونکہ پاک فوج ہی ایسا ادارہ ہے جو اشرافیہ اور سیاستدانوں کے سر پھر تلوار لٹک رہی ہے۔ ورنہ ان کا بس چلے تو دشمن کے ایجنڈے کو پورا کرتے ہوئے فوج کو ختم کر دیا جائے یا پھر پولیس سے بھی کم درجے پر کر دیا جائے ۔ یاد رکھو اگر پاک فوج اس قدر مضبوط نہ ہوتی تو بہت عرصہ پہلے ہم بھی شام ، فلسطین، لیبیا ممالک جیسی صورت حال سے گزر رہے ہوتے۔ چند سیاستدان جو پاکستان پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں ان کے خاندان سے کوئی فوج میں چھوٹے یا بڑے عہدے پر کیوں نہیں؟ اس سوال کے جواب کا انتظار رہے گا۔ آج ایک گمنام ماں دھرتی کے بیٹے کی داستان شیئر کرنے جارہا ہوں۔ سلام ہے ایسے والدین کو اور بیٹوں کو جو اپنا تن من دھن اپنے وطن عزیز پاکستان پر قربان کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اپنے اپنے گریبان میں ضرور جھانکیئے اور اپنا احتساب کیئجے آپ نے ماں دھرتی کے لیے کیا کیا؟؟

ماں دھرتی اور ہمارے مستقبل کے محافظ بیٹے

دوستو! چند دن پہلے آپ نے کیپٹن عبدالقدیر کی وطن سے محبت کی داستان پڑھی تھی آج ایک اور محبِ وطن کی داستان پڑھیں اور اپنا ایمان تازہ کریں.

وہ گاؤں کی پکڈنڈی پر بهاگتا جارہا تها خوشی اور مسرت کے عالم میں اس کے پاوں زمین پر نہیں ٹک رہے تهے.گهر پہنچتے ہی چولہے کے قریب بیٹهی ماں پر نظر پڑی ہانپتے ہوئے ماں کے پاس آکر اس نے خوشی سے تقریبا چلاتے ہوئے کہا "ماں میں سلیکٹ ہوگیا ہوں ماں تیرا بیٹا فوجی بنے گا"
اسکی آنکهوں کی چمک اور چہرے پر بکهری خوشی دیکھ کر ماں کا سیروں خون بڑھ گیا ماں نے محبت سے اسے اپنے آغوش میں لیا اور ڈهیروں دعاؤں سے نوازا.
رات کو چوہدری رحمت گهر آیا تو جنید دروازہ کهولتے ہی باپ سے لپٹ گیا اور اپنی خوشی کی وجہ بتائی تو چوہدری رحمت کا سینہ چوڑا ہوگیا آج اس کی دیرینہ مراد پوری ہوگئی تھی.
یہ ایک چهوٹی سی فیملی تهی جنید کے علاوہ اس کا ایک بهائی نوید تها جو پڑھ لکھ کر شہر میں میں اعلی سرکاری عہدے پر فائض ہوچکا تها.چوہدری رحمت ایک جذباتی حد تک محب وطن انسان تها خود فوج میں نہ جاسکا مگرایک بار جنگ کے موقع پر وہ فوجیوں کے شانہ بشانہ محاز پر لڑا ضرور تھا تبهی سے ارادہ کرلیا تها کہ اپنے ایک بیٹے کو ضرور خاکی وردی پہننے کے قابل بنائے گا آج اسکا یہ خواب پورا ہوچکا تها.اگلے دن جنید اپنے مقصد کے لیئے شہر روانہ ہوگیا ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد جنید ایک دفعہ پهر گاوں آیا اور ماں باپ کی ڈهیروں دعائیں لے کر دفاع وطن کے لیئے ملک کے دور دراز علاقے میں تعینات ہوگیا.
ملکی حالات روز بروز بگڑ رہے تهے جنید کو ڈیوٹی جوائن کیئے ایک سال گزر چکا تها اس دوران وہ صرف ایک بار گهر آیا تها اور اب کی بار چار ماہ گزرنے کے باوجود اس کا کوئی خط یا فون بهی نہیں آیا تها. ماں باپ کبھی کبھار اداس ہوجاتے مگر پھر بیٹے کے اعلیٰ مقصد کے بارے میں سوچ کر مطمین ہوجاتے اور اسے ڈھیروں دعاؤں سے نوازتے۔
دن ایسے ہی گزر رہے تھے کہ ایک روز دروازے پر دستک ہوئی کچھ فوجی جوان ایک جیپ میں سوار ہوکر آئے اور چوہدری رحمت کو بیٹے کی شہادت کی خبر سنائی اور بتایا کہ ایک بم دهماکے میں شہید ہونے کی وجہ سے اس کے جسم کی باقیات کو ساتھ لانے کی بجائے وہیں قریب موجود ایک قبرستان میں دفن کردیا گیا ہے.
اب بیٹے کے تمغے ٹوپی وری اور سبز ہلالی پرچم ہی چوہدری رحمت کے فخر کی علامت تهے یا گاوں سے گزرنے والی سڑک پر لگا جنید کی تصویر والا وہ بورڈ جس پر اسکے نام کے ساتھ شہید لکها دیکھ کر لوگ اس کی قسمت پر رشک کرتے اور چوہدری رحمت خود کو خوش قسمت محسوس کرتا تها.
اصل میں جنید شہید نہیں ہوا تها بلکہ ایک خاص مشن کے لیئے چن لیا گیا تها جس میں شامل لوگوں کو اپنی ساری کشتیاں جلا کر اپنی زندگی کو ارض وطن کے لیئے مکمل طور پر وقف کرنا پڑتا ہے اور گمنام رہ کر دفاع وطن کا فریضہ سرانجام دینا ہوتا ہے یہ راستہ جنید نے اپنی مرضی سے چنا تها اب بهی وہ دفاع وطن کا فریضہ سرانجام دے رہا تها مگر گمنام سپاہی بن کر .
جنید کو اس خفیہ جانباز سپاہیوں کی ٹیم کا حصہ بنے چار سال ہوچکے تھے اس دوران بہت دفعہ موت اسکو چھو کر گزری اور اس نے کبھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اور کبھی تن تنہا ملک و قوم کے لیئے شجاعت و بہادری کی ایسی ناقابل فراموش داستانیں رقم کیں کہ جو اہل وطن سے ہمیشہ پوشیدہ ہی رہتی ہیں ایک دن جنید کو اس کے ہیڈکوارٹر میں رپورٹ کرنے کا حکم ملا وہاں پہنچنے پر پتا چلا اس کے والد کا انتقال ہوگیا ہے جنید کے کمانڈر نے اس کے ساتھ تعزیت کی اور کہا کہ وہ چاہے تو اپنے والد کے جنازے میں شریک ہوسکتا ہے مگر اپنی پہچان کو پوشیدہ رکھ کر۔
جنید اپنی اصلیت پوشیدہ رکھنے کا عہد کرکے فوری طور پر گاؤں روانہ ہوگیا۔
جنید گاوں کی حدود میں داخل ہوا تو ساری پرانی یادیں زہن میں تازہ ہوگئیں گاوں کے وہ کچے پکے راستے جہاں اس نے اپنا بچپن گزارا اب وہ راستے بهی اسے بدلے بدلے لگ رہے تهے وہ گاوں کے کونے پر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا.اور جنازے کا وقت ہونے کا انتظار کرنے لگا کافی دیر بعد گاوں کی مسجد میں اعلان ہوا کہ چوہدری رحمت کا جنازہ مسجد کے باہر پہنچ گیا ہے اور مسجد کے ساتھ ملحقہ جنازگاہ میں نماز جنازہ ادا کی جائے گی.
جنید جنازگاہ داخل ہوا تو اسکی بڑهی ہوئی لمبی داڑهی اور بڑهے بالوں کی وجہ سے اسے کوئی نہ پہچان سکا ایسا حلیہ اس نے گاوں آنے کے لیئے نہیں بلکہ اس سے پہلے اپنے ایک خاص مشن کے لیئے بنایا تها۔نماز جنازہ ادا کی گئی اور مرحوم کا آخری دیدار کرایا گیا جنید باپ کی میت سے آخری بار لپٹ کر اسے اپنی محبتوں کی سلامی دینا چاہتا تها غمزدہ بھائی کو سینے سے لگانا چاہتا تھا مگر مجبور تها اس لیئے اپنے جذبات کو قابو کیئے رکها.جنازہ قبرستان کی طرف روانہ ہوا تو جنید نے بڑھ کر باپ کے جنازے کو کاندها دیا اور قبر پر مٹی ڈال کر دعا مانگی پهر وہیں قبرستان کے قریب ایک پکڈنڈی پر بیٹھ گیا تاکہ لوگوں کے چلے جانے کے بعد اپنے عظیم باپ کی قبر کو سلامی دے سکے.
لوگوں کے جانے کے بعد وہ قبرستان کی طرف چلا ہی تها کہ ایک کار قبرستان کے دروازے پر آکر رکی جس میں سے اسکی ماں اور بهائی نکلے اور قبرستان میں داخل ہوگئے جنید کا بھائی باپ کو دفنانے کے بعد اپنی ماں اور چوہدری رحمت کی شریک حیات کو قبر پر لایا تھا.ماں کو دیکهتے ہی جنید کا دل چاہا کہ وہ ماں کو ایک بار مل لے مگر اپنا عہد یاد آتے ہی اس نے اس خیال کو زہن سے جهٹک دیا اب وہ قبرستان کی دیوار کے ساتھ لگ کر باپ کی قبر کے پاس سرجھکائے بیٹهی ماں کو دیکھ کر دل کو ٹهنڈک پہنچا رہا تها.اس کا بهائی ماں کو وہیں چهوڑ کر قبرستان کے باہر کهڑی کار کے پاس آگیا اور گاوں کی دهول میں اٹی کار کو صاف کرنے لگا.شام ڈهل رہی تهی جنید کو واپس جانے کا خیال آیا ماں کو آخری بار قریب سے دیکھنے کی غرض سے جنید اس خیال سے آگے بڑها کہ ماں اسکو اس حلیے میں کہاں پہچانے گی ماں کی تو نظر بهی کمزور ہے.جنید جیسے ہی باپ کی قبر کے پاس پہنچا سرجهکائے بیٹهی ماں نے قدموں کی آہٹ سن کر نظر اٹها کر اس کی طرف دیکها ماں تو ماں ہوتی ہے وہ پہلی ہی نظر میں جنید کو پہچان گئی جنید کو ماں کی آنکهوں اور چہرے کے تاثرات سے اندازہ ہوگیا کہ اس کا بهید کهل چکا ہے.اب چھپنا فضول ہے وہ آگے بڑھ کر ماں کے گلے لگ گیا ماں نے اسے اپنی رحمت و شفقت بھری آغوش میں چھپا لیا اور دونوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا کچھ دل کا بوجھ ہلکا ہو تو جنید نے ماں کو اصل بات سے آگاہ کرنے کے لیئے کچھ کہنا چاہا تو ماں نے اسے چپ کروا دیا اور بولی "بیٹا ہمیں اطلاع ملی کہ تو شہید ہوگیا ہے سب نے یہ بات مان لی مگر مجهے یقین تها کہ تو زندہ ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں تیرے اس راہ میں جان دینے سے دکھی ہوں گی بلکہ میں نے کبھی یہ بات محسوس نہیں کی کہ تو اس دنیا میں نہیں ہے اور یہ بات میں نے کبھی کسی سے نہیں کہی بیٹا تجهے خراش لگتی تهی تو میرے کلیجے میں درد ہوتا تها.
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تیرے جسم کے چیتهڑے اڑ جائیں اور تیری ماں کو نہ پتا چلے ہاں مگر تو جس راستے پر گیا ہے تیری موت تیری قربانی بهی میرے لیئے قابل فخر ہوگی بیٹا اب تو میرا ہی نہیں اس ملک کی ساری ماوں کا بیٹا ہے.تیرا باپ آخری وقت تک تیری قربانی پر فخر کرتا رہا اور میں بهی سرخرو مروں گی تم پوری قوم کا فخر ہو کسی مشکل میں گهبرانا مت میں مر بهی گئی تو اس قوم کی لاکهوں مائیں تمہارے لیئے دعا کرتی رہیں گی مجهے یقین ہے تم دشمن کو پیٹھ نہیں دکهاو گے جنید نے ماں سے یہ وعدہ لیا کہ وہ کبھی کسی سے اسکے زندہ ہونے کا زکر نہیں کرے گی اسی اثناء میں جنید کو کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی اس نے بجلی کی سی تیزی سے ایک درخت کی اوٹ لے لی.اس کے بهائی نے ماں کو سہارا دیا اور اسے لے کر قبرستان کے خارجی راستے کی طرف چل دیا انکے جانے کے بعد جنید باپ کی قبر کے پاس آیا چاک و چوبند کهڑا ہو کر اپنے شفیق باپ کی قبر کو سلامی دی پهر ماں کے قدموں کے نشان سے تهوڑی مٹی اٹھا کر رومال میں محفوظ کرلی اور اپنی منزل کی جانب چل پڑا
آج ایک بار پهر وہ نئے ولولے عزم اور ماں کی دعاوں کے ساتھ دشمن کو دهول چٹانے نکلا تها.
اسکے دشمن کی صفوں میں ایک بار پهر صف ماتم بچهنے والی تهی
ایک اور اللہ کا شیر پاک دهرتی کا مجاہد ماں کی دعا لیئے محاذ کی طرف روانہ ہوا تها.اور وہ آج بھی کہیں نہ کہیں دشمن پر بجلی بن کر گر رہا ہے۔
اہل وطن سے درخواست ہے کہ ایسے گمنام سپاہیوں کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں جنہوں نے اپنا سب کچھ دفاع وطن کی راہ میں قربان کردیا
جب تک ایسے ماں باپ اور ایسے بیٹے اس زمین کے لیئے قربانی کی اعلی مثالیں قائم کرتے رہیں گے تب تک قلعہءاسلام کا سبزہلالی پرچم شان و شوکت سے لہراتا رہے گا.
قوم ایسے تمام گمنام مجاہدوں اور دفاع وطن کی راہ میں اس قربانی کی اعلیٰ مثال قائم کرنے پر ان کے ماں باپ۔بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کو سلام پیش کرتی ہے.
پاکستان زندہ باد افوجِ پاکستان زندہ باد

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 156236 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More